Laaltain

مادری زبان کا عالمی دن

21 فروری، 2016
جدید سائنس کہتی ہے کہ تمام جاندار اشیاء اپنی نوع کے دیگر جانداروں اور اپنے ماحول کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتی ہیں۔ اس رابطے کے لئے ان کے اندر مخصوص صلاحیتیں اور اور ان کے اپنے مخصوص طریقے ہیں۔ انسانی تہذیب میں زبان رابطے کا سب سے اہم اور موثر ذریعہ ہے۔ زبان انسانی رابطے کا ایسا نظام ہے جس میں مخصوص الفاظ، آوازوں یا علامتوں کے ذریعے، خواہ وہ تحریری ہوں یا زبانی، انسانی جذبات، احساسات، خیالات، مشاہدات، افکار اور باہمی معاملات کے لئے ضروری معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ زبان انسان کو دیگر مخلوقات کے مقابلے میں ممتاز کرتی ہے۔ اپنی منطق سے سوچنے سمجھنے، پرکھنے اور بولنے کی صلاحیت کی بناء پر انسان دوسرے جانداروں کی نسبت آپس میں بہتر ابلاغ پر قادر ہے۔

 

پاکستانی ماہرینِ لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔
معاشرتی تنوع میں بلاشبہ زبان کا بہت اہم کردار ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی نئی زبانیں تشکیل پاتی ہیں تو اسی طرح بہت سے زبانیں ختم بھی ہوتی جا رہی ہیں۔ تاریخ انسانی کے آغاز سے لے کر آج تک ان گنت زبانیں معرضِ وجود میں آئیں اور صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے یعنی جس گھرانے اور خاندان میں وہ پیدا ہوتا ہے اس کی زبان بچے کی مادری یا ماں بولی زبان کہلاتی ہے۔

 

دنیا بھر میں 21 فروری 2000ء سے ہر سال مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد مادری زبان اور اس سے وابستہ ثقافتی و تہذیبی پہلووں کو اجاگر کرنا ہے۔ پاکستانی ماہرینِ لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ دنیا میں کتنی ہی قومیں ہیں اور ہر ایک قوم زبان کے اعتبار سے اپنی الگ شناخت رکھتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریبا 6912 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ زمانے کی جدت اور سرکاری زبانوں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مادری زبانوں کی اہمیت ماند پڑ رہی ہے۔ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع ثقافتیں اور روایات کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ یونیسکو کے مطابق 1950ء سے لے کر اب تک 230 مادری زبانیں ناپید ہوچکی ہیں۔ ”اٹلس آف ورلڈ لینگویج ان ڈینجر 2009ء“ کے مطابق دنیا میں 28 پاکستانی زبانوں سمیت دنیا کی 36 فیصد (2498) زبانوں کو اپنی بقاءکے لیے مختلف النوع کے خطرات لاحق ہیں، 24 فیصد (607) زبانیں غیر محفوظ جبکہ 25 فیصد (632) ناپیدی کے یقینی خطرے سے دوچار ہیں، اس کے علاوہ 20 فیصد (562) زبانوں کو خاتمے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ 21.5 فیصد (538) زبانیں تشویش ناک حد تک خطرات کا شکار ہیں جبکہ 230 تقریباً 10 فیصد زبانیں متروک ہوچکی ہیں۔ یوں دنیا میں بولی جانے والی 57 فیصد زبانوں کو محفوظ گردانہ جاتا ہے۔ ہر زبان اپنے مطالب اور گرائمر رکھتی ہے اور ہر زبان کی ادائیگی اور لہجہ بھی مختلف ہے۔ یہ زبانیں زیادہ تر قوموں اور خطوں کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں ۔

 

ہر زبان اپنے مطالب اور گرائمر رکھتی ہے اور ہر زبان کی ادائیگی اور لہجہ بھی مختلف ہے ۔ یہ زبانیں زیادہ تر قوموں اور خطوں کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں ۔
دنیا میں سب سے زیادہ 860 زبانیں پاپوا نیوگنی میں بولی جاتی ہیں جو کل زبانوں کا 12 فیصد ہے جبکہ 742 زبانوں کے ساتھ انڈونیشیائی دوسرے، 516 کے ساتھ نائیجیریا تیسرے، 425 کے ساتھ بھارت چوتھے اور 311 کے ساتھ امریکا پانچویں نمبر پر ہے۔ آسٹریلیا میں 275 اور چین میں 241 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے جسے 87 کروڑ 30 لاکھ افراد بولتے ہیں جبکہ 37 کروڑ ہندی، 35 کروڑ ہسپانوی، 34 کروڑ انگریزی اور 20 کروڑ افراد عربی بولتے ہیں۔ پنجابی 11ویں اور اردو 19 ویں نمبر پر ہے۔ عالمی سطح پر زبانوں کی تعداد اور ان کو بولنے والوں کا تناسب انتہائی غیر متوازن ہے۔ صرف 57 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور صرف 8 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہے جو کل عالمی آبادی کا 40 فیصد بنتا ہے۔ عالمی سطح پر صرف 100 زبانوں کا استعمال تحریری شکل میں کیا جاتا ہے۔

 

پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں سے متعلق معلوماتی چارٹ
پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں سے متعلق معلوماتی چارٹ
سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جبکہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی، اردو، پشتو 8 فیصد، بلوچی 3 فیصد، ہندکو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم و ثقافت کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات، صوبہ سرحد، بلوچستان، کشمیر، بھارت اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بولی جانے والی 27 چھوٹی مادری زبانوں کو ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے، ان میں سے 7 زبانیں غیر محفوظ گردانی جاتی ہیں جن کو بولنے والے 87 ہزار سے 5 لاکھ تک ہیں، اس کے علاوہ 14 زبانوں کو خاتمے کا یقینی خطرہ لاحق ہے جن کو بولنے والوں کی تعداد کم سے کم 500 اور زیادہ سے زیادہ 67 ہزار ہے جبکہ 6 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے 200 سے 5500 کے درمیان ہیں، یہ زبانیں ختم ہونے کے شدید خطرے کا شکار ہیں۔ مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں نمبر پر ہے جبکہ سب سے زیادہ 196 زبانوں کو بھارت میں خطرات لاحق ہیں، امریکہ کی 191 برازیل کو 190 انڈونیشیا کی 147 اور چین کی 144 زبانوں کی بقا کو خطرہ ہے۔

 

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم و ثقافت کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات، صوبہ سرحد، بلوچستان، کشمیر، بھارت اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بولی جانے والی 27 چھوٹی مادری زبانوں کو ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے
انگریزی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی اور سمجھی جانے والی زبان ہے، یہ دنیا بھر میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی ہے ۔ دنیا بھر میں انگریزی بولنے والے افراد کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہو گئی ہے۔ تقریباً 35 کروڑ 40 لاکھ افراد کی مادری زبان انگریزی ہے جبکہ باقی لوگ ثانوی زبان کی حیثیت سے انگریزی بولتے ہیں۔ زبانوں پر تحقیق کرنے والے امریکی ادارے Ethnologue کے مطابق ملکوں کے حوا لے سے انگریزی سب سے زیادہ 112 ممالک میں بولی جاتی ہے، اس کے بعد 60 ممالک میں فرنچ، 57 میں عربی، 44 میں ہسپانوی اور جرمن بھی 44 ممالک میں بولی جاتی ہے جبکہ اردو 23، ہندی 20 اور پنجابی 8 ممالک میں بولی جاتی ہے۔

 

مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مدد ملتی ہے، زبان کی آبیاری ہوتی ہے، نیا خون داخل ہوتا ہے اور پرانا خون جلتارہتا ہے جس سے صحت بخش اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاء پذیر رہا ہے چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پذیر رہتی ہے، نئے نئے محاورے اور روزمرہ متعارف ہوتے ہیں، نیا ادب تخلیق ہوتا ہے، استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام، عدالتی نظام اور دفتری نظام سب کا سب انگریزی زبان میں ہے۔ ہم کب تک انگریزی کا پیچھا کریں گے؟ ہمیں اردو زبان کے فروغ کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو کا مواد انٹرنیٹ پر برائے نام موجود ہے، اسے فروغ دینے کے لئے بلاگ نویسی کے رجحان کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ قوم پوری شدت سے چاہتی ہے کہ مقابلے کے امتحانات قومی زبان میں منعقد کیے جائیں، ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان میں اور ثانوی و اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔ علاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء، شعرا اور محققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیا جائے اور ان کے لیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے جائیں۔ دیگر عالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنا آپ منوا سکے۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *