Laaltain

میں خوف زدہ رہتا ہوں اور دیگر نظمیں

10 اگست، 2025

میں خوف زدہ رہتا ہوں

میں خوف زدہ رہتا ہوں
اچانک ہونے والی دستکوں
اور اچانک سے کھلتے بند ہوتے دروازوں کی چرچراہٹ سے
دروازوں کے دوسری جانب موجود پرچھائیں سے
جو خواب تک میرا پیچھا کرتی ہے
میں ایسے رہتا ہوں جیسے مجھے بولنا ہی نہ آتا ہو
زبان جیسے میں نے سیکھی ہی نہ ہو
جیسے مجھے سننے میں کوئی دلچسپی ہی نہ ہو

میں خوف زدہ رہتا ہوں
بیداری میں سنی ہوئی عورتوں اور بچوں کے رونے کی آوازوں سے
جو خواب تک میرے اندر بھٹکتی چلی آتی ہیں
اور میں ہزار چاہ کر بھی انہیں ان سنا نہیں کر پاتا
مجھے اپنی اداکاری پہ بھروسہ نہیں رہتا
خواب میں خود پہ کون بھروسہ کر سکتا ہے

میں خوف زدہ رہتا ہوں
بھاری بوٹوں کی چاپ سے
جو میرے باہر ہوتی ہے کبھی اندر
آنسوؤں سے
جو کبھی میرے باہر گرتے ہیں کبھی اندر
ان دو انتہاؤں کے درمیان بھاگتے ہوئے
میں آواز کو فنا کر دینا چاہتا ہوں
یہ جانتے ہوئے کہ آواز اس سے پہلے ہی
مجھے کچلتے ہوئے آگے بڑھ جائے گی !

محکوم زمین کی عورت کا گیت

میں نے زمین سے محبت کی
جب محبت کرنے کا اختیار مجھ سے چھین لیا گیا تھا
میں نے جبر کے منہ پہ تھوکا
جب وہ میرے چاروں سمت
اژدہوں کی طرح رینگ رہا تھا
میں نے آواز کو جنم دیا
جب خاموشی پاتال جننے میں مصروف تھی

میری جنمی ہوئی آواز
رات کی دیواروں میں رخنے کرتی ہے
خاموشی کی دہلیز پار کر کے
گلیوں میں نکل جاتی ہے
جہاں آتشیں اسلحہ تھامے ہاتھ
اسے روکنے کے لیے شور کرنے لگتے ہیں

میری جنمی ہوئی آواز
گلیوں گلیوں بہنے لگتی ہے
جیسے موسلا دھار بارش کا پانی

خوف زدہ سماعتیں مزید خوف زدہ ہو جاتی ہیں
اسلحہ تھامے ہاتھ لرزنے لگتے ہیں
رات اپنی تاریک موجودگی پہ تشکیک کا شکار ہو جاتی ہے

وہ لوگ آتے ہیں
مجھے آدھی رات کو زنجیر پہنانے کے لیے
زنجیر میرا زیور بنتے ہی
میری جنمی ہوئی آواز بن جاتی ہے
اس کی کڑیاں گہرے سناہٹے میں گونجتی ہیں
اتنا گونجتی ہیں کہ ان کی گونج سے
کر سماعتیں بھی سننے لگتی ہیں
کور آنکھیں بھی دیکھنے لگتی ہیں

وہ مجھے مارنے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں
اور میری آنکھ میں آئے چمکتے آنسو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں
وہ میرے جنمے ہوؤں کی آنکھوں پر پٹی باندھتے باندھتے کور ہو جاتے ہیں
وہ مجھے لے جاتے ہوئے بھول جاتے ہیں
آواز کسی طرح کی زنجیر میں نہیں الجھ سکتی
لیکن زنجیر آواز میں الجھ کر
بکھر جاتی ہے ان تمام سمتوں میں
جہاں جبر چپ چاپ سانپوں کی طرح رینگ رہا ہے
وہ نہیں جانتے ۔۔۔

ہمارے بیچ آزار رساں خاموشی ہے

ہمارے بیچ موجود لفظ
ایک بے نہایت التوا کا شکار ہوتے جا رہے ہیں
گلیوں سے اٹھتا ہوا شور
کانوں سے دل اور دل سے شریانوں میں اتر رہا ہے
ہماری اپنی خاموشی معدومیت سے خوف زدہ
اجڑے ہوئے باغ میں بیٹھی ہراساں کوئل
ہمارے درمیان موجود آواز معطل ہے
ان بے تحاشا الجھی ہوئی گلیوں میں
آنکھوں کا بے کنار الجھاؤ
چہرے کی بے اندازہ بے چینی
اور دل کی بے سکون خاموشی
وہ گھر تلاش کرنے میں ناکام ہیں
جہاں ہمارے درمیان پہلی آواز
پہلے لفظ
پہلی خاموشی نے جنم لیا

کبھی کبھی

ہم جن شہروں میں رہتے ہیں
ان کے طول و عرض میں ایک ان دیکھا جغرافیہ سانس لیتا ہے
جو ہماری سانسوں کے اتار چڑھاؤ میں دھڑکتے ہوئے
کبھی کبھی ہمیں خود سے غافل کر دیتا ہے
اور ہم سراسر اس جغرافیہ میں پنپتی کوئی سسکی
یا رستا ہوا کوئی زخم
یا چپ ہوتی ہوئی کوئی آواز رہ جاتے ہیں

One Response

  1. نظم “کبھی کبھی” میں شہر کے اندر ایک پوشیدہ، غیر مرئی جغرافیہ ہے جو ہماری سانسوں اور دھڑکنوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
    یہ جغرافیہ ہمیں ایک وقت میں جگہ بھی دیتا ہے اور ہم سے ہمارا وجود بھی چھین لیتا ہے — ہم بس ایک سسکی، ایک زخم، یا مٹتی ہوئی آواز بن کر رہ جاتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. نظم “کبھی کبھی” میں شہر کے اندر ایک پوشیدہ، غیر مرئی جغرافیہ ہے جو ہماری سانسوں اور دھڑکنوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
    یہ جغرافیہ ہمیں ایک وقت میں جگہ بھی دیتا ہے اور ہم سے ہمارا وجود بھی چھین لیتا ہے — ہم بس ایک سسکی، ایک زخم، یا مٹتی ہوئی آواز بن کر رہ جاتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *