مدثر عباس کی  نثری نظموں کا پہلا مجموعہ ‘خوابوں سے بھرا کوڑے دان’ کے عنوان سے شائع ہو رہا ہے۔ یہ کتاب نیو لائن   پبلشرز شائع کر رہا ہے اور جلد بازار میں دستیاب ہو گی۔ اس کتاب میں شامل نظموں کا ایک انتخاب لالٹین قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ کتاب خریدنے کے لیے نیو لائن پبلشرز یا کتابوں کی معروف دکان ریڈنگز سے رابطہ کیجیے۔

خالی آسامی اور نئے بھرتی ہونے والے ہچکولے

کون ہیں وہ لوگ جو روزانہ
قہقہے قریبی جنرل سٹور سے
خرید کر لاتے ہیں اور شام کو
اپنے دروازے پر اپنے چہرے لٹکا کر سو جاتے ہیں

کون ہیں وہ لوگ جو فٹ پاتھ پر بکھرے قدموں
کے نشانات کو سمیٹ کر قریبی ہسپتال کے مردہ خانے
میں جمع کروا دیتے ہیں

کون ہیں وہ لوگ جو میرے سامنے آئینہ بن کر
کھڑے ہوتے ہیں اور جب میں زور سے ہنسنے لگتا ہوں
تو وہ ٹوٹ کر میری ہنسی کی طرف بڑھتے ہیں
اور اسے چھلنی کر دیتے ہیں

کون ہیں وہ لوگ جن کا نام صرف اس وقت
پکارا جاتا ہے جب بندوق کی نالی میں لگے زنگ
کو کسی یتیم کے آنسوؤں کے ساتھ صاف کرنا
ضروری ہو وہ یتیم جس کے باپ کے نام کو
اس سے چھین کر کسی ملی نغمہ لکھنے والے شاعر
کو بیچ دیا گیا

کون ہیں وہ لوگ جو بستی کے ہر فرد کے سانسوں
کی غلط گنتی کرتے ہیں اور رجسٹر پر نوٹ کئے
بنا اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں

کون ہیں وہ لوگ جنہوں نے خدا کا اغواء برائے تاوان
کر لیا ہے اور اب ان کا موبائل نمبر پچھلے چودہ سو سال
سے بند جا رہا ہے

کون ہیں وہ لوگ جو ہر گھر کو پانچ مرلے آسمان
فروخت کرتے ہیں اور زمین پر چلتے ہوئے ان خوابوں
کو توڑ جاتے ہیں جو خواب ہر اشارے کی سرخ بتے
کے بالکل اوپر لگے ہوتے ہیں

ایک دن ہم ان لوگوں کو پہچان لیں گے
ہم ان کو اتنا موقع نہیں دیں گے کہ وہ
اپنا ڈی این اے کسی بینک میں جمع کروا دیں
اور ناقابل قبول چیک بن کر ہوا
میں اڑ جائیں

ردی کی ٹوکری جو مجھے بونس میں ملی

دفتر سے گھر پہنچتا ہوں
تو اپنا چہرہ اتار کر اس
کی گرد صاف کرتا ہوں
مجھے آئینے میں بہت سے
لوگ نظر آتے ہیں

ان چہروں میں کوئی ایسا
چہرہ نہیں جسے میں پہچان سکوں
یا جسے میں اپنے چہرے سے بدل سکوں

سڑکوں پر لوگوں کا ہجوم ہے
میں ان چہروں کو تلاش کرتا ہوں
جو ہر روز مجھے آئینے میں دکھائی دیتے
ہیں لیکن مجھے کوئی چہرہ نہیں ملتا

میرے پاس ایک ہی چہرہ ہے
جو ہر سال میری تنخواہ سے کٹوتی کے بعد
بدل دیا جاتا ہے

میں ہر سال اپنا شناختی کارڈ بنواتا ہوں
اور اپنی ایک ایک تصویر تمام جاننے والوں
کو بھیج دیتا ہوں

زندگی کوئی دفتر نہیں
سرکاری یا نیم سرکاری
جو ہر سال میرے دھڑ پر
ایک نیا چہرہ ٹانگ دے

زندگی میرے ہر چہرے
پر پڑنے والی گرد کی
بلیک اینڈ وائٹ فوٹو کاپی ہے
جسے اگر میں اپنی پروموشن کے
لئے دفتر میں جمع کرواؤں
تو دفتر والے میرے تمام چہروں
کو ردی والے کے حوالے کر دیں
چاہیے میرے گھر میں پڑے آئینے
میں نظر آنے والے نامعلوم چہرے
مجھے تلاش کرتے ہوئے میرے دفتر تک
ہی نہ کیوں پہنچ جائیں

سلاخوں کے پیچھے ٹھہرا ہوا دن

آپ کی بندوق کی کون سی گولی سے
میرے خون کی مہک آ رہی ہے؟

آپ کے گرفتاری کے وارنٹ کی
ہر خالی جگہ میرے ہی نام سے کیوں
فل کی گئی ہے؟ کیا میرے نام کے علاؤہ
باقی حروف تہجی کو
قید میں ڈال دیا گیا ہے؟

ہر ملاقات میں ایک کہانی ہوتی ہے
کیوں ہماری ملاقات کی کہانی کو
چھین کر ایف آئی آر میں بے ترتیب
لکھ دیا گیا ؟

زندگی روشنی کی رفتار سے
ہماری طرف بڑھنا چاہتی ہے
مگر کیوں آپ شہر کی تمام روشنیوں
کو گل کر کے ہمارے گھر کا پتہ
تبدیل کر دیتے ہیں؟

سورج کوئی ایسا ستارہ
نہیں جسے آپ اپنی وردی کے
کندھوں پر سجا لیتے ہیں
اور کیوں ہمارے گھر اندھیروں
کے بل کی ایک ایک کاپی پھینک جاتے ہیں ؟

بہار کا موسم آپ کی بندوق
کا بیرل نہیں جس میں ہر وقت
بارود کی بو بھر دی جائے

آپ اپنے نام کا اعلان
لاؤڈ سپیکر پر کیوں نہیں کرتے
کہ ہم بروقت ایسے شہر کو نکل
جائیں جہاں رات اپنے وقت
پر ہوتی ہے اور چاند کے اغواء
پر پابندی ہے

زرخیز ہدایات

بیدار ہوتے وقت خواب کوڑا دان
میں مت پھینکو اور اپنی انگڑائی
کی تصویر کھینچ لو

زمین پر چلتے ہوئے اپنا عکس
روندتے چلو اور نئے گملے خرید کر
ان میں ایک تلوار بو دو

موسمی فصل کی کاشتکاری کے
ساتھ خود کو زمین میں گاڑھ دو
اور ایک تاریک سورج کے ساتھ
لپٹ کر سو جاؤ

اپنے ایکسرے نکلواتے وقت
محبت کی نظم پڑھتے رہو

پاگل خانے میں موجود پاگلوں کو
ڈرائنگ سکھاؤ تاکہ وہ اپنا خواب
ڈرا کر سکیں

مزدوروں کے ہاتھوں کے چھالے گنو
اور ریاضی کا پرچہ ادھورا
چھوڑ کر آ جاؤ

کسی سے محبت کرو
اور پھول بیچنے کی دکان کھول لو

بینک میں نیا اکاؤنٹ کھلواو
اور اپنا دل لاکر میں رکھوا کر
کسی کو خط لکھو

گھروں کے نقشے تیار کرو
اور محبوبہ کے گھر کی طرف
ایک زگ زیگ خفیہ راستہ بنا لو

ہفتے کے دنوں کو ڈائری پر
نوٹ کرو
اور اپنے بیگ میں پیک ایک سفر کسی
خانہ بدوش کو ہدیہ کر دو

اگر تھک گئے ہو تو آخری سانس
لو چھت کو غور سے دیکھو
اور میرا نام لکھ کر مر جاؤ

شہر کا نقشہ جو محبت نامہ نہیں بن سکا

لمس ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے
اور فضائی آلودگی بڑھانے کا جواز
فراہم ہو جاتا ہے

محفوظ کئے گئے بوسے
بے دھیانی میں جیب سے
گر جاتے ہیں اور زمین پر اگی
زہریلی بوٹیوں کے ساتھ لگ
کر دم توڑ دیتے ہیں

محبت نامے گھر کے اضافی سامان
کے ساتھ ڈسٹ بن میں پھینک
دیے جاتے ہیں اور شہر میں لکھنا
جاننے والے تمام لوگ مر جاتے ہیں

عاشق دفتر کے درازوں میں
رکھ دیے جاتے ہیں اور کلرک
ان کا نام اشارتاً اپنے ٹرانسفر لیٹرز
میں ذکر کر دیتے ہیں

محبوبائیں گل دان کے ساتھ
ڈیکوریشن پیس بن جاتی ہیں
اور گھروں کو ارزاں قیمت پر
زندگی ڈیلرز کو بیچ دیا جاتا ہے

محبت شہر کے شور و غل
میں آلودہ ہو جاتی ہے
اور اسے ٹشو پیپر سے صاف
کر کے الماری میں رکھ
دیا جاتا ہے

گیت دھماکے کی آواز
کے استقبال میں مصروف
ہو جاتا ہے اور گویوں کو
ملکہ عالیہ کے کانوں میں
سونے کی بالیاں کے ساتھ
جڑ دیا جاتا ہے

پھول مرجھانے کے لئے
گلدانوں کی طرف ہجرت
کر جاتے ہیں اور بہار اپنا
سامان پیک کر کے شام کو
بے روزگار ہی اپنے گھر
واپس آ جاتی ہے

پینٹرز شہر کو افقی
پینٹ کرنے کے بعد
قوس قزح پر چڑھ جاتے ہیں
اور وہاں سے کود کر اپنی جان
دے دیتے ہیں

میں موت کے ساتھ مذاکرات
کر رہا ہوں اور ہماری ڈیل ہوتے
ہی میں اس شہر کو آگ لگا
کر راکھ کر دوں گا جس
شہر کی مرکزی جامع مسجد
یا خبرنامے سے
میرے مرنے اور تمہارے
گم ہونے کا اعلان نہ ہو

Leave a Reply