Laaltain

کراچی میں بارش کیوں نہیں ہوتی

5 اگست، 2015
اس تحریر کا مقصد کراچی کے موسمیاتی حالات کی سائنسی یا فلسفیانہ توجیہ ہرگزنہیں اور نہ ہی اس عنوان کا تعلق کراچی کے سیاسی حالات سےہے۔ یہ تحریر کراچی کی کچی آبادیوں، خستہ حال عمارتوں اور ندی نالوں کی اطراف میں مقیم لوگوں کا المیہ ہے۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں بارش نہ ہو تو قحط اور بارش ہوجائے تو سیلاب آجاتا ہے اس لیے اندازے لگانا تو بالکل بیکار ہے ۔ کراچی میں ایک سو بیس ملی میٹر بارش کے پیشگوئی کے بعد میں نے شہر کے حوالے سے مختلف نوعیت کی تحقیقات کا آغاز کیا تو میں پہلے حیران اور پھر پریشان ہوگئی کہ کراچی میں کالی گھٹائیں چھانے کے باوجود بارش کیوں نہیں ہوتی ؟
یہ دعا صرف محمد علی کے گھرانے کی نہیں بلکہ ان خستہ حال عمارتوں میں بسنے والے ہر خاندان کی ہے جو اپنے آشیانے بچانے کے لیے دن رات موت کے سائے میں بارش سے بچاو کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں
کم و بیش تیرہ سو سالہ تاریخ کے حامل شہر قائد میں نہ مردم شماری کا کوئی پیمانہ ہے اور نہ افزائش آبادی روکنے کی کوئی تدبیر ۔ ایک گوٹھ سے دو کروڑ کی آبادی تک پہنچ جانے والے دنیا کے اس سستے ترین شہر میں آپ کوصرف افراتفری ہی نظر آئے گی ۔ ٹریفک کی روانی ،گاڑیوں کا بے ہنگم شوراور اس پر سائیں سرکار جیسی نا اہل حکومت ۔۔۔۔کراچی دنیا کے اُن بدقسمت شہروں میں شمار ہوتا ہے جو کما کر تو سب سے زیادہ دیتاہے مگر اس شہر کے لیےمنصوبہ بندی صرف کاغذوں کا حصہ ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کے قدیمی علاقوں میں ایک ہزار سےزائد عمارتیں مخدو ش قرار دے کر خالی کرنے کا حکم تو دے دیا گیا لیکن ان میں بسنے والے کہاں جائیں یہ نہیں بتایا گیا ۔
ایسی ہی ایک مخدوش عمارت کے رہائشی محمد علی کہتے ہیں،”سندھ بلڈنگ کنڑول اتھارٹی ہر سال نوٹس کے نام پر کاغذ کا ایک ٹکڑا بھیج دیتی ہےمگر روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ اس مہنگائی میں اس مخدوش گھرکو چھوڑ کرکہاں جائیں کہاں؟ چھ افراد پر مشتمل یہ گھرانہ جب بھی ایسی صورتحال میں گھرتا ہے تو جائے نماز بچھا کر ایک ہی دعا کرتا ہے ” اے پرودگار! بارش نہ ہو”۔یہ دعا صرف محمد علی کے گھرانے کی نہیں بلکہ ان خستہ حال عمارتوں میں بسنے والے ہر خاندان کی ہے جو اپنے آشیانے بچانے کے لیے دن رات موت کے سائے میں بارش سے بچاو کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔
ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث کراچی میں بارش کی صورت میںUrban Flooding کا شدیدخطرہ ہے
رنچھوڑ لین میں پاکستان بننے سے پہلے کی عمارت قاسم والا کو بھی مخدوش قرار دیا گیا ہے لیکن اس کےمکین اسے خالی کرنے کو تیار نہیں ۔ سالوں سے آباد سکینہ بی بی نے ہمیں بتایا کہ ان کا فلیٹ پگڑی پر ہے ، زندگی گزر گئی کرایہ دیتے ہوئے لیکن نہ گھر ہمارا ہوا نہ مالک مکان اس کی مرمت کے لیے تیار ہے۔ اس لیے جھولی پھیلا کر بس یہی دعا کرتے ہیں “یا اللہ!بارش نہ ہو”۔
بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ بارش نہ برسنے کی دعا کرنے والوں میں کچی آبادیوں کے وہ مکین بھی شامل ہیں جو شہر کے تیس دوامی اور تین سو پینتالیس برساتی نالوں کے اردگرد بستے ہیں ۔ نکاسی آب کے لیے بنائے گئے یہ نالےاب یاتو کچرے کے ڈھیر بن چکے ہیں یا تجاوزات کینذر ہوگئے ہیں۔
ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث کراچی میں بارش کی صورت میںUrban Flooding کا شدیدخطرہ ہے ۔ لانڈھی ، ملیر ، شاہ فیصل سے منسلک 18 کلو میٹر طویل چکورا نالا کوڑے کرکٹ سے بھر چکا ہے ۔ نیو کراچی،نارتھ ناظم آباد سمیت شہر سے گزرنے والا گجر نالہ 80 فیصد بند ہوچکا ہے ۔محکمہ موسمیات کے ماہرین کےمطابق 55 ملی میٹر بارش کی صورت میں بھی نالے بند ہونے کے باعث شہر میں سیلاب آجائے گا ۔ ان نالوں کے پاس مقیم کراچی واسی حکومت سے ان نالوں کی صفائی کی کوئی امید نہیں رکھتے لیکن پروودگار سے ضرور امید رکھتے ہیں کہ بارش نہ ہو۔اس لیے کراچی میں کالے بادل بھی ہوتے ہیں گوگل(Google) اورمحکمہ موسمیات موسلادھار بارشوں کی پیشن گوئیاں بھی کرتے ہیں اس کے باوجوداگربارش نہیں ہوتی تو یقین جانیےکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس شہر کے غریب اور مسکین باشدنے صرف اللہ کے سہارے جی رہے ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *