Laaltain

چاغی اور شہ مرید

2 مارچ، 2016

[block­quote style=“3”]

ادارتی نوٹ: قارئین کے خطوط پر مبنی یہ سلسلہ قارئین کی جانب سے بھجوائی گئی ڈاک پر مشتمل ہے۔ ان خطوط کو نیک نیتی کے جذبے کے تحت شائع کای جاتا ہے۔ ان خطوط کے مندرجات اور ان میں پیش کی گئی آراء مکتوب نگار کی ذاتی رائے ہیں۔ اس سلسلے میں ادارہ ذمہ دار نہ ہو گا۔

[/blockquote]
letters-to-the-editor-featured1

امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں، طاقت کے نشے میں دھت جب انسانی آبادی پر پہلا ایٹمی حملہ >کیا، تو پوری انسانیت لرز گئی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کی دھرتی کو تہ و بالا کرنے کے بعد شروع ہونے والی جوہری دوڑ جب زمین کو خطرے سے دوچار کرنے لگی تو انسانیت کی روح تک کانپ گئی۔ جاپان مکمل نہیں لیکن ذہنی طور پر پوری طرح ختم ہو چکا تھا، لگ بگ ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب انسانی جانیں لقمہ اجل بن گئیں۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، ہیروشیما اور ناگاساکی آج تک بانجھ پن کا شکار ہیں، وہاں آج بھی زمین سبزہ اگلنے سے قاصر ہے۔ وہاں آج بھی ذہنی اور جسمانی معذوری کے ساتھ بچے پیدا ہوتے ہیں، وہاں آج بھی مائیں بچے کو جنم دینے سے انکاری ہیں، کیونکہ انہیں پتا ہے کہ بچہ معذور پیدا ہو گا، یا کسی اور موزی بیماری کے ساتھ اس قاتل اور بے رحم دُنیا میں اپنی آنکھ کھولے گا۔

 

ایک جانب جہاں پاکستان کے کونے کونے میں جوہری تجربات کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں تو دوسری جانب یہ حقیقت کسی کو یاد نہیں تھی کہ چاغی اور اس کے مضافات میں لوگوں کی زندگیاں داو پہ لگ چُکی تھیں۔
28 مئی1998 کو پاکستان نے راس کوہ کی پہاڑیوں میں ایٹمی دھماکہ کیا،28 مئی کو یوم تکبیر قرار دے کر سرکاری سطح پر چھٹی کا اعلان کیا گیا، یوں ضلع چاغی جسے پاکستان کے لوگ بمشکل جانتے تھے پوری دُنیا میں مشہور ہو گیا۔ اس موقعے پر پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر قرار دیا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ اب کوئی پاکستان کی جانب میلی نگاہ سے نہیں دیکھ سکے گا۔ لیکن پاکستان کے دفاع کی قیمت راس کوہ کو ہمیشہ کے لیے بانجھ ہونے کی صورت میں برداشت کرنا پڑی۔ ایک جانب جہاں پاکستان کے کونے کونے میں جوہری تجربات کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں تو دوسری جانب یہ حقیقت کسی کو یاد نہیں تھی کہ چاغی اور اس کے مضافات میں لوگوں کی زندگیاں داو پہ لگ چُکی تھیں۔ کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہاں رہنے والے انسانوں اور ان کی آنے والی نسلوں کو پاکستان کے دفاع کی قیمت مختلف بیماریوں کی شکل میں تاابد چکانی پڑے گی۔ یہ سچ ہے کہ اس وقت کے حکم رانوں نے بھی روایتی اعلانات کیے تھے کہ چاغی کے عوام کو ریلیف دیا جائے گا لیکن وہ اعلانات صرف اعلانات تک ہی محدود رہے۔

 

آج مختلف قسم کی بیماریاں چاغی اور آس پاس کے علاقوں میں لوگوں کو لاحق ہیں، روزانہ کی بُنیادوں پرتابکاری اثرات سے متاثر ہونے والے افراد سامنے آتے ہیں۔ بچے مختلف قسم کی بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ تابکاری اثرات کے علاوہ عام بیماریوں کی شرح بھی خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ چاغی اور آس پاس کے جتنے بھی علاقے ہیں وہاں ہیپاٹائٹس جیسی موزی بیماری عام ہے، ایسا کوئی گھر نہیں کہ جہاں کوئی ہیپاٹائٹس میں مبتلا نہ ہو۔ ہیپاٹائٹس کے ساتھ ساتھ کینسر جیسی موذی بیماریاں بھی عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ بیماری کا شکار ہونے والے افراد کو کسی قسم کی طبی مدد یا علاج کی سہولیات میسر نہیں۔ لوگ مخیر حضرات کی مدد سے علاج کرانے پر مجبور ہیں۔

 

بلوچستان کے لوگوں نے ایٹمی ذرات کو اپنے سینوں پر برداشت کر کے پاکستان کا دفاع مضبوط کیا، لیکن اب بلوچستان کے سپوت مختلف اقسام کی بیماریوں سے لقمہ اجل بن رہے ہیں
اس کی ایک مثال خاران سے تعلق رکھنے والی سولہ سال کی بی بی حاجرہ تھی جو کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھی اور اس کا علاج اج بھی چل رہا ہے۔ غریب ماں باپ کی بیٹی پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بے یار و مدد گار موت کو گلے لگانے کی انتظار میں تھی کہ سوشل میڈیا پہ ایک مہم چلا کر بلوچستان کے لوگوں نے انسان دوستی کا ثبوت دیا۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی اس مہم کی آواز نے حکمرانوں اشرافیہ کو بھی مدد کرنے پر مجبور کر دیا۔ اسی طرح کی ایک اور مثال انیس سالہ شہ مرید ہے جس کا تعلق چاغی کی سرحد پر واقع نوشکی سے ہے۔ معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے شہ مرید کے گھر والے علاج کرنے سے قاصر تھے۔ ان کے علاج کے لیے بھی سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے باعث بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر جان مینگل نے پانچ لاکھ اور گوادر سے تعلق رکھنے والے حمل کلمتی نے دو لاکھ امداد کا اعلان کر دیا۔ ان کی دیکھاد یکھی بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے بھی ایک لاکھ کا اعلان کر دیا، اور ساتھ ساتھ مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے انسانیت دوست لوگوں نے اپنی بساط کے مطابق اعلانات کر رہے ہیں، پینتالیس لاکھ جیسے بڑی رقم کو پورے کرنے کے لیے یہ لوگ تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔

 

اس وقت پاکستان میں، پنجاب،سندھ، اور خیبرپختونخواہ میں کینسر کے ہسپتال موجود ہیں، لیکن پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے والا بلوچستان آج بھی اس سہولت سے محروم ہیں۔ پورے پاکستان کے لوگوں سے بلوچستان کی اپیل یہ ہے کہ بلوچستان کے لوگوں نے ایٹمی ذرات کو اپنے سینوں پر برداشت کر کے پاکستان کا دفاع مضبوط کیا، لیکن اب بلوچستان کے سپوت مختلف اقسام کی بیماریوں سے لقمہ اجل بن رہے ہیں، خدارا سامنے آئیے اور شہ مرید اور اس جیسے بلوچ نوجوانوں کو موت کے منہ سے نکال کر انسان دوستی کا ثبوت دیجیے۔ اس معاملے پر آواز اٹھائیے اور ان بیماریوں کے خلاف حکومت کو اقدامات پر مجبور کیجیے۔

 

فقط
احسان میر

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *