Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

اسلام اور عورت؛ ایک متبادل نقطہ نظر

test-ghori

test-ghori

01 جون, 2016
اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کے قانون پر دی گئی سفارشات اور ان سفارشات پر ہونے والی شدید تنقیدکئی حوالوں سے اہم ہے۔ ان میں کچھ ایسی سفارشات بھی موجود ہیں جو اسلام کی تبدیل ہوتی ہوئی شکل کی غماض ہیں جیسے یہ کہ عورت سیاست میں حصہ لے سکتی ہے۔ اگرچہ اسلام یا مسلمان ہونے کی کوئی متفقہ یا متعینہ شکل و صورت ممکن نہیں لیکن یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کے خدوخال مرد مفسرین، شارحین اور علماء کے متعین کردہ ہیں اسی لیے زیادہ تر مذہبی تشریحات میں عورت کا وجود مرد کے تابع، محتاج یا دست نگر نظر آتا ہے (گو اسلام کی کوئی ایک شکل نہیں تاہم مسلمانوں حتیٰ کہ مسلم عورتوں کی اکثریت بھی اسلام کی مردانہ تشریحات کو ہی اسلام قرار دیتی ہے اور اسی پر ایمان رکھتی ہے)۔ اسلام کا غالب چہرہ یا اس کے زیادہ تر فرقوں کا مذہبی رویہ عورت کے لیے ایک ایسی تخصیص کا رویہ ہے جو مرد کو عورت پر خدا کی طرف سے نگران قرار دیتا ہے۔ اس نقطہ نظر کی بنیاد درج ذیل مغالطوں پر قائم ہے:

اسلام کے خدوخال مرد مفسرین، شارحین اور علماء کے متعین کردہ ہیں اسی لیے زیادہ تر مذہبی تشریحات میں عورت کا وجود مرد کے تابع، محتاج یا دست نگر رکھنا چاہتی ہیں۔
1۔ مرد اور عورت چوں کہ فطری طور پر مختلف جسمانی خصائص کے حامل ہیں اس لیے انہیں مختلف سماجی، سیاسی اور معاشی حیثیت اور کردار عطا کیا گیا ہے۔ اللہ نے فطری طور رپر مردوں کو عورتوں پر قوت، طاقت اور عقل پر برتری دی گئی ہے اور اس برتری کی بنیاد پر وہ بہتر فیصلہ کرنے کے لائق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورت خود اپنے لیے بھی درست فیصلے کے لیے مرد کی محتاج ہے۔
2۔ معاشرہ عورت کے لیے غیر محفوظ ہے، عورت چوں کہ کمزور ہے سو غیر مرد کے مقابلے میں اپنی حفاظت نہیں کر سکتی، سو اپنے تحفظ کے لیے وہ محرم مرد کی محتاج ہے۔
3۔ مرد جسمانی اور جنسی طور پر آوارہ مزاج ہے، جارح ہے اور غالب ہے جبکہ عورت فطرتاً نازک، مغلوب اور شرمیلی ہے اس لیے مرد کے سامنے عورت کو خود کو عاجز تسلیم کر لینا چاہیئے۔
4۔ اللہ نے عورت مرد کی تسکین، افزائش نسل اوربچوں کی پرورش کے لیے پیدا کی ہے، دیگر معاملات زندگی میں خواہ وہ سماجی ہوں، سیاسی ہوں، معاشی ہوں یا مذہبی ہوں، کے لیے عورت موزوں انتخاب نہیں۔
5۔ عورت نہ صرف کم عقل ہے بلکہ کج فہم بھی ہے کیوں کہ اس کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی اور وہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر انسان کو جنت سے زمین پر لانے کا باعث بنی۔ اس لیے زمین پر بھی اس کے بہکنے اور مردوں کو بہکانے کے امکانات موجود ہیں جن کا سدباب ضروری ہے۔
6۔ اللہ نے عورت اور مرد کے کردار متعین کر دیے ہیں اور متعین کردہ صنفی حدود سے تجاوز گناہ ہے۔
7۔ مرد اسی طرح سے عورت اور اہل خانہ کے لیے اللہ کے ہاں جوابدہ ہے جس طرح حاکم اپنی رعیت کے لیے، اس لیے مرد کو عورت پر دی گئی فضیلت اور اختیار ایک حاکم کا محکوم پر اختیار ہے۔

اسلام (اور دیگر سامی مذاہب میں) عورتوں سے متعلق عمومی احکامات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ اپنی ابتدائی اور خالص شکل میں یہ عورت کو مرد کے برابر انسان تصور کرنے کو تیار نہیں۔ اگرچہ اسلام بعض مقامات پر عورتوں اور مردوں کے مابین بظاہر صنفی تخصیص کا مرتکب نظر نہیں آتا۔ مگر روایتی اسلام کے بیشتر احکامات اس امر کی واضح دلیل ہیں کہ اسلام کی روایتی تشریح سماجی، سیاسی اور معاشی حتیٰ کہ انسانی سطح پر صنفی تفریق کی مبلغ ہے۔ روایتی اسلام مردانہ برتری کا بھی قائل ہے۔ طلاق، وراثت، امامت و خلافت، پردہ اور دیگر مذہبی معاملات اپنی تمام صورتوں میں مردانہ برتری کے تصور کا عملی اظہار ہیں۔ بدقسمتی سے امت کا اس امر پر اجماع بھی رہا ہے کہ عورت اور مرد علیحدہ سماجی حیثیت کے مالک ہیں اور اللہ کی جانب سے ان دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ معاشرتی حدود مقر ر ہیں جن سے انحراف ممکن نہیں۔

اسلام سمیت تمام مذاہب ابتداءً اپنے اپنے معاشرے اور ثقافت کے عکاس رہے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذاہب کے پھیلاو اور سیاسی سرپرستی کے باعث ان میں بنیادی تبدیلیاں آتی رہی ہیں یہاں تک کہ ان مذاہب کے بعض عقائد اور مظاہرنے ایک منظم اور (کسی قدر) منجمد شکل اختیار کر لی جس پر اکثریت کا اتفاق ہوا اور جن سے انحراف ممکن نہیں تھا۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد کچھ عرصے تک عورتیں سماجی معاملات میں متحرک رہیں۔ اسلام سے قبل اور رسول اللہ کے زمانے کے عرب معاشرے میں خدیجہ بنت خویلد، اسماء بنت مروان اور ہند بنت عتبہ جیسی نمایاں عورتوں کی کمی نہیں تھی جو تاجر تھیں، خود مختار تھیں، شعر کہتی تھیں، جنگی محاذوں پر جاتی تھیں، اپنی رومانی زندگی کے فیصلے کرتی تھیں اور آزادانہ نقل و حمل کرتی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نمایاں اور متحرک عورتیں ناپید ہو گئیں اور عورت کو چاردیواری تک محدود رکھنا اللہ کا حکم سمجھ لیا گیا۔

ظہور اسلام سے قبل کی عورت کے حوالے سے ہمارے پاس معلومات محدود ہیں تاہم یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دور جاہلیت کے بعض قبائل مدرسری نظام کے تحت زندگی گزار رہے تھے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور فکر پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گہرے اثرات سے انکار ممکن نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی سیاسی، سماجی اور مذہبی طور پر نمایاں اور فعال رہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بدعنوان رشتے داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ہو یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کا تقاضا ہر جگہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فعال اور اہم تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مرتب کردہ قرآنی نسخہ اپنی صاحب زادی کی تحویل میں دیا جو ظاہر کرتا ہے کہ عورتوں کو مذہبی معاملات میں شریک کرتے وقت موجودہ زمانے کا سا تعصب موجود نہیں تھا۔ احادیث میں تنہا عورت کے بے خوف و خطر بیت اللہ جانے کا تذکرہ بھی ملتا ہے گویا عورت نقل و حمل کے لیے محرم کی محتاج نہیں تھی۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار عرب عورت کا وجود اسلام کے ظہور کے چند دہائیوں بعد ہی ناقابل قبول ہو گیا اور ہمیں عرب علاقوں پر مسلم غلبے کے بعد عورتوں پر پابندیاں بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں؟

ظہور اسلام سے قبل کی عورت کے حوالے سے ہمارے پاس معلومات محدود ہیں تاہم یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دور جاہلیت کے بعض قبائل مدرسری نظام کے تحت زندگی گزار رہے تھے اور بعض قبائل میں خواتین خصوصاً اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین بے حد متحرک اور خود مختار تھیں (یہ بات بھی درست ہے کہ تمام قبائل کی عورتوں کو یہ آزادی اور خودمختاری حاصل نہیں تھی)۔ اہم سوال یہ ہے کہ یہ خود مختار عرب عورتیں جو غلام رکھتی تھیں، طلاق دے سکتی تھیں، اپنی مرضی کے شریک حیات منتخب کر سکتی تھیں اور سماجی و سیاسی فیصلوں میں شریک ہوتی تھیں کہاں گئیں؟ بلکہ یہ معاملہ بھی بحث طلب ہے کہ جہاں جہاں مسلمان حکمرانوں نے حکومتیں کیں وہاں عورتیں بالخصوص عام عورتیں عوامی زندگی سے بے دخل کیوں ہوئی ہیں۔ ہندوستان پر مسلم حکومتیں البتہ ایک مختلف مثال ہیں کہ یہاں اسلام کی آمد کے باوجود عورت کھیتوں میں بے پردہ کام کرتی رہی ہے، کھلے عام میلوں ٹھیلوں پر رقص کرتی رہی ہے اور عشق کی لازوال داستانوں کا حصہ بنی ہے لیکن بہرطور مسلم عورت کی حیثیت کو کسی بھی طرح مردوں کے مساوی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ہندوستان کے دیہی اور شہری علاقوں میں مقامی ثقافت اس قدر کمزور نہیں تھی کہ عرب مسلم حملہ آوروں کی ثقافت علاقائی رسم و رواج کو بہت حد تک بدل سکتی۔

عرب خطے میں مسلمان خلفاء کے زیرانتظام علاقوں میں عورت کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو سب سے زیادہ نقصان اسلام کے ان قوانین نے پہنچایا ہے جو صنفی مساوات کی بجائے پدرسری نظام کو استحکام بخشتے ہیں۔
عرب خطے میں مسلمان خلفاء کے زیرانتظام علاقوں میں عورت کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو سب سے زیادہ نقصان اسلام کے ان قوانین نے پہنچایا ہے جو صنفی مساوات کی بجائے پدرسری نظام کو استحکام بخشتے ہیں۔ خصوصاً فقہ کی تشکیل اور مسلم استعمار کے پھیلاو کا کام مرد مردوں نے کیا۔ ان مردوں نے اسلام کی جانب سے پسندیدہ قرار دی گئی عورت مخالف اقدار کو ہی مذہبی تشریحات کا حصہ بنایا اور ان کی تبلیغ کی۔ یہ مذہبی تشریحات مردوں کو عورتوں پر حاکم اور برتر خیال کرتی تھیں (ہیں) اور علماء کے نزدیک یہ صنفی عدم توازن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقرر کردہ تھی۔ اسلام کے مرتب کردہ عائلی قوانین، قوانین وراثت اور دیگر احکامات عورت کی فہم و فراست پر اعتبار کرنے کے قائل نہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورت مرد کی طرح طلاق دینے، وراثت میں برابر کی جائیداد حاصل کرنے، خاندان کی سربراہ بننے، آزادانہ نقل و حمل کرنے اور اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کی حقدار تصور نہیں کی جاتی۔

ایک عمومی مغالطہ یہ بھی ہے کہ اسلام نے عورت کو حقوق دیے ہیں اور اسلام کی آمد سے قبل عورت نہایت قابل رحم حالت میں زندگی گزارتی تھی، یا یہ کہ اسلام نے عورت کو تحفظ دیا ہے اور اسے احترام دیا ہے، یا یہ کہ اسلام سے بڑھ کر کسی اور مذہب (یا نظریے نے) عورت کو حقوق نہیں دیے۔ اگرچہ یہ مغالطے تفصیلی بحث کے متقاضی ہیں تاہم ان پر مختصر تبصرہ ضروری ہے۔ اسلام سے قبل کے عرب معاشرے میں بھی اور دنیا کی بہت سی تہذیبوں میں خواتین ایک مثالی مسلمان عورت کی نسبت کہیں زیادہ آزاد رہی ہیں، زمانہ جاہلیہ کی کئی عورتیں آج کی مسلمان عورت سے بھی کہیں زیادہ آزاد تھیں۔ اسی طرح یونان اور روم کی آزاد عورت بھی اسلام کے تصور عورت سے زیادہ خودمختار اور آزاد تھی۔ گو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حالات ہر جگہ مثالی تھے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ اسلام نے ہی سب سے پہلے عورت کو حقوق دیے یا اسے احترام دیا۔ اسی طرح عورت سے متعلق اسلامی احکامات مردوں کو دیے گئے اختیارات کے مقابلے میں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اسلام (یا مسلمانوں) کی نظر میں عورت مرد کے مقابلے میں کم تر، محکوم اور مغلوب ہے۔ یہ صورت حال وقت کے ساتھ اس قدر خراب ہوئی کہ تحفظ اور حقوق کی جو ضمانتیں اسلام نے عورت کو دی تھیں ان پر عملدرآمد بھی متروک ہوتا چلا گیا۔

یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ عرب (مسلم ) استعمار (empire) مکمل طور پر پدرسری(Patriarchy) کا حامی اور مردانہ برتری کا قائل نظام حکومت تھا۔ عربوں یا مسلمانوں نے جہاں بھی حکومت کی وہاں پدرسری سماجی نظم کو استحکام بخشا۔ مسلمانوں میں عورت کی اس کم تر مذہبی، سماجی، سیاسی اور انسانی حیثیت پر پہلی مرتبہ سوالات تب اٹھائے گئے جب ان علاقوں میں جہاں مسلم حکمران تھے, یورپی نوآبادیاتی طاقتوں (Colonial Powers)نے قبضے کیے اور ان کے توسط سے جمہوریت، انسانی مساوات اورصنفی برابری کے تصورات پہنچے۔ (یہاں یہ سمجھنا بھی اہم ہے کہ کیوں سیاسی قوت کے بغیر عورت کے خلاف جرائم اور ناانصافی کا خاتمہ ممکن نہیں اور کس وجہ سے مسلم عورتوں کو سیاسی عمل میں شریک ہونا چاہیئے)۔ نوآبادیاتی طاقتوں کے زیرانتظام ہی عورتیں پہلی مرتبہ تعلیم، سیاست اور معیشت کا باقاعدہ حصہ بنیں اور مذہبی بنیادوں پر جاری استحصال کمزور ہوا۔ لیکن اسی دور میں عورت کی آزادی کو مغربی تہذیب کی یلغار قرار دے کر اسے مسترد کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں اور بہشتی زیور اور مرۃالعروس جیسی کتب کے ذریعے عورت کو اس کے ‘صحیح شرعی اور مشرقی’ مقام سے آگاہ کرنے کا کام شروع ہوا جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ نوآبادیاتی دور میں ‘مغرب سے درآمد کردہ بے حیا کفریہ تصورات’ کی بدولت ہی آج مسلم ممالک میں عورت سیاست، معیشت، صنعت و حرفت اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کر رہی ہے ورنہ مسلم معاشروں میں رائج اسلامی اقدار تو عورت کو گھر کی باندی سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں۔

یہاں یہ بحث بھی ضروری ہے کہ کیا اسلام ابھی تک عورت سے متعلق اسی فرسودہ نقطہ نظر کا حامل ہے جس کے تحت اس نے عرب علاقوں اور باقی دنیا کی عورت کی آزادی اور خودمختاری سلب کی؟
یہاں یہ بحث بھی ضروری ہے کہ کیا اسلام ابھی تک عورت سے متعلق اسی فرسودہ نقطہ نظر کا حامل ہے جس کے تحت اس نے عرب علاقوں اور باقی دنیا کی عورت کی آزادی اور خودمختاری سلب کی؟ نظریاتی طور پر تو اس کا جواب ایک جزوی ہاں میں دیا جا سکتا ہے کہ اسلام کا روایتی مذہبی طبقہ ابھی تک عورت اور مرد کی مساوات کا قائل نہیں اور نہ ہی عورت کو ایک آزاد اور خود مختار فرد کے طور پر زندگی گزارتے دیکھنا چاہتا ہے لیکن اب معاملہ اتنا آسان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب مسلمان عورت خود ان مذہبی احکامات پر سوال اٹھا رہی ہے جو اسے ایک کم تر حیثیت دیتے ہیں۔ حقوقِ نسواں کی مسلم تحریک گو کمزور ہے مگر اپنی منزل کی جانب گامزن ہے۔ اب یہ ممکن نہیں رہا کہ مولانا شیرانی، مفتی نعیم، جنید جمشید اور طارق جمیل جیسے مرد مبلغین اور ان کی ہم خیال مبلغات اسلام کی ‘صحیح اور خالص’ شکل پیش کریں اور انہیں بری طرح سے تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر اسلام کی شکل بہت بدل چکی ہے اور اب ممکن نہیں رہا کہ مرد کی ایک سے زائد شادیوں کے حق میں بات کی جائے، یا عورتوں پر ‘ہلکے پھلکے تشدد’ کو اسلامی جواز بخشا جائے، یا کم سنی کی شادی کو شرعی قرار دیا جائے، یا پسند کی شادی پر پابندی لگانے کی کوشش کی جائے یا عورت کو زبردستی پردے پر مجبور کیا جائے اور اس قسم کے معاملات پر مسلمان عورتوں اور مردوں کی جانب سے تنقید نہ کی جائے۔ مسلمانوں کی ایک بہت واضح، متحرک اور فعال اقلیت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اسلام کی بنیاد پر مرد کو عورت پر حاکم قرار دیا جا دسکتا ہے۔ اسلام بھی دیگر مذاہب کی طرح اپنی شکل و صورت بدل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ عورتیں ووٹ ڈال رہی ہیں، حکومت کر رہی ہیں اور مخلوط اجتماعات کی نمازوں کی امامت کر رہی ہیں۔ اس تبدیلی کے باوجود یہ سوال اب ہم سب کے سامنے ہے (خصوصاً مسلمان عورت کے سامنے) کہ کیا وہ اسلام کے بنیادی متن، تشریحات اور اقدار میں موجود صنفی عدم توازن کے سامنے سر جھکانے کو تیار ہے یا اسلام کی تشریح کا کام اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا سر اٹھا کر جینا چاہتی ہے۔