کچھ روز پہلے سید کاشف رضا کی فیس بک وال سےیہ خبر ملی کہ خالد طور انتقال کرگئے ہیں۔ کاشف رضا نے خود یہ بات لکھی تھی کہ جیسا ان کا حق تھا، ویسی ان کو شہرت نہیں مل سکی۔اجمل کمال نے بھی جب کانی نکاح اور ان کی ایک کہانی سائیں موسم کو آج کے ایک شمارے میں شائع کیا تھا، تب بھی یہی بات کہی تھی کہ ان کے استحقاق کے مطابق ان کو پذیرائی نہیں ملی ہے۔ان دونوں ادیبوں کی بات بالکل درست ہے۔میں نے خالد طور کو اجمل کمال کے ہی توسط سے پڑھا۔ظاہر ہے اگر آج میں وہ انہیں شائع نہ کرتے اور ایک طرح سے ان کی بازیافت نہ کرتے تو کانی نکاح ہو یا بالوں کا گچھا دونوں ہی ہماری نظروں سے اوجھل رہتے۔ قریب آٹھ نو سال پہلے آج کے ایک شمارے میں ان کا ناول بالوں کا گچھا دیکھ کر مجھے محسوس ہوا تھا کہ اجمل کمال اگر کسی کے محض ایک ناول کو پورے شمارے میں جگہ دے رہے ہیں تو واقعی وہ فنکار قابل مطالعہ ہے۔فکشن کے تعلق سے اجمل کمال کام کرتے کرتے اب خود ایک معیار بن چکے ہیں۔ اس لیے ان کے شمارے میں شائع ہونے والے ادیبوں کو بڑی سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے۔ میں نے اس وقت تک کانی نکاح نہیں پڑھا تھا۔ اسے بعد میں پڑھا اور سچ پوچھیے تو کانی نکاح نے ہی مجھے ترغیب دی کہ میں ان کا دوسرا ناول بالوں کا گچھا بھی پڑھوں،مگر ناول چونکہ ضخیم تھا، اس لیے دلچسپ ہونے کے باوجود میں اسے کسی وجہ سے مکمل نہیں پڑھ پایا تھا۔ اب جب ان کے انتقال کی خبر آئی تو میرے دل میں اس ادھوری خواہش نے پھر زور پکڑا اور میں نے بالوں کا گچھا کو پڑھنا شروع کردیا۔ ناول کو ختم کرنے پر مجھے محسوس ہوا کہ خالد طور کے ان دونوں ناولوں میں اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ زیادہ بہتر کون سا ہے تو میں جھٹ سے کانی نکاح کا نام لوں گا۔ بلکہ یہ تک کہوں گا کہ کانی نکاح کو اردو کے صف اول کے ناولوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔ اس ناول میں تکنیک، واقعہ نگاری، تجسس اور تحیر کے اتنے زبردست پہلو موجود ہیں کہ پڑھ کر واقعی خالد طور کو نظر انداز کیے جانے کی سیاست پر حیرت ہوتی ہے۔ میں جہاں تک سمجھا ہوں ، ان کو نظر انداز کرنے کی دو ایک وجہیں تو بڑی صاف مجھے نظر آئی ہیں۔ جس کا ایک چھوٹا سا حوالہ ان کے یہاں ہندوتہذیب و تمدن سے گہری دلچسپی اور غیر اسلامی مظاہر اور تاریخ سے ان کا تعلق ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ایسے سبھی لوگوں کو اردو میں کہیں نہ کہیں سائڈ لائن کیا گیا ہے، جنہوں نے ہندی، ہندی تمدن، ہندوی تہذیب، ہندو منادر و تعمیرات یا پھر ایسے ہی دوسرے پہلوؤں سے کھل کر اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہو ۔اس کی مثالیں بھی میں آپ کو دے سکتا ہوں، حالانکہ اسے قبول کرنے کے لیے ایک ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر غور کرنا ضروری ہوگا اور میں اپنے لوگوں سے اس کی توقع کم ہی کرتا ہوں۔ ابھی ہم عظمت اللہ خاں کو درکنار بھی کردیں تب بھی ابن انشا اور میراجی جیسے شاعروں کو ان کے ہندوی اسلوب کی بنیاد پر یہی سب کچھ جھیلنا پڑا۔منچندا بانی جیسے شاعروں کو ان کا ویسا حق نہیں ملا، جیسا ملنا چاہیے تھا اور جو میری نظر میں ناصرکاظمی جیسے شاعروں سے کئی گنا بہتر اور اپنے اسلوب و زبان کے لحاظ سے بالکل یگانہ و یکتا شاعر تھے۔بہت سے دوسرے غیر مسلم شاعر یا پھر ہندوی تہذیب سے اپنی دلچسپی کا اظہار کرنے والے شاعروں کو وہ شہرت اسی لیے نہیں مل پائی۔جبکہ فراق گورکھپوری کو اسی معاشرے کی بھونڈی خوشامد کے بدلے میں بھی خوب خوب سراہا گیا۔ بات کہیں اور نکل جائے گی، میرا مقصد تو محض اس سیاست کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ کرنا تھا، جس نے خالد طور کر نظر انداز کرنے کی شعوری کوشش میں اہم رول ادا کیا تھا۔
میں نے پنجاب کو خالد طور کی نگاہوں سے دیکھا اور وہ مجھے بے حد خوبصورت اور طرح طرح کے رنگ روپ سے سجا ہوا نظر آیا۔ میں نے ان کی مدد سے (پاکستان میں موجود) پنجاب کے مختلف گاؤوں اور ان کی تہذیبوں کے بارے میں جو جانا وہ بے حد دلچسپ تھا۔ خالد طور جس چیز سے بددل ہوگئے ، مجھے لگتا ہے کہیں نہ کہیں ان کے فکشن پر بھی اس کا اثر پڑا ہے۔ اس پر میں مزید بات کروں گا۔ مگر ابھی ان کے دو ناولوں کی ان خاصیتوں کا ذکر کردوں جو میرے لیے باعث حیرت و مسرت تھے۔ خالد طورکا فکشن مکالموں پر کم یقین رکھتا ہے، مجھے اس معاملے میں ان سے ذہنی قربت کا بھی احساس ہوا، یعنی یہ کہ میں ناولوں میں غیر ضروری یا کبھی کبھی ضروری مکالموں سے بھی اکتا جاتا ہوں ۔اگر ضرورت پڑ جائے تو وہ بہت کم مکالموں سے ایسا کام لیتے ہیں کہ بات بھی قاری تک پہنچ جائے اور واقعہ نگاری کو مکالمے کے زنگ سے کوئی نقصان بھی نہ پہنچے۔ اس کی پہلی مثال تو کانی نکاح میں موجود ہیروئن کی ہے، جس کے اوپر بڑی قیامت گزر جانے کے باوجود اسے مصنف نے ایک بھی مکالمہ نہیں دیا۔ پورا ناول ایک قسم کی پراسرار فضا میں آگے بڑھتا ہے اور یہی پراسرار فضا مجھے خالد طور کی دوسری اہمیت خاصیت لگتی ہے۔ ان کے یہاں قاری متجسس رہتا ہے، کہانی پڑھتے ہوئے اس کے دماغ میں کرداروں، معاشرت اور گاؤں کی رسموں ، رواجوں کو حیرت سے پڑھتے اور جانتے ہوئے مختلف قسم کے خوف گھیر لیتے ہیں۔ کانی نکاح کے مرکزی کردار کے ساتھ جو کچھ آخر میں ہوا ہے، مجھے اس کا اندیشہ ہر دوسرے پنے پر تھا، خاص طور پر تب سے، جب سے کانی کا بنایا ہوا گڈا ٹوٹ جاتا ہے۔ میں ناولوں کے بارے میں لکھتے وقت حتی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ کہانی کے بارے میں پڑھنے والے کو نہ بتاؤں، اس کا مزہ نہ کرکرا کروں، اس لیے بس اتنا ہی کہوں گا کہ کانی نکاح میں جس سحربالمثل کو خالد طور نے نمایاں کیا ہے اور جس طرح دیباچے میں اس کے حو الے سے علمی گفتگو کی ہے، وہ ایک فکشن نگار کی اپنے موضوع سے ایمانداری کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔کانی نکاح کی اخلاقی توجیہ تو کیا ہوگی یہ مجھے پتہ نہیں مگر اس کی سماجی توجیہ تو انسانی سرشت میں موجود تعلق کے ایک علامتی نظام سے وابستہ ہے، آج ہمارے پاس تصویریں ہیں، ویڈیوز ہیں، ہماری یادوں اور توقعات دونوں کے سرے چلتے پھرتے یا قید کیے ہوئے انسانی چہروں اور جسموں سے بندھے ہوئے ہیں، مگر گزرے ہوئے کل میں جن سماجوں نے اپنی جنسی اور اخلاقی توقعات کو مختلف گڈے گڑیاؤں سے جوڑ دیا تھا، اس کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ سماج مشترکہ طور پر جس قسم کی نفسیات کو جنم دیتا تھا ، اس کی راہیں جرم یا قربانی کی منزلوں تک بھی جا پہنچتی تھیں۔ اسی لیے شیشو خان نے جو کچھ کیا ، وہ دراصل خدا اور دعا کے ساتھ ساتھ ہیرو کے صحیح سلامت لوٹ آنے کی حقیقت سے بھی نہ دور ہونے والی نفسیاتی الجھن کے باعث کیا ہے، جس میں صرف وہ ہی نہیں بلکہ معاشرے کی تمام چھوٹی بڑی ہستیاں گرفتار تھیں، خود مولوی صاحب بھی۔
اب بات کرتے ہیں بالوں کا گچھا کی۔بالوں کا گچھا، محض ان لوگوں کو پڑھنا چاہیے، جوفکشن سے الجھی ہوئی فلسفہ نگاری سے گھبراتے نہیں ہیں۔ ویسے میرا دعویٰ ہے کہ ساڑھے چار سو صفحات کے اس ناول کے چار سو صفحات آپ کو مضطرب کریں گے، چونکائیں گے، پریشان بھی کریں گے اور لطف بھی خوب آئے گا۔ بس آپ کے لیے انت تک پہنچ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ یہ ناول پنجاب میں پیروں ، ملنگوں کے بٹھائے ہوئے خوف کے تعلق سے لکھا گیا تھا یا پھر اسے زبردستی بعد میں ایک رومانی ناول بنانے کی ہوس نے خالد طور کو جھٹکا دیا اور وہ آخر کے پچاس صفحات میں اسے بالکل خراب کربیٹھے۔ایسا ہوسکتا ہے، خالد طور نے (بقول اجمل کمال) یہ ناول لکھتے لکھتے بددل ہوکر چھوڑ دیا تھا اور انہوں نے اسے ایک لمبے عرصے بعد مکمل کیا۔ مجھے ایسا لگتا ہے بلکہ میرا یقین ہے کہ خالد طور جب پہلی رو میں اس ناول کو لکھ رہے ہوں گے تو ان کے دماغ میں وہ انت نہیں ہوگا، جو انہوں نے اس خوبصورت ناول کو دے کر اس کا بیڑہ بعد میں غرق کردیا ہے۔ میں اس کی خوبیوں پر بھی بات کروں گا، مگر پہلے خامیوں کی نشاندہی کردوں۔ اول تو ناول میں سچ اور جھوٹ، خیر اور شر کا فرق اس طرح بیان کیا گیا ہے جیسے یہ دنیا ان دو خانوںمیں سیدھی سیدھی بٹی ہے۔ کئی جگہ تو ان کے کرداروں کے بھونڈے ردعمل نے مجھے اکتادیا، جیسے رقیہ کا پیر کو گالیاں دینا۔ناول میں بچے کی رکھ (بالوں کا گچھا) کٹ جانے کے بعد رقیہ کا کمرے سے باہر آکر چھت پر سونا(خواہ وہ مائی جیراں اور گلنازی کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو) اتنا غیر یقینی تھا کہ میں مایوس ہوگیا۔ کہانی میں جہاں جہاں واقعہ الجھا مصنف موصوف نے فلسفے کا ٹانکا لگا کر، اسے خیر و شر کے دھاگے سے سی کر کوئی اور ہی رخ دے دیا۔ پھر سب سے زیادہ بیزار کرنے والی بات خوبصورتی اور بدصورتی کی وہ علامتیں تھیں، جن میں سانولے اور کالے رنگ کو بدصورتی کی اور گورے اور گلابی رنگ کو خوبصورتی کی کھلی علامت بنا کر پیش کردیا گیا۔ اس بات سے بھی خالد طور کے ذہن میں موجود اچھائی برائی کے تصور کی دقیانوسی جھلک ہی نظروں کے سامنے آئی۔
بہرحال پھر بھی میں بہت سے دوستوں کو خالد طور کے اس ناول کو پڑھنے کا مشورہ اس لیے دوں گا کیونکہ ناول کا بیانیہ بہت خوبصورت ہے۔ واقعہ نگاری میں تو آپ خالد طور کو پورے نمبر دینے کے لیے مجبور ہوجائیں گے۔ بس مجھے لگتا ہے کہ بددل ہوکر تخلیقیت سے دور ہوجانے کی ان کی کھسیاہٹ نے ان کے اس ہنر کو زنگ ضرور لگایا ہوگا ورنہ بالوں کا گچھا بھی کانی نکاح کی طرح ایک کامیاب ناول ہوتا۔ اس ناول میں انسانی ذہن پر مذہبی خوف کے حوالے سے خالد طور نے جو بحث کی ہے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ناول نگار کسی کردار کے ذریعے اپنی سوچ کو نمایاں کرے اور وہ سوچ ناول میں موجود حالات و واقعات سے ایسی گہری مطابقت رکھتی ہو کہ پڑھنے والا اس سوچ کو بھی کسی واقعے کی طرح حیرت و تجسس میں ڈوب کراپنے اندر جذب کرتا رہے۔ ’بالوں کا گچھا‘ کو پڑھنے کے بعد مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ خالد طور نے کشمیر پر بڑی اچھی بحث اس ناول کے ذریعے چھیڑی ہے، اگر یہ ناول ہمارے ادبی مذاکروں کا حصہ بن پاتا تو ہم دیکھتے کہ اس بنیاد پر بھی خاص طور پر پاکستان میں اس کی گہری مخالفت ہوسکتی تھی، مگر جن تاریخی حقائق اور جس بے باکی سے انہوں نے اپنا موقف بیان کیا ہے، وہ ہر پڑھنے والے کو متاثر کرتا ہے۔ تقسیم سے پہلے ہندومسلمانوں کے رشتوں کی جو چمک خالد طور کے یہاں دکھائی دیتی ہے، ویسی ابھی تک تو کسی دوسرے پاکستانی ناول نگار کے یہاں میں نے نہیں پڑھی یا شاید یہ موقف اردو والوں نے ہی بہت کم اپنایا ہے۔ کس طرح انگریز اور مسلم لیڈرشپ نے مہاراجہ ہری سنگھ کے کشمیر سے چلے جانے کی خبر باغیوں سے چھپائی اور اس وجہ سے یہ مسئلہ اتنا گمبھیر ہوگیا، اتنے لوگوں کی جان گئی۔اس پر اتنا صاف اور ایسا اجلا حرف کسی اور اردو فکشن نگار کے یہاں شاید دیکھنے کو نہ ملے گا۔
خالد طور کو اور بہت کچھ لکھنا چاہیے تھا۔شاید ہمارے نام نہاد نقاد بندھے ٹکے اصولوں کو سامنے رکھ کر اپنی پسند کے کھوکھلے فکشن نگاروں کو مسند پر اس طرح نہ بٹھاتے ، جیسا وہ کرتے ہیں تو ضرور خالد طور کو وہ مقام ملتا، جو انہیں ملنا چاہیے تھا۔اجمل کمال نے ان کی کہانیاں اور ناول پڑھوائیں، کیونکہ وہ فکشن کے قاری ہیں اور نقاد سے زیادہ قاری کی دلچسپی گمشدہ اور نظر انداز کردیے جانے والے فن پاروں سے گہری ہوتی ہے۔ خالد طور اگر مزید لکھتے ، ان کے اور بھی ناول سامنے آتے تو ہم دیکھتے کہ کھوڑگائوں، چکوال، بلکسر، تلہ گنگ وغیرہ کی مزید کہانیاں ہمارے سامنے آتیں، وہاں کی معاشرت اور اس سے خالد کی دلچسپی کے سبب ہم کئی ڈھکے چھپے معاملات کو نمایاں ہوتے دیکھتے، وہ اہم کام جو فکشن کی ذمہ داری بھی ہے اور اس کا حسن بھی۔
مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ میں ان کے فکشن پر بات کرنے کا پورا پورا حق ادا کرپایا ہوں یا نہیں ، مگر پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ ان کے فن فکشن نگاری پر بات کرنا ہماری اہم ذمہ داری ہے، جنہیں ان کے اپنے وقت میں کسی بھی وجہ سے مگر حاشیے کے پرے دھکیل دیا گیا تھا۔کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مگر ان کا لکھا ہوا فکشن اردو دنیا کے لیے کسی اہم سرمایے سے کم نہیں۔