Laaltain

گرے شرٹ

12 جولائی، 2025

وہ آفس سے تین دن کی چھٹی پر ہے۔ خواتین کے ایک نجی ہوسٹل میں اپنے کمرے میں کمپیوٹر ٹیبل پر بیٹھی وہ دیوار پہ لگے کلاک کی طرف دیکھتی ہے۔ دن کے گیارہ بجے ہیں اور اس کے پاس ابھی ایک ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہے۔ابھی وہ تیس برس سے کچھ کم کی ہے لیکن اس کی نزدیک کی نظر نہ جانے کیسے کمزور ہو گئی کہ اب اس کے پاس ایک نزدیک کی اور ایک اینٹی گلیر عینک کمپیوٹر کے لیے ہے۔ بعض اوقات تو وہ گڑبڑا جاتی ہے کہ کون سے چشمے کا استعمال مناسب رہے گا۔ تاہم اس وقت وہ اینٹی گلیر شیشوں والا چشمہ لگائے لیپ ٹاپ پر نظر آنے والی وڈیو میں کسی سمندر کا منظر دیکھ رہی ہے جس کا پانی بہت شور کرتا ہوا ایسی لہریں اچھال رہا ہے کہ گویا ابھی سکرین سے باہر آ جائے گا۔ وہ مضطرب ہے۔ سمندر کے پانی سے اٹھتی لہریں اس کے اضطراب میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔۔ ماوس پر جمی اس کی انگلیاں بھی بے قرار ہیں۔ سمندر کی وڈیو بند کر کے وہ بے خیالی میں کئی اور کلپس کھولتی ہے۔ عینک بدلتی ہے۔ سکرین پر مختلف کمپنیوں کی برانڈڈ مصنوعات کی خبریں، سلے ان سلے کپڑوں کے اشتہار، فیشن کے نئے ڈیزائن ہیں۔۔۔۔ سکرین منی مائز کر کے وہ اپنی پینٹنگز کا فولڈر کھولتی ہے۔ اپنی بنائی تصویروں کی دل ہی دل میں ستائش کرتی ہے۔ حال ہی میں لگی اپنی ینٹنگز کی نمائش پر آئے کومنٹس پڑھتی ہے۔ لیکن اسے کچھ بھی پسند نہیں آ رہا۔ شاید اس عینک کے شیشے دھندلے ہیں یا وہ اپنے آپ سے لڑنے میں مصروف ہے۔ عینک بدل کر وہ پھر گوگل سرچ کی ونڈو پر آ جاتی ہے۔ سرچ بار پر ” نور بانو” ٹائپ کرتی ہے۔ سکرین پر فیروزی رنگ کی ایک کھڑکی کھلتی ہے جس میں دنیا جہان کی نور بانووں کے نام نظر آتے ہیں۔ وہ عینک اتار کر آنکھیں سکرین کے قریب لے جا کر دیکھتی ہے کہ اس نام کو بایئس ہزار مرتبہ سرچ کیا جا چکا ہے۔ اس کی نظر ایک بار پھر کمرے میں لگے کلاک کی طرف اٹھتی ہے۔ ابھی بھی خاصا وقت ہے۔ اس کی بے چین انگلیاں پھر کی بورڈ پر ہیں۔ وہ سرچ بار میں ” باسل احمد” ٹائپ کرتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نام کو کوئی پچاس ہزار بار سرچ کیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر اسے بیک وقت خوشی اور رقابت کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن اسے غصہ بھی آتا ہے کہ باسل نے اسے دوپہر کو آنے کا کیوں کہا؟ آخر وہ صبح ہی اس کی طرف کیوں نہیں جا سکتی تھی۔ ” گاڈ نوز بیٹر” وہ بڑ بڑاتی ہے اور سرچ بار پر لفظ گاڈ ٹائپ کرتی ہے۔۔ اس لفظ کے اعدادو شمار نے دونوں ناموں کو شکست دے دی۔ دور کسی کمرے سے یا شاید ساتھ والے کمرے سے اسے جسٹن بائبر کے گانے کی آواز سنائی دی تو اس نے سرچ بار پر اس کا نام لکھ دیا۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ جسٹن بائبر کا نام، گاڈ سے کہیں زیادہ بار تلاش کیا گیا ہے۔

ایک کے بعد دوسری عینک بدلتے ہوئے وہ یونہی بے خیالی میں سرچ بار پر لفظ پورن ٹائپ کرتی ہے۔۔ لمحے بھر میں ان گنت پورن سائٹس کے لنک جگمگانے لگتے۔ بوس و کنار کرتے مرد عورت، سستی سی ہیجان خیزی اور میکانکی مشغولیات۔ یہ سب اس کے اضطراب میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ تنگ آ کر وہ لیپ ٹاپ ہی بند کر دیتی ہے۔ اور لباس تبدیل کرنے کو اٹھ جاتی ہے۔ گرے رنگ کی شرٹ اور سفید جینز پہتنی ہے اور کندھوں تک لٹکے بالوں کو برش سے آراستہ کرتی ہے۔ سیل فون پر وقت دیکھتی ہے تو ابھی چالیس منٹ باقی ہیں۔ ہلکا سا میک اپ کرنے کے بعد وہ میچنگ کلر کی لپ سٹک لگاتی ہے۔ شولڈر بیگ اٹھاتی ہے۔ اس میں فیشن میگزین کا تازہ پرچہ رکھتی ہے اور بیگ کندھے پر لٹکا کر اپنا جائزہ لیتی ہے۔ گرے نہیں، سفید شرٹ پہننا چاہئے تھی۔ وہ اسے گرے شرٹ میں دیکھ کر خوش نہیں ہو گا۔ ‘لیکن میں شرٹ تبدیل نہیں کروں گی’ وہ سوچتی ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے یہ رنگ۔ اضطراب اس کے ماتھے اور چہرے پر نمایاں ہے۔ وہ سیل فون اٹھاتی ہے اور ٹیکسی آرڈر کرتی ہے۔۔ پانچ سات منٹ کے بعد وہ ہوسٹل کے مین گیٹ پر رکی سلور رنگ کی ٹیکسی کی پچھلی نشست پر تقریباً گرنے کے انداز میں بیٹھتی ہے اور ڈرایئور کو منزل کا پتہ بتاتی ہے۔ آدھے سفر کے دوران وہ بیگ میں سے چھوٹا سا آیئنہ نکالتی ہے اور اپنے چہرے کا جائزہ لیتی ہے۔ اپنے رخساروں کو دایئں بایئں حرکت دے کر اپنے آپ کو ری لیکس کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ عینک اتار کر بیگ میں رکھتی ہے۔۔ گرے شرٹ نہیں پہننی چاہئے تھی وہ پھر سوچتی ہے۔ یقیننا باسل کو نا پسند ہے یہ رنگ۔ اس کے ماتھے پر ایک شکن سی ابھرتی ہے لیکن دوسرے ہی لمحے وہ ”سو وٹ” کہہ کر اس خیال کو جھٹک دیتی ہے۔ کوئی دس منٹ کی مسافت کے بعد ٹیکسی ایک ہوٹل کے گیٹ پر رکتی ہے۔ داخلے پر چوکیدار کو باسل احمد اور کمرہ نمبر 110 بتا کر وہ ٹیکسی سے اترجاتی ہے۔

کمرہ نمبر 110 پر دستک دے کر وہ ٹشو پیپر سے پیشانی پر آیا خیالی پسینہ صاف کرتی ہے۔ دروازے پہ لگے اندھے سے شیشے میں اپنے سراپا کا جائزہ لیتی ہے۔ گرے شرٹ دھندلے شیشے میں سیاہی مائل لگ رہی تھی۔ اس نے ایک بار پھر دستک دی تو قدموں کی آواز کی بجائے “دروازہ کھلا ہے۔ اندر آ جاو۔” کی آواز سنائی دی۔وہ اندر داخل ہوتی ہے تو تین چھوٹے چھوٹے کمروں کا ایک سویٹ ہے۔ اس کی ہائی ہیل لکڑی کے فرش پر کھٹ کھٹ بجاتی ہے۔ “باسل۔۔۔ باسل۔۔۔ بھئی کہاں ہو تم۔ کہتی ہوئی وہ اس کمرے تک تک پہنچتی ہے جہاں باسل فون پر گفتگو میں مصروف ہے اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے۔ فون بند کر کے وہ اسے ہیلو کہتا ہے۔
“تو تم باہر دروازے تک نہیں آ سکتے تھے۔۔۔۔۔” وہ ذرا ترش لہجے میں پوچھتی ہے۔

“یار وہ اچانک باس کا فون آ گیا تھا، میں نے اسی لیے بھاگ کر دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ تم پہنچنے والی ہوگی۔ ” باسل نے اطمینان سے جواب دیا۔
“ہاں ہاں، اندازے لگانے میں تم بہت ماہر ہو اور یہ باس کہاں سے آ گیا۔اسی لیے تم نے مجھے صبح آنے کو منع کیا تھا؟ باس کا فون۔۔۔ تم تو تین دن کی چھٹی پر یہاں آئے ہو اور تم جانتے ہو میں نے بھی اسی لیے چھٹی لی ہوئی ہے۔ ” وہ ایک ہی سانس میں سب کہہ گئی۔

” میں کیا کرتا۔ چھٹی تو اسی لیے لی تھی کہ یہ دن ساتھ گزاریں گے لیکن وہ سیلاب کی ایمرجنسی۔۔۔ یا باس کی ایمرجنسی کہہ لو، کہتا ہے یہاں ہو تو چھوٹا سا پراجیکٹ ہی کر لو اورشام تک میری ٹیم کے بندے بھی بھیج دے گا۔۔۔۔۔ اب بتاو کوئی راہ فرار ہے؟ ”

” تو ٹھیک ہے میں فرار ہو جاتی ہوں۔ ٹیم لیڈ صاحب آپ اپنی ٹیم کے ساتھ سیر و تفریح کریں۔ ”

” رکو تو۔ سانس تو لو۔ آتے ہی جانے کی باتیں شروع کر دی ہیں۔ میری پوزیشن سمجھو ناں۔ ”

” نہیں تم ایک نمبرکے جھوٹے ہو، یہ پروگرام پہلے سے ہی طے ہوگا۔ تم آئے ہی سیلاب کور کرنے ہو۔۔۔ تمہاری ٹیم بھی آنے والی ہے۔ وہ ہے ناں کبریٰ ، تمہاری اسسٹنٹ، سنبھال لے گی سب، تم فوٹو گرافی نہیں کروگے تو کیا آفت۔۔۔۔۔۔۔”

“نہیں۔ نہیں نور بانو، یہ جو تم میری نیت پر شک کرتی ہو اور مجھ پر اعتبار نہیں کرتی ناں یہ مجھے سخت تکلیف دیتا ہے۔” باسل نے ترش لہجے میں کہا۔ “ابھی بہت وقت ہے۔ کھانا کھاتے ہیں۔ گپ شپ کرتے ہیں، بس پروگرام کا کچھ حصہ منسوخ کرنا پڑے گا۔ آئی ایم سوری۔ ”

” نہیں کھانا مجھے کچھ بھی۔ تم نے میرا دن برباد کر دیا اور لگتا ہے باقی کے دن بھی۔”

باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ روم سروس کے ویٹر ٹرالی میں خورد و نوش کی چیزین لے کر آئے اور رکھ کر خاموشی سے واپس چلے گئے۔

” چلو غصہ تھوک دو، چلو غصہ تھوڑی دیر کے لیے معطل کر دو۔ دیکھو تمہاری پسند کی ڈشز ہیں۔” باسل نے ٹرالی نور بانو کے قریب لاتے ہوئے کہا اور اس کے برابر ہی بیڈ نما صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ اسے عجیب نظروں سے گھورتی رہی۔ باسل نے اس کے کندھوں پر آہستہ سے ہاتھ رکھے اور اس کا رخ اپنی طرف موڑتے ہوئے کہا،” تم جب بھی یہ رنگ پہنتی ہو تو تمہارا موڈ بھی اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ آو کھانا کھایئں، لڑائی بعد میں کر لینا۔ ”

نور بانو ، ہاسٹل سے صرف کافی کا ایک کپ پی کر نکلی تھی بھوک اسے بھی محسوس ہو رہی تھی۔ دونوں نے خاموشی سے ایک لفظ کہے بغیر کھانا کھایا۔
” تم یقیناً کافی پینا پسند کرو گی۔” باسل نے ٹرالی ایک طرف کر کے چوکڑی مار کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

” نہیں۔ کافی کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔ تم بتاو یہ کیا بکواس لکھی تم نے فیشن میگزین میں میری پینٹنگ کی نمائش کے بارے میں۔۔ مانا کہ تم ایک نامی گرامی فوٹو گرافر ہو لیکن تم نے کبھی پینٹ کیا کچھ؟”

” اوہو تو اس بات کا غصہ ہے۔ یار دیکھو تمہارے ساتھ پینٹنگ اور فوٹو گرافی پڑھی تو تھی ناں۔ اور پانچ نمبر تم سے زیادہ ہی لیے تھے۔ یہ اور بات کہ جاب فوٹوگرافی کی ملی۔ ویسے بھی فوٹوگرافی اور مصوری جڑواں بہنں ہی کہلاتی ہیں۔ میں تو پینٹنگ کے بارے میں نئی نئی چیزیں پڑھتا ہی رہتا ہوں۔ آج کل کیا چل رہا ہے مجھے سب پتہ ہے۔ ”

“پانچ نمبر زیادہ۔۔ ہونہہ۔۔۔ یہ کیا لکھا تم نے” نور بانو نے بات کاٹ کر بیگ سے میگزین نکال کر گود میں رکھ لیا، ” یہ۔۔۔ یہ سٹروکس میں روانی اور حساسیت نہیں ہے۔ یہ تم کسی ایک پینٹنگ کے بارے میں کہتے تو بھی تھا۔۔۔ تم نے تو عمومی بات کر دی۔۔۔ ساری پینٹنگز ہی ایسی ہیں؟ ”

” دیکھو مجھے جو لگا وہ میں نے لکھ دیا۔ میں نے اپنے تاثرات کے اظہار میں کبھی بے ایمانی نہیں کی۔”

” یہ پڑھو، ” اس نے میگزین باسل کی آنکھوں کے قریب تر کرتے ہوئے کہا، “یہ میڈم شاہین کا ریویو۔۔۔ نور بانو کی پینٹنگز میں گلیزنگ اور واش کا میڈیم بہت خوبصورتی سے استعمال کیا نظر آتا ہے جو کہ ایک مشکل کام ہے۔۔۔۔ تمہاری ٹیچر تھیں ناں میڈم شاہین ”

“اور یہ پڑھو۔ قدرت شیخ کیا لکھتا ہے، ۔۔۔ نور بانو کی پینٹنگز اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ مصوری کے اس قافلے میں اس کا اپنا راستہ اور اپنی منزل ہے۔ ”

” اور یہ تم کیا لکھتے ہو، یوں لگتا ہے برش پر کنٹرول نہیں رہا، پورے بازو سے پینٹ کرنے کی بجائے صرف کلائی سے پینٹ کرنے کا شبہ ہوتا ہے، تم سمجھتے ہو مجھے برش پکڑنا نہیں آتا؟”

” ہاں وہ والی پینٹنگ یاد کرو،” باسل نے یاد کراتے ہوئےکہا، ” وہ زمین پر سنگریزے اور پس منظر میں ٹنڈ منڈ درخت، وہ درخت بناتے ہوئے یقیناً تمہاری ذاتی سوچ اس وقت تمہارے سٹروکس پہ حاوی ہو گئی لگتی ہے۔”

” ہونہہ، ذاتی سوچ۔۔۔ ذاتی سوچ اور الہامی کیفیت نہ ہو تو فن پارہ کیسے بن سکتا ہے۔ عجیب بات کی تم نے۔”

” نہیں، میں ذاتی سوچ اور الہامی کیفیت کے خلاف نہیں لیکن وہ آرٹسٹ پر اتنی حاوی نہیں ہونا چاہئےکہ برش ہاتھ سے نکل جائے۔ ”

” بس کرو۔ ایک تو میری پینٹنگ میں اتنی برائیاں نکالیں اوپر سے معذرت بھی نہیں کر رہے ہو” یہ کہہ کر نور بانو نے میگزین باسل کے منہ پر دے مارا۔ وہ میگزین کے نشانے سے بچنے کے لیے آگے کو جھکا تو دونوں کے درمیان صرف سانس بھر کا فاصلہ تھا۔ نور بانو کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس کے تنفس کا زیر و بم اس قدر شدید تھا کہ جس صوفے پر وہ بیٹھے تھے وہ زلزلے کے ہلکے جھٹکوں کی طرح ہلتا محسوس ہونے لگا۔ وہ چند ثانیے اسے گھورتی رہی پھر ایک دم اس نے باسل کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔ باسل کو محسوس ہوا گویا کوئی شدید تپتی ہوئی نرم سی چیز اس کے لبوں پر پیوست ہو گئی ہے۔ باسل نے اسے سر سے پکڑ کر پیچھے ہٹانے کی کوشش کی لیکن بانو اس وقت اپنے آپ میں نہیں تھی۔ یہ غصہ تھا اور کس بات پہ تھا یا کیا تھا۔۔۔ اس نے ہونٹ ہٹائے بغیر باسل کی کمر پر زور زور سے مکے رسید کرنے شروع کر دیئے۔ باسل کو محسوس ہوا کہ ان ضربوں میں شدید اضطراب ہے۔ اس اچانک حملے کی شدت سے بچنے کے لیے باسل نے زور سے اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا جس سے مکوں کی شدت کچھ کم ہو گئی۔ بانو کو بھی اپنی سانس گھٹتی محسوس ہوئی تو اس نے باسل کے سر کے بال نوچنا شروع کر دیئے اور اس کی شرٹ اتار کر اس کے کندھوں پر دانت گاڑ دیئے۔ باسل کو وہ نور بانو نہیں بلکہ کوئی ایسی عورت لگ رہی تھی جس کے اندر کسی پدمنی ، سنکھنی یا ہستنی کی روح آ گئی ہو۔۔اس نے اس کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کی لیکن اسے محسوس ہوا کہ گرفت خاصی مضبوط ہے۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس ہیجانی کیفیت سے کیونکر نمٹا جائے۔

کوئی دوڈھائی گھنٹے کی گہری نیند کے بعد ملگجی سی روشنی میں نور بانو کی آنکھ کھلی تو چند لمحے اسے یہ معلوم کرنے میں لگے کہ وہ کہاں ہے۔ اس نے اپنے اوپر پڑی چادر کو ہٹایا اور اپنے زیر جامے تلاش کر کے پہنے۔ صوفے پر بیٹھ کر اس نے گرے شرٹ اٹھائی تو وہ تار تار تھی اور پہننے کے قابل نہیں رہی تھی۔ قریب ہی ایک سفید شرٹ رکھی تھی۔ اسے پہن کر وہ اٹھی اور باسل کو آوازیں دیتی واش روم کی طرف چلی گئی۔ واپس آ کر اس نے صوفے پر پڑی جینز پہننے کے لیے اٹھائی تو اس کی نگاہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر پڑی۔ اس نے قریب کی عینک لگا کر دیکھا۔ باسل نے لکھا تھا کہ وہ ٹیم کے ساتھ کسی گوٹھ کی طرف جا رہا ہے۔ واپسی کا کچھ پتہ نہیں۔ وہ چاہے تو رات یہیں رہ سکتی ہے۔ ہوٹل والوں کو بتا دیا ہے۔ جانا چاہے تو باہر نکل کے دروازہ بند کردے۔ خودکار دروازہ لاک ہو جائے گا۔ نور بانو نے کاغذ کا ٹکڑا مسکراتے ہوئے پرزے پرزے کردیا او شولڈر بیگ اٹھا کر کمرے سے باہر نکل آئی۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *