Laaltain

دکانداری اور دوسری کہانیاں

24 اگست، 2016
دکانداری

 

اس ملک میں ہڑتال کرا دینا معمولی سی بات تھی۔ چھوٹی چھوٹی بات پرہڑتال کرا دی جاتی تھی۔ ہڑتال کے دوران دکانیں جبراً بندکرائی جاتی تھیں اور اخباروں میں شائع کرایاجاتاتھاکہ ہڑتال دکانداروں کی رضامندی سے ہوئی۔ ملک میں کبھی حکمران جماعت کی طرف سے تو کبھی حزبِ اختلاف کی طرف سے ہڑتال کرائی جاتی تھی۔ ایسی ہی ایک ہڑتال کے دوران دکانیں زبردستی بندکرانے کے لیے آنے والے سیاسی کارکن سے ایک دکاندار اور وہیں کھڑے ہوئے کچھ مزدوروں نے پوچھا ”بھلا ہڑتال سے کیاحاصل ہوتا ہے۔ سوائے نقصان کے؟“ اس پر اس کارکن نے ٹیڑھی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ”ہڑتال کے دوران ہماری دکانیں کھل جاتی ہیں۔“
“اب کیاکریں اپنی اپنی دکانداری ہے بھائی”۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

عابد

 

“اپنے باس کتنے شریف ہے نا؟ ہمیشہ بیٹابیٹاکہہ کر بات کرتے ہیں۔ بالکل ہی عابد رجحان کے ہیں۔“نوکری میں نئی نئی لگی ایک لڑکی نے اپنے ہی دفتر میں ساتھ میں کام کرنے والی ادھیڑعمر کی عورت سے کہا۔
“ارے تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔یہ بڑھؤ ایک نمبرکا ٹھرکی رہاہے۔ اپنی کھوئی ہوئی طاقت اور جوانی واپس پانے کے لیے اس نے کچھ دوائیاں لیں جن کے ری ایکشن سے یہ نامرد ہوگیا۔ تبھی سے یہ سبھی عورتوں کو بیٹابیٹا کہتا ہے۔ ارے اس پر تو چھیڑچھاڑکے کئی مقدمے درج ہیں۔ اس عورت نے عابد کی اصلیت سے اسے واقف کرایا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

غیرمحفوظ

 

“کیوں میاں، کافروں کے ساتھ گنیش کے چندے کی رسیدیں کاٹتے گھوم رہے ہو۔ کیاتمہیں معلوم نہیں کہ اسلام میں بت پرستی کی مناہی ہے؟”
“جناب، میں تواس پر صرف اتناہی کہوں گا کہ جان ہے توجہان ہے۔”

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تماشائی
تیزقدموں سے آفس جاتے ہوئے میرے قدم ایک جگہ لگی بھیڑ کودیکھ کر رک گئے۔ میں نے دیکھا کہ دوآدمی ایک دوسرے کاکالر پکڑے آپس میں گالی گلوچ کرتے ہوئے لڑرہے تھے۔
اور لوگوں کی طرح میں بھی رک کر انہیں دیکھنے لگا، اور ان کے بیچ جھگڑابڑھنے کاانتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیربعد مجھے لگنے لگاکہ یقینی طور پر دونوں میں سے کوئی ایک چاقو نکالے گا، یا ہو سکتا ہے پستول ہی نکال لیں۔ اگر ایسے حالات بنے تومیں کیاکروں گا۔ کیاان میں صلح کرانے کی کوشش کروں گا، یاتیزی سے بھاگ لوں گا۔ میں یہ سب سوچ ہی رہاتھاکہ دونوں نے ایک دوسرے کا کالر چھوڑ دیا اور ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوئے اپنے اپنے راستے چلے گئے۔ تماش بینوں کی بھیڑبھی چھٹ گئی۔ میں بھی بڑبڑاتے ہوئے نکلا: “سالے ہجڑوں کولڑنے کابھی شعورنہیں ہے۔ پھوکٹ میں ٹائم برباد کردیاجبکہ مجھے آج آفس جلدی پہنچنا تھا”۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بازار

 

“ابھی توبازارمیں ٹماٹر اتنے سستے ہیں کہ ایک روپے کلو، یاروپے میں دوکلو تک مل رہے ہیں اور تم یہ سو گرام ٹماٹر سوپ کے پاؤچ کاپیکٹ52روپے میں خرید لائے ہو۔ بیوقوف کہیں کے”
“اس میں بیوقوفی والی کیابات ہے؟ ہم اسے تب پئیں گے جب بازارمیں ٹماٹر کی قیمتیں آسمان چھونے لگے گی۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *