میں خوف زدہ رہتا ہوں
میں خوف زدہ رہتا ہوں
اچانک ہونے والی دستکوں
اور اچانک سے کھلتے بند ہوتے دروازوں کی چرچراہٹ سے
دروازوں کے دوسری جانب موجود پرچھائیں سے
جو خواب تک میرا پیچھا کرتی ہے
میں ایسے رہتا ہوں جیسے مجھے بولنا ہی نہ آتا ہو
زبان جیسے میں نے سیکھی ہی نہ ہو
جیسے مجھے سننے میں کوئی دلچسپی ہی نہ ہو
میں خوف زدہ رہتا ہوں
بیداری میں سنی ہوئی عورتوں اور بچوں کے رونے کی آوازوں سے
جو خواب تک میرے اندر بھٹکتی چلی آتی ہیں
اور میں ہزار چاہ کر بھی انہیں ان سنا نہیں کر پاتا
مجھے اپنی اداکاری پہ بھروسہ نہیں رہتا
خواب میں خود پہ کون بھروسہ کر سکتا ہے
میں خوف زدہ رہتا ہوں
بھاری بوٹوں کی چاپ سے
جو میرے باہر ہوتی ہے کبھی اندر
آنسوؤں سے
جو کبھی میرے باہر گرتے ہیں کبھی اندر
ان دو انتہاؤں کے درمیان بھاگتے ہوئے
میں آواز کو فنا کر دینا چاہتا ہوں
یہ جانتے ہوئے کہ آواز اس سے پہلے ہی
مجھے کچلتے ہوئے آگے بڑھ جائے گی !
محکوم زمین کی عورت کا گیت
میں نے زمین سے محبت کی
جب محبت کرنے کا اختیار مجھ سے چھین لیا گیا تھا
میں نے جبر کے منہ پہ تھوکا
جب وہ میرے چاروں سمت
اژدہوں کی طرح رینگ رہا تھا
میں نے آواز کو جنم دیا
جب خاموشی پاتال جننے میں مصروف تھی
میری جنمی ہوئی آواز
رات کی دیواروں میں رخنے کرتی ہے
خاموشی کی دہلیز پار کر کے
گلیوں میں نکل جاتی ہے
جہاں آتشیں اسلحہ تھامے ہاتھ
اسے روکنے کے لیے شور کرنے لگتے ہیں
میری جنمی ہوئی آواز
گلیوں گلیوں بہنے لگتی ہے
جیسے موسلا دھار بارش کا پانی
خوف زدہ سماعتیں مزید خوف زدہ ہو جاتی ہیں
اسلحہ تھامے ہاتھ لرزنے لگتے ہیں
رات اپنی تاریک موجودگی پہ تشکیک کا شکار ہو جاتی ہے
وہ لوگ آتے ہیں
مجھے آدھی رات کو زنجیر پہنانے کے لیے
زنجیر میرا زیور بنتے ہی
میری جنمی ہوئی آواز بن جاتی ہے
اس کی کڑیاں گہرے سناہٹے میں گونجتی ہیں
اتنا گونجتی ہیں کہ ان کی گونج سے
کر سماعتیں بھی سننے لگتی ہیں
کور آنکھیں بھی دیکھنے لگتی ہیں
وہ مجھے مارنے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں
اور میری آنکھ میں آئے چمکتے آنسو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں
وہ میرے جنمے ہوؤں کی آنکھوں پر پٹی باندھتے باندھتے کور ہو جاتے ہیں
وہ مجھے لے جاتے ہوئے بھول جاتے ہیں
آواز کسی طرح کی زنجیر میں نہیں الجھ سکتی
لیکن زنجیر آواز میں الجھ کر
بکھر جاتی ہے ان تمام سمتوں میں
جہاں جبر چپ چاپ سانپوں کی طرح رینگ رہا ہے
وہ نہیں جانتے ۔۔۔
ہمارے بیچ آزار رساں خاموشی ہے
ہمارے بیچ موجود لفظ
ایک بے نہایت التوا کا شکار ہوتے جا رہے ہیں
گلیوں سے اٹھتا ہوا شور
کانوں سے دل اور دل سے شریانوں میں اتر رہا ہے
ہماری اپنی خاموشی معدومیت سے خوف زدہ
اجڑے ہوئے باغ میں بیٹھی ہراساں کوئل
ہمارے درمیان موجود آواز معطل ہے
ان بے تحاشا الجھی ہوئی گلیوں میں
آنکھوں کا بے کنار الجھاؤ
چہرے کی بے اندازہ بے چینی
اور دل کی بے سکون خاموشی
وہ گھر تلاش کرنے میں ناکام ہیں
جہاں ہمارے درمیان پہلی آواز
پہلے لفظ
پہلی خاموشی نے جنم لیا
کبھی کبھی
ہم جن شہروں میں رہتے ہیں
ان کے طول و عرض میں ایک ان دیکھا جغرافیہ سانس لیتا ہے
جو ہماری سانسوں کے اتار چڑھاؤ میں دھڑکتے ہوئے
کبھی کبھی ہمیں خود سے غافل کر دیتا ہے
اور ہم سراسر اس جغرافیہ میں پنپتی کوئی سسکی
یا رستا ہوا کوئی زخم
یا چپ ہوتی ہوئی کوئی آواز رہ جاتے ہیں
One Response
نظم “کبھی کبھی” میں شہر کے اندر ایک پوشیدہ، غیر مرئی جغرافیہ ہے جو ہماری سانسوں اور دھڑکنوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
یہ جغرافیہ ہمیں ایک وقت میں جگہ بھی دیتا ہے اور ہم سے ہمارا وجود بھی چھین لیتا ہے — ہم بس ایک سسکی، ایک زخم، یا مٹتی ہوئی آواز بن کر رہ جاتے ہیں