Laaltain

مرنے کے بعد مسلمان ہوا جا سکتا ہے؟

5 جون، 2017
“مولبی صاحب، میرے بچڑوں کے لیے دعا کردو”۔
وہ کئی مہینوں سے دعا کروانے آرہی تھی۔مولوی صاحب کبھی مسجد کے صحن میں بیٹھے ہوتے،کبھی مسجد سے ملحق اپنے گھر میں۔وہ عموماً عصر کے بعد آتی۔اور لوگ بھی دعاتعویذ کی خاطر موجود ہوتے۔ زیادہ تر بیمار بچوں کی مائیں ہوتیں۔ری ری کرنے والے سال دو سال کے بچوں کے لیے مولوی صاحب کا دم کیا ہوا دھاگہ گاؤں بھر میں مشہور ومقبول تھا۔ماؤں کو یقین تھا کہ جوں ہی دھاگہ بچے کے گلے میں ڈالاجائے گا، بچہ چپ کرجائے گا۔کچھ عورتوں کو وہم ہوتا کہ ان کے بچوں کے سر بڑھ رہے ہیں،مولوی صاحب کدو دم کردیتے تھے،جیسے جیسے کدو خشک ہوتا،مائیں یقین کرنے لگتیں کہ بچے کے سرکا بڑھنا رک گیا ہے۔ادھر بچوں کے سر بڑھنا رکتے،ادھر مولوی صاحب کے پاس بچوں کی ماؤں کی تعداد بڑھتی۔ہر بچے کی ماں اس وہم میں بھی مبتلا ہوتی کہ اس کے بچے کو ’نظر‘ لگ گئی ہے،ا س لیے اس نے چلنا شروع نہیں کیا،اماں اباسے آگے کوئی لفظ نہیں بول رہا، بے وجہ رات رات بھرروتا ہے،اکثر بیمار رہتا ہے۔ مولوی صاحب بچے کو دم رکھتے،یا تعویذ دیتے۔ گاؤں کی عورتیں، بچوں کے لیے اتنا ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتی تھیں،جتنا مولوی صاحب کے پاس آتی تھیں۔گاؤں میں کوئی گھر ایسا نہیں تھا،جس میں مولوی صاحب کا کوئی نہ کوئی عقیدت مند موجود نہ ہو۔عورتیں لڑائی جھگڑوں،پیسوں کی چوری،بیماری وغیرہ کا حساب کروانے بھی آتیں۔کبھی تو ایک ہی گھر سے پہلے ساس تعویذ لے جاتی،جسے یقین ہوتا کہ اس کے بیٹے اور خاوند پر جادو کیا گیا ہے،اور کچھ دیر بعد بہو آتی،جو اس بات سے پریشان ہوتی کہ کسی نے اس کے شوہر پر جادو کیا ہے۔گھر میں جن بھوت کا شک ہے تو مولوی صاحب سے رجوع کیاجاتا۔مولوی صاحب سب کی خیر مانگتے۔

 

گاؤں کے ڈاکٹر کے برعکس مولوی صاحب کی فیس مقرر نہیں تھی،مگر کچھ نہ کچھ دینالازم تھا۔مولوی صاحب کا خیال تھا کہ اگر ڈاکٹر اپنے علم کا معاوضہ لے کربھی انسانیت کی خدمت کرنے والا کہلا سکتا ہے تووہ کیوں نہیں۔اس کے پاس بھی تو علم ہے،جس سے لوگوں کو شفا ملتی ہے،اوران کی مشکلات دور ہوتی ہیں۔ دو ایک مرتبہ تو دو ایک مریضوں کو ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھا،وہ مولوی صاحب کے تعویذ سے ٹھیک ہوگئے۔ اس سے مولوی صاحب کی شہرت اور نیک نامی میں اضافہ ہوا۔مولوی صاحب اکثر ڈاکٹر سے اپنا موازنہ کرتے رہتے تھے،اور دل ہی دل میں اس بات کا حساب لگایاکرتے تھے کہ ایک دن میں ان کے پاس کتنے لوگ آئے،اور ڈاکٹر کے پاس کتنے۔کچھ کچھ پیسوں کا حساب بھی لگالیتے۔مگر یہ سب سوچتے ہوئے،وہ پورے خلوص سے شکر کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے کلام کا علم دیا،جس میں ہر ایک کے لیے شفا ہے۔کبھی کبھی وہ اپنے مدرسے کے استاد حافظ شریف کو بھی یاد کرلیا کرتے،جنھوں نے پیار، ڈانٹ، سزا،شاباش سے انھیں اس قابل بنایا۔

 

وہ جب بھی آتی،کچھ نہ کچھ لے آتی۔حالاں کہ خودوہ مانگ کر لاتی تھی۔شروع میں اس نے مولوی صاحب کو آٹا، چاول،گندم، دالیں،روٹی بھی لاکر دی،مگر تیسری چوتھی مرتبہ مولوی صاحب نے سخت ناراضی کے بعد منع کردیا کہ وہ کم ازکم اس سے یہ چیزیں قبول نہیں کریں گے۔ وہ سمجھ گئی۔مولوی صاحب کمائی ہوئی چیز چاہتے تھے، مانگی ہوئی نہیں۔ اب وہ کبھی دو روپے،کبھی تین روپے،کبھی ایک روپیہ لاتی۔وہ اور مولوی صاحب دونوں جانتے تھے کہ روپیہ ایسی چیز ہے،جس کے بارے میں کوئی نہیں بتا سکتا کہ وہ مانگ کر لایا گیا ہے،کماکر، چرا کر،یا چھین کر۔جس کے پاس ہے،اسی کا ہے۔

 

اس میں جھجھک، ڈر، انکسار،ادب جمع ہوگئے تھے،جن کا اظہار اس کی التجا میں ہوتا۔اس کے جملے کے لفطوں سے زیادہ،وہ منکسر، ڈرا ڈرا، مؤد ب لہجہ متاثر کن تھا، جسے اس کی گوت کے لوگوں نے صدیوں قرنوں کی ’تپسیا‘ سے حاصل کیا تھا۔آج بھی عصر کے بعد وہ آئی تھی،اور باقی سب عورتوں سے الگ،دور بیٹھک کے ایک کونے میں فرش پر بیٹھ گئی۔سب سے آخر میں،اذان ِ مغرب سے ذرا پہلے، اس کی باری آئی۔وہ گھسٹتے ہوئے،مولوی صاحب تک پہنچی۔ اس نے اپنا مخصوص جملہ دہرایا،اور ایک میلا،مڑا تڑا پانچ کا نوٹ مولوی صاحب کے قدموں میں نہایت ادب سے رکھا،جو اپنی مخصوص چٹائی پر اپنے گھر کی بیٹھک میں بیٹھے تھے۔عموماً مولوی صاحب دعا کردیا کرتے تھے،اور اور کبھی کبھی پانی، دودھ،شربت وغیرہ بھی دم کردیا کرتے تھے۔لیکن آج وہ اس کی التجا سنتے ہی چڑ گئے۔وہ کئی مہینوں سے خود پر ضبط کیے ہوئے تھے۔اسے دیکھ کرانھیں گاؤں کے ڈاکٹر کا خیال آیا کرتا تھا،جس کے پاس ایک مریض چھ ماہ پڑا رہا،مگر ٹھیک نہ ہوا۔ایک دن ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ اس کے پاس مریضوں کی تعداد کم ہونے لگی ہے۔ وہ مریض کے لواحقین پر برس پڑا۔مریض خاک ٹھیک ہوگا،اگراسے ٹھیک دوا ہی نہ دی جائے گی۔لے جاؤ اسے گھر۔مولوی صاحب کو آج بھی یہ خیال آیااور ان کا ضبط ختم ہوگیا۔

 

“تم کیسی عورت ہو، داکدار کے پاس بھی جاتی ہو،اور اللہ میاں کے پاس بھی آتی ہو”؟
“مولبی صاحب۔۔۔۔”عورت لاجواب سی ہوگئی،اور خود کو کسی نامعلوم طاقت کے آگے بے بس محسوس کیا۔

 

“دیکھو،تم ابھی ایک فیصلہ کرو۔تمھیں اللہ پر یقین ہے،یا داکدار پر؟اگر اللہ کو وحدہ لاشریک مانتی ہو تو کسی اور کی مدد مت مانگو۔۔۔جانتی ہو شرک کیا ہوتاہے”؟

 

(خاموشی کا ایک جان لیوا وقفہ)۔عورت کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہیں تھا۔

 

“شرک یہ ہے کہ خدا کو زبان سے، دل سے، ذہن سے،ہر عمل سے وحدہ لاشریک مانو”۔مولوی صاحب نے باقی بیٹھی عورتوں اور دو ایک لڑکوں کو بھی مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
“جی “۔اس نے صدق دل سے کہا۔

 

“شرک گناہ ِ کبیرہ ہے۔ جاؤ پہلے توبہ استغفار کرو۔پھر آج کے بعد کسی حکیم،کسی داکدار کا خیال بھی نہ لاؤ،اپنی اس بے مغز کھوپڑی میں”۔مولوی صاحب نے براہ راست اسے مخاطب کیا۔

 

“جی”۔۔۔۔۔وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے لگی تو مولوی صاحب کی آواز پھر گونجی۔

 

“تمھیں معلوم ہے، تمھارے سارے بیٹے معذور کیوں ہیں”؟اچانک مولوی صاحب نے ایک چبھتا ہوا سوال کیا۔

 

اسے کچھ اور معلوم نہیں تھا۔صرف یہ معلوم تھا کہ وہ چار معذور،لاچاربیٹوں کی ماں ہے،جن کی حالت دن بدن بگڑتی جارہی تھی۔انھیں مسلسل بخار رہتا اور ہر وقت کھانستے رہتے۔اسے ان کا پیٹ بھرناہوتا، اور پیٹ کے راستے سے بننے والی غلاظتوں کو بھی صاف کرنا ہوتا۔صبح شام گولیاں ان کے منھ میں ٹھونسنی ہوتیں۔ہر دوسرے تیسرے روز مولوی صاحب سے کچھ نہ کچھ دم کروا کے لانا ہوتا۔ باقی سارا دن وہ گھر گھرجاتی، سر پر چھکو(چھابڑی) رکھے، کاندھے سے جھولا لٹکائے،ہاتھ میں ایک چھڑی لیے۔رات کو بیٹھ کر وہ بچوں کے لیے رنگین کاغذوں سے توتیاں(بچوں کی نفیری) اور بھنبھیریاں بناتی،جنھیں صبح اپنے چھکو میں ڈال لیتی۔غبارے وہ دکان سے خرید لاتی۔ہر گھر کے دروازے پردوتین مرتبہ چھڑی مارتی،جیسے اطلا ع دینے کے لیے کوئی کھنکھارتا ہے، پھر بے کھٹکے گھرمیں داخل ہوجاتی۔ بچے اسے دیکھتے ہی دوڑے دوڑے آتے۔توتیوں اور بھنبھیریوں کے بدلے جو کچھ ملتا،اسے جھولے میں ڈالتی۔کئی مرتبہ دھتکاری جاتی،مگر وہ اس کی عادی تھی،اور اسے اپنے پیشے کا لازمی حصہ سمجھ کر اس نے قبول کیا ہوا تھا،تاہم کبھی کبھی جب اسے کوئی دھتکار کے ساتھ دھکا دیتا،یا اچانک کوئی راہ چلتے اس سے لپٹ جاتا،اور خوشی خوشی اعلان کرتا کہ اب اس کی پھل بہری ختم ہوجائے گی،تو اس کے دل پر چوٹ لگتی تھی،اور اس کا جی چاہتا کہ وہ اونچی آواز میں موٹی موٹی گالیاں دے،جس طرح اس کا شوہر اسے دیاکرتا تھا جب شام کو گھر پہنچتی تو اس کے جھولے،چھکو اور ہاتھوں میں بچا ہوا سالن روٹی،خشک آٹا، دال،چاول گندم یا روپے،چونی اٹھنی ہوتی۔

 

اس کا خاوند چوتھے بیٹے کی پیدائش کے تھوڑے عرصے بعدمرگیا تھا۔ہیروئن کانشہ کرتا تھااور موقع بے موقع اسے پیٹتا تھا۔سارے دن کی کمائی چھین لیتا تھا،اوراسے اور بیٹوں کوننگی گالیاں دیتا تھا۔اسے ڈھڈو،چھنال،بدکار اور بیٹوں کوحرامی کہتا تھا۔آج کس کس یار کے ساتھ سوئی ہو؟روزانہ اس کا سواگت اس جملے سے ہواکرتا۔اس کا اپنے بارے میں علم بس یہیں تک محدود تھا۔آٹھ سوکھی ٹانگیں،اور ہر وقت کسی امید میں بھٹکتی مگر بجھی آٹھ آنکھیں اس کی دنیا تھیں؛وہ اس دنیا سے باہر کچھ نہیں دیکھ پاتی تھی۔اسے یہ خیال بھی کبھی نہیں آیا کہ اس کے علم سے باہر بھی کوئی دنیا ہے۔اسے اگر کوئی خیال آتا تھا تو یہ تھا کہ کہیں،کوئی ایسی ہستی ضرور ہے جو آٹھ سوکھی ٹانگوں کو ہر ا کر سکتی ہے۔یہ خیال اس کا سب سے بڑا آسراتھا،لیکن ساتھ ہی اس کی ایک پریشانی کا باعث بھی تھا۔ وہ اکثر اس بات پر پریشان ہوتی تھی کہ اتنا زمانہ گزرگیا،اسے وہ ہستی کیوں نہیں ملی۔مگر ابھی مولوی صاحب کے سوال سے اس کی ڈھارس بندھی۔اسے لگا کہ اس کی پریشانی دور ہونے والی ہے۔اس نے پہلی بار نہایت غور سے مولوی صاحب کے چہرے کو دیکھا۔سفید چمک دار،ترشی ہوئی لمبوتری داڑھی،سانولا مگر روشن چہرہ، چوڑی پیشانی پر محراب،جھکی ہوئی آنکھیں۔

 

“اللہ کی بندی،تم میری بات سن رہی ہو”؟مولوی صاحب گرجے۔
“جی۔۔۔۔جی سن رہی ہوں”۔وہ سہم گئی،اور پوری طرح متوجہ ہوگئی۔

 

“تو سنو، تمھارے بیٹے اس لیے معذور ہیں کہ تم گناہ گار ہو۔۔۔۔ ویسے تو، ہم سب ہی گناہ گار ہیں۔ہم گناہ کرتے ہیں اور سز اہماری اولاد کو ملتی ہے”۔مولوی صاحب نے اپنا فیصلہ سنایا۔

 

اسے اپنے گناہ گار ہونے میں ذرا شک نہیں تھا،یوں بھی اس کا شوہر اپنے جیتے جی ہر شام اسے گناہ گارثابت کیا کرتا تھا،مگر اسے ذرا سی حیرت ہوئی۔اسے کسی بات میں شک نہیں تھا۔

 

اس میں کیا شک تھا کہ وہ کوئی چالیس سال ہوئے، ایک مصلی،چوہڑے کے گھر پیدا ہوئی؛ایک مصلی سے اس کی شادی ہوئی، اس کے باپ نے بدلے میں پانچ ہزار روپیہ نقد لیا تھا؛ شادی سے پہلے کئی لڑکوں نے راہ چلتے ہوئے، سنسان گلی میں اس کی چھاتیوں کو ٹٹولا تھا،کچھ نے تو نیفے میں بھی ہاتھ ڈال کر ایک نازک مقام پر چٹکی بھر لی تھی،اور وہ سی کرکے رہ جاتی تھی اور تین لڑکوں سے وہ خود،دن،دوپہر،شام یارات کسی وقت، کسی کھیت یا کسی بیٹھک یا کسی کھولے (بغیر چھت کا کچا پرانا کمرہ) میں مل لیا کرتی تھی۔یہ سب معمول کے مطابق تھا۔یہ سب معلوم ہونے کے بعد بھی اس سے کسی نے باز پرس کی،نہ اس بات پر اسے ملامت کی۔تاہم ایک پھٹکار اس کے خاندان پر نجانے کن زمانوں سے پڑرہی تھی۔اس پھٹکار میں اس کے،اس کی ماں کے،اس کے باپ کے،اس کے شوہر کے،اس کے بچوں گناہ گار ہونے کا احساس اسی طرح شامل تھا، جس طرح اس کی جلد میں سیاہ رنگ شامل تھا۔ کبھی، رات کے کسی خاموش پہر میں جب اس کی آنکھ اچانک کھلتی تھی،اور دن میں ہونے والا کوئی واقعہ اسے یاد آتا تھا تو ایک مدھم سی لہر اس کے وجود پر چھا جاتی تھی۔جلد کی سیاہی،ایک گناہ نظرآنے لگتی تھی۔وہ گناہ کو ایک کلوانھ کی صورت سمجھتی تھی، اور اس بات سے ایک طویل سمجھوتہ تھا، جو شاید کئی نسلوں سے چلا آرہا تھا۔ اب مولوی صاحب فرما رہے تھے کہ ہم سب گناہ گار ہیں تواسے ذرا سی حیرت اس بات پر ہوئی تھی مولوی صاحب خود کو کیوں گناہ گاروں میں شامل کررہے ہیں۔کیا اس لیے کہ ان کا رنگ ذراسا سیاہی مائل ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔مگر مولوی صاحب سے وہ کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرپارہی تھی۔

 

اسی دوران میں مولوی صاحب کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ مولوی صاحب نے ’جی میں شام پانچ بجے پہنچ جاؤں گا‘ کَہ کر فون بند کردیا۔ہاں تو میں کَہ رہا تھ کہ ہم سب گناہ گار ہیں۔ مگر خداے وحدہ لاشریک نے ہمیں ایک ایسے بٹن سے نوازا ہے کہ ہم اپنے گناہوں کو ڈیلیٹ کرسکتے ہیں۔یہ بٹن ہے، توبہ استغفار، صدقہ،خیرات اور نماز روزہ، حج۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اچانک مولوی صاحب کو کسی خیال نے روک لیا۔مولوی صاحب نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔وہ ایک گٹھڑی سی نظر آرہی تھی۔آدھا سرنیلے رنگ کے میلے سے دوپٹے سے ڈھکا تھا،اور مولوی صاحب کی قدموں کی سمت جھکا ہوا تھا۔مٹیالے الجھے بال اسے وحشت ناک بنارہے تھے۔چہرہ سیا ہ تھا،اور مرجھایا ہوا تھا۔مولوی صاحب کو واقعی اس پر ترس آیا۔ اچھا اب تم جاؤ، میں دعا کیا کروں گا۔ تم ہر وقت اللہ کو یاد کرتی رہا کرو۔ وہ سب کو بخشنے والا ہے۔

 

مدت بعد اس نے اٹھتے ہوئے،اپنے گھٹنوں پر ہاتھ نہیں رکھے۔ایک نامعلوم سی طاقت کا اثر اس نے محسوس کیا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

“مولبی صاحب، میرے بچڑوں کے لیے دعا کرو”۔

 

“اب دعا کی کیا ضرورت ہے؟ مولوی صاحب حیران تھے کہ اس کے چاروں بچے خون تھوکتے تھوکتے، ایک ایک کرکے اللہ کو پیارے ہوگئے تھے، اب وہ کس لیے دعا کروانے آئی تھی۔

 

اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔اس کا گلہ رندھ گیا تھا۔ آپ دعا کریں انھیں وہاں ٹانگیں جلد سے جلد نصیب ہوجائیں،اور وہ سکھی رہیں۔اسے کوئی اور بات نہیں سوجھی۔

 

یہ ․․․یہ تم کیسی باتیں کررہی ہو۔ مولوی صاحب نے اپنی پگڑی درست کرتے ہوئے کہا۔پھر اچانک مولوی صاحب کو ایک خیال آیا۔کیا انھوں نے کلمہ پڑھا تھا؟میرا مطلب ہے،وہ․․․ہمارے نبی پاک ﷺکا کلمہ پڑھ لیتے تھے؟ مولوی صاحب کو یاد نہیں کہ کبھی کسی مصلی نے ان کی اقتدا میں نماز پڑھی ہو۔ انھیں کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ اگر کوئی مصلی مسجد میں داخل ہوگیا تو وہ اسے نماز کی اجازت دیں گے یا نہیں۔گاؤں کے اکثر لوگ ان لوگوں کے مذہب کے سلسلے میں شک میں مبتلا رہتے تھے۔ ایک بات کا البتہ انھیں یقین تھا کہ وہ نہ تو عیسائی ہیں،نہ ہندو،نہ سکھ۔ یہ ایک ایسی بات تھی،جس نے مصلیوں کے پانچ سات خاندانوں کو گاؤں کے لیے قابل ِقبول بنایا ہواتھا،کیوں کہ ان تین مذہبوں سے ہٹ کر وہ کسی مذہب کا تصور نہیں کرتے تھے۔ایک اوروجہ سے بھی وہ گاؤں والوں کے لیے قابل قبول تھے۔ کہیں سے غلاظت کا ڈھیر ہٹا ناہو،شادی بیاہ،موت فوت سے بچ جانے والا جھوٹاکھاناٹھکانے لگانا ہو، یا مکانوں کی تعمیر کے لیے سستے مزدوروں کی ضرورت ہوتو مصلیوں کے خاندان کے سب افراد کام کرتے تھے۔کچھ عرصے سے ان کی لڑکیوں اور عورتوں نے گاؤں کے گھروں میں جھاڑو صفائی کاکام بھی سنبھال لیا تھا،کہ اکثر عورتیں استانیاں لگ گئی تھیں۔

 

“مولبی صاحب، وہ بول نہیں سکتے تھے، سن نہیں سکتے تھے۔گنگے ڈورے تھے”۔ وہ بے حد ڈر گئی تھی۔

 

“تمھیں کلمہ آتا ہے”؟مولوی صاحب نے راست سوال پوچھا۔

 

جی۔لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔اس نے فر فر پڑھ دیا۔

 

یہ سنتے ہی مولوی صاحب عجیب دبدھے میں پڑ گئے۔ انھیں پریشانی لاحق ہوئی کہ کہیں اس سے کوئی توہین تو نہیں ہوگئی۔ اس نے پہلی مرتبہ ایک مصلن کی زبان سے پاک کلمہ سنا ․․․․لیکن انھیں سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کریں؟

 

“اچھا یہ بتاؤ، کبھی ان کی طرف سے کلمہ پڑھا”؟مولوی صاحب نے دریافت کیا۔

 

“ان پر کلمہ پڑھ کر پھونکتی تھی، مگر ان کی طرف سے ․․․․مجھے تو پتا ہی نہیں تھا”۔وہ منمنائی۔

 

“کیا ان کے کان میں اذان دلائی تھی”؟ مولوی صاحب نے پوچھا۔

 

“نہیں۔ میں نے موئے سلی،اپنے خاوند سے کہا بھی کہ مولبی صاحب کو بلالاؤ،بچے کے کان میں اذان دلانی ہے،مگر وہ کہتا تھا ہمارے گھر کبھی کوئی داڑھی والا آیا ہے؟ کوئی اور بھی ہمارے گھر نہیں آتا،مولبی صاحب۔ہمارا گھر ہے ہی کہاں۔اب ایک جھگی ڈالی ہے،نسلوں سے ہم کلیوں میں رہے ہیں۔میں نے بھی کلمہ چھ مہینوں میں یادکیا، ایک اللہ کی نیک بندی نے یاد کرایا،مجھے اس نے کئی تھپڑ بھی مارے،مگر میں نے سہے،اور کلمہ یاد کیا۔ اس لیے یاد کیا کہ شاید اللہ ان کی مصیبت کاٹ دے۔اللہ کے کلام میں برکت ہے”۔ اس نے سچ بول دیا۔
“جب وہ مرے ہیں،ان کی طرف سے کسی نے کلمہ پڑھا”؟

 

“میں ان کے لیے بار بار کلمہ پڑھتی تھی،پر مجھ مورکھ کو کیا پتا کہ ان کی طرف سے پڑھناہے؟ ہمیں کوئی نہیں بتاتا۔ہم میں سے کوئی مسجد،کوئی سکول نہیں جاتا،کوئی ہمیں بتانے نہیں آتا، مولبی صاحب۔ہم یہاں د ونسلوں سے رہ رہے ہیں،آپ کو پتا بھی نہیں ہوگا ہمارا گھر کہاں ہیں۔” وہ رورہی تھی۔

 

مولوی صاحب کارنگ اچانک بدل گیا۔وہ کچھ کہنے لگے،رک گئے۔ پھر غصے میں آگئے:” تم ہندو،کراڑ ہو۔ تم مسلمان ہو ہی نہیں۔ مسلمان وہ ہوتا ہے جس کے پیدا ہونے کے بعد،اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے،اور جب مرتا ہے تو ا س کی زبان پر کلمہ طیبہ کا ورد ہوتا ہے”۔

 

“بعد میں بندہ مسلمان نہیں ہوسکتا”؟ اس کی آواز میں رقت تھی۔

 

“ہوسکتاہے،ضرور ہوسکتاہے۔اگر اسے خدا اس قابل سمجھے،اوراسے توفیق دے تو”۔مولوی صاحب کا لہجہ اب بھی درشت تھا۔

 

“لیکن مولوی صاحب، میں چاہتی ہوں،آگے میرے بچڑے اپنے پاؤں پر چلیں،ان کا تاپ اتر جائے، انھیں کھگھ نہ ہو،بلغم میں خون نہ ہو،اور بولیں چالیں”۔

 

“کیا ان کا جنازہ پڑھا گیا تھا؟کس نے پڑھا یا تھا؟”

 

“جی،بہت کوشش کی،کوئی تیار نہیں ہوا۔پھرہماری برادری کا ایک بندہ آیا تھا،جو دوسرے گاؤں میں رہتا ہے،اور اس نے پکا گھر بنوایا ہواہے۔اس نے چاروں کے جنازے پڑھائے تھے”۔
“سارے کافر سیدھے جہنم میں جائیں گے”۔مولوی صاحب کا لہجہ دوٹوک تھا۔

 

“کہیں بھی جائیں، اپنے پاؤں پر چل کر جائیں۔میں تو ان کی آواز سن نہیں سکی،کوئی اور انھیں بولتا دیکھے۔مولبی صاحب،وہ ایک دن بھی نہیں چلے تھے ․․․میں ان کا گوہ موت صاف کرتی تھی۔ماں مرے کبھی کبھی دو دون گندے پڑے رہتے تھے۔سب چاہتے تھے،مرجائیں۔مولبی صاحب، پر جب مرے ہیں تو میں نے خود انھیں نہلایا تھا۔میں نے سناہے خدا سب کچھ کرسکتا ہے۔آپ مجھے کوئی تعویذ دے دیں،میں اسے پانی میں گھول کر روزانہ ان کی قبروں پر ڈال آؤں گی”۔ممتا ہار ماننے کو تیار نہیں تھی۔

 

“تعویذ مسلمانوں کے لیے دیے جاتے ہیں”۔ مولوی صاحب نے اپنا فیصلہ سنایا۔
“ٹھیک ہے مولبی صاحب۔ بس اتنا بتادیں،میرے بچڑے مرنے کے بعد کیسے مسلمان ہوسکتے ہیں”؟ ماں ہتھیار ڈالنے پر تیار نہیں تھی۔

 

مولوی صاحب ایک عالم ِ حیرت میں تھے!

Image: Ali Azmat

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *