یکم فروری 1948ء کو امریکی عوام سے ریڈیو خطاب میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ “پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں ملاوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو۔ ہمارے ملک میں بہت سے غیر مسلم شہری موجود ہیں مثلاً ہندو، مسیحی اور پارسی وغیرہ لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انہیں وہی حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو دیگر شہریوں کو دئیے جائیں گے اور انہیں پاکستان کے امور مملکت میں اپنا کردار ادا کرنے کا پورا موقع ملے گا۔” لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ جو دہشت گردوں کے لیے بظاہر نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اگر ڈرون حملے میں کوئی دہشت گرد مرجائے تو انہیں بہت افسوس ہوتا ہے، وزیر داخلہ کو دہشت گردوں کی کس قدر فکر رہتی ہے اس کا اندازہ لال مسجد کے زندہ دہشت گرد ملا عبدالعزیز کے اوپر وزیر داخلہ کی مہربانیاں دیکھ کر ہو جاتا ہے، اس کے برعکس چند لوگوں کے ویلنٹائن ڈے منانے کے پروگرام پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بہت تکلیف ہے، انہوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی عائد کردی ہے اورضلعی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانے کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے۔ اسلام آباد انتظامیہ نے بتایا کہ اس سلسلے میں تمام تقریبات منسوخ کرنے کی بھی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
ہمارے وزیر داخلہ اور دائیں بازو کے دانشوران میں یہ قدر مشترک ہے کہ یہ سبھی اظہار محبت سے خوفزدہ ہیں۔ وزیر داخلہ کی طرح انصار عباسی بھی ویلنٹائن ڈے منانے والوں سے سخت خار کھاتے ہیں
وزیر داخلہ ویلنٹائن ڈے منانے والوں کے خلاف تو کریک ڈاون کا حکم صادر فرماتے ہیں لیکن دہشت گرد تنظم داعش کے لیے بہت ہی ہمدردی رکھتے ہیں۔ دہشت گردوں کے حامی چوہدری نثار اس قدر بے خبر وزیر داخلہ ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ملک کی داخلی سلامتی کے حوالے سے کون کون سے خدشات درپیش ہیں اور حکومت کے عہدے دار کیا بتارہے ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان نے بدھ کو سینٹ کی داخلہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ جنرل ضیا الحق (کے اثر) سے آگے کی دو نسلوں کے ذہن تبدیل ہوئے ہیں ، انہیں بدلنے کے لیے دس سال لگیں گے۔ داعش کا ایک نیٹ ورک آئی بی نے پکڑ لیا ہے۔ تحریک طالبان داعش سے تعاون کرتی ہے، کالعدم سپاہ صحابہ، ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوی کے آپس میں روابط ہیں، سیکڑوں مقامی جنگجو شام چلےگئے ہیں، میڈیا ہاوسز اور تعلیمی ادارے دہشتگردوں کا ہدف ہیں۔ وزیر داخلہ کو تو شاید یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ جنگ اخبار میں انصار عباسی دہشت گردوں کی کھلم کھلا حمایت میں مشغول ہیں۔ موصوف ہمیشہ اپنی تحاریر میں کھلے بندوں دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے۔ اپنے مضامین کے ذریعے ان لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرتا ہے جو طالبان، داعش یا اور دہشت گردوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
ہمارے وزیر داخلہ اور دائیں بازو کے دانشوران میں یہ قدر مشترک ہے کہ یہ سبھی اظہار محبت سے خوفزدہ ہیں۔ وزیر داخلہ کی طرح انصار عباسی بھی ویلنٹائن ڈے منانے والوں سے سخت خار کھاتے ہیں، اپنے مضمون “ہمیں ویلنٹائن ڈے نہیں منانا” میں ریاست کے ایک ایسے فعل کی تعریف کی ہے جو بنیادی آزادیوں سے متصادم ہے۔ انصار عباسی نے اس تہوار کو محض اس بناء پر حکومتی سرپرستی میں بند کرانے کی اپیل کی ہے کیوں کہ ان کی دانست میں یہ تہوار مغربی تہوار ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے مذہبی طبقات کو مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت تو قبول ہے لیکن کچھ لوگوں کا ویلنٹائن ڈے منانا قبول نہیں ہے۔
ملتان کی ڈاکٹر رامش فاطمہ اپنے مضمون “صاحب! پھول سے ڈر کیوں لگتا ہے؟” میں لکھتی ہیں کہ “ویلینٹائن ڈے پہ پابندی لگاکے تمام پھول ان سب پہ برسائے جائیں گے جو پابندی کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں، حیا ڈے، حجاب ڈے، کشمیر ڈے اور ایسی مزید ڈرامے بازیوں سے قوم کو لطف اندوز کرنے کے بعد پرانی فلم کو پھر مذہب اور سماج نام پہ چلایا جارہا ہے کہ ویلینٹائن نہ منایا جائے، کیا یہ بھی کسی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے کہ ہر اسکول میں ہر استاد تک بندوقیں پہنچا کر ہر گلی ہر محلے سے پھول اٹھا لیے جائیں؟ آخر آپ کا مذہب آپ کا عقیدہ آپ کے مذہبی جذبات جگہ جگہ لگے کمزوری کے اشتہار سے بھی زیادہ کمزور کیوں ہیں کہ ان کو ذرا ذرا سی بات پہ ٹھیس پہنچ جاتی ہے؟ موقع بعد میں آتا ہے اور پابندی پہلے لگ جاتی ہے۔ غیرت کے نام پہ قتل ہونے سے روکنا ہے تو ویلنٹائن پہ پابندی لگا دیں۔ اگر ممنون صاحب علما سے سود کی گنجائش مانگ سکتے ہیں تو ہم پھولوں کی گنجائش کے سوالی ہیں۔ کوئی سامان ہماری خوشی کا بھی باقی رہنے دیں۔ آپ اپنی سوچ ہم پہ مسلط نہ کریں اور ہم اپنے پھول آپ پہ مسلط نہیں کرتے، خوشبو زیادہ تنگ کرے تو خوشبو لگا کے آ جائیں اور پھول تقسیم کریں کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں۔ ٹھیک ہے آپ نے نہیں منانا تو نہ منائیں ، آپ پھول خریدیں اور اپنے مستقبل کے لیے محفوظ کر لیں لیکن جو منانا چاہتے ہیں انہیں آپ کیسے روک سکتے ہیں؟”۔
ڈاکٹررامش فاطمہ نے اپنے مضمون میں جتا دیا ہے کہ یہ ملک نہ تو وزیر داخلہ کی اور نہ ہی انصار عباسی کی ذاتی جاگیر ہے اور نہ ہی آپ کو یہ اختیار ہے کہ لوگوں کی ذاتی زندگی میں خلل ڈالیں۔ کون حجاب لیتا ہے اور کون نہیں لیتا یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ ملک کے قانون میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ ویلنٹائن ڈے منانا منع ہے، جو منانا چاہیں منائیں جو نہیں منانا چاہتے ان کی مرضی لیکن اسلام آباد میں ویلنٹائن ڈے پر پابندی وزیر داخلہ کا ذاتی فیصلہ ہے ریاست کا نہیں، شاید وزیر داخلہ اپنے دہشت گر د بھائیوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ بقول وجاہت مسعود “اگر وزیراعظم نواز شریف لبرل ہونے اورقائداعظم کے اس نصب العین پر عمل پیرا ہونے کا عندیہ دیتے ہیں تو انصار عباسی کا کہنا ہوتا ہے کہ وزیراعظم بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ لاکھوں لوگ ویلنٹائن ڈے منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور انہیں پولیس کے ذریعے روکا جاتا ہے۔ لوگ بسنت کی پتنگ اڑانے نکلتے ہیں تو چھتوں پر کھلے پھول دیکھ کر کچھ خوش نا اندیشوں کو آشوب چشم لاحق ہوتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے ہاتھوں جلاوطن ہونے والی کرکٹ کا میلہ دبئی میں سجتا ہے تو وہاں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ہنستے کھیلتے دیکھ کر کراچی کے نامور مفتی صاحب اسلامی ای میل لکھتے ہیں”۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے مذہبی طبقات کو مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت تو قبول ہے لیکن کچھ لوگوں کا ویلنٹائن ڈے منانا قبول نہیں ہے۔ یہ اسی رویے کی عکاسی ہے جس کے تحت اسلام اور تہذیب کو خطرے میں قرار دے کر لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تشدد پر اکسایا جاتا ہے۔ مذہبی طبقات بتدریج مذہب کے نام پر اس ریاست کو فتح کرنے کی کوشش میں ہیں اور تہذیب و ثقافت پر اپنی حیثیت مستحکم کر کے اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ روش جاری رہی تو بہت جلد پاکستان میں بھی نفاذ شریعت کے مطالبے کے تحت لوگ خوشی منانے اور محبت کاظہار کرنے جیسے بے ضرر ثقافتی مظاہر کو اپنے تسلط میں لانا چاہتے ہیں۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں ملاوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو”۔