[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=“”][vc_column width=“2/3”][vc_column_text]
نظم کا اسپیکٹروگرام
[/vc_column_text][vc_column_text]
دیواریں دروازوں سے باہر نکل آئی ہیں
راستے تنگ ہیں
اور قدموں کے نشان زیادہ
نیم دراز دھوپ کی ڈھلوانوں پر
اپنے ہی سایوں کو پھلانگتے ہوئے
منہ کے بل گر پڑنا
عین سچائی ہے انوکھا پن نہیں
کسی دیرینہ خواب کو دیکھتے ہوئے
آنکھوں کو پتا ہی نہیں چلتا
کہ ان کے سمندروں سے کتنا پانی نکل چکا ہے
دریا عبور کرنا آسان ہے
لیکن کنارے پر پاؤں رکھنا بہت مشکل
بستیوں کے نواح سے گزرتے ہوئے
تاریخ کے راستے
کھیتوں، چراگاہوں، انگور کے باغوں
اور عورتوں کے نشیب و فراز میں غائب ہو جاتے ہیں
نئی فصلیں تیار ہونے تک
موسم ملتوی ہوتے ہیں
فلسفے چند لوگوں کے لیے ہیں
اور موت سب کے لیے
کوئی نظم نہ لکھ سکنا
شاعر کا المیہ نہیں ہوتا
زندگی مرگِ مسلسل سے دوچار ہو
تو موت ایک گھسا پٹا لفظ بن کر رہ جاتی ہے
متروک دنوں کی آبیاری سے
بے دلی کی مشقت کے سوا کچھ نہیں اُگتا
اس سے پہلے کہ ہم حالتِ تنہائی میں
کسی نادیدہ ستارے سے دیکھ لیے جائیں
آؤ، ان کہنہ عمارتوں کے صدر دروازوں سے گزریں
جن پہ استادہ غلام روحیں
گرد و غبار سے اٹے جسموں
اور بھربھری ہڈیوں میں تبدیل ہو چکی ہیں
اور ہاتھ کے ایک اشارے سے
اپنے ہی قدموں میں گر پڑیں گی
بادلوں کے پنچھی
اور بارشوں کا دھواں
موسمیاتی سیارے کی دسترس سے اب زیادہ دُور نہیں!!
راستے تنگ ہیں
اور قدموں کے نشان زیادہ
نیم دراز دھوپ کی ڈھلوانوں پر
اپنے ہی سایوں کو پھلانگتے ہوئے
منہ کے بل گر پڑنا
عین سچائی ہے انوکھا پن نہیں
کسی دیرینہ خواب کو دیکھتے ہوئے
آنکھوں کو پتا ہی نہیں چلتا
کہ ان کے سمندروں سے کتنا پانی نکل چکا ہے
دریا عبور کرنا آسان ہے
لیکن کنارے پر پاؤں رکھنا بہت مشکل
بستیوں کے نواح سے گزرتے ہوئے
تاریخ کے راستے
کھیتوں، چراگاہوں، انگور کے باغوں
اور عورتوں کے نشیب و فراز میں غائب ہو جاتے ہیں
نئی فصلیں تیار ہونے تک
موسم ملتوی ہوتے ہیں
فلسفے چند لوگوں کے لیے ہیں
اور موت سب کے لیے
کوئی نظم نہ لکھ سکنا
شاعر کا المیہ نہیں ہوتا
زندگی مرگِ مسلسل سے دوچار ہو
تو موت ایک گھسا پٹا لفظ بن کر رہ جاتی ہے
متروک دنوں کی آبیاری سے
بے دلی کی مشقت کے سوا کچھ نہیں اُگتا
اس سے پہلے کہ ہم حالتِ تنہائی میں
کسی نادیدہ ستارے سے دیکھ لیے جائیں
آؤ، ان کہنہ عمارتوں کے صدر دروازوں سے گزریں
جن پہ استادہ غلام روحیں
گرد و غبار سے اٹے جسموں
اور بھربھری ہڈیوں میں تبدیل ہو چکی ہیں
اور ہاتھ کے ایک اشارے سے
اپنے ہی قدموں میں گر پڑیں گی
بادلوں کے پنچھی
اور بارشوں کا دھواں
موسمیاتی سیارے کی دسترس سے اب زیادہ دُور نہیں!!
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=“1/3”][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]
One Response
Spectrogram Of A Pictorial Poem — Poem by Naseer Ahmed Nasir
The walls have come out of doors
Paths have tapered
and footprints are more
on the slopes of the halfdown sun
jumping over one’s own shadows
to fall headlong
is a real truth, nothing strange.
While dreaming some old dream
eyes know not
that how much water has come out from their oceans.
It is easy to cross a river
but how difficult is to find a toehold on its bank.
While passing from the environs of human settlements
the paths of history are lost in
fields, meadows
grapes-gardens
and in the body contours of women.
Until the new crops are reaped
weathers keep on deferring;
Philosophies are for a few people
and death for all.
Failure to compose a poem
is not the poet’s tragedy
when life is suffering with perpetual death
death becomes a worn out cliché.
Watering the abolished days
breeds nothing but the toil of heartlessness.
Before we are seen in the state of loneliness
from an unseen distant star -
Come! Let’s walk through the main doors of these aged buildings
where standing like sentries’ enslaved souls
have turned into bodies wrapped in dust
and brittle bones
and just with a touch of hand
will fall into their own feet.
The birds of clouds
and fluffs of rains
are not remote from the reach of the weather protectorate!
(Translation from Urdu by Bina Biswas)