Laaltain

ایم کیو ایم کا مینڈیٹ تسلیم کریں

7 دسمبر، 2015
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی اہمیت دیگر شہروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ میٹروپولیٹن شہر بھی ہے اور کاسموپولیٹن بھی لیکن بدقسمتی سے اس شہر کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو اسے ملنی چاہیے۔ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے میں پانچ دسمبر 2015ء کو کراچی شہر کے چھ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات میں 1520 نشستوں کے لیے 5401 امیدواروں میں مقابلہ ہوا، اس سے پہلے اپنی انتخابی سرگرمیوں میں تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ کراچی میں اصل مقابلہ متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے دو جماعتی اتحاد کے درمیان تھا۔ اے این پی تقریباً مقابلے سے باہر تھی جبکہ پیپلزپارٹی کو بھی کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ پیپلزپارٹی کے بہت کم امیدوار تھے اور اسے اپنے گڑھ لیاری میں کل 15 میں سے صرف 6 نشستوں پر کامیابی ملی۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے میدان مار لیا ہے اور یہ واضح ہو چکا ہے کہ آئندہ میئر ایم کیو ایم کا ہی ہو گا۔ ترازو اور بلے کا اتحاد ناکام ہوگیاہے جیسا کہ میں نے 24 نومبر کو اپنے ایک مضمون “کراچی میں ایم کیو ایم کا ہلکا پھلکا مقابلہ” میں لکھا تھا کہ “بظاہر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں صرف ایک ہی مضبوط پارٹی ایم کیو ایم ہے جس کا ہلکا پھلکا مقابلہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد سے ہوگا” تو بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔

 

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی اہمیت دیگر شہروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ میٹروپولیٹن شہر بھی ہے اور کاسموپولیٹن بھی لیکن بدقسمتی سے اس شہر کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو اسے ملنی چاہیے۔
کسی بھی تجزیہ نگار نے ایم کیو ایم کی شکست کا نہیں سوچا لیکن اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ رینجرز آپریشن کے نتیجے میں ایم کیوم کمزور ہوئی ہے اس لیے اسے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی کے بقول اُنہیں توقع سے زیادہ کامیابی ملی ہے۔ اب تک موصول ہونے والے نتائج کے مطابق کراچی کی مجموعی 456 نشستوں میں سے ایم کیو ایم نے 254 نشستیں حاصل کی ہیں۔ پیپلزپارٹی 39 نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے، 34 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، جبکہ دیگر جماعتوں کے 63 امیدوار کامیاب ہوئے۔ کراچی میٹروپولیٹن کی یونین کونسلوں اور یونین کمیٹیوں کی 246 نشستوں میں سے 135 ایم کیوایم، 32 پیپلزپارٹی، 8 جماعت اسلامی، 9 تحریک انصاف، 9 مسلم لیگ نواز، 3 جے یو آئی، ایک اے این پی اور 24 آزاد امیدواروں نے حاصل کیں۔ کراچی کے سب سے بڑے ضلع وسطی میں ایم کیوایم نے مخالفین پرجھاڑو پھیر دی، 102نشستوں میں سے 100 پر ایم کیو ایم کامیاب ہوئی اور صرف دو نشستیں پیپلزپارٹی کے حصے میں آئیں (تمام اعدادوشمار دستیاب معلومات کے مطابق درج کیے گئے ہیں نتائج کے حتمی اعلان تک ان میں کسی بھی تبدیلی کی ذمہ داری مضمون نگار پر نہیں ہوگی)۔

 

ایم کیو ایم پر کراچی میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور بوری بند لاشوں کی ذمہ داری ایم کیو ایم پر عائد کی جاتی رہی ہے، اس سال فروری اور مارچ میں نہ صرف ایم کیو ایم پر قتل اور دہشت گردی کے الزامات لگے بلکہ اس کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز نے چھاپا بھی مارا۔ ایک مقامی اخبار کے سروے کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کو 74 فیصد پاکستانیوں نے درست فیصلہ قرار دیا تھا۔ ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو سے رینجرز کے چھاپے کے دوران مبینہ طور پر بھاری اسلحہ برآمد ہوا تھا اور مفرور و مطلوب افراد بھی پکڑے گئے تھے۔ کراچی کی 85 فیصد نمائندگی کی دعویدار ایم کیو ایم پرتو اُس کے قیام کے وقت سے ہی الزامات لگتے رہے ہیں اور آج بھی لگ رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود ایم کیو ایم عام اور بلدیاتی انتخابات جیتنے کا ریکارڈ قائم کرتی چلی جارہی ہے۔ وجہ بڑی سادہ ہے کہ دو کروڑ کی آبادی اور ملک کو 70 فیصد ریونیو کما کر دینے والے اس لاوارث شہرکراچی کے عوام کی ذمہ داری نہ ہی مرکزی حکومت لیتی ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرتی ہے، لہٰذا کراچی کے شہریوں اور خاص کر مہاجروں کے پاس صرف ایم کیو ایم ہے جو یہاں کے شہریوں کے حق میں کسی حد تک آواز بلند کرتی ہے۔

 

موجودہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم اور رینجرز کے درمیان کشیدگی کی زیادہ اہمیت رہی ہے۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ رینجرز صرف ایم کیو ایم کو نشانہ بناتی ہے، جبکہ رینجرزکا کہنا ہے کہ آپریشن کسی ایک سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ مبینہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہے۔ حالات اور واقعات کی روشنی میں سیاسی تجزیہ نگار ایم کیو ایم کی موجودہ کامیابی کو بھی ماضی جیسا ہی قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ اخبارات کی خبروں میں کہا جارہا ہے کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے بڑے بڑے برج اُلٹ گئے۔ لیکن یہ بڑے برج ہیں کون؟ حافظ نعیم الرحمٰن اور علی زیدی؟ کیا خدمات ہیں ان کی کراچی کے لوگوں کے لیے اور کراچی میں کتنے لوگ انہیں جانتے ہیں۔ ان کی غیر مقبولیت کا حال یہ ہے کہ یہ ایسے لوگوں سے ہار گئے جو ایم کیو ایم کے غیرمعروف امیدوار تھے۔ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن کو ایم کیو ایم کے غیرمعروف مظہر حسین نے شکست دی، مظہرحسین نے 3205اور حافظ نعیم الرحمان نے 712ووٹ حاصل کیے، حافظ نعیم الرحمان نے اسے کھلی دھاندلی قرار دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی خرم شیر زمان کا کہنا ہے رینجرز نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور یہ کہ الیکشن کمیشن بھی منصفانہ انتخابات کرانے میں ناکام رہا، جبکہ تحریک انصاف کراچی کے صدر اور میئر کے ناکام امیدوار علی زیدی کا کہنا ہے جنہوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیا انھیں شرم آنی چاہیئے، حالانکہ جو ان انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کر رہے دراصل شرم اُنہیں آنی چاہیئے۔

 

تحریک انصاف کراچی کے صدر اور میئر کے ناکام امیدوار علی زیدی کا کہنا ہے جنہوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیا انھیں شرم آنی چاہیئے، حالانکہ جو ان انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کر رہے دراصل شرم اُنہیں آنی چاہیئے۔
جماعت اسلامی نے این اے 246 میں اپنی ضمانت ضبط ہونے جیسے نتائج سے بچنے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور تحریک انصاف سے انتخابی اتحاد کے ذریعے فوائد سمیٹنے کی کوشش کی۔ کیونکہ اس انتخابی اتحاد کے پیچھے جماعت اسلامی کی سوچ یہ تھی کہ اگر جماعت اسلامی کچھ حلقوں میں انتخابات نہ بھی جیت پائی تو وہ کم از کم بدترین شکست سے بچ جائے گی۔ جماعت اسلامی کی پوری کوشش تھی کہ وہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی برتری ثابت کرسکے۔ کراچی میں جماعت اسلامی نےتمام بلدیاتی حلقوں میں توحصہ نہیں لیا لیکن آدھے شہر میں اس نے اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی اور 35 فیصد کوٹہ جماعت اسلامی کو دیا جبکہ تحریک انصاف کو پتہ تھا کہ کراچی کے شہریوں کو جماعت اسلامی کا تجربہ پہلے سے ہے۔ جماعت اسلامی کو کئی بار آزمایا جاچکا ہے، تین بار شہر کی میئرشپ بھی جماعت اسلامی کے پاس رہ چکی ہے۔کراچی کے شہری پی این اے اور دوسرے اتحادوں کی سیاست دیکھ چکے ہیں لہٰذا اتحادوں کی سیاست کو پسند نہیں کرتے۔ ویسے بھی کراچی کے شہری لبرل انداز زندگی کو پسند کرتے ہیں لہٰذا کراچی کے شہری طالبان دہشت گردوں کے حامیوں اور سہولت کاروں کو ووٹ نہیں دیتے۔ اگرچہ عمران خان بھی طالبان کے ہمدردوں میں سے ہی ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو ‘لبرل’ بھی کہتے ہیں، کراچی میں تحریک انصاف کا جماعت اسلامی سے اتحاد عمران خان کی ایک بڑی غلطی تھی جو بدترین شکست کی صورت میں اُن کے سامنے آیا ہے۔

 

اگرچہ تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد میں جماعت اسلامی کا حصہ زیادہ تھا لیکن جماعت اسلامی کے رہنماوں کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ تحریک انصاف کا ووٹر جماعت اسلامی کےاُمیدوار کو ووٹ دے گا۔ پانچ دسمبر کے بلدیاتی انتخابات میں، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد، ایم کیو ایم کے مدمقابل تھا لیکن شہر میں سیاسی منافقت کے کافی مناظر بھی دیکھے گے۔ بعض حلقوں میں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ(ن) ایک دوسرے کی اتحادی تھے۔ یکم دسمبر کو جب جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن میڈیا کے سامنے کراچی کے لیے اپنا پروگرام بتارہے تھے ٹھیک اُسی وقت جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، اسٹیل مل کے علاقے گلشن حدید میں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ(ن) کے مشترکہ جلسے سے خطاب کررہے تھے۔ مسلم لیگ(ن) سندھ کے صدر اسماعیل راہو بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں بلدیہ ٹاؤن کی یونین کونسل 34 میں جماعت اسلامی کے امیدوار کو ترازو کا نشان پوسٹر پر چھاپنے سے بھی تسلی نہیں ہوئی تو اُس نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی تصویر بھی عمران خان اور سراج الحق کے ساتھ چھاپ دی۔ سب سے دلچسپ منظر اورنگی ٹاؤن کی ایک یونین کونسل میں تھا، جہاں ایم کیوایم کے مقابل انتخابی اتحاد میں مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی اور عمران خان کی پی ٹی آئی ساتھ ساتھ موجود تھے۔

 

کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کو بھاری اکثریت دے کر کامیاب کروایا ہے اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے دو جماعتی اتحاد کو مسترد کردیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کراچی کے لوگ نہ تو عمران خان کی ‘تبدیلی’ چاہتے ہیں اور نہ ہی کراچی کو جماعت اسلامی کا ‘استنبول’ بنانا چاہتے ہیں۔
پانچ دسمبر کو کراچی کے لوگوں نے اپنا فیصلہ دے دیا، کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کو بھاری اکثریت میں کامیاب کروایا ہے اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے دو جماعتی اتحاد کو بڑی بے دردی سے مسترد کردیا، جس کا مطلب ہے کہ کراچی کے لوگ نہ تو عمران خان کی ‘تبدیلی’ چاہتے ہیں اور نہ ہی کراچی کو جماعت اسلامی کا ‘استنبول’ بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مفاد اور سمجھ بوجھ کے تحتمناسب فیصلہ کیا ہے۔ جیسے اندرون سندھ والوں نے پیپلز پارٹی کو اور پنجاب والوں نےمسلم لیگ (ن) کو کامیاب کروایا ہے اور کوئی اُن کے خلاف آواز نہیں اٹھارہا ہے۔ مجھے ایم کیو ایم سے اختلاف رہتا ہے، لیکن یہ کراچی کی اکثریت کا فیصلہ ہے، جمہورت میں اکثریت کا فیصلہ سب کو تسلیم کرنا ہوتا ہے، اس لیے میں لاکھ اختلاف کروں لیکن مجھے ور مجھ سمیت ایم کیو ایم کے تمام مخالفین اور ناقدین کو یہ جمہوری فیصلہ قبول کرنا چاہیئے۔ آپ کا یا میرا ایم کیو ایم سے اختلاف اپنی جگہ لیکن ہمیں کراچی کے لوگوں کا فیصلہ تسلیم کرنا ہوگا۔ ایک چیز ذہن میں رکھیں کہ یہ جو سوشل میڈیا پر مہاجر مہاجر کے تعصب سے بھرپور تبصرے ہورہے ہیں تو تبصرے کرنے والوں کے لیے یہ اطلاع ہے کہ ہارنے اور جیتنے والے بیشتر مہاجر ہیں، جن میں ایم کیو ایم کےوسیم اختر، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن اور تحریک انصاف کے علی زیدی بھی شامل ہیں، ویسے بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خود بتاچکے ہیں کہ وہ بھی آدھے مہاجر ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم ایم کیو ایم کو بھرپور مبارکباد دیں۔ دل بڑا کیجیئے، ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو تسلیم کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *