چوراہوں پہ اکثر ایسے مداری تماشہ کرتے نظر آتے ہیں جو تماش بینوں کا تانتا بدھتے ہی فوراً اپنا تماشہ لپیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تماشہ دیکھنے والے اصرار کریں کہ جناب ابھی تماشہ ختم نہ کیجیے اور ذرا بتائیے تو سہی کہ فلاں کرتب آپ نے کیسے کیا۔ اس اصرار و نوک جھونک میں ہی مداری اپنے پیسے کھرے کر لیتا ہے اور جب کبھی ایسا ہو کہ صدائیں بلند کرنے کے باوجود بھی تماشائی جمع نہ ہو پائیں یا کرتب میں وہ جان نہ ہوجس کی تماش بینوں کو توقع ہوتی ہے تو نہ صرف تماش بینوں کے چہرے اتر جاتے ہیں بلکہ صاحبِ فن بھی مایوسی کا شکار ہو جاتا ہےاور بلند آواز سے مہربان، قدردان۔۔۔ ذرا رکیے ۔۔۔ کی گردان شروع ہو جاتی ہے۔
یمن میں فوجی کارروائی کے پہلے دن ہی سعودیوں نے یہ واویلا شروع کر دیاتھا کہ یہ جنگ مقامات مقدسہ کی حفاظت کی جنگ ہے جس پر وطن عزیز میں بھی تحفظ حرمین شریفین ریلیاں منعقد ہونا شروع ہو گئیں۔
کسی بھی کرتب یا فنکاری کوسراہنے والے زیادہ تر مہربان، قدردان ہی کہلاتے ہیں۔ یہ مہربان اور قدردان وہ ہوتے ہیں جو کسی بھی فن، کرتب، ہنر، یا قابلیت کو سراہنے میں بخل سے ہرگز کام نہیں لیتے ۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی نالائقی پر منہ پھٹ انداز میں لفظوں کے نشتر چلانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ اس لیے انہیں کہا تو مہربان اور قدردان جاتا ہے لیکن یہ بلا کے ظالم ہوتے ہیں جو یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے سچے لفظوں کا بھی کسی فنکار، ماہر کرتب باز پہ کیا اثر ہوتا ہے۔کالم نگاروں کی ایک بری عادت یہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں روزمرہ کے واقعات اور مشاہدات کو قارئین پر زبردستی مسلط کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے لہذا عقل مند قارئین سے گذارش ہے کہ اوپر بیان کردہ معمولات زندگی یا آئے روزنظر آنے والے ان مناظر کا تعلق یمن تنازعے سے ہرگز نہ جوڑیں۔
کم و بیش ایک ہفتے کی بمباری کے بعد سعودی عرب نے یمن پر حملے یعنی آپریشن فیصلہ کن طوفان(Decisive Storm) کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔عرب بادشاہوں، شہزادوں اور شیوخ کو سمجھنا میرے جیسے بے وقوفوں کے بس کی بات نہیں ہمارے پاس خوش قسمتی سے اکیلے ہی پارلیمنٹ میں پوری حکومت پہ حاوی نظر آنے والے شیخ رشید موجود ہیں، جب وہ ہماری سمجھ میں نہیں آ سکے تو عرب شیوخ کیوں کر آ سکتے ہیں۔کم و بیش ایک مہینہ پہلے جب یمن جیسے غریب ملک کی شامت آئی تھی تویہ کہا گیا تھا کہ فیصلہ کن طوفان کا مقصد مقامات مقدسہ اور سعودی عرب کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے ۔ اب نجانے سعودی عرب یا مقامات مقدسہ کو کیا خطرہ تھا جسے اربوں ڈالر خرچ کر کے اور کم و بیش 500 (انتہائی محتاط اندازے کے مطابق )غریب یمنیوں کی سانسیں ختم کر کے ہی ٹالا گیا۔ یمن میں فوجی کارروائی کے پہلے دن ہی سعودیوں نے یہ واویلا شروع کر دیاتھا کہ یہ جنگ مقامات مقدسہ کی حفاظت کی جنگ ہے جس پر وطن عزیز میں بھی تحفظ حرمین شریفین ریلیاں منعقد ہونا شروع ہو گئیں۔ میری طرح کے بے وقوف لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ریلیاں سعودی وزیر مذہبی امور کے دورہ پاکستان کے بعد سے زیادہ عروج پہ پہنچیں(اس احمکاانہ منطق کو دیوانے کی بڑ سے زیادہ کچھ اہمیت نہ دیں)۔
کچھ خبطی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے تھے کہ سعودی آپریشن سے حوثیوں کے نقصان سے زیادہ القاعدہ اور دولت اسلامیہ کوفائدہ ہو رہا ہے جواس آپریشن سے مضبوط ہو جائیں گے۔ کہیں یہ فضول سا نقطہ ہی صاحب بہادر نے سعودی عرب کے شاہ کے دل میں تو نہیں ڈال دیا؟ شاید اس نقطے سے یہی سوچ ابھری ہو گی کہ ایک دشمن جو ہمارے لیے خطرہ بھی نہیں اس کے لیے کاروائی کہیں ان کو مضبوط نہ کر دے جو ہمارے لیے خطرہ بھی ہیں۔ بظاہر اس آپریشن کو ختم کرنے کی وجہ بھی شاید یہی لگتی ہے کہ سعودیوں کی عقل میں یہ بات آگئی ہے کہ ایک ہادی کو اقتدار میں لانے کے چکر میں کہیں ایک ایسی جنگ کا آغاز نہ ہو جائے جو پورے خلیج کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔
کم و بیش ایک ہفتے کی بمباری کے بعد سعودی عرب نے یمن پر حملے یعنی آپریشن فیصلہ کن طوفان(Decisive Storm) کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔عرب بادشاہوں، شہزادوں اور شیوخ کو سمجھنا میرے جیسے بے وقوفوں کے بس کی بات نہیں ہمارے پاس خوش قسمتی سے اکیلے ہی پارلیمنٹ میں پوری حکومت پہ حاوی نظر آنے والے شیخ رشید موجود ہیں، جب وہ ہماری سمجھ میں نہیں آ سکے تو عرب شیوخ کیوں کر آ سکتے ہیں۔کم و بیش ایک مہینہ پہلے جب یمن جیسے غریب ملک کی شامت آئی تھی تویہ کہا گیا تھا کہ فیصلہ کن طوفان کا مقصد مقامات مقدسہ اور سعودی عرب کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے ۔ اب نجانے سعودی عرب یا مقامات مقدسہ کو کیا خطرہ تھا جسے اربوں ڈالر خرچ کر کے اور کم و بیش 500 (انتہائی محتاط اندازے کے مطابق )غریب یمنیوں کی سانسیں ختم کر کے ہی ٹالا گیا۔ یمن میں فوجی کارروائی کے پہلے دن ہی سعودیوں نے یہ واویلا شروع کر دیاتھا کہ یہ جنگ مقامات مقدسہ کی حفاظت کی جنگ ہے جس پر وطن عزیز میں بھی تحفظ حرمین شریفین ریلیاں منعقد ہونا شروع ہو گئیں۔ میری طرح کے بے وقوف لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ریلیاں سعودی وزیر مذہبی امور کے دورہ پاکستان کے بعد سے زیادہ عروج پہ پہنچیں(اس احمکاانہ منطق کو دیوانے کی بڑ سے زیادہ کچھ اہمیت نہ دیں)۔
کچھ خبطی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے تھے کہ سعودی آپریشن سے حوثیوں کے نقصان سے زیادہ القاعدہ اور دولت اسلامیہ کوفائدہ ہو رہا ہے جواس آپریشن سے مضبوط ہو جائیں گے۔ کہیں یہ فضول سا نقطہ ہی صاحب بہادر نے سعودی عرب کے شاہ کے دل میں تو نہیں ڈال دیا؟ شاید اس نقطے سے یہی سوچ ابھری ہو گی کہ ایک دشمن جو ہمارے لیے خطرہ بھی نہیں اس کے لیے کاروائی کہیں ان کو مضبوط نہ کر دے جو ہمارے لیے خطرہ بھی ہیں۔ بظاہر اس آپریشن کو ختم کرنے کی وجہ بھی شاید یہی لگتی ہے کہ سعودیوں کی عقل میں یہ بات آگئی ہے کہ ایک ہادی کو اقتدار میں لانے کے چکر میں کہیں ایک ایسی جنگ کا آغاز نہ ہو جائے جو پورے خلیج کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔
یمن میں فوجی کارروائی کا مقصد شاید امریکہ کو یہ باور کروانا تھا کہ ایران سے مذاکرات کے دوران سعودی مفادات کونظر انداز نہ کیا جائے
حوثیوں کا زور ختم کرتے کرتے القاعدہ کو گلے ڈال لینے کا خیال بھی یقیناً کپکپکی طاری کر دیتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ حوثیوں کے ترجمان حسین الخیتی نے میڈیا پر آ کے یہ کہہ دیاکہ مقامات مقدسہ کی توہین کرنے کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے کیوں کہ بطور مسلمان ہمارے لیے بھی یہ مقامات اتنے ہی محترم ہیں جتنے کسی بھی اور مسلمان کے لیے۔ اس بیان کے بعد سعودی عرب کا مقامات مقدسہ کی حفاظت کی خاطر جنگ کا جواز شاید بے معنی رہ گیااسی لیےسعودی حکام نے فوجی کارروائی روکنے میں ہی عافیت جانی۔
سعودی عرب کے مطابق ایران حوثیوں کی حمایت کر رہا ہے جس کا ایران( بظاہر) انکار کرتا آیا ہے۔ اس بے معنی آپریشن کے بعد ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بھی دوراہے پہ آ گئے ہیں۔ بظاہر فیصلہ کن طوفان کا مقصد زنگ آلود ہوتے اسلحے کی مشق کے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ اب اس بات کی کسے پرواہ کہ اس مشق میں سینکڑوں غریب لقمہء اجل بن گئے جن کے خاندانوں کو نہ تو امداد ملے گی نہ ہی شاید ان کے پیاروں کی قبریں۔ حیران ہوں کہ وہ کون سے اہداف حاصل کیے گئے ہیں جن کا اعلان اتحادی افواج کے ترجمان نے آپریشن روکنے کے اعلان کے دوران کیا۔ کیا ہدف غریب یمن کو مزید تباہ کرنا تھا؟ کیا یہ کارروائی ہادی جیسے کمزور صدر کو دوبارہ اقتدارمیں لانے کی ایک کوشش تھی؟ کیا جمع کے گئے اسلحے کی جانچ کرنامقصودتھا؟ کیا مقصد خطے کے ممالک پہ اپنی دھاک بٹھانا تھایا پھر سعودی قیادت امریکہ اور ایران کے درمیان جاری مذاکرات کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرنا چاہتی تھی؟آخری الذکر مقصد حاصل کرنا شاید زیادہ اہم تھا۔یمن میں فوجی کارروائی کا مقصد شاید امریکہ کو یہ باور کروانا تھا کہ ایران سے مذاکرات کے دوران سعودی مفادات کونظر انداز نہ کیا جائےاسی لیے اپنی طاقت کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا۔حوثیوں سے مقامات مقدسہ یا سعودی عرب کی جغرافیائی سرحدوں کو تو شاید کوئی خطرہ نہ تھا نہ ہو سکتا ہے لیکن اس آپریشن سے یہ تاثر ضرور سامنے آیاہے کہ حوثی یقیناً سعودی بادشاہت کےخلاف ہیں۔ سعودی کارروائیوں کی ناکامی سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ پاکستانی فوج کی شمولیت پہ اصرار کیوں تھا کیوں کہ ہماری فوج کا روایتی اور گوریلا جنگ کا تجربہ ان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ شاید ایک وسیع زمینی جنگ سے اجتناب کرنے کی وجہ بھی یہی رہی ہو کہ پاکستانی پارلیمان فوجی آپریشن میں حصہ لینے کی راہ میں رکاوٹ بن گئیاورسعودی عرب کو شاید پاکستان سے ایسے سیاسی جواب کی توقع نہیں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ احسان مند حکومتی خاندان فوراً مثبت جواب دے گا۔ اب جب پارلیمنٹ نے کہہ دیا ہے کہ سعودی سالمیت یا مقامات مقدسہ کو خطرہ ہوا تو پاکستان پیچھے نہیں ہٹے گااور مقامات مقدسہ کی حفاظت تماشہ پھیکا ثابت ہوا ہے تو پاکستانی افواج بھیجنے کا معاملہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا ہے ۔یہ شوشہ نہ چلنے کے باعث سعودی عرب کوصرف فضائی آپریشن تک ہی محدود ہونا پڑاہے اوراقوام متحدہ، خلیجی ممالک، امریکہ و برطانیہ جیسے قدردان ، مہربان ہوتے ہوئے بھی خطے میں بالادستی کے لیے رچایا گیا یہ تماشہ ختم کرنا پڑا۔
سعودی عرب کے مطابق ایران حوثیوں کی حمایت کر رہا ہے جس کا ایران( بظاہر) انکار کرتا آیا ہے۔ اس بے معنی آپریشن کے بعد ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بھی دوراہے پہ آ گئے ہیں۔ بظاہر فیصلہ کن طوفان کا مقصد زنگ آلود ہوتے اسلحے کی مشق کے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ اب اس بات کی کسے پرواہ کہ اس مشق میں سینکڑوں غریب لقمہء اجل بن گئے جن کے خاندانوں کو نہ تو امداد ملے گی نہ ہی شاید ان کے پیاروں کی قبریں۔ حیران ہوں کہ وہ کون سے اہداف حاصل کیے گئے ہیں جن کا اعلان اتحادی افواج کے ترجمان نے آپریشن روکنے کے اعلان کے دوران کیا۔ کیا ہدف غریب یمن کو مزید تباہ کرنا تھا؟ کیا یہ کارروائی ہادی جیسے کمزور صدر کو دوبارہ اقتدارمیں لانے کی ایک کوشش تھی؟ کیا جمع کے گئے اسلحے کی جانچ کرنامقصودتھا؟ کیا مقصد خطے کے ممالک پہ اپنی دھاک بٹھانا تھایا پھر سعودی قیادت امریکہ اور ایران کے درمیان جاری مذاکرات کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرنا چاہتی تھی؟آخری الذکر مقصد حاصل کرنا شاید زیادہ اہم تھا۔یمن میں فوجی کارروائی کا مقصد شاید امریکہ کو یہ باور کروانا تھا کہ ایران سے مذاکرات کے دوران سعودی مفادات کونظر انداز نہ کیا جائےاسی لیے اپنی طاقت کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا۔حوثیوں سے مقامات مقدسہ یا سعودی عرب کی جغرافیائی سرحدوں کو تو شاید کوئی خطرہ نہ تھا نہ ہو سکتا ہے لیکن اس آپریشن سے یہ تاثر ضرور سامنے آیاہے کہ حوثی یقیناً سعودی بادشاہت کےخلاف ہیں۔ سعودی کارروائیوں کی ناکامی سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ پاکستانی فوج کی شمولیت پہ اصرار کیوں تھا کیوں کہ ہماری فوج کا روایتی اور گوریلا جنگ کا تجربہ ان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ شاید ایک وسیع زمینی جنگ سے اجتناب کرنے کی وجہ بھی یہی رہی ہو کہ پاکستانی پارلیمان فوجی آپریشن میں حصہ لینے کی راہ میں رکاوٹ بن گئیاورسعودی عرب کو شاید پاکستان سے ایسے سیاسی جواب کی توقع نہیں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ احسان مند حکومتی خاندان فوراً مثبت جواب دے گا۔ اب جب پارلیمنٹ نے کہہ دیا ہے کہ سعودی سالمیت یا مقامات مقدسہ کو خطرہ ہوا تو پاکستان پیچھے نہیں ہٹے گااور مقامات مقدسہ کی حفاظت تماشہ پھیکا ثابت ہوا ہے تو پاکستانی افواج بھیجنے کا معاملہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا ہے ۔یہ شوشہ نہ چلنے کے باعث سعودی عرب کوصرف فضائی آپریشن تک ہی محدود ہونا پڑاہے اوراقوام متحدہ، خلیجی ممالک، امریکہ و برطانیہ جیسے قدردان ، مہربان ہوتے ہوئے بھی خطے میں بالادستی کے لیے رچایا گیا یہ تماشہ ختم کرنا پڑا۔
مقامات مقدسہ پاکستانیوں کے لیے بھی اتنے ہی مقدس و محترم ہیں جتنے کسی سعودی کے لیے لیکن پاکستان محض سعودی شاہی خاندان کے ایجنڈےکی تکمیل کے لیے اپنی افواج کو کسی کی جنگ میں نہیں دھکیل سکتا۔
آپریشن روکنے کے اعلان پر سب سے زیادہ سکون پاکستان کو ملا کیوں کہ پاکستان کو نہ صرف سعودی عرب کی طرف سے دباؤ کا سامنا تھا بلکہ اندرونی طور پر بھی بعض دھڑوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا تھا ۔ سعودی عرب کویہ احساس اب ہو جانا چاہیے کہ مقامات مقدسہ پاکستانیوں کے لیے بھی اتنے ہی مقدس و محترم ہیں جتنے کسی سعودی کے لیے لیکن پاکستان محض سعودی شاہی خاندان کے ایجنڈےکی تکمیل کے لیے اپنی افواج کو کسی کی جنگ میں نہیں دھکیل سکتا۔ مقامات مقدسہ کی حفاظت کا فریضہ ایک الگ معاملہ ہے جب کہ خطے پہ بالادستی کے لیے جنگ ایک مختلف مسئلہ ہے۔ بے شک حکمران خاندانکے مراسم شاہی خاندان سے ہیں لیکن یہ مراسم بھی پاکستان سے بڑھ کر کبھی نہیں ہو سکتے ۔