محمد خالد اختر کی یہ تحریر ان کے مجموعے کی پانچویں جلد ریت پر لکیریں میں شامل ہے جو جلد ہی آج کی کتابیں کے زیر اہتمام شائع ہونے والی ہے اور آج کی کتابیں کی ویب سائٹ پر دستیاب ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم تین دوست— جرمن ریٹرنڈ، سجیلا، خوش وضع ’ک‘، تُرت پھرت ’ر‘ اور میں— نومبر کے دنوں کی زریں دھوپ میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مال روڈ پر ٹہل رہے تھے کہ دو کالج کی لڑکیاں، جن کے بال انگریزی طرز کے ترشے تھے، اٹکھیلیاں کرتی ہوئی ہمارے پاس سے گزریں۔ ’ک‘ اور ’ر‘ کے رومانی اور ابھی تک جوان دل ایسے نظاروں سے فوراً اثر پذیر ہوتے ہیں۔ (اپنے باون تریپن سن کی عمروں کے باوجود ان کا دل اٹھارہ سال کے لڑکے کا ہے اور وہ لولیتائوں کو— خواہ وہ ترشے ہوے بالوں والی ہوں یا ربن بندھی گیکتڑی والی— ترجیح دیتے ہیں۔) وہ دونوں ٹھٹکے اور پھر ان کے پیچھے مسرت، خباثت اور حسرت کے ملے جلے جذبات سے دیکھنے لگے۔ میرے ساتھی لڑکیوں کے چہروں کے بجاے ان کے پچھاووں کو زیادہ دلچسپ پاتے ہیں۔ وہ دونوں ایک بس میں سوار ہو گئیں۔ میرا خیال ہے کہ اُس وقت ’ک‘ کو، جس میں مضحک پہلو کی تیز حس ہے، یہ عجیب خیال سوجھا کہ اگر انسانوں کی دُمیں ہوتیں تو جینا کس قدر پُر لطف ہوتا۔ ذرا سوچو کہ مال پر چلتے ہوے ان سب سنجیدہ، خوش قطع مردوں اور عورتوں کے پیچھے ان کی دُم بل کھاتی یا لٹکتی ہو— وہ کیسے نظر آئیں گے؟
دُموں والا خیال ہم سب کو اتنا تماشے کا، اس قدر فرحت بخش لگا کہ ہمارا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ میں تو فی الواقع پیٹ پکڑ کر بیٹھ رہا اور آنسو میری آنکھوں میں آگئے۔ کئی ایک معقول پُرمتانت شخص ہمارے نامعقول، کھلکھلاتے ہوے تگڈم کو ناپسندیدگی سے دیکھنے لگے۔ بہترین اور قدرتی ہنسی اسی طرح ہمیں بےطرح آ لیتی ہے اور (میرے خیال میں) چارلی چیپلن، لارل اینڈ ہارڈی، پیٹر سیلرز اور ہمارے ماجد جہانگیر، اسمٰعیل تارا اور عرفان کھوسٹ جیسے قدرتی مسخروں کی شکلوں اور حرکات میں بھی یہی مضحک حس ہے، کہ ان کو دیکھتے ہی باچھیں کھل جاتی ہیں اور ہم ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں۔ (ایسے مسخرے بنی نوع انسان کے اصل محسن ہیں اور ہم ان کے جتنے شکرگذار ہوں کم ہے۔)
ہم پھر مختلف آدمیوں اور عورتوں کے— جن میں ہمارے دوست، فلم ایکٹر اور ایکٹریسیں، گانے والے اور گانے والیاں،اعلیٰ افسران اور قوموں کے سربراہ شامل تھے— دُموں کے ساتھ خیالی نقشے کھینچنے لگے۔ اس کارپوریشن کا چیئرمین جس میں میں اور ’ک‘ کام کرتے تھے، اپنے دفتر کی خصوصی میٹنگ میں اپنے جنرل منیجروں کو جھاڑ پلا رہا ہے۔ اس کی اٹھی ہوئی، بو سے سجی سجائی دُم غضبناکی سے بپھر اور لہرا رہی ہے۔ جنرل منیجر چپ چاپ میز کے کاغذ پر آنکھیں نیچی کیے، اسے سن رہے ہیں۔ ان کی دُمیں بھیگی ہوئی رسیوں کی طرح نیچی لٹکی ہیں اور ان کے سرے قالین کو چھو رہے ہیں۔ ملکۂ ترنم نور جہاں بڑےٹھسّے سے اپنی بھاری دُم کو ترغیب انگیز انداز میں لہراتی ایک سٹور سے نکل رہی ہے— اپنے نئے نویلے، نو عمر شوہر کو، جس نے شاپنگ کے بنڈل تھام رکھے ہیں، اپنے سے دس قدم پیچھے رکھے۔ اس بے کس شخص کی دُم دبی ہوئی ہے۔ روزنامہ آوازۂ نفرت کا چھوٹا گل گوتھنا ایڈیٹر اپنے دفتر میں اپنے گنجے، نرم رو اداریہ نویس کو اگلے روز کے اداریے کی ’گائیڈ لائنز‘ دے رہا ہے جو حسبِ معمول نظریۂ پاکستان اور مہیب صہیونی سازش کے بارے میں ہے۔ پریزیڈنٹ ریگن، کامریڈ بریژنیف اور اندرا گاندھی کو تنبیہ کرتے ہوے اس کا کبوتر کا سینہ تن جاتا ہے اور اس کی دُم جوش و خروش سے ہلنے اور لال پیلی ہونے لگتی ہے۔ اداریہ نویس ’جی ہاں‘، ’بہت بہتر جناب‘ کی رٹ لگائے اپنے پیڈ پر ان پوائنٹس کو درج کر رہا ہے۔ اس کام کی تکمیل کے بعد وہ اپنے ایڈیٹر سے اپنی تنخواہ میں پچاس روپے اضافے کی بات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کی دُم ابھی سے ڈھیلی ہو کر کپکپا رہی ہے۔ پھر ہم نے سکندر اعظم، چنگیز خان اور نپولین بوناپارٹ کا تصور باندھا کہ اپنی دُموں کے ساتھ وہ اپنے درباریوں اور جرنیلوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے اور ملکوں میں گدھے کے ہل پھراتے کیسے لگتے!
سکندر کی دُم شیر کی دُم کی طرح کسی ہوئی اور سمارٹ ہے جب وہ شکست خوردہ پورس سے (جس کی دم بھی شکست خوردہ ہے) اس کے محل میں یہ سوال کرتا ہے: ’’بتائو تم سے کیا سلوک کروں؟‘‘ پورس کی دُم تھر تھر کانپ رہی ہے مگر وہ غرور سے سر اٹھا کر جواب دیتا ہے: ’’وہ سلوک جو بادشاہ بادشاہوں سے کرتے ہیں۔‘‘ الھڑ سکندر بیچارے کو یہ نہیں معلوم کہ بادشاہ بادشاہوں سے کیا سلوک کرتے ہیں کیونکہ اس کی ذاتی رائے میں بادشاہ مفتوح بادشاہوں اور ان کے اعزا و اقربا کے سر قلم کرادیتے ہیں۔ سکندر کی ہڑبڑاہٹ کو دیکھ کر پورس اپنی دُم کو مدبرانہ انداز میں ہلاتے ہوے اسے نصیحت کرتا ہے کہ بزرگوں کے منھ نہیں آتے۔ وہ یونانی لڑکے کو سمجھاتا ہے کہ اسے قطعاً شکست نہیں ہوئی اور ہاتھیوں کا میدانِ جنگ سے اپنے لشکر کو روندتے ہوے بھاگ پڑنا محض حادثہ تھا۔ یہ بات سکندر کی سمجھ میں آجاتی ہے،کیونکہ آخر کو وہ افلاطون کا شاگرد تھا، اور وہ منچلے طریق سے پورس کے چرن چھو لیتا ہے۔ (اس کی دُم کی جھالردار نوک اس کی آہنی خود کو چھو رہی ہے۔)
ہم نے اس سے اتفاق کیا کہ چنگیز خان (وہ شخص نہیں جسے ہم نے حال ہی میں ٹی وی پر دیکھا تھا اور جو کئی سالوں کا بے غسل جلالی فقیر لگتا تھا) کی دُم گھوڑے کی دُم کی طرح بالوں بھری پونچھ ہوتی اور اس وقت اس کے جسم سے زاویۂ قائمہ بناتی جب وہ اپنے گھوڑے کو کسی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے ارادے سے اُڑائے لیے جارہا ہوتا۔ نپولین بوناپارٹ کی دم اینٹھی ہوئی اور طرح دار، اس کی کمر تک اونچی اٹھی ہوئی تھی مگر واٹر لُو کے بعد نیچی ہوکر اس کی ’بریچز‘ میں دب گئی یہاں تک کہ وہ بمشکل دکھائی دیتی تھی، اور بہت سے لوگ کہتے پھرتے تھے کہ شہنشاہ نے اپنی دُم کٹوادی ہے۔
فرداً فرداً موجودہ بادشاہ اور سربراہانِ مملکت بھی (ارنڈی برنڈی کے ٹنکو سے لے کر ریاست ہاے متحدہ امریکہ کے پریزیڈنٹ تک) اپنی دُموں سمیت ہمارے جائزے میں آئے۔ ہم نے ان کی دموں کی رنگت، شکل اور اٹھنے بیٹھنے کا تصفیہ کیا جس کے دوران ہم پر ہنسی کے کئی دورے پڑے۔
بعد میں گھر آکر میں نے دُم کے مسئلے پر سنجیدہ خور و خوض کیا، کیونکہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ انسانی ارتقا کا کوئی بھی طالبعلم تمھیں بتائے گا کہ انسان کی دم نہ ہونا محض اتفاق ہے، اوراس کے نہ ہونے سے ہم نظامِ قدرت میں عجوبہ بن گئے ہیں۔ علم الانسان کے سب ماہرین اور حیاتیاتی ایک مدت سے حیران ہیں کہ آخر انسان کے دُم کیوں نہیں اور اپنے ارتقا کی کس منزل میں اس نے اس مفید عضو کو اپنے سے خارج کردیا۔ ڈارون، جس نے Origin of Species لکھی، اس گتھی کو نہیں سلجھا سکا۔ ان ماہرین کی رو سے بادی النظر میں اس بات کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہماری دُمیں کیوں نہیں، حالانکہ دُم کو جوڑنے کی ہڈی ہر انسانی جسم میں باقاعدہ مہیا کردی گئی ہے۔ یہ بنی نوع انسان کا المیہ، جس کے باعث حیوانات ہم سے برگزیدہ ہوگئے، کیونکر اور کیسے وقوع پذیر ہوا، کوئی نہیں جانتا۔
آئو اب ذرا سوچیں کہ دموں کے ہونے سے اس کُرے پر ساری انسانیت کی تاریخ، معاشرت، رہن سہن، چال ڈھال، وضع قطع آج سے کتنی مختلف اور زیادہ دلچسپ ہوتی۔ لباسوں کی تراش خراش مختلف ہوتی۔ قومیں اپنی دُم کی شکل کی بنا پر معرض وجود میں آتیں نہ کہ نسل، رنگ اور زبان کی وجہ سے۔ اور ملکوں کی موجودہ سرحدیں — جو بادشاہوں اور فرما نروائوں نے اپنی حشمت اور شیخی کے لیے متعین کی ہیں — کچھ اَور ہوتیں۔ ایک ہی شکل کی دُم کے انسان ایک دوسرے کے بھائی بند ٹھہرتے اور اسی ڈھنگ سے قومیں اور ملک بھی بنتے، کیونکہ صحیح طور سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے سب انسانوں کی دُموں کی شکلیں ایک سی نہ ہوتیں۔ ہر کوئی بچے کھچے درندوں، گھریلو جانوروں، چرندوں، پرندوں اور دیگر حشرات الارض کی وضع کے مطالعے سے جانتا ہے کہ سب دُمیں ایک ہی نمونے اور سانچے سے تشکیل نہیں پاتیں۔ دنیا پر بھانت بھانت کی دُموں کے انسان چلتے پھرتے نظر آتے — رسی کی طرح لمبی لچکیلی دُم والے، چھوٹی، مشت بھر دُم والے، اوپر اٹھی ہوئی، سروں پر دائرہ بناتی دُم والے، شیر ببر کی طرح پھندنے سے سجی دُم والے، بلے کی چھوٹی روئیں دار دُم والے، پنکھے جیسی دُم والے جیسے اکثر پرندوں کی ہوتی ہے، گھوڑے جیسی لٹکی ہوئی جھاڑی کی قسم کی دُم والے…
امکان ہے کہ ایسے انسان بھی ہوتے جن کا بیشتر حصہ دُم ہوتی۔
ذاتی طور پر میں اپنے لیے شیر ببر کی کسی ہوئی پھندنے دار دُم کو پسند کرتا ہوں۔ ایسی دُم کے ساتھ میں کتنا طرح دار، پُر جلال نظر آئوں گا۔ ہر ایک کی پسند اپنی اپنی ہوتی ہے اور ممکن ہے تم اپنے لیے گھوڑے کی جھاڑ دار دُم پسند کرو جو میری نظر میں کافی بدنما اور محیر العقول ہے، گو بعض مقاصد کے لیے جو گھوڑا پورا کرنا چاہتا ہے، کافی کارآمد۔ تمھاری مرضی! بعض لوگوں کے مذاق کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دُم کھودینے کے بعد دُم حاصل کرنے کی خواہش ہر مرد و زن کے لاشعور میں کہیں نہ کہیں ضرور ہوگی— ورنہ بیضوی دُم والے ’ٹیل کوٹ‘ کا رواج کیوں ہوتا جسے کئی سفیر، وزیر، درباری موقعوں پر اب بھی بٹن ہول میں پھول کے ساتھ پہنتے چلے جاتے ہیں۔ یورپی لوگوں کی شادی پر دلہن کے ویڈنگ گائون کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا وہ ایک دُم نہیں جسے بہت سے چھوٹے براتی بچے اٹھائے ہوتے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے ؟مارواڑی سیٹھوں اور کئی ہندوئوں کی گھٹنوں تک بندھی دھوتیوں کا ڈیزائن بھی دُم کا لحاظ رکھتا ہے، البتہ یہاں دُم پیچھے کے بجاے آگے نکلتی ہے۔
اپنے اس تھیسس کو ثابت کرنے کے بعد میں ملکی پروفیسروں، ڈاکٹروں اور دوسرے محققوں کو دعوت دوں گا کہ وہ اس سارے معاملے پر باقاعدہ طویل تحقیقی مقالے لکھیں کیونکہ ہماری بدبختی کہو کہ اس اہم مسئلے کو ابھی تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، حالانکہ ’’معاشرت و ثقافت میں اونٹوں کا کردار‘‘ جیسے بےمقصد موضوعات پر دقیق مضامین اخباروں کے اداریوں اور ادبی پرچوں میں دھڑا دھڑ اشاعت پذیر ہوتے ہیں اور بال کی کھال اتاری جاتی ہے۔ دُم کھو کر اسے دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش کی نفسیات نے ہمارے ملکی ادب اور آرٹ پر جو پیچیدہ اثر ڈالا ہے اس کی وضاحت کوئی کیوں نہیں کرتا؟ ہندی کی چندی کیوں نہیں کی جاتی؟ دُمیں ہوتیں تو ادبی صورتحال کیا شکل اختیار کرتی؟ کیا جدید علامتی افسانے اور نثری شاعری کا دور دورہ اس شدومد، اس طمطراق سے ہماری زبان میں ہوتا اور پڑھنے والوں (یعنی قارئینِ ادبیات) کے سینوں پر متواتر یوں مونگ دلے جاتے؟ کیا ان سوالات کا جواب اور حل تلاش کرنا ہمارے محققین کا فرض نہیں؟ وہ اس سے اغماض کیوں برتتے ہیں؟ کہاں چھپے بیٹھے ہیں؟
پہلے تو یہ کہ ہمارے لباس پہناوے مختلف ہوتے۔ شلوار یا پتلون میں ایک سوراخ کیا جاتا جس میں سے دُم نکل کر لہراتی اور اٹکھیلیاں لیتی۔ (پرانے خیالات کے لوگ البتہ اسے بے حیائی اور بےراہ روی قرار دیتے ہوے دُم پر ریشمی غلاف چڑھاتے۔) خواتین اپنی دُموں کا باقاعدہ سرخی پائوڈر سے میک اپ کرتیں، ان کے سِروں پر موتیوں کی جھالریں ٹانکتیں۔ دو بچھڑے ہوے عاشق سرِ بازار ملتے تو فرطِ مسرت سے دُم ہلاتے، دُموں کو باہم لڑاتے۔ ہمارے کمروں کے فرنیچر دُم کی سہولت کے لیے قطعاً مختلف ڈیزائن کا ہوتا۔ لوگوں کے ایک دوسرے کی دُم پر بیٹھ جانے کے امکان کے پیشِ نظر صوفے کے پیچھے یا نیچے ایک چوڑی ربڑ یا پلاسٹک کی نلکی بنائی جاتی جس میں دُم آرام و اطمینان سے سستا سکتی۔ ٹی وی پر ’’نیلام گھر‘‘ اور ’’فروزاں‘‘ جیسے پروگرام کہیں زیادہ دلچسپ ہوتے۔ ان سب فیشن ایبل مردوں اور عورتوں کا دُموں کے ساتھ تصور کرو! — طارق عزیز (دُم کے ساتھ) ’’جواب درست ہے! ‘‘ کہتا ہوا… کوئی خاتون شرمائی لجائی، دُم دبائے… فیاض دل طارق عزیز سے (دُم کے ساتھ) گڑبڑ واٹر کولر بنانے والوں کے تحفے سمیٹتی ہوئی…
بعض ملکوں اور قوموں میں ہاتھ ملانے کے بجاے دُمیں ملائی جاتیں، اور بعض دوسری قوموں میں اس طریقے کو حد درجے کی عریانی اور بے شرمی قرار دیا جاتا۔ تقریر کرتے ہوے لیڈروں کی دُمیں جوشِ خطابت سے اچھلتیں، بپھرتیں، تھرتھراتیں، اور سامعین اپنے ردِ عمل کے مطابق اپنی دُموں کو لہراتے یا داب لیتے یا دُم کا رخ لیڈر کی طرف کرکے بیٹھ جاتے۔ دُموں کے پالش، بنائو سنگھار، غلاف وغیرہ کے لیے نت نئی صنعتیں قائم کی جاتیں، اور جس طرح آج کل بازاروں میں ہیئر کٹنگ سیلون ہیں، اسی طرح دُم کو سنوارنے اور چمکانے والے مالشیوں کے ’ٹیل ڈریسنگ سیلون‘ ہوتے۔ اخباروں، فلموں، دیواروں پر اشتہار ہوتے: ’اپنی دُم کی حفاظت کیجیے۔ چکربتی کا تیل، پاؤڈر دُم کو چمکداراور خوبصورت بناتاہے۔ ‘ اور دُموں کی بیماری کے علاج کے سپیشلسٹ ڈاکٹر ہوتے اور فی وِزٹ سو روپے فیس لیتے۔ دُم کٹے آدمی کو کوئی منھ نہ لگاتا اور سب اس پر پھبتی کستے— اس کی پوزیشن سوسائٹی میں وہی ہوتی جو میری یا تمھاری ہوگی اگر کوئی ہماری ناک کاٹ لے۔
مختصراً، ان گنت تبدیلیاں اور حالات گنائے جاسکتے ہیں۔ تم ان کا کسی فارغ وقت میں تصور کرو۔ دُم ہونے سے ہمارے حیوانات سے تعلقات بہت بہتر ہوجائیں گے۔ اب ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ان سے برتر مخلوق ہیں اور حیوانات سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے برتر مخلوق ہیں۔ فریقین کی اس خوش فہمی سے وہ آپس میں گھل مل کر نہیں بیٹھتے۔ سوشل انٹرکورس ایک حد سے زیادہ نہیں بڑھ پاتا۔ اب مجھے گھوڑے اچھے نہیں لگتے۔ گھوڑے بھی اپنی جگہ میری طرف یہی جذبۂ کدورت رکھتے ہیں اور جب میں نے ایک دو بار بے دلی سے ان پر بیٹھنا گوارا کیا، انھوں نے مجھے اپنی پیٹھ پر سے سرکانے کی بھرپور کوشش کی۔ اب اگر میری گھوڑے کی طرح دُم ہوتی تو حالات مختلف ہوتے۔ ہم ایک دوسرے کے ہم دم اور جگری یار بن جاتے۔ گھوڑے مجھے دیکھ کر خوشی سے ہنہناتے اور میرے ان کی پیٹھ پر بیٹھنے پر معترض نہ ہوتے۔ اسی طرح میرا ایک السیشیئن کتا ہے، ایک آشفتہ مزاج، سنکی حیوان۔ جب سے میں نے اس کی چند عادات کی وجہ سے بید سے اس کی پٹائی کی، اس نے مجھ سے روگردانی کرلی ہے اور میری صحبت پر اپنے ہمجولی کتوں کی صحبت کو ترجیح دیتا ہے (اپنی بڑھیا نسل کے باوجود)۔ اگر میری اس کی طرح دُم ہوتی تو مجھے یقین ہے ہم اکٹھے چوکڑیاں بھرتے اور جھوٹ موٹ کشتی کے دائو پیچ آزماتے۔ شیر کو آدمی دُم نہ ہونے کی وجہ سے ایک آنکھ نہیں بھاتا اور میرے شکاری دوست رائو تہوّر علی خاں کا کہنا ہے کہ دو شیروں نے سندر بن میں ان کو کھانے کے ارادے سے ان کا پیچھا کیا۔ ہاتھی — چلو چھوڑو … کہاں تک مثالیں دی جائیں۔ لیکن سوچو، اگر حیوانات اور انسان شیر و شکر ہوسکتے اور بے تکلفی سے مل بیٹھتے تو زندگی کتنی خوشگوار اور بامعنی ہوجاتی۔ اس وقت اس ملک میں ٹیلیویژن کی لگاتار موعظت کے باوجود زندگی اس لیے بے معنی ہے کہ ہم حیوانات سے دل نہیں بہلا سکتے۔ بہلائیں کیسے؟ ان کی دُمیں موجود ہیں اور ہم اس نعمت سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
میں اس مضمون میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ عاقلاں را اشارہ کافی است۔ اب جبکہ سب فیشن اور کرتب آدمی کی بدنی اور روحانی اصلاح کے لیے برتے جا چکے ہیں تو تمھارا ایک مصنوعی دُم لگانے کے متعلق کیا خیال ہے؟ یہ دُم پلاسٹک اور ربڑ کی مختلف ڈیزائنوں اور رنگوں میں آسانی سے تیار ہوسکتی ہے۔ خود سوچو— جینے میں کتنا مزہ آئے گا۔ دائمی مسرت اور سیٹیاں بجانے کا راز صرف ایک دُم میں پنہاں ہے۔
اوپر میں نے ادب اور آرٹ کا ذکر کیا ہے جس پر بہت سے لوگ اُدھار کھائے ہوئے ہیں۔ وہ اس کے علاوہ کوئی اَور بات نہیں کرتے اور خواہ مخواہ اپنے اپنے نظریے کو جان سے لگائے ایک دوسرے کے منھ کو آتے ہیں۔ حیوانات، چرند پرند کو، جہاں تک میں جانتا ہوں، ادب اور آرٹ سے کوئی لگائو نہیں۔ ان کے لیے ’ادب اور آرٹ‘ فطرت کی رنگینیاں، نیلے آسمان تلے اڑانیں اور جھاڑیوں میں نغمہ سرائیاں ہیں۔ کسی صبح سامنے باغ میں بلبل کی ’جگ ترو ترو… جگ ترو ترو‘ کی الاپ تمھارے کسی پروفیسر یا ڈاکٹر کے ٹھوس ادبی مقالے سے بہتر ہے۔ یہ بیتھوون کی سمفنی سے بہتر ہے اور روح کو اس طرح ابھارتی ہے جس طور بیتھوون کی سمفنی نہیں ابھار سکتی۔ ہاں ادب اور آرٹ! میں نے آج ایک مشہور خاتون کا افسانہ پڑھا۔ اگر انسانوں کی دُمیں ہوتیں تو وہ افسانہ کچھ اس طرح ہوتا :
فریحہ نے نہا دھوکر اپنے بال سنوارے، لپ سٹک لگائی، دُم پر برش پھیرا اور تیار ہوکر ڈرائنگ روم کے صوفے پر بیٹھ کر انیل بھائی کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ انیل بھائی صبح کی پرواز سے نیو یارک سے آرہے تھے اور فریحہ کے والد، جو انیل کے چچا تھے، اپنی ٹویوٹا میں انھیں لینے گئے تھے۔ چچی (انیل کی چچی) نہیں جاسکتی تھیں کیونکہ ان کی دُم کا پچھلا حصہ تیل کے چولھے پر کھانا گرم کرتے وقت جل گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اس پر برنال کا لیپ کرکے دُم کو مکمل آرام دینے کی ہدایت کی تھی ۔
حویلی کے باہر فریحہ کے ابا کی کار کا ہارن بجا اور چند منٹ بعد اس کے ابا اور انیل اندر ڈرائنگ روم میں داخل ہوے۔ انیل بھائی کتنے بدلے ہوئے تھے۔ مریل، دبلے پتلے لڑکے کی جگہ، جس کی ناک ہمیشہ بہتی رہتی تھی اور دُم بے سدھ لٹکی رہتی تھی ، فریحہ کے سامنے ایک وجیہہ، ہینڈسم، جامہ زیب نوجوان کھڑا تھا… انیل، فریحہ نے سوچا، اپنے نسواری، ڈبل بریسٹ سوٹ میں کتنے سمارٹ لگ رہے تھے اور ان کی دُم کتنی شاندار ہوگئی تھی— خود اعتمادی سے اینٹھتی ہوئی اور مسرت سے جھومتی ہوئی۔
’واٹ اے چینج!‘ فریحہ نے سوچا۔
فریحہ نے شرما کر دم کی جھالر کو سمیٹتے ہوے انیل کو آداب کہا۔ پھر انیل — اس کے انیل— اس کے ساتھ صوفے پر آ بیٹھے اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ اس کے ڈیڈی انھیں چھوڑ کر ماما کو دیکھنے چلے گئے جن کے کراہنے کی آوازیں ڈرائنگ روم میں آرہی تھیں۔ فریحہ نے شرما کر پوچھا، ’’انیل بھائی، کافی پییںگے یا چائے؟‘‘ انیل بھائی بولے، ’’بھئی کافی پلوادو۔ گرما گرم، اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی…‘‘
’’ابھی لے کر آتی ہوں انیل بھائی۔ آپ چھیڑ خانی سے باز نہیں آتے…‘‘
وہ اٹھنے لگی تو اسے محسوس ہوا کہ اس کی دُم انیل بھائی کے نیچے آگئی تھی۔ اب وہ کس منھ سے کہے کہ انیل بھائی اٹھیے، میری دُم چھوڑیے۔ پھر وہ سوچنے لگی کہ کیا انیل بھائی جان بوجھ کر اس پر بیٹھے ہوں گے؟ اور یہ خیال آتے ہی اس کاحسین چہرہ تمتما اٹھا۔ فریحہ کی دُم انیل کے نیچے کسمسانے لگی جس سے انیل بھائی کو، جنھوں نے اپنی دُم صوفے کے پیچھے نلکی میں سنبھال لی تھی، احساس ہوا کہ فریحہ کی دُم ان کے نیچے آگئی تھی…
مگر مشہور خاتون افسانہ نگار کا افسانہ بے حد لمبا ہے۔
یہ صورت تو افسانوں اور ناولوں کی ہوئی۔ شاعری میں میر، غالب، علامہ اقبال، جوش، فیض اور ندیم دُم کی کیفیات کو کن کن پیرایوں سے باندھتے، تم اس کا تصور کر سکتے ہو۔
دیکھا، ادب و آرٹ اب سے کتنے مختلف ہوتے !