Laaltain

احمد محفوظ سے میرا رشتہ

22 فروری، 2018

اب سے تقریباً آٹھ یا نو برس پہلے کی بات ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میرے بڑے بھائی تصنیف نے ایک ادبی پروگرام منعقد کیا تھا۔ یہ پروگرام جامعہ کے نہرو آڈیٹوریم میں ہوا تھا اور اس میں تقریبا ً اسی یا نوے لوگوں نے شرکت کی ہوگی۔ اس پروگرام میں شرائن ایکشن گروپ آف ایجوکیشن کی جانب سے ایک چھوٹا سا مشاعرہ رکھا گیا تھا اور ایک پرچے کی شروعات کا اعلان بھی کیا گیا تھا جس کا نام پہل تھا۔ اس کو تصنیف ہی نکال رہے تھے۔ اس مشاعرے میں فرحت احساس، نعمان شوق، روف رضا اور کمال احمد صدیقی وغیرہ نے شرکت کی تھی اور ساتھ ہی جامعہ ملیہ کے چند اساتذہ نے بھی، جن میں شہپر رسول اور احمد محفوظ کے متعلق مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے اپنے اشعار سنائے تھے۔ تصنیف نے اس مشاعرے کے بعد اپنا پرچہ نہیں نکالا مگر اس مشاعرے کی یادیں چند تصویروں میں قید ہو کر کاغذ کے پردے پر محفوظ ہوگئیں، جن میں چند ایک اب بھی میری فیس بک آئی ڈی پر موجود ہیں۔ اس بات تذکرہ میں نے اس لیے کیا کیوں کہ اسی مشاعرے میں احمد محفوظ صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔ اس زمانے ہم لوگ بمبئی نئے نئے دہلی آئے تھے اور کچھ زیادہ لوگوں سے شناسائی بھی نہیں تھی۔ والد چونکہ ایک عرصے تک دلی میں رہ چکے تھے اور شاعر بھی تھے اس لیے ادبی اور علمی حلقوں میں ان کے جاننے والے تو موجود تھے مگر ہم دونوں بھائیوں کو کوئی نہیں جانتا تھا۔تصنیف میرے مقابلے ذرا زیادہ مشہور تھے کیوں کہ انہوں نے شاعری کا آغاز مجھ سے کافی پہلے کر دیا تھا ،لیکن مجھے تو اتنے بھی لوگ نہیں جانتے تھے جتنے کہ تصنیف کو ۔

بہر کیف ان دنوں ہم نے اپنے گھر پر اور اوکھلا کے مختلف مقامات پر کئی نشستوں کا انعقاد کیا اور کئی میں شرکت بھی کی۔ ایسی ہی مختلف نشستوں میں میری اتفاقیہ ملاقاتیں محفوظ بھائی سے ہوئیں۔ مثلاً جہاں ایک نوجوان شاعر کی حیثیت سے مجھے بلایا جاتا وہیں جوان یا کچھ حد تک کہنہ مشق شعرا میں محفوظ بھائی کا نام شامل ہوتا۔ محفوظ بھائی ان دنوں بھی جامعہ میں بحیثیت استاد اردو زبان اور ادب پڑھاتے تھے ،لیکن میرے لیے ان کا اتنا ہی تعارف کافی تھا کہ وہ ایک شاعر ہیں۔ دھیرے دھیرے محفوظ بھائی سے چند ایک مرتبہ الگ الگ پروگراموں میں گفتگو ہوئی جن میں محفوظ بھائی نے صرف رسمی باتیں کیں۔ ہمارے اشعار کی تعریف کی،حوصلہ افزائی کی اور اپنے مخصوص تبسم کے ساتھ شعر و ادب کے کاموں میں لگے رہنے پر مسرت کا اظہار کیا۔ یہ سلسلہ تقریبا ً تین برس تک یوں ہی چلا ، پھر تصنیف کی ان سے قربت زیادہ ہوگئی کہ یہ دونوں بعض اوقات میر و غالب پر یا شعر و شاعری کے دوسرے موضوعات پر بات کر لیا کرتے تھے۔میں ان دنوں ادیبوں سے زیادہ مولویوں سے گھرا رہتا تھا۔ البتہ کبھی کبھی اگر مجھ میں اور تصنیف میں کسی لفظ پر بحث ہوتی تو ہم لوگ محفوظ بھائی کو کال ملا دیا کرتے تھے۔ ایسے ہی حوالوں سے میری محفوظ بھائی سے گفتگو ہونے لگی۔ پھر تصنیف نے جن دنوں ریختہ میں نوکری کی ان دنوں بھی تصنیف کی ہی محفوظ بھائی سے زیادہ ملاقاتیں یا بات چیت ہوا کرتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے محفوظ بھائی سے پہلی مرتبہ خاصی تفصیل سے بات اس وقت کی تھی جب غالب کےایک شعر:

نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا

میں لفظ کھلا پر میری اور تصنیف کی بحث ہوئی تھی۔ بحث کیا تھی اب یہ تو یاد نہیں مگر اس لفظ کے حوالے سے میں نے پہلے عبدالرشید صاحب کو جو ان دنوں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد ہیں اور ان دنوں ارجن سنگھ کے فاصلاتی تعلیم کے شعبے سے کسی حیثیت سے وابستہ تھے کال کی اور ان کے مشورے پر احمد محفوظ صاحب کو۔بحث کے ذہن سے نکل جانے کے باوجود مجھے اتنا ضرور یاد ہے کہ محفوظ بھائی نے اس لفظ کے حوالے سے جو بات کہی تھی اس سے ہمارا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ میں نے محفوظ بھائی سے اس کے بعد کئی ایک مرتبہ مختلف الفاظ اور تراکیب کے بارے میں پوچھا اور انہوں نے اسی سلجھے ہوئے رویے سے جواب دے دیا جیسا کے پہلی مرتبہ دیا تھا۔ میں کئی بار اس بات پر حیران بھی ہوا اور آج بھی ہوتا ہوں کہ میں نے جب جب جس جس معاملے میں محفوظ بھائی سے کچھ پوچھنے کے لیے انہیں پریشان کیا ہے انہوں نے ہمیشہ بہت خلوص اور شفقت سے اس کا جواب دیا ہے۔ بعض اوقات تو محفوظ بھائی سے میں نے بہت سامنے کی باتیں بھی کسی محفل میں ، فون پر ، مجمع میں یا دو ایک دوستوں کے ہمراہ پوچھ لی ہیں،لیکن اس کے جواب میں بھی انہوں نے اپنے اسی علمی اور حلمی رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے محفوظ بھائی سے کسی لفظ ، شعر یا ترکیب وغیرہ کے حوالے سے دریافت کیا ہو اور وہ چراغ پا ہو گئے ہوں کہ تم کو اتنا نہیں معلوم یا کمال کرتے ہو یہ تو تمہیں خود ہی جان لینا چاہیے، لغت کیوں نہیں دیکھتے ، میرا وقت کیوں بر باد کر رہے ہو یا میں نہیں بتا سکتا وغیرہ وغیرہ۔وقت ،دن ، ہفتہ ، مہینہ دیکھے بنا جب جب میں نے محفوظ بھائی کو کسی امر کے لیے پریشان کیا ہے انہوں نےبہت آہستگی سے اس کا جواب دیا ہے۔ اس موقع پر مجھے شمیم عباس کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو خود انہوں نے مجھے سنایا تھا کہ ایک مرتبہ ان میں اور محمود سروش میں اقبال کے کسی شعر یا لفظ پر بحث ہو گئی ،دونوں کا خیال جدا جدا تھا، لہذا سروش صاحب نے کہا کہ کیوں نہ تم کسی سے دریافت کر لو ۔ ان دنوں سردار جعفری اقبال کے حوالے سے کچھ لکھ رہے تھے، رات کا کچھ دس بجا تھاکہ شمیم عباس نے سردار کو فون کر دیا۔ بقول شمیم صاحب کہ دس بجے کا وقت بمبئی کی عام زندگی میں رات کا وقت نہیں شمار کیا جاتا، لیکن سردار کو جب انہوں نے یہ بتایا کہ انہوں نے اقبال کے ایک لفظ یا شعر کی تصدیق کے لیے کال کیا ہے تو انہوں نے خاصی بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی وقت ہے ان سب باتوں کا۔شمیم صاحب کو ان کے اس رویہ پر خاصی حیرت ہوئی۔ سردار نے ایسا کیوں کیا ؟ اور بہت سے ادبا اور شعرا ان رویوں کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں ؟ ان باتوں سے قطع نظر محفوظ بھائی کے حوالے سےمیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے کبھی وقت یا دن کو کسی علمی معاملے میں مسئلہ نہیں بنایا۔ محفوظ بھائی اس معاملے میں میرے علم کی حد تک آخری آدمی ہیں جنہوں نے میرے ساتھ کبھی اس طرح کا کوئی رویہ نہیں دکھایا اور مجھے کبھی اپنے کسی دوست سے بھی جو ان کے باقاعدہ شاگرد رہ چکے ہیں اس بات کی خبر نہیں ملی کہ اس نے محفوظ بھائی سے علمی معاملے میں کچھ پوچھا ہو اور انہوں نے جھڑک دیا ہو یا بتانے میں تساہلی اور بے دلی کا مظاہرہ کیا ہو۔

مجھے ایسے کئی ایک واقعات یاد ہیں جب میں نے محفوظ بھائی سے شعر و ادب پر کچھ جاننے کی کوشش کی ہے۔جن دنوں میں شمس الرحمن فاروقی کی کتاب شعر شور انگیز کا تجزیاتی مطالعہ کررہا تھا میں نے محفوظ بھائی سے میرکے اشعار پر فاروقی صاحب کے تجزیوں کی صورت پر کئی بار بات کی اور انہیں اپنے ان خیالات سے بھی آگاہ کیا جو میں میرکے اشعار کے حوالےسے سوچ رہا تھا۔ اب تو ان پر ہنسی بھی آتی ہے مگر محفوظ بھائی کا یہ کردار اور اخلاق ہے کہ انہوں نے میری ان باتوں کو بھی ہمیشہ غور سے سنا،کبھی یہ نہیں کہا کہ بھئی آپ فاروقی کے مقابلے میں کیا نیا پہلو غور کر کے نکال پائیں گے۔ حالاں کہ فاروقی صاحب کے دیگر مداحوں نے کئی بار مجھ سے یہ بات کہی، بعض نے تو میرے سوچنے کی کوشش کو میرے منہ پر حماقت کا عمل قرار دے دیا ، مگر محفوظ بھائی نے اس کے برعکس میری کئی باتوں پر مجھے سراہا، جہاں میں غلطی پر تھا اس کو اس طرح سے درست کیا گویا وہ خود میرے درست کیے ہوئے حصے میں شمار ہو گئی اور میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ہمیشہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اب اس طرح سے میر کے اشعار پر غور کرنے والے بھی کتنے لوگ ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ایسا کہہ کر وہ مجھے میر کو مزید پڑھنے اور میر پر غور کرنے کی ترغیب ہی کیوں نہ دے رہے ہوں ، مگر سننے میں تو وہ مجھے اپنی تعریف ہی معلوم ہوتی تھی۔

یہ بات تو شائد اب محفوظ بھائی کو یاد بھی نہ ہو کہ دو سال قبل محفوظ بھائی مجھ سے علی گڑھ کے ایک سیمینار میں ٹکرا گئے تھے ، ان دنوں میں خواجہ میر درد پہ ایک مضمون لکھ رہا تھا، محفوظ بھائی کو وہاں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ جہاں شمس الرحمن فاروقی، سید محمد اشرف ، ظفر احمد صدیقی اور علی گڑھ والے قدوائی صاحب وغیرہ جیسے عمر دراز لوگ موجود تھے ان میں ایک محفوظ بھائی ہی ایسے تھے جن سے میں کچھ بات کر سکتا تھا۔ ان کے علاوہ وہاں اجمل کمال بھی تھے جن سے کافی دیر تک ملاقات رہی ، مگر محفوظ بھائی سے چونکہ میں زیادہ کھلا ہوا تھا اس لیے میں ان کو دیکھتے ہی ان کی طرف لپکا۔وہ مہمان خانے میں بیٹھے ہوئے تھے میں جھٹ سے ان کے پاس پہنچ گیا ۔انہوں نے اپنے مخصوص لہجے میں ہمیشہ کی طرح “اور بھئی تالیف کیا حال ہیں۔” کہا اور مصافے کے لیے ہاتھ بڑھا دیے۔ میں ان سے ہاتھ ملا کر ان کے قریب ہی بیٹھ گیا اور موقع ملتے ہی میں نے اپنی اشعار کی گٹھری کھول دی۔ ان دنو ں میں خواجہ میر درد کے اس شعر:

کبود چرخ دیکھا تو سواری کے نہیں قابل
مہ نو سے ہے پیدا عیب اس کی بدر کابی کا

کی معنوی جہات پر غور کر رہا تھا ۔میں نے جب محفوظ بھائی کو یہ شعر سنایا تو انہوں نے اس کی بہت اچھی شرح کی اور اس کے مختلف معنی پر میرے خیالات کو سنا اور اس شعر اور اسی طرح کے دوسرے اشعار کی روایت پر مجھے کئی شعر سنائے۔ اسی نشست میں محفوظ بھائی نے مجھے ایسے چار سے پانچ فارسی اور اردو شعرا کے مختلف شعر سنائے جو معنی کے اعتبار سے ایک ہی روایت کے تھے۔ محفوظ بھائی کی یہ خاص بات ہے کہ انہیں اردو اور فارسی کے بہت سے شعر یاد ہیں اور خاص طور پر ان کلاسکل شعرا کے جن کا دیوان اٹھانا بھی نئے لوگوں کی سرشت میں شامل نہیں۔ خود محفوظ بھائی کے کئی ایک معاصرین ان شعرا اور شاعروں سے نا بلد ہیں جن کے اشعار محفوظ بھائی کو زبانی یاد ہیں۔ میرے والد جو فارسی کے بہت اچھے عالم ہیں اور جنہیں فارسی کے سو سے زیادہ شعرا کا کلام یاد ہے۔میں نے ان کے منہ سے بھی محفوظ بھائی کی کلاسکل شاعری اور فارسی شعریات سے واقفیت کا تذکرہ اکثر سنا ہے۔

محفوظ بھائی ایک پڑھے لکھے استاد ہیں۔ غالباً ایسے جیسے اردو زبان کے ہندوستانی شعبوں میں اب خال خال ہی رہ گیے ہیں۔ وہ خوش فکر اور باعلم شخصیت تو ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ اچھے اخلاق اور کردار کے بھی مالک ہیں۔ میں نے محفوظ بھائی کے منہ سے کبھی کسی کی برائی نہیں سنی، ذاتی تو ہر گز نہیں کہ علمی معاملات میں ایک دوسرے سے اختلاف اور جھڑپوں کا سلسلہ تو ہمارے اکابرین کی میراث ہے۔ لیکن محفوظ بھائی کو میں نے کبھی کسی سے جھڑپ کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ دو ایک مرتبہ ان کو غالب انسٹی ٹیوٹ یا جامعہ میں کچھ لوگوں سے اختلاف کرتے دیکھا ہے ، لہذا ان کے اختلاف کی نوعیت بھی سراسر علمی ہوتی ہے اور وہ اخلاقیات کے ایک دائرے کو ملحوظ خاطر رکھ کر اختلاف کرتے ہیں۔آپ محفوظ بھائی سے ملیے ان سے کسی علمی موضوع پر علمی انداز میں گفتگو کیجیے اور اس بات کی امید رکھیے کہ وہ بھی اسی رویہ کا اظہار کریں گے، آپ کو کبھی مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، رہی بات حماقتوں اور جہالتوں کی تو اس کا راست جواب تو اللہ میاں نہیں دیتے تو بندا کیا دے گا۔ محفوظ بھائی کے علم اور حلم کے علاوہ بھی ان کی شخصیت کے کئی ایک پہلو ہیں جن کو میں نے دیکھا ہے اور ان پر وقت ملا تو تفصیل سے لکھوں گا بھی ، مگر یہاں ان کے اس طور پر اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں کہ محفوظ بھائی اردو کے عام اساتذہ سے خاصے الگ ہیں ،نہ صرف جاننے کے حوالے سے بلکہ جینے کے حوالے سے بھی۔ وہ ہمیشہ خوش پوش نظر آتے ہیں، خوش لباس ،خوش گفتاراورخوش مزاج ۔ ایک دلکش مسرت کے عالم میں اس فکر ی دنیا سے وابستہ جو اردو کے عام پروفیسرو ں کے گمان میں بھی آباد نہیں ہو سکتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *