چین جہاں دنیا میں سب سے زیادہ تہوار منائے جاتے ہیں تین ستمبر سے یوم فتح کی تقریبات کا آغاز کررہا ہے۔ اس دن کو یوم فتح کا نام دیا گیا ہے جس کی تیاریاں بہت ہی جوش و خروش کی گئی ہیں۔ یوم فتح کی تقریبات یکم اکتوبر کواختتام پذیر ہوں گی جو چین کی یوم آزادی بھی ہے لیکن زیادہ تر تہواروں کی طرح یہ دن صرف چینی ہی نہیں منائیں گے بلکہ ان تقریبات میں دنیا بھر کے سربراہان مملکت کو مدعو کیا گیا ہے جن میں پاکستان کے صدر ممنون حسین بھی شامل ہیں ۔ تقریب سے قبل پاکستان کی جانب سے ایغور شد ت پسندوں کے خاتمے کا اعلان خیرسگالی اورپاک چین تعلقات کو مستحکم کرنے کا واضح پیغام سمجھا جا سکتا ہے۔چینی عوامی سپاہِ آزادی کی دعوت پر 17 ممالک سے فوجی دستے دو ہفتے پہلے ہی چین پہنچ گئے تھے جن میں 75 افسران اور جوانوں پر مشتمل پاکستانی فوجی دستہ بھی دیگر ممالک کے فوجی دستوں کے ساتھ اس فوجی پریڈ میں شامل ہواہے۔ یہ فوجی دستے چین کے یوم فتح کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والی فوجی پریڈ میں شرکت کرنے کے لیے خصوصی طور پر بلائے گئے تھے ۔
چین میں عوامی اور حکومتی سطح پر منائے جانے والا یوم فتح آج سے 70 برس قبل دوسری جنگ عظیم میں چینی عوام کی جانب سے جاپان کے خلاف مزاحمت یعنی فسطائیت کے خلاف جدوجہد کی یاد میں منایا جارہا ہے۔ 03 ستمبر 2015 کو بیجنگ کے تیان مین اسکوائر میں منعقد ہونے والی اس عظیم فوجی پریڈ میں دنیا کے کئی ممالک سے 1000 فوجی دستوں کی شرکت کے علاوہ خود چین کی چائینہ پیپلز لبریشن آرمی کے12000 دستے بھی شریک ہوئے۔ بھارت کی جانب سے ان کی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی اس تقریب میں شرکت کریں گی۔ بھارت نے پاکستانی دستے کی پریڈ میں شمولیت کی بنا پر اپنا کوئی فوجی دستہ نہیں بھیجا ۔
چین میں عوامی اور حکومتی سطح پر منائے جانے والا یوم فتح آج سے 70 برس قبل دوسری جنگ عظیم میں چینی عوام کی جانب سے جاپان کے خلاف مزاحمت یعنی فسطائیت کے خلاف جدوجہد کی یاد میں منایا جارہا ہے۔ 03 ستمبر 2015 کو بیجنگ کے تیان مین اسکوائر میں منعقد ہونے والی اس عظیم فوجی پریڈ میں دنیا کے کئی ممالک سے 1000 فوجی دستوں کی شرکت کے علاوہ خود چین کی چائینہ پیپلز لبریشن آرمی کے12000 دستے بھی شریک ہوئے۔ بھارت کی جانب سے ان کی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی اس تقریب میں شرکت کریں گی۔ بھارت نے پاکستانی دستے کی پریڈ میں شمولیت کی بنا پر اپنا کوئی فوجی دستہ نہیں بھیجا ۔
چین میں عوامی اور حکومتی سطح پر منائے جانے والا یوم فتح آج سے 70 برس قبل دوسری جنگ عظیم میں چینی عوام کی جانب سے جاپان کے خلاف مزاحمت یعنی فسطائیت کے خلاف جدوجہد کی یاد میں منایا جارہا ہے
دنیا کی بہت سی اہم شخصیات اس تقریب میں شریک ہوئیں جن میں سر فہرست پاکستان کے صدر مملکت جناب ممنون حسین، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون، جنوبی کوریا کے صدر، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر، میانمار کے صدر، ویتنام کے صدراور جرمنی کی چانسلرہیں۔ اس کے علاوہ کئی ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومتی وفوداس تقریب میں شرکت کررہے ہیں۔
پاکستان ، روس، قازقستان، بیلارس، کیوبا، میکسیکو، منگولیا، مصر، سربیا، تاجکستان اور کرغزستان کے فوجی دستے اس پریڈ میں شریک ہیں ۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جاپان کے سربراہان مملکت نے نے اس تقریب میں شرکت سے معذرت کرلی ہے ۔ جاپان جس کی فسطائیت کے خلاف مزاحمتی جنگ کی یاد میں یہ تقریب منعقد کی جارہی ہے کے سابق وزیر اعظم ٹومچی مورایامہاس تقریب میں شرکت کریں گے جنہوں نے 1995 میں چین سے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی زیادتیوں پر معذرت کی تھی ۔ اس معذرت کے باوجود موجودہ جاپانی وزیر اعظم شنزو ابے کی اس تقریب میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کو تقریب میں اہم موضوع سمجھا جارہا ہے ۔ جاپانی سیاسی قوتوں کے شدید دباؤ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے جس کی بڑی وجہ تقریب میں متوقع طور پر دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی زیادتیوں پر جاپان کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے جانے کا امکان ہے۔ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ جاپان کے اس فیصلے سے چین اور جاپان کے تعلقات مزید کمزورہو جائیں گے۔
پاکستان ، روس، قازقستان، بیلارس، کیوبا، میکسیکو، منگولیا، مصر، سربیا، تاجکستان اور کرغزستان کے فوجی دستے اس پریڈ میں شریک ہیں ۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جاپان کے سربراہان مملکت نے نے اس تقریب میں شرکت سے معذرت کرلی ہے ۔ جاپان جس کی فسطائیت کے خلاف مزاحمتی جنگ کی یاد میں یہ تقریب منعقد کی جارہی ہے کے سابق وزیر اعظم ٹومچی مورایامہاس تقریب میں شرکت کریں گے جنہوں نے 1995 میں چین سے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی زیادتیوں پر معذرت کی تھی ۔ اس معذرت کے باوجود موجودہ جاپانی وزیر اعظم شنزو ابے کی اس تقریب میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کو تقریب میں اہم موضوع سمجھا جارہا ہے ۔ جاپانی سیاسی قوتوں کے شدید دباؤ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے جس کی بڑی وجہ تقریب میں متوقع طور پر دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی زیادتیوں پر جاپان کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے جانے کا امکان ہے۔ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ جاپان کے اس فیصلے سے چین اور جاپان کے تعلقات مزید کمزورہو جائیں گے۔
اس تقریب میں جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے صدور کی متوقع شرکت کو چین کی جانب سے امریکہ کے لیے ایک واضح اشارہ سمجھا جارہا ہے
اس تقریب میں جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے صدور کی متوقع شرکت کو چین کی جانب سے امریکہ کے لیے ایک واضح اشارہ سمجھا جارہا ہے ۔ اس اقدام کا مقصد امریکہ کو یہ باور کرانا ہے کہ جنوبی کوریا اور امریکہ کے مابین تعلقات غیر مستحکم ہیں جس کا اثر امریکہ اور جنوبی کوریا کے اس اتحاد پر ضرور پڑے گا جو شمالی کوریا کے خلاف بنایا گیا ہے۔ اسی وجہ سے واشنگٹن کی جانب سے جنوبی کوریا کی صدر پارک گین ہئےکو واضح طور پر بیجنگ میں ہونے والی اس تقریب سے دور رہنے کی درخواست کی گئی تھی۔ چین نےاس فوجی پریڈ میں اپنے جدید دفاعی ساز و سامان کی نمائش بھی کی جس میں میزائل، ٹینک،لڑاکا طیارے اور ایسے ایٹمی میزائل شامل ہیں جن کی پہنچ امریکہ تک ہے ۔ چینی حکومت نے واضح طور پر اعلان کیا ہے ہم نے تمام متعلقہ ممالک کو کھلے دل سے چینی عوام کی اس عظیم فوجی پریڈ کی تقریب میں مدعو کیا ہے لیکن یہ ہر حکومت کا اپنا فیصلہ ہوگا کہ وہ اس تقریب میں شرکت کریں یا نہ کریں ہم تمام مندوبین کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہیں گے۔ یہ تقریب امریکہ اور یورپ کے سامنے چین کو ایک معاشی اور سیاسی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس سے قبل ماسکو میں ہونے والی روسی فوجی پریڈ بھی یورپی یونین ، امریکہ اور نیٹو کی فوجی اور سیاسی برتری کے لیے ایک کھلا چیلنج قرار دی گئی تھی۔