Laaltain

علامات اور نشانیاں

6 اکتوبر، 2025

ولادیمیر نابوکوف
انگریزی سے ترجمہ: ندیم اقبال

ولادیمیر نابوکوف کی یہ کہانی آج کے شمارہ 126 میں شامل ہے، خریدنے کے لیے اس نمبر پر وٹس ایپ کیجیے: 03003451649

ولادیمیر نابوکوف کی یہ کہانی آج کے شمارہ 126 میں شامل ہے، خریدنے کے لیے اس نمبر پر وٹس ایپ کیجیے: 03003451649

گزشتہ چار برسوں میں اب چوتھی مرتبہ انھیں وہی مسئلہ درپیش تھا کہ ایک ایسے نوجوان کے لیے سالگرہ کا کون سا تحفہ لے کر جایا جائے جو ناقابلِ علاج حد تک مخبوط الحواس یا پاگل ہو چکا تھا۔ اسے کسی قسم کی کوئی خواہشات نہ تھیں۔ انسانی ہاتھ سے بنائی ہوئی اشیا اس کے لیے یا تو بدی کے چھتے جیسی تھیں اور ایسی ہلاکت خیز سرگرمی سے لرزاں اور فعال تھیں جسے صرف وہی محسوس کر سکتا تھا، یا پھر مجموعی انسانی زندگی کی ایسی کثیف آسائشیں تھیں جن کا اس کی مجرّد زندگی میں کوئی مصرف نہ تھا۔ ایسی بےشمار اشیا کو مسترد کرنے کے بعد، جو اُسے ناراض یا دہشت زدہ کر سکتی تھیں (مثلاً کل پُرزوں یا چابی سے چلنے والی کوئی بھی شے ممنوع تھی)، اس کے والدین نے لذیذ اور تازہ پھلوں کے مربے کا انتخاب کیا۔ دس مختلف پھلوں کے یہ مربے، دس چھوٹے چھوٹے خوبصورت مرتبانوں میں بند، ایک نفیس سی ٹوکری میں رکھے ہوے تھے۔

اس کی پیدائش کے وقت تک ان کی شادی کو ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا اور اب وہ کافی بوڑھے ہو چکے تھے۔ خاتون کے رُوکھے مٹیالے بال لاپروائی سے ایک جوڑے میں باندھے گئے تھے۔ وہ سیاہ رنگ کے سستے ترین لباس پہنا کرتی تھی۔ اپنی ہم عمر عورتوں کے برعکس (مثلاً مسز سول، ان کے سامنے والی پڑوسن، کا چہرہ میک اپ سے ہر وقت گلابی اور ارغوانی رہا کرتا تھا اور جس کے ہیٹ پر مصنوعی پھولوں کا ایک گچھا سجا رہتا تھا) اس کا سفید برفیلا چہرہ، موسمِ بہار کی عیب جُو روشنی میں بالکل سپاٹ اور پھیکا دکھائی دیتا تھا۔ اس کا شوہر، جو اپنے پرانے ملک میں ایک کامیاب کاروباری شخص تھا، اب یہاں نیویارک میں مکمل طور پر اپنے بھائی اضحاک کے سہارے زندگی گزار رہا تھا جو چالیس برس کے عرصے میں اب ایک حقیقی امریکن بن چکا تھا۔ اضحاک سے ان کی ملاقات شاذ و نادر ہی ہوا کرتی تھی اور انھوں نے اس کا نام شہزادہ رکھ چھوڑا تھا۔

اس جمعے کو، جو اُن کے بیٹے کی سالگرہ کا دن تھا، ہر چیز غلط ہوتی چلی گئی۔ سب وے ٹرین میں دو سٹیشنوں کے درمیان خرابی پیدا ہو گئی اور اگلے پندرہ منٹ تک انھیں سواے اپنے تابعدار دل کی دھڑکنوں اور اخبارات کے صفحات پلٹنے کی آوازوں کے، کوئی اَور آواز سنائی نہ دی۔ ٹرین سے اتر کر انھیں جس بس میں سوار ہونا تھا، اس کے آنے میں تاخیر ہو گئی اور انھیں کافی وقت تک ایک گلی کے کونے پر اس بس کا انتظار کرنا پڑا اور بالآخر جب وہ بس آئی تو ہائی سکول کے باتونی بچوں سے ٹھساٹھس بھری ہوئی تھی۔ جب انھوں نے اس بھورے مٹیالے راستے پر چلنا شروع کیا جو ذہنی صحت کے ہسپتال کی طرف جاتا تھا تو بارش شروع ہو گئی۔ وہاں پہنچ کر انھیں مزید انتظار کرنا پڑا اور ان کے بیٹے کے بجاے (جو عموماً تیز تیز چلتا ہوا کمرے میں داخل ہوتا تھا، بڑھی ہوئی شیو، پریشاں حال، مہاسوں اور پھنسیوں بھرے چہرے پر خفگی اور آزردگی کا تاثر لیے) ایک نرس داخل ہوئی جسے وہ دونوں جانتے تھے مگر کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے، اور چمکتے چہرے کے ساتھ انھیں بتایا کہ ان کے بیٹے نے ایک مرتبہ پھر اپنی جان لینے کی کوشش کی ہے۔ ویسے وہ ٹھیک تھا، اس نے مزید بتایا، مگر والدین سے ملاقات شاید اس کے ذہنی اختلال میں اضافہ کر کے مزید مضطرب کر دے گی۔ وہ جگہ ویسے بھی شکستہ حال اور ذلت آمیز حد تک عملے کی کمی کا شکار تھی اور وہاں چیزوں کو کبھی غلط جگہ رکھ کر بھول جانا اور کبھی بری طرح گڈمڈ کر دینا عام سی بات تھی، لہٰذا انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا تحفہ وہاں دفتر میں نہیں چھوڑیں گے بلکہ اگلی مرتبہ اس سے ملاقات کے لیے آتے ہوے اپنے ساتھ لیتے آئیں گے۔

عمارت سے باہر نکل کر عورت نے پہلے انتظار کیا کہ اس کا شوہر اپنی چھتری کھول لے، اور پھر اس کا بازو تھام لیا۔ وہ بار بار کھنکھار کر اپنا گلا صاف کر رہا تھا۔ وہ ایسا اُس وقت کیا کرتا تھا جب وہ پریشان ہوتا تھا۔ وہ دونوں سڑک کی دوسری جانب بنے ہوے بس اسٹاپ کی چھت کے نیچے آکھڑے ہوے اور اس کے شوہر نے اپنی چھتری بند کر لی۔

چند قدم دور ہوا میں لہراتے اور پانی ٹپکتے ہوے ایک درخت کے نیچے، ایک ننھا سا، بے پروبال پرندہ، پانی کے ایک چھوٹے سے گڑھے میں بےبسی سے پھنسا ہوا پھڑپھڑاتے ہوے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بس سے سب سٹیشن تک کے لمبے سفر کے دوران اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا۔ ہر مرتبہ جب بھی اس کی نظر اس کے سِن رسیدہ ہاتھوں پر پڑتی جو چھتری کے دستے کو گرفت میں لیے اینٹھے ہوے تھے، اور ان کی پھولی ہوئی رگیں اور جلد پر پڑے بھورے دھبے نظر آتے تو اسے اپنے آنسو روکنا مشکل ہو جاتا تھا۔ جب اس نے اپنے ذہن کو کسی اَور خیال میں لگانے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھا تو اسے یہ دیکھ کر ایسا صدمہ ہوا جس میں رحم، ترس، دردمندی اور حیرت کی آمیزش تھی کہ ایک مسافر لڑکی جس کے بال گہرےکتھئی تھے اور پیروں کے سرخ ناخن انتہائی غلیظ تھے، ایک عمررسیدہ عورت کے کاندھے پر سر رکھے رو رہی تھی۔ اس بوڑھی عورت کی شکل کس سے مشابہ تھی؟ اس کی شکل ربیکا بوری سوونا سے ملتی تھی جس کی بیٹی نے برسوں پہلے، مِنسک میں، سولوویشک خاندان کے ایک فرد سے شادی کرلی تھی۔

پچھلی مرتبہ جب اس لڑکے نے یہ کوشش کی تھی تو، ڈاکٹر کے بقول، اس نے جو طریقہ اختیار کیا تھا وہ قوتِ اختراع کا ایک شاہکار تھا۔ وہ تو کامیاب بھی ہو گیا ہوتا اگر ایک حاسد مریض نے یہ نہ سوچا ہوتا کہ وہ اُڑنا سیکھ رہا ہے، اور بروقت اسے پکڑ کر روک نہ لیا ہوتا۔ دراصل وہ اپنی دنیا میں ایک شگاف پیدا کر کے فرار ہونا چاہتا تھا۔ اس کے فریبِ خیال اور فکری مغالطوں کا پورا ایک نظام تھا جو ایک ماہانہ سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے تفصیلی مضمون کا موضوع بھی رہا تھا اور جو ذہنی صحت کے اس ہسپتال کے ڈاکٹر نے اُن دونوں کو پڑھنے کے لیے بھی دیا تھا، لیکن وہ اور اس کا شوہر، بہت عرصہ پہلے ہی، گہرے سوچ بچار کے بعد، اپنی حد تک، اسے سمجھ چکے تھے۔ اس مضمون کا عنوان ’ایک سے زائد حوالہ جات والا مالیخولیا‘ تھا۔ اس انتہائی غیرمعمولی مرض میں مریض یہ تصور کر لیتا ہے کہ اس کے گرد رونما ہونے والی ہر بات مخفی طور پر اس کے وجود اور شخصیت سے متعلق ہے۔ وہ حقیقی لوگوں کو تو اس سازش سے خارج کر دیتا ہے کیونکہ وہ خود کو دیگر لوگوں سے بےپناہ ذہین سمجھتا ہے؛ وہ جہاں جہاں جاتا ہے مظاہرِ قدرت سایہ بن کر اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ گھورتے ہوے آسمان پر چھائے بادل، سست رو نشانیوں کے ذریعے، ایک دوسرے کو اس کے متعلق ناقابلِ یقین حد تک تفصیلی معلومات بھیجتے ہیں۔ شام ڈھلے، درخت، سادہ ترین حروفِ تہجی میں، پُراسرار اشاروں یا حرکات کے ذریعے اس کے عمیق ترین خیالات پر گفتگو کرتے ہیں۔ بلور، داغ دھبے اور سورج کی کرنیں ایسے نقش بناتی ہیں جو انتہائی ہولناک ہوتے ہیں، اور ان نقوش میں ایسے پیغامات مخفی ہوتے ہیں جنھیں اسے لازماً ایک خفیہ عبارت میں پڑھنا اور سمجھنا ہوتا ہے۔ ہر شے ایک رمز ہے اور ہر شے کا موضوع اس کی ذات ہے۔

اس کے اردگرد ہر جگہ جاسوس پھیلے ہوے ہیں جن میں سے کچھ تو صرف غیرمتعلق نگران ہیں، مثلاً شیشے کی اشیا کی سطحیں اور ساکن تالاب، جبکہ دوسرے، جیسے دکانوں میں لٹکے کوٹ، متعصب اور بدظن، نظر رکھنے والے ہیں جو دلی طور پر اسے جان سے مارنا چاہتے ہیں۔ کئی اَور، مثلاً بہتا پانی، طوفانِ باد و باراں وغیرہ، پاگل پن کی حد تک ہسٹیریا کا شکار ہیں اور اس کے متعلق ایک انتہائی مسخ شدہ رائے رکھتے ہیں اور مضحکہ خیز حد تک اس کی سرگرمیوں کی تشریح اور توضیح کرتے رہتے ہیں۔ اسے ہمیشہ چوکنا رہنا ہو گا اور اپنی زندگی کے ہر لمحے اور ہر دور میں اشیا کی لہردار حرکتوں میں مخفی خفیہ پیغامات کو پڑھنا ہو گا۔ وہ ہوا جو وہ سانس کے ذریعے اپنے بدن میں لیتا ہے وہ تک نشان زد ہوتی ہے اور درجہ بندی کرکے محفوظ کر دی جاتی ہے۔ اگر تو یہ تمام تر اشتیاق اور تعلق اس کے گِردوپیش تک ہی محدود رہتے تو کوئی بات نہ تھی مگر غم تو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے! ہر بڑھتے فاصلے کے ساتھ ساتھ، وحشیانہ بدنامی اور رسوائی کے تیز رو دھارے اپنے حجم، مقدار اور طرّاری میں بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اس کے خون کے خلیوں کے تاریک سائے، جو اپنے ناپ سے لاکھوں گنا بڑے کر دیے جاتے ہیں، بڑے بڑے میدانوں میں اُڑتے پھرتے ہیں اور ان سے بہت پرے سنگِ خارا کی سی سختی، مضبوطی اور اونچائی والے پہاڑ اور کراہتے ہوے صنوبر کے اونچے درخت، باہم مل کر اس کے وجود کی مطلق سچائی کو بیان کرتے ہیں۔

……….

جب وہ سب وے کی گڑگڑاہٹ اور بدبودار فضا سے باہر آئے تو دن کی آخری تلچھٹ سڑک کی روشنیوں سے گڈمڈ ہو رہی تھی۔ وہ رات کے کھانے کے لیے مچھلی خریدنا چاہتی تھی لہٰذا اس نے مربے کے مرتبانوں والی ٹوکری شوہر کے حوالے کی اور اسے گھر جانے کے لیے کہا۔ جب وہ اپنے کرائے پر لیے گھر پہنچا اور تیسری منزل کی سیڑھیاں چڑھ کر اپنے دروازے کے سامنے پہنچا تو اسے یاد آیا کہ چابیاں تو وہ دن میں کسی وقت بیوی کو دے چکا تھا۔ وہ خاموشی سے سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور خاموشی ہی سے اُس وقت اٹھ کھڑا ہوا جب دس منٹ کے بعد اس کی بیوی بہ دقّت سیڑھیاں چڑھتی اوپر پہنچی۔ وہ پژمردگی سے مسکرا رہی تھی اور اپنی بےوقوفی پر خود کو ملامت کرتے ہوے تاسّف سے سر ہلا رہی تھی۔ وہ دونوں اپنے دو کمروں کے فلیٹ میں داخل ہوے۔ وہ فوراً آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ دونوں انگوٹھوں کی مدد سے، اپنے منھ کو زور لگا کر کھولتے اور ایک مضحکہ خیز شکل بناتے ہوے اس نے اپنی مایوسانہ حد تک تکلیف دہ مصنوعی بتیسی باہر نکالی۔ جب تک عورت نے میز پر کھانا لگایا، وہ اپنا روسی زبان کا اخبار پڑھتا رہا۔ یونہی اخبار پڑھتے ہوے وہ پتلا دلیہ بھی کھاتا رہا جس کے لیے دانتوں کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ وہ اس کی مزاج آشنا تھی اس لیے خاموش رہی۔

جب وہ سونے کے لیے چلا گیا تب بھی وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھی رہی اور میلی کچیلی تاش کی گڈیاں اور پرانے فوٹوؤں کے البم دیکھتی رہی۔ عمارت کے احاطے کے اُس پار جہاں بارش کی بوندیں دھات پر گر کر ٹن ٹن کی آواز پیدا کر رہی تھیں، کھڑکیاں خوب روشن تھیں اور ایک کھڑکی سے ایک شخص سیاہ پتلون پہنے، دونوں ہاتھ سر کے نیچے باندھے، کہنیاں اٹھائے، کمر کے بل ایک بےترتیب بستر پر لیٹا، دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے پردہ برابر کر دیا اور تصویروں کا معائنہ شروع کیا۔ اس کا بیٹا، نوزائیدہ، دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ حیران دکھائی دے رہا تھا۔ اچانک ایک تصویر البم سے باہر گر پڑی جو اس جرمن خادمہ اور اس کے پھولے پھولے گالوں والے منگیتر کی تھی جو لیپزگ میں ان کے گھر ملازم تھی۔ وہ البم کے صفحات پلٹتی چلی گئی: مِنسک، انقلاب، لیپزِگ، برلن، دوبارہ لیپزگ، ایک ڈھلوان چھت والے مکان کا اگلا حصہ، بری طرح دھندلائی ہوئی تصویر۔

روسی نژاد امریکی ادیب ولادیمیر نابوکوف زبان، یادداشت، اور احساسات کی باریکیوں کو غیر معمولی مہارت سے فکشن میں برتنے کے لیے مشہور ہیں۔

اس تصویر میں لڑکا، جب اس کی عمر چار برس تھی، شرمیلے انداز میں، پیشانی پر شکنیں، ایک جوشیلی گلہری سے نظریں چُراتے ہوے، جیسا کہ وہ کسی بھی اجنبی سے ملتے ہوے کیا کرتا تھا۔ یہ تصویر آنٹی روزا کی، ہر بات میں مین میخ نکالنے والی، استخوانی چہرے اور غصیلی آنکھوں والی عمررسیدہ عورت جو بُری خبروں، دیوالیہ پن، ٹرین کے حادثات اور سرطان کی رسولی کے خوف و اضطراب سے تھرتھراتی ایک دنیا میں اس وقت تک زندہ رہی جب تک کہ جرمنوں نے اسے ان تمام لوگوں سمیت، جن کی اسے ہمیشہ فکر رہا کرتی تھی، موت کے گھاٹ نہ اتار دیا۔ لڑکا، عمر چھ سال، یہ اُس وقت کی تصویر ہے جب وہ انسانی ہاتھ پاؤں رکھنے والے پرندوں کی حیرت انگیز تصویریں بنایا کرتا تھا اور کسی عمررسیدہ شخص کی طرح نیند نہ آنے کی بیماری کا شکار تھا۔ یہ اس کا کزن ہے جو اَب شطرنج کا ایک مشہور کھلاڑی ہے۔ ایک اَور تصویر، لڑکے کی عمر آٹھ برس، یہ وہ وقت تھا جب اسے سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ وہ دیوار پر چسپاں نقشیں کاغذوں اور ایک کتاب میں ایک خاص تصویر سے خوفزدہ ہو جاتا تھا جس میں صرف ایک دیہی منظر میں ایک چھوٹی پہاڑی، چند چٹانیں اور ایک ٹُنڈمُنڈ درخت پر لٹکا بیل گاڑی کا ایک پہیہ دکھایا گیا تھا۔ ایک اَور تصویر، جب وہ دس برس کا تھا، جس برس انھوں نے یورپ چھوڑا تھا۔ عورت کو اس سفر کی خِجالت، خواری، ندامت، ترس، تاسف اور ذلت بھری دشواریاں بھی یاد تھیں اور وہ گھٹیا، پست، کندذہن اور کمینے بچے بھی یاد تھے جن کے ساتھ لڑکے کو امریکہ میں آمد کے بعد ایک خصوصی سکول میں رکھا گیا تھا، اور پھر اس کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب نمونیا کے بعد ہونے والی ایک طویل صحت یابی کے دوران، اس کے وہ غیرمنطقی اور حد سے بڑھے ہوے خوف اور اوہام — جنھیں اس کے والدین نے سختی سے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ ایک خداداد قابلیت کے حامل، انتہائی ذہین بچے کا ایک غیرمعمولی، حیرت انگیز اور نرالا، عمومی کردار سے مختلف ایک تلوّن ہے — شدت اختیار کرتے چلے گئے اور ایسی ٹھوس پیچیدہ گتھیوں میں الجھتے اور باہمی مربوط التباسات اور فریبِ نظر میں ڈھلتے چلے گئے جو اپنی اس صورت میں عام اذہان کی سمجھ سے ماورا تھے۔

عورت یہ سب کچھ، اور اس سے بھی سوا جو کچھ ہوا، قبول کرتی چلی گئی کیونکہ بہرحال زندہ رہنے کا مطلب ایک کے بعد ایک خوشی، مسرت اور شادمانی سے محروم ہوتے چلے جانا اور نقصان کو برداشت کیے جانا بھی ہے؛ بلکہ اس کے معاملے میں تو کوئی خوشی ہی نہیں تھی ، فقط ممکنہ طور پر کسی بہتری کے امکانات کی امید ہی رہی تھی۔ اس نے بار بار پلٹ کر آنے والی درد کی ان لہروں کو یاد کیا جو اس نے اور اس کے شوہر نے کسی نہ کسی طور پر برداشت کی تھیں۔ اس نے ان غیرمرئی عفریتوں کے بارے میں سوچا جو اُن کے بیٹے کو ناقابلِ تصور انداز سے ذہنی اور جسمانی ایذا پہنچا رہے تھے، دنیا میں موجود ناقابلِ پیمائش محبت اور نرم دلی کو یاد کیا، اس رحم دلی کی تقدیر کو یاد کیا جسے یا تو کچل دیا جاتا ہے، ضائع کر دیا جاتا ہے یا پھر دیوانگی اور پاگل پن کا روپ دے دیا جاتا ہے، ان نظرانداز کردہ بچوں کو یاد کیا جو غلیظ کونے کھدروں میں چھپے اپنے آپ سے باتیں کرتے اور منمناتے رہتے ہیں، ان خوبصورت، خودرو جڑی بوٹیوں کو یاد کیا جو کسان کی نگاہ سے چھپ نہیں سکتی ہیں۔

…………

آدھی رات گزر چکی تھی جب اسے خواب گاہ سے اپنے شوہر کے کراہنے کی آواز سنائی دی اور پھر فوراًٰ ہی وہ ڈگمگاتا ہوا نشست گاہ میں داخل ہوا۔ اس نے اپنے شب خوابی کے گاؤن کے اوپر وہ پرانا اوورکوٹ پہن رکھا تھا جس کا کالر استراخانی اُون سے بنا ہوا تھا اور جو اسے اپنے نیلے رنگ کے عمدہ جامۂ غسل سے بھی زیادہ بڑا تھا۔

’’مجھے نیند نہیں آرہی ہے،‘‘ وہ چلّایا۔
’’تمھیں نیند کیوں نہیں آ رہی؟‘‘ عورت نے پوچھا۔ ’’تم تو اس قدر تھکے ہوے تھے۔‘‘
’’مجھے نیند اس لیے نہیں آ رہی کہ میں مرنے والا ہوں،‘‘ اس نے کہا اور کاؤچ پر لیٹ گیا۔
’’کیا تمھارے معدے میں درد ہے؟ کیا میں ڈاکٹر سولوو کو فون کروں؟‘‘
’’کوئی ڈاکٹر نہیں چاہیے،‘‘ وہ کراہا۔ ’’لعنت ہو ان ڈاکٹروں پر!‘‘
’’ہمیں فوراً اسے وہاں سے نکال لینا چاہیے، ورنہ ہم ذمےدار ہوں گے۔۔۔۔ ہم ذمےدار ہوں گے!‘‘ اس نے ہمت کی، اٹھ کر بیٹھ گیا اور دونوں پاؤں فرش پر رکھے، بند مٹھیوں سے اپنی پیشانی پر ضرب لگانے لگا۔
’’ٹھیک ہے،‘‘ وہ آہستگی سے بولی۔ ’’ہم کل صبح اسے گھر لے آئیں گے۔‘‘
’’مجھے چائے مل جائے تو کیا ہی بات ہے،‘‘ اس کے شوہر نے کہا اور غسل خانے چلا گیا۔ عورت نے دشواری سے جھکتے ہوے تاش کے کچھ پتّے اور فرش پر گری ہوئی دو تین تصویریں اٹھائیں… حکم کا غلام، حکم کا اِکّا، خادمہ ایلسا اور اس کا بدکار معشوق۔

وہ غسل خانے سے واپس آیا تو ہشاش بشاش تھا۔ وہ بلند آواز میں کہنے لگا، ’’میں نے اس مسئلے کا حل سوچ لیا ہے۔ ہم اسے خواب گاہ والا بستر دے دیں گے اور دونوں باری باری رات کا کچھ حصہ اس کے پاس گزاریں گے اور بقیہ وقت اس کاؤچ پر گزار لیں گے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ڈاکٹر ہفتے میں کم از کم دو مرتبہ اس کا معائنہ کرے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شہزادہ کیا کہتا ہے؛ ویسے بھی اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں ہو گا، کیونکہ یہ سب ہمیں ویسے بھی سستا پڑے گا۔‘‘
فون کی گھنٹی بجی۔ یہ فون کی گھنٹی بجنے کا ایک غیرمعمولی وقت تھا۔ وہ کمرے کے وسط میں کھڑا اس چپل میں پیر ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا جو پاؤں سے نکل گئی تھی اور دانت نہ ہونے کے باعث، بچکانہ انداز میں منھ کھولے، بیوی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ چونکہ اس سے زیادہ انگریزی جانتی تھی لہٰذا فون کا جواب بھی ہمیشہ وہی دیا کرتی تھی۔

’’کیا میں چارلی سے بات کر سکتی ہوں؟‘‘ ایک لڑکی کی بیزار کن آواز سنائی دی۔
’’تم نے کس نمبر پر فون کیا ہے؟… تم نے غلط نمبر پر فون کیا ہے۔‘‘
اس نے آہستگی سے فون کریڈل پر واپس رکھ دیا اور ایک ہاتھ اپنے دل پر رکھ لیا۔

’’اس فون نے تو میری جان ہی نکال لی تھی!‘‘ وہ ذرا سا مسکرایا اور پھر اپنی جوشیلی خودکلامی دوبارہ شروع کر دی۔ دن نکلتے ہی وہ دونوں اسے گھر لے آئیں گے۔ اس کی ذاتی حفاظت کی خاطر، وہ گھر کے تمام چاقو چھریاں ایک دراز میں تالا لگا کر رکھیں گے۔ اپنی بدترین کیفیت میں بھی دوسروں کو اس سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔
فون کی گھنٹی دوسری مرتبہ بجی۔

وہی بےکیف آواز چارلی کا پوچھ رہی تھی۔

’’تم غلط نمبر پر فون کر رہی ہو۔ میں بتاتی ہوں تم کیا کر رہی ہو۔ تم شاید زیرو کے بجاے ’او‘ کا حرف ڈائل کر رہی ہو۔‘‘ اس نے فون دوبارہ کریڈل پر رکھ دیا۔

وہ نصف شب کو اپنی غیرمتوقع اور دعوت جیسی چائے پینے لگے۔ وہ زور زور سے آواز نکالتے ہوے چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ تھا۔ وہ رہ رہ کر اپنا گلاس ہوا میں بلند کرتا اور اسے ایک دائرے میں گردش دیتا تاکہ شکر خوب اچھی طرح حل ہو جائے۔ اس کے گنجے سر کے ایک جانب ایک پھولی ہوئی رگ بہت نمایاں نظر آ رہی تھی اور ٹھوڑی پر سفید کھونٹیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ سالگرہ کا تحفہ میز پر رکھا ہوا تھا۔ جب عورت نے دوسری مرتبہ اس کے گلاس میں چائے انڈیلی تو مرد نے عینک لگائی اور مسرت اور انبساط سے ایک بار پھر اُن چمکیلے، زرد، سبز اور سرخ رنگ کے مرتبانوں کا جائزہ لیا۔ اس کے بےڈول اور مرطوب ہونٹ ان مرتبانوں پر لکھی خوشنما عبارت پڑھنے لگے۔ خوبانی، انگور، آلو بخارا، سنگترہ… ابھی وہ جنگلی سیب تک ہی پہنچا تھا کہ فون ایک بار پھر بج اٹھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *