[blockquote style=”3″]
اِندر ونیت کے حوالے سے مزید معلومات اس حوالے سے بنائے گئے فیس بک صفحے ‘جسٹس فار انوسنٹ اندر ونیت‘ سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یہ خط حیدرآباد سندھ سے تعلق رکھنے والے سارنگ لطیف کی جانب سے بھجوایا گیا ہے جسے نیک نیتی کے جذبے کے تحت شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]

متاثرہ بچے کے گھروالوں کے مطابق حیدرآباد کلب میں سخت سکیورٹی انتظامات کے باوجود بھی ان کا بیٹا ایک گھنٹے تک لاپتہ رہا، اس کے چہرے پر زخموں کے نشانات موجود تھے اور اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
متاثرہ بچے کے گھروالوں کے مطابق حیدرآباد کلب میں سخت سکیورٹی انتظامات کے باوجود بھی ان کا بیٹا ایک گھنٹے تک لاپتہ رہا، اس کے چہرے پر زخموں کے نشانات موجود تھے اور اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بچے کی لاش تالاب پر تیرتی ہوئی پائی گئی تھی۔ اندرونیت کے والد کی جانب سے بارہا کلب انتظامیہ سے اس روز کی سی سی ٹی وی فوٹیج مانگی جا چکی ہے لیکن انتظامیہ کی جانب سے اس حوالے سے تعاون نہیں کیا جا رہا۔ انتظامیہ کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ کر لیا گیا ہے اور ملازمین سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
اندرونیت کے والدکے مطابق پولیس بھی ان سے تعاون نہیں کر رہی، بلکہ حیدرآباد کلب کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ڈاکٹر چیتن ہوتوانی کے مطابق اس واقعے کی ایف آئی آرکئی روز تک نہیں کاٹی گئی۔ ایف آئی آر کا اندراج بھی مقامی انسانی حقوق کے کارکنان کے احتجاج کے بعد کیا گیا۔ ایس ایس پی حیدرآباد عرفان بلوچ کے مطابق اس حوالے سے ایک تفتیشی کمیٹی قائم کی گئی تھی تاہم بعد میں سندھ ہوم منسٹر نے تفتیش ایس ایس پی کے سپرد کر دی۔ پولیس کی جانب سے دو لائف گارڈز سجاد پریہار اور نادر پریہار کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بعض ذرائع کے مطابق چار افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں سے دو کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
مقامی کارکنان کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ ‘مجرمان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں تحفظ’ دیا جا رہا ہے۔
پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج قبضے میں لینے سے متعلق بھی معلومات فراہم کی ہیں۔ پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج دھندلی ہے۔ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی ہارڈ ڈسک ایف آئی اے کے حوالے کر دی ہے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا جا رہا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج ضائع ہو چکی ہے کیوں کہ کلب میں محض سات دن کی فوٹیج محفوظ کرنے کی سہولت موجود تھی، اور ابتدائی سات دنوں کے دوران کلب کی انتظامیہ کی جانب سے اندرونیت کے والد کو سی سی ٹی وی فوٹیج تک رسائی نہیں فراہم کی گئی۔ قندرونیت کے گھر والون کے مطابق کلب انتظامیہ کی بدنیتی واضح ہے اور پولیس کی جانب سے فوری کارروائی نہ کیا جانا بھی اس حوالے سے شبہات میں اضافہ کرنے کا باعث ہے کہ کلب انتظامیہ اور پولیس اس معاملے کو دبانا چاہتے ہیں۔ مقامی کارکنان کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ مجرمان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں تحفظ دیا جا رہا ہے۔ ہندو پنچایت ایکٹوسٹ کرمانی کی جانب سے انہی خدشات اک اظہار کیا گیا ہے۔
پاکستانی ریاست کب تک مذہب، صنف اور سماجی پس منظر کی بنیاد پر انصاف کی فراہمی میں امتیازی سلوک برتتی رہے گی۔ پہلے پہل سندھ کی ہندو بیٹیاں محفوظ نہیں تھیں، ہم خاموش رہے لیکن اب سندھ کے ہندو بیٹے بھی محفوط نہیں رہے اور اس کی ذمہ داری ہماری خاموشی پر عائد ہوتی ہے۔ اندرونیت کو انصاف دیجیے تاکہ سندھ کی دھرتی تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے محفوظ بنائی جا سکے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کے جریدے کے توسط سے اندرونیت کا معاملہ انسانی حقوق کی تنظیموں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور منتخب نمائندوں تک پہنچے گا اور ایک معصوم کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو سزا مل سکے۔
فقط
سارنگ لطیف
حیدرآباد سندھ
سارنگ لطیف
حیدرآباد سندھ