[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
پانی میں گم خواب
[/vc_column_text][vc_column_text]
خواب اور خواہش میں
فاصلہ نہیں ہوتا
عکس اور پانی کے
درمیان آنکھوں میں
آئینہ نہیں ہوتا
سوچ کی لکیروں سے
شکل کیا بناؤ گے
درد کی مثلّث میں
زاویہ نہیں ہوتا
بےشمار نسلوں کے
خواب ایک سے لیکن
نیند اور جَگراتا
ایک سا نہیں ہوتا
فاصلہ نہیں ہوتا
عکس اور پانی کے
درمیان آنکھوں میں
آئینہ نہیں ہوتا
سوچ کی لکیروں سے
شکل کیا بناؤ گے
درد کی مثلّث میں
زاویہ نہیں ہوتا
بےشمار نسلوں کے
خواب ایک سے لیکن
نیند اور جَگراتا
ایک سا نہیں ہوتا
جوہری نظاموں میں
نام بھول جاتے ہیں
کوڈ یاد رہتے ہیں
ایٹمی دھماکوں سے
تاب کار نسلوں کے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
شہر ڈوب جاتے ہیں
مرکزے بکھرتے ہیں
دائرے سِمٹتے ہیں
رقص کے تماشے میں
ارض و شمس ہوتے ہیں
اور خدا نہیں ہوتا
نام بھول جاتے ہیں
کوڈ یاد رہتے ہیں
ایٹمی دھماکوں سے
تاب کار نسلوں کے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
شہر ڈوب جاتے ہیں
مرکزے بکھرتے ہیں
دائرے سِمٹتے ہیں
رقص کے تماشے میں
ارض و شمس ہوتے ہیں
اور خدا نہیں ہوتا
صد ہزار سالوں میں
ایک نور لمحے کا
ٹوٹ کر بکھر جانا
حادثہ تو ہوتا ہے
واقعہ نہیں ہوتا
ہسٹری تسلسُل ہے
ایک بار ٹوٹے تو
دُوربیں نگاہیں بھی
تھک کے ہار جاتی ہیں
گم شدہ زمینوں سے
منقطع زمانوں سے
رابطہ نہیں ہوتا
ایک نور لمحے کا
ٹوٹ کر بکھر جانا
حادثہ تو ہوتا ہے
واقعہ نہیں ہوتا
ہسٹری تسلسُل ہے
ایک بار ٹوٹے تو
دُوربیں نگاہیں بھی
تھک کے ہار جاتی ہیں
گم شدہ زمینوں سے
منقطع زمانوں سے
رابطہ نہیں ہوتا
ننّھے مُنّے بچّوں کے
نَو بہار ہاتھوں میں
پھول کون دیکھے گا؟
آنے والی صدیوں میں
تیری میری آنکھوں کے
خواب کون دیکھے گا؟
زیرِ آب چیزوں کا
کچھ پتا نہیں ہوتا!!
نَو بہار ہاتھوں میں
پھول کون دیکھے گا؟
آنے والی صدیوں میں
تیری میری آنکھوں کے
خواب کون دیکھے گا؟
زیرِ آب چیزوں کا
کچھ پتا نہیں ہوتا!!
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]
One Response
Dreams Lost In Water
No distance ever separates
Dreams and desires
No mirror ever dissolves
Reflection and water
In one’s eye
What graph would you make
Of lines of thought?
The triangle of pain
Is without any angle
Countless races
Have dreams alike
But sleep and night-watch
Are never the same!
Names are forgotten
Codes alone come to mind
In nuclear setups
Dreams of radiant generations
Are smitten
By atomic explosions
Cities sink
Nuclei dissipate
Orbits dwindle
What remains
Are terra and sol
In the dance of death
God is a casualty.
A moment of brightness
In a light year
Breaking into smithereens
In a million eons
An accident – yes
But not an event
History is continuity
Broken once
Telescopic eyes, tired out, give up
Their distance watching
Lost planets
Bygone epoches
Have no interposition.
Who will look for
Flowers
In spring-fresh hands
Of tiny tots?
Who will see
Dreams
In eyes-yours and mine
In centuries to be?
No one is sure
Of things lost in water!
Poem by: Naseer Ahmed Nasir,1980.
Translated from Urdu into English by Dr. Satyapal Anand and from English to Spanish by Dr. Teresinka Pereira.
Copyrights (C) All rights reserved