Laaltain

تھر؛ معصوم بچوں کے لیے موت کی وادی

12 جنوری، 2016

letters-to-the-editor-featured1

گذشتہ سال تھر میں قحط سالی اور طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے سینکڑوں بچوں کی ہلاکتوں کے بعد بھی بدقسمتی سے حکومت سندھ نے مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ نئے سال کے ابتداء میں ایک مرتبہ پھر نامناسب طبی سہولیات، موسمی حالات اور خوراک کی کمی کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ رواں سال کے ابتدائی چھ روز کے دوران 15 کمسن بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ ہلاکتیں روز انہ کی بنیاد پر جاری ہیں لیکن افسوس کہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے بھی حکومتی توجہ اس جانب نہیں۔

 

گذشتہ سال تھر میں قحط سالی اور طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے سینکڑوں بچوں کی ہلاکتوں کے بعد بھی بدقسمتی سے حکومت سندھ نے مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بلند و بانگ دعوے کر کے ان علاقوں سے ووٹ لینے والے بھی ان معصوم بچوں کی ہلاکتوں پر پریشان نظر نہیں آتے۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی تھر میں ہلاکتوں پر حالات کا جائزہ لینے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے ایک دو رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ لیکن حالات اس قدر سنگین ہیں کہ اب کسی کمیٹی کی نہیں بلکہ فوری طور پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ متاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی، ادویات اور خوراک کی فراہمی اور وسیع پیمانے پر امدادی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔

 

ڈبلیو ایچ او نے اپنی جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ تھر میں قریبی مرکزِصحت تک پہنچنے کے لیے ایک ہزار سے چار ہزار روپے درکار ہوتے ہیں۔ مرکز تک پہنچنے کا یہ سفر دو سے چار گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بچے سرکاری علاج گاہوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک ہوجاتے ہیں۔ تھر میں آبادیوں کے ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہونے کی وجہ سے مستقل بنیادوں پر صحت مراکز کے ساتھ ساتھ طبی کیمپ لگائے جائیں تو یہ مسئلہ عارضی طور پر کسی قدر حل ہو سکتا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں ایمبولینس سروس کو فعال بنا کر بھی اموات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مسئلے کا مستقل حل ان عارضی اقدامات سے ممکن نہیں۔ مستقل حل کے لیے مقامی معیشت کو استحکام دینے کے سرکاری پروگراموں اور پانی کی فراہمی کا نظام قائم کرنا ضروریہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ تھرپارکر اور قرب و جوار میں واقع علاقوں میں قائم اسپتالوں کو فوری طور پر ادویات فراہم کرے اور ڈاکٹر وں کی تعداد میں اضافہ کرے۔

 

تھر میں آبادیوں کے ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہونے کی وجہ سے مستقل بنیادوں پر صحت مراکز کے ساتھ ساتھ طبی کیمپ لگائے جائیں تو یہ مسئلہ عارضی طور پر کسی قدر حل ہو سکتا ہے۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ لوگ اسپتالوں تک نہیں آتے، جس کی وجہ سے وہ صحت کی سہولیات سے محروم رہتے ہیں لیکن کبھی اس بات پر توجہ نہیں دی گئی کہ لوگ ہسپتالوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتے۔ دراصل غربت کے مارے ان لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ایمبولنس نہ ہونے کی صورت میں کسی متبادل سواری کا بندوبست کر سکیں۔ اس علاقے میں پبلک ٹرانسپورٹ اور ایمبولنس سروس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بحالت مجبوری ایمرجنسی میں ٹیکسی پر ہی سفر کرتے ہیں جس کے اخراجات برداشت کرنا ایک عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تھر پار کر کے متاثرہ علاقوں میں صحت کا شعبہ تباہ حال ہے اور حکومتی لاپرواہی اسے مزید تباہی سے دوچار کر رہی ہے۔ اسپتالوں میں ماہر ڈاکٹروں کی شدید قلت ہے۔ جہاں ڈاکٹروں کی پچیس اسامیاں ہیں وہاں ایک ڈاکٹر کام کررہا ہے۔ ایک ڈاکٹر چوبیس گھنٹے ڈیوٹی نہیں دے سکتا، جب بچوں کو ایمرجنسی میں اسپتال لایا جاتا ہے تو اکثر کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا اور طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

 

افسوس اس بات کا ہے کہ بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات اچانک نہیں شروع ہوئے یہ سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے، ہاں اس میں موسمی حالات کے مطابق اچانک شدت آجاتی ہے۔ صورت حال سے واقف ہونےکے باوجود کسی جانب سے کوئی خاطر خواہ عملی کام نہیں کیا جارہا جو اس صورت حال کو سانحے میں بدلنے کے لیے کافی ہے۔ تمام حکومتی اداروں، فلاحی اداروں اور تمام صاحب حیثیت افراد سے اپیل ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں اور خدارا ان معصوم بچوں کی زندگیوں کو بچائیں۔

 

فقط
محمد ارشد قریشی
صدر انٹرنیشنل ریڈیو لسنرز کلب کراچی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *