میں طیفور سے ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ تیرے اعمال رائی برابر بھی ایسے نہیں کہ تو جنت کا منہ بھی دیکھ سکے،اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن کاتذکر یہاں ضروری نہیں، مذاق میں ہی صحیح مگر وہ اس بات پر مثبت انداز میں سر ہلا دیتا ہے۔ ابھی کل جب زرگون میرے دونوں ہاتھوں پہ لیٹی خوابیدہ حالت میں جنت کے دروازے کی طرف جا رہی تھی، تب دل نے کہا کہ اس ظالم شخص کے لیے میری اس معصوم سی بچی نے کیسی مردانہ قربانی دی ہے۔ اب مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ یہ صحیح حدیث ہے یا کسی قرآنی آیت کی ترجمانی کہ جو بچے، بچپن میں اپنے ماں باپ کو مفارقت دائمی دے جاتے ہیں وہ جنت میں اپنے ماں، باپ کا گھر تعمیر کروا دیتے ہیں،لیکن یقیناً میری زرگون بھی اس وقت اسی کام میں لگی ہو گی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس وقت اپنے دادا کی گود میں بیٹھی کلکاریاں مارتے ہوئےفرشتوں کو حکم دیتی ہوگی کہ فلاں دروازہ یوں نصب کرو، فلاں کھڑکی اُس طرف لگاو، یہ والا کمرہ اتنا کشادہ رکھو اور وہ بیرونی احاطہ اتنا وسیع کرو۔
میں نے زرگون کو اس کے عرصہ حیات میں صرف دو مرتبہ دیکھا تھا۔ اس کی عمر دو ماہ اورکچھ دن تھی۔ اتنے عرصے میں اسے گود میں کھلانے کا موقع ہاتھ نہ آیا، کچھ تو اپنی نجی مصروفیات کی وجہ سے اور کچھ اپنی بچی ہونے کے کارن کہ گھر ہی میں ہے جس روز پوری طرح صحت یاب ہو گی چچا کے ساتھ خوب کھیلے گی۔ غالباً میں وہ پہلا شخص ہوں یا ان اولین لوگوں میں سے جسے طیفور نے زرگون کی پیدائش کے فوراً بعد کی تصاویر ارسال کی تھیں۔ یقیناً جب میں نے اس کی تصویر پہلی مرتبہ دیکھی تو میری آنکھیں بھر آئیں کہ وہ دوست جس کے ساتھ میری بے شمار الجھی ہوئی حبس زدہ شامیں گزری ہیں، جس کی زندگی کےلا تعداد لمحوں میں میں نے اپنی تسکین کی راہیں تلاشیں ہیں۔جو میرے ساتھ ہنس کھیل کر لڑک پن سے جوانی کی منزلوں میں داخل ہوا ہے،جس نے مجھے دنیا بھر کی خرافات سیکھانے میں استاد کا کردار ادا کیا ہے،آج ایک عدد بیٹی کا باپ بن چکا ہے، وہ بیٹی جس کا چہرہ اپنی خاندانی خوبصورتی کے استعاروں سے سنوار کر تخلیق کیا گیا ہے،جس کی آنکھوں میں سمنانی نور ہے، ماتھے پر ہاشمی جلال، گالوں پر ہندوستانی گلال کی رنگینی اور ہونٹوں پر میر کا تصور شعر ۔اس بچی کو دیکھتے ہی مجھے طیفور کی قسمت پہ رشک آیا کہ کیسی حسین وجمیل بچی خدانے اس کے وجود کے سائے سے باندھ رکھی تھی۔ زرگون میری زندگی میں ایسی دوسری بچی کی صورت میں داخل ہوئی تھی جس کے ساتھ میں نے اپنے مستقبل کے خوابوں کو پلک جھکتے ہی وابستہ کر لیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ زرگون جو ایک روادار گھرانے میں ایک خوش مزاج شخص کے نطفے سے پیدا ہوئی ہے اس پر میرا اتنا ہی حق ہو گا جتنا اس کے ماں باپ کا ہے، اس کی پر ورش، تعلیم و تربیت، شادی بیاہ،دکھ اور سکھ میں میں ہمیشہ اس کے باپ کی طرح اس کا شریک رہوں گا اور عین ممکن ہے کہ میں اس سے ایک ایسا رشتہ قائم کروں کہ وہ اپنے باپ سے پہلے مجھے اپنی مشکلوں اور پریشانوں کا شریک بنائے،اپنی خواہشات کی تکمیل کا وسیلہ سمجھے، اپنی سکھوں کی آماج گاہ تصور کرے۔ یقیناً زرگون کی تصویر دیکھ کریہ باپ میرے ذہن میں یک بارگی دوڑ گئی کہ جب کبھی طیفور کسی بات پر زرگون کو چلائے گا تو اسے میری سخت لعن طعن سے گزرنا پڑے گا، جب بھی زرگون کے آگے دنیا کسی نوعیت کی قید کا پہرابٹھانے کی کوشش کرے گی میں اس کی آزادی کے لیے دنیا سے اختلاف کروں گا۔ جب وہ اپنی ماں سے کسی بات پر روٹھے کی تو میں اسے محبت سے سمجھا بھجا کر اس کے غمگین چہرے پر دوبارہ ہنسی بکھیر دو گا۔ وہ جب چاہے گی، جہاں چاہے گی جائے گی، جس راہ سے اپنی زندگی کو ترتیب دینے کی خواہش مند ہوگی میں اس کے حوصلوں کو مہمیز کر کے اس راہ کے خار زار تنکوں کو چن کر اسے ہموار بناوں گا۔
میں زرگون کے ساتھ کھیلنے کودنے کا خواہش مند تھا۔ وہ دن جس روز وہ پہلی بار میرا نام لے کر مجھے پکارتی اس روز میں اپنے اندر ایک نئی شادمانی محسوس کرتا،وہ دن جب وہ مجھے گھوڑا بنا کر مجھ پر سواری کرتی تو میں ان لمحوں میں خود کو خوش نصیب تصور کرتا۔وقت کی ہر اس گزرتی ساعت میں جب جب زرگون میرے قریب ہوتی تو میں اس پر اپنی شفقت لٹاتا اور اس کے ہونٹوں پر اپنی طرح طرح کی باتوں سے مسکراہٹ بکھیرنے کی کوششوں میں لگا رہتا۔ طیفور سے زرگون کا رشتہ قدرت نے طے کیا تھا، مگر میں اس کے حق میں رشتے کا ایک ایسا تصور بن کے ابھرتا جس سے اسے میرےوجود سے ایک تحفے کا احساس نصیب ہوتا۔ یہ میری شعوری کوششوں کا حاصل ہوتا، کیوں کہ بچیوں کی پرورش میں ایسی چھوٹی چھوٹی شعوری کوششیں زندگی کے نازک ترین مواقع پر ان کے حق میں کار آمد ثابت ہوتی ہیں۔
وقت گزر چکا ہے، زرگون اپنے قلعے کا رخ کرچکی ہے، اس نے جانے سے پہلے اپنے چچا کے خوابوں کا ایک پورہ شہد بھی نہیں چکھا۔وہ اپنی موج میں آئی،مسرت کا جھروکا ہمیں عطا کیا اور اپنی ابدی جائے پناہ کی طرف کوچ کر گئی۔ زرگون چلی گئی مگر میرے وجود میں خوابوں کی دنیا آباد کر گئی۔ میرے وہ تمام احباب جو طیفور کو بھی اتنا ہی دوست رکھتے ہیں جتنا مجھے ان سب کے ساتھ زرگون کا کیا رشتہ تھا اور وقت کے ساتھ وہ رشتہ کیا شکل اختیار کرتا میں ان خیالات کو لیے بیٹھا زرگون کی تصویر دیکھ رہا ہوں۔ زرگون ہنس رہی اپنے دادا کے کان میں سرگوشیاں کر رہی اور مجھے منہ چڑا چڑا کر اس بات کا یقین دلا رہی ہے کہ ہر وہ بات جو میرے ارادے کا حصہ بنی تھی اس کی عدم تکمیل ہی زرگون کے وصال کی مشیت ہے۔ اب میں اپنے خوابوں کی شکستگی پہ دکھی نہیں،بلکہ اس یقین کے احساس میں ڈوبا ہوا ہوں کہ زرگون اپنے ولے کی کھڑکی سی لگی بیٹھی ہماری دنیا کی رنگینیوں کو دیکھ رہی ہے، ہنس رہی ہے، مسکرا رہی ہے اور قدرت کے الجھے ہوئے رازوں سے آشنا ہو چکی ہے۔
Leave a Reply