ٹھیک پچاس سال پہلے، آج ہی کی تاریخ تھی، 16 ستمبر۔۔۔۔لاہور کی بی آر بی نہر میں ایک لاش بہہ رہی تھی۔
65 کی جنگ چل رہی تھی، اور بی آر بی نہر پر پاکستانی فوج تعینات تھی۔ سول آبادی کو محفوظ جگہ منتقل کیا جا چکا تھا۔
نہر پر تعینات برکی بریگیڈ کے توپچیوں نے اُس کے جسم کو خشکی پر منتقل کیا۔ جسم پر پاکستانی فوج کی وردی تھی اور رینک سے اندازہ ہواکہ جونئیر رینک کا کوئی فوجی افسر تھا۔ کسی قسم کا کوئی اور نشان ایسا نہ تھاکہ اُس کی یونٹ اور نام کا بھی علم ہو سکے۔
65 کی جنگ چل رہی تھی، اور بی آر بی نہر پر پاکستانی فوج تعینات تھی۔ سول آبادی کو محفوظ جگہ منتقل کیا جا چکا تھا۔
نہر پر تعینات برکی بریگیڈ کے توپچیوں نے اُس کے جسم کو خشکی پر منتقل کیا۔ جسم پر پاکستانی فوج کی وردی تھی اور رینک سے اندازہ ہواکہ جونئیر رینک کا کوئی فوجی افسر تھا۔ کسی قسم کا کوئی اور نشان ایسا نہ تھاکہ اُس کی یونٹ اور نام کا بھی علم ہو سکے۔
جب کسی طرح سے شناخت کا علم نہ ہو سکا تو توپ خانے کے کمانڈر کرنل محمد نواز سیال نے اپنی نگرانی میں اسی نہر کے کنارے تدفین کر دی، جس نہر کی حفاظت کرتے اس نے اپنی جان دی تھی
جب کسی طرح سے شناخت کا علم نہ ہو سکا تو توپ خانے کے کمانڈر کرنل محمد نواز سیال نے اپنی نگرانی میں اسی نہر کے کنارے تدفین کر دی، جس نہر کی حفاظت کرتے اس نے اپنی جان دی تھی۔
نام تو معلوم نہ ہو سکا، لیکن اُسے گمنام شہید کا خطاب دِیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو پر پروگرام کرتے ایک بار ایک کالر نے فون کر کے مجھے گمنام شہید کے بارے میں بتایا تھا۔ میرے ذہن پہ یہ بات نقش ہو گئی۔ لیکن کوتاہی اور سستی کی وجہ سے کبھی کھوجنے کی کوشِش نہ کی۔ شاید بے حسی کا عنصر زیادہ تھا۔ اس سال 6 ستمبر کو کچھ بت توڑے اور ارادہ باندھا کہ گمنام شہید کی قبر ضرور ڈھونڈوں گا۔ اس راہ نوردی میں میرے دونوں بچے بھی میرے ہم راہ تھ۔محفوظ گیریژن سے سیدھی سڑک پہ چلتے پہلے میجرعزیزبھٹی شہید کی جائے شہادت پر پہنچ کر ہر ایک سے پوچھا کہ کیا گمنام شہید کے بارے میں کچھ معلوم ہے، لیکن کسی کو کچھ پتہ نہ تھا۔
بس اتنا معلوم تھاکہ بی آر بی نہر کے کنارے موجود ہے۔بہرحال گاڑی دوبارہ سڑک پر ڈال کر نہر کی جانب رخ کیا۔
ایک چوکی نظر آئی، رینجرز اہلکار وہاں موجود تھے۔پوچھنے پر بتایا کہ قبر چوکی کے اندر موجود ہے۔ اجازت لے کر، بچوں کو لے کر اندر گیا۔ قبر کے ارد گرد چھوٹی سی دیوار ہے اور اوپر سائبان بھی موجود ہے۔ایک اطمینان تو یہ تھا کہ منزل مل گئی، پھر خوش نصیبی پر بھی دل مطمئن تھا کہ شہید کے پاس آئے ہیں۔ایک جوان نے خوش ہو کر ہمیں درخت سے تازہ امرود توڑ کر دیے۔ خوشی کا اظہار بھی کیا کہ میں بچوں کو لے کر آیا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ارفع اپنے سوال سے کبھی کبھی مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ اب کے بار اس کے سوال بہت پیچیدہ تھے۔ ان کے گھر والوں، بیوی بچوں کے بارے میں سوال پوچھ رہی تھی۔
میرا ذہن حسب معمول ایک تصوراتی دنیا کی بھول بھلیوں میں گم ہونے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا کوئی نہ کوئی گھر ہوگا۔ آنگن میں شاید اس کے دادا نے توت کا ایک درخت لگایا ہوگا، جس کی چھاوں ٹھنڈی ہوتی ہوگی۔ جب توت سے بھر جاتا تھا تو ایک چھوٹا سا پرندہ آتا تھا اور شور مچاتا تھا۔ دادی کہتی تھی کہ یہ توتی ہے۔ گھر کے آنگن میں ایک جانب کنواں تھا۔ گرمیوں میں اس سے ڈول بھر بھر کر پانی نکالا جاتا تھا اور قمیص اتار کر نہانا معمول تھا۔ کمروں کی کھڑکیاں آنگن میں کھلتی تھیں۔ صبح سویرے کیسی دھوپ آتی تھی۔ دیواروں پر بیٹھے کوے اور چڑیاں اس انتظار میں ہوتے تھے کہ کچھ چگنے کو ملے۔
نام تو معلوم نہ ہو سکا، لیکن اُسے گمنام شہید کا خطاب دِیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو پر پروگرام کرتے ایک بار ایک کالر نے فون کر کے مجھے گمنام شہید کے بارے میں بتایا تھا۔ میرے ذہن پہ یہ بات نقش ہو گئی۔ لیکن کوتاہی اور سستی کی وجہ سے کبھی کھوجنے کی کوشِش نہ کی۔ شاید بے حسی کا عنصر زیادہ تھا۔ اس سال 6 ستمبر کو کچھ بت توڑے اور ارادہ باندھا کہ گمنام شہید کی قبر ضرور ڈھونڈوں گا۔ اس راہ نوردی میں میرے دونوں بچے بھی میرے ہم راہ تھ۔محفوظ گیریژن سے سیدھی سڑک پہ چلتے پہلے میجرعزیزبھٹی شہید کی جائے شہادت پر پہنچ کر ہر ایک سے پوچھا کہ کیا گمنام شہید کے بارے میں کچھ معلوم ہے، لیکن کسی کو کچھ پتہ نہ تھا۔
بس اتنا معلوم تھاکہ بی آر بی نہر کے کنارے موجود ہے۔بہرحال گاڑی دوبارہ سڑک پر ڈال کر نہر کی جانب رخ کیا۔
ایک چوکی نظر آئی، رینجرز اہلکار وہاں موجود تھے۔پوچھنے پر بتایا کہ قبر چوکی کے اندر موجود ہے۔ اجازت لے کر، بچوں کو لے کر اندر گیا۔ قبر کے ارد گرد چھوٹی سی دیوار ہے اور اوپر سائبان بھی موجود ہے۔ایک اطمینان تو یہ تھا کہ منزل مل گئی، پھر خوش نصیبی پر بھی دل مطمئن تھا کہ شہید کے پاس آئے ہیں۔ایک جوان نے خوش ہو کر ہمیں درخت سے تازہ امرود توڑ کر دیے۔ خوشی کا اظہار بھی کیا کہ میں بچوں کو لے کر آیا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ارفع اپنے سوال سے کبھی کبھی مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ اب کے بار اس کے سوال بہت پیچیدہ تھے۔ ان کے گھر والوں، بیوی بچوں کے بارے میں سوال پوچھ رہی تھی۔
میرا ذہن حسب معمول ایک تصوراتی دنیا کی بھول بھلیوں میں گم ہونے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا کوئی نہ کوئی گھر ہوگا۔ آنگن میں شاید اس کے دادا نے توت کا ایک درخت لگایا ہوگا، جس کی چھاوں ٹھنڈی ہوتی ہوگی۔ جب توت سے بھر جاتا تھا تو ایک چھوٹا سا پرندہ آتا تھا اور شور مچاتا تھا۔ دادی کہتی تھی کہ یہ توتی ہے۔ گھر کے آنگن میں ایک جانب کنواں تھا۔ گرمیوں میں اس سے ڈول بھر بھر کر پانی نکالا جاتا تھا اور قمیص اتار کر نہانا معمول تھا۔ کمروں کی کھڑکیاں آنگن میں کھلتی تھیں۔ صبح سویرے کیسی دھوپ آتی تھی۔ دیواروں پر بیٹھے کوے اور چڑیاں اس انتظار میں ہوتے تھے کہ کچھ چگنے کو ملے۔
بچپن کے کھیل، گنے توڑ کر کھانا، برسات میں بھیگنا، مولوی صاحب سے ایک ساتھ درس لینے جانا، پھر شرارتیں، لڑکپن، بھاگ دوڑ، پتنگیں اڑانا، چھوٹی موٹی لڑائیاں اور پھر دوستی۔۔۔ یہ سب اس کی زندگی کا حصہ ہوں گے۔
اس گمنام شہید کے ماں باپ بھی ہوں گے۔ میں ایک بار رات ریڈیو سے دیر سے گھر آیا تھا تو والد کتنے پریشان ہوئے تھے۔ کبھی دیر ہو تو امی گھبرا جاتی ہیں۔ ماں باپ کا دل تو ویسے بھی اولاد کے لیے چڑیا جیسا ہو جاتا ہے۔ اس کے ماں باپ بھی تو ڈھونڈتے ہوں گے۔ جائے نماز پر سجدے میں پیشانی ہوتی ہوگی اور لمبی عمر کی دعائیں۔۔۔۔۔ ایک دعا تو قبول ہو گئی ہے ان کی، ان کا بیٹا زندہ ہے۔ شہید مرتے نہیں ہیں۔ کاش انہیں کوئی بتا دے۔ اب تک شاید ہی حیات ہوں، لیکن زندہ بھی ہیں تو کس طرح جی رہے ہوں گے۔
اس کی شاید بیوی بھی ہو گی۔ سرتاج مورچے پر ہیں دعائیں کرتی ہوگی۔ رات کو نیند بھی سکون نہیں دیتی ہوگی۔ کبھی کبھی اپنے پہ غصہ بھی آتا ہوگا ایک بارشوہر کی فرمائش پوری نہیں کی تھی اور کھانے میں کچھ اوربنا دیا تھا۔ یہ سوچ کر کبھی ہلکے ہلکے مسکراتی بھی ہوگی کہ سرتاج نے تحفے میں سرمہ دانی دی تھی اور کہا تھا کہ آنکھیں کتنی روشن لگتی ہیں سرمہ کی کالک میں۔ ایک بار خواہ مخواہ ناراض ہو گئی تھی تو کیسے خود روٹھ کر بیٹھ گئےتھے، الٹا منانا پڑ گیا۔
بستر کی سلوٹیں رت جگے کی ساتھی ہوں گی۔ لیکن کیا اسے معلوم ہے کہ اس کا شوہر اتنا عظیم انسان تھا کہ خود کو مٹا کر کئی سہاگنوں کی مانگ بھری رہنے دی۔
ہو سکتا ہے اس کی کوئی بیٹی بھی ہو۔ بابا کے گلے لگ کر سوتی ہوگی۔ بابا سے ناز لاڈ اٹھواتی ہوگی۔ ماں شکایت کرتی ہوگی کہ ضدیں پوری کر کے بگاڑ رہے ہیں۔ جب چلنا سیکھا ہوگا تو گرتے وقت دیکھتی ہوگی کہ بابا اٹھائیں گے۔ اب بابا تو نہیں ہیں تو گرتی ہوگی تو کیا سوچتی ہوگی؟
اگر اس کا بیٹا ہوگا تو باپ کے کھردرے سینے میں چھپی محبت کا اظہار بھی ہوتا ہوگا۔ ڈانٹ بھی ہوتی ہوگی لیکن پھر افسوس کہ کیوں ڈانٹ دیا۔ پہلی سالگرہ پر ایک گاڑی دی تھی تحفے میں، دوسرے دن ہی اس کے پرزے الگ ہو گئے تھے تو بیوی کو کہا تھا “دیکھنا بڑے ہوکر انجینئر بنے گا؟“ جب بھی بیٹے کو دیکھتا ہوگا تو اپنا بڑھاپا ایک لمحے کو نظر آتا ہوگا۔ بیٹا سہارا ہے۔ شاید بیٹا بھی باپ پر گیا ہوگا۔ بیٹے کو معلوم نہیں کہ لاہور کے کتنے بیٹوں کو محفوظ کر گیا اس کا باپ۔
کیا پاکستان کی موجودہ نسل جو ہر وقت انگریز بننے کی کوشش میں لگی رہتی ہے، سوشل میڈیا اور موبایل ایپلیکیشن کی دنیا سے الگ ہو کر ایک باپ کی قربانیوں کو جان سکتے ہیں؟
اس کے دوست بھی ہوں گے، یقیناً۔ بچپن کے کھیل، گنے توڑ کر کھانا، برسات میں بھیگنا، مولوی صاحب سے ایک ساتھ درس لینے جانا، پھر شرارتیں، لڑکپن، بھاگ دوڑ، پتنگیں اڑانا، چھوٹی موٹی لڑائیاں اور پھر دوستی۔۔۔ یہ سب اس کی زندگی کا حصہ ہوں گے۔ بچپن کا پرانا دوست، یاد تو کرتا ہوگا۔
بہن بھائی بھی ہوں گے شاید۔ گھر میں سالن کی بوٹیوں پر لڑائی، بہنوں کو تنگ کرنا، بھائی پر رعب جمانا، بھائی کے ساتھ کپڑے ادل بدل کرنا، بہنوں کو سہیلیوں کے گھر لے کر جانا، بے وقت چائے کی فرمائش پر بہن کا ماں سے شکایت کرنا، ان سب لمحات کو بھلا کر اس نے ہم وطن بہن بھائیوں کے لیے جان قربان کر دی۔
کیا اس کے ہم وطن بہن بھائیوں کو اس کا احساس ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارفع کے سوالوں کے جواب دینا مشکل تھا میرے لیے۔
ہم گمنام شہید کی قبر سے واپس آرہے تھے۔ ایک ٹولی لڑکوں کی موٹر سائیکلوں پر گزری۔ بے ہنگم انداز سے کرتب دکھا کر یوم دفاع کی پچاس سالہ تقریبات منانے کا انوکھا انداز تھا۔ بے وقوفوں کو کوئی بتائے جا کر کہ جس لاہور کی سڑکوں پر تم آوارہ گردی کر رہے ہو وہ ایک گمنام شہید اور اس جیسے کئی گمنام شہیدوں کی مرہوں منت ہے۔
ایک دوست دہشت گردوں کے سرغنہ کو سوشل میڈیا پر شہید کہہ رہے تھے۔ یہ وہ سرغنہ تھے جو اعتراف جرم کر تے تھے کہ ہزاروں پاکستانیوں کے قتل میں اور وہ بھی مذہب کے نام پر قتل میں ملوث ان کی سدھائی ہوئی زندہ لاشیں سیدھی جنت سدھاریں گی جہاں بہتی ہوئی نہریں اور حور و غلمان ان کے منتظر ہوں گے۔
میں سوچ رہا تھا کہ گمنام شہید نے کیوں اپنی جان دی؟ اس قسم کے پاکستانیوں کے لیے؟ کیا شرم کی تھوڑی سی بھی رمق ہم میں باقی ہے؟ ایک بار میری طرح تصور کی دنیا میں گمنام شہید کے گھر اور گھر والوں اور زندگی کا تصور کیجیے۔ کیا آپ ایسی قربانی دے سکتے ہیں؟ کبھی موقع ملے تو ضروراس چوکی پر جائیے گا۔ گمنام شہید وہاں آپ کو ملے گا۔ خوش باش، اطمینان سے بھرپور اور زندہ۔ جب وہ آپ سے ملے گا تو آپ ایک بار ہل کر ضرور رہ جائیں گے۔ اس کو شہید کی برکت سمجھ لیجیئے گا۔
شہید زندہ ہوتے ہیں۔ زندہ احساس بھی رکھتے ہیں اور ہم لوگ زندہ لاشیں ہیں، زومبیز (Zombies)ہیں، احساس سے عاری۔ ہمارے لیےہلڑ بازی اور سوشل میڈیا پر طوفان ہی زندگی کا حاصل ہے۔آج گمنام شہید کی برسی ہے؟ اگر گمنام شہید نے کوئی سوال پوچھا اپنی برسی پر، تو کیا آپ کے پاس جواب ہوں گے؟
اس کی شاید بیوی بھی ہو گی۔ سرتاج مورچے پر ہیں دعائیں کرتی ہوگی۔ رات کو نیند بھی سکون نہیں دیتی ہوگی۔ کبھی کبھی اپنے پہ غصہ بھی آتا ہوگا ایک بارشوہر کی فرمائش پوری نہیں کی تھی اور کھانے میں کچھ اوربنا دیا تھا۔ یہ سوچ کر کبھی ہلکے ہلکے مسکراتی بھی ہوگی کہ سرتاج نے تحفے میں سرمہ دانی دی تھی اور کہا تھا کہ آنکھیں کتنی روشن لگتی ہیں سرمہ کی کالک میں۔ ایک بار خواہ مخواہ ناراض ہو گئی تھی تو کیسے خود روٹھ کر بیٹھ گئےتھے، الٹا منانا پڑ گیا۔
بستر کی سلوٹیں رت جگے کی ساتھی ہوں گی۔ لیکن کیا اسے معلوم ہے کہ اس کا شوہر اتنا عظیم انسان تھا کہ خود کو مٹا کر کئی سہاگنوں کی مانگ بھری رہنے دی۔
ہو سکتا ہے اس کی کوئی بیٹی بھی ہو۔ بابا کے گلے لگ کر سوتی ہوگی۔ بابا سے ناز لاڈ اٹھواتی ہوگی۔ ماں شکایت کرتی ہوگی کہ ضدیں پوری کر کے بگاڑ رہے ہیں۔ جب چلنا سیکھا ہوگا تو گرتے وقت دیکھتی ہوگی کہ بابا اٹھائیں گے۔ اب بابا تو نہیں ہیں تو گرتی ہوگی تو کیا سوچتی ہوگی؟
اگر اس کا بیٹا ہوگا تو باپ کے کھردرے سینے میں چھپی محبت کا اظہار بھی ہوتا ہوگا۔ ڈانٹ بھی ہوتی ہوگی لیکن پھر افسوس کہ کیوں ڈانٹ دیا۔ پہلی سالگرہ پر ایک گاڑی دی تھی تحفے میں، دوسرے دن ہی اس کے پرزے الگ ہو گئے تھے تو بیوی کو کہا تھا “دیکھنا بڑے ہوکر انجینئر بنے گا؟“ جب بھی بیٹے کو دیکھتا ہوگا تو اپنا بڑھاپا ایک لمحے کو نظر آتا ہوگا۔ بیٹا سہارا ہے۔ شاید بیٹا بھی باپ پر گیا ہوگا۔ بیٹے کو معلوم نہیں کہ لاہور کے کتنے بیٹوں کو محفوظ کر گیا اس کا باپ۔
کیا پاکستان کی موجودہ نسل جو ہر وقت انگریز بننے کی کوشش میں لگی رہتی ہے، سوشل میڈیا اور موبایل ایپلیکیشن کی دنیا سے الگ ہو کر ایک باپ کی قربانیوں کو جان سکتے ہیں؟
اس کے دوست بھی ہوں گے، یقیناً۔ بچپن کے کھیل، گنے توڑ کر کھانا، برسات میں بھیگنا، مولوی صاحب سے ایک ساتھ درس لینے جانا، پھر شرارتیں، لڑکپن، بھاگ دوڑ، پتنگیں اڑانا، چھوٹی موٹی لڑائیاں اور پھر دوستی۔۔۔ یہ سب اس کی زندگی کا حصہ ہوں گے۔ بچپن کا پرانا دوست، یاد تو کرتا ہوگا۔
بہن بھائی بھی ہوں گے شاید۔ گھر میں سالن کی بوٹیوں پر لڑائی، بہنوں کو تنگ کرنا، بھائی پر رعب جمانا، بھائی کے ساتھ کپڑے ادل بدل کرنا، بہنوں کو سہیلیوں کے گھر لے کر جانا، بے وقت چائے کی فرمائش پر بہن کا ماں سے شکایت کرنا، ان سب لمحات کو بھلا کر اس نے ہم وطن بہن بھائیوں کے لیے جان قربان کر دی۔
کیا اس کے ہم وطن بہن بھائیوں کو اس کا احساس ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارفع کے سوالوں کے جواب دینا مشکل تھا میرے لیے۔
ہم گمنام شہید کی قبر سے واپس آرہے تھے۔ ایک ٹولی لڑکوں کی موٹر سائیکلوں پر گزری۔ بے ہنگم انداز سے کرتب دکھا کر یوم دفاع کی پچاس سالہ تقریبات منانے کا انوکھا انداز تھا۔ بے وقوفوں کو کوئی بتائے جا کر کہ جس لاہور کی سڑکوں پر تم آوارہ گردی کر رہے ہو وہ ایک گمنام شہید اور اس جیسے کئی گمنام شہیدوں کی مرہوں منت ہے۔
ایک دوست دہشت گردوں کے سرغنہ کو سوشل میڈیا پر شہید کہہ رہے تھے۔ یہ وہ سرغنہ تھے جو اعتراف جرم کر تے تھے کہ ہزاروں پاکستانیوں کے قتل میں اور وہ بھی مذہب کے نام پر قتل میں ملوث ان کی سدھائی ہوئی زندہ لاشیں سیدھی جنت سدھاریں گی جہاں بہتی ہوئی نہریں اور حور و غلمان ان کے منتظر ہوں گے۔
میں سوچ رہا تھا کہ گمنام شہید نے کیوں اپنی جان دی؟ اس قسم کے پاکستانیوں کے لیے؟ کیا شرم کی تھوڑی سی بھی رمق ہم میں باقی ہے؟ ایک بار میری طرح تصور کی دنیا میں گمنام شہید کے گھر اور گھر والوں اور زندگی کا تصور کیجیے۔ کیا آپ ایسی قربانی دے سکتے ہیں؟ کبھی موقع ملے تو ضروراس چوکی پر جائیے گا۔ گمنام شہید وہاں آپ کو ملے گا۔ خوش باش، اطمینان سے بھرپور اور زندہ۔ جب وہ آپ سے ملے گا تو آپ ایک بار ہل کر ضرور رہ جائیں گے۔ اس کو شہید کی برکت سمجھ لیجیئے گا۔
شہید زندہ ہوتے ہیں۔ زندہ احساس بھی رکھتے ہیں اور ہم لوگ زندہ لاشیں ہیں، زومبیز (Zombies)ہیں، احساس سے عاری۔ ہمارے لیےہلڑ بازی اور سوشل میڈیا پر طوفان ہی زندگی کا حاصل ہے۔آج گمنام شہید کی برسی ہے؟ اگر گمنام شہید نے کوئی سوال پوچھا اپنی برسی پر، تو کیا آپ کے پاس جواب ہوں گے؟