پچاس علمائے کرام کی جانب سے واضح مردانہ یا زنانہ خواص کے حامل خواجہ سراوں سے نکاح جائز ہونے کا فتویٰ ایک حساس موضوع پر اہم فتوی ہے۔ یہ فتویٰ اس لیے بھی اہم ہے کہ پہلی مرتبہ مذہبی حلقوں کی جانب سے خواجہ سراوں کے حقوق سے متعلق اس قدر کھل کر آواز اٹھائی گئی ہے۔ یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ فتوے کے مندرجات خواجہ سراوں کو مساوی حیثیت کا حامل انسان تسلیم کرنے کی جانب ایک اہم سماجی قدم ہیں۔ لیکن اس فتوے پر مزید بحث سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ فتویٰ بھی افراد کو واضح مردانہ یا زنانہ خواص کی تقسیم کے سوا کسی اور صنفی پہچان میں تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ یہ فتویٰ مذہبی جنسی اخلاقیات کی بنیاد میں موجود اس ذہنیت کا بھی عکاس ہے جو جنسی تعلق کو محض ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان ہی دیکھنے کا خواہاں ہے۔ اور اس محدود تصور سے مختلف جنسی ترجیحات اور شناخت کے حامل افراد کو گناہ گار اور بیمار سمجھنے کی متقاضی ہے۔
مذہبی جنسی اخلاقیات کا یہی فرسودہ تصور کم سنی کی شادی کو تحفظ فراہم کرتا ہے، مرد کی جنسی تسکین کو عورت کی جنسی ترجیحات پر فوقت دے کر مرد کو کثیر زوجگی کی اجازت دیتا ہے اور ہم جنس پرستی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
مذہبی جنسی اخلاقیات کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ جنسی عمل کو ایک فرد کا ذاتی معاملہ اور بنیادی حق تسلیم نہیں کرتی، بلکہ جنسی عمل کو مذہب کے بانی کے مقرر رکدہ اصولوں اور ان معاشرتی اصولوں کی کسوٹی پر پرکھتی ہے جو فرد کی آزادی کے تصور سے نا آشنا ہیں۔ یہی وجہ ہے جنسی تعلق سے متعلق ممعاشرتی معمولات، اقدار، ضوابط اورقوانین اسے افزائش نسل کے فریضے تک محدود خیال کرتے ہیں، مذہبی جنسی اخلاقیات کا یہی فرسودہ تصور کم سنی کی شادی کو تحفظ فراہم کرتا ہے، مرد کی جنسی تسکین کو عورت کی جنسی ترجیحات پر فوقت دے کر مرد کو کثیر زوجگی کی اجازت دیتا ہے اور ہم جنس پرستی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
یہ فتویٰ مردانہ اور زنانہ دونوں خصائص کے حامل افراد کے نکاح کی اجازت نہیں دیتا۔ یہاں یہ سوال اٹھانا ضروری ہے کہ کیا ایک فرد کے لیے جنسی تسکین کا حق اس کا بنیادی انسانی حق ہے یا نہیں؟ یہ شادی اور خاندان کی تشکیل کے بنیادی حق کا بھی معاملہ ہے جو ہر فرد کو رنگ، نسل، صنفی شناخت، مذہب یا قومیت کےی تفریق کے بغیر اپنی مرضی سے خاندان بنانے اور شادی کرنے کا حق دیتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے مذہبی اخلاقیات تاحال مردانہ برتری کی اخلاقیات ہے جہاں مرد سے نسل کے آغاز اور وراثت کے تعین جیسے تصورات کے تحت جنسی آزادی کو محدود رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
وایتی مذہبی اخلاقیات تمام جنسی ترجیحات اور صنفی شناختوں کے حامل افراد کو جنسی تسکین کا حق دینے سے انکاری ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی خامی ہے۔
مردانہ برتری کے نقطہ نظر سے جنسی عمل کو دیکھنے کی یہ مذہبی اخلاقیات اسی لیے اس دنیا میں مردوں کو باندیوں، اور بیویوں کی صورت میں لا متناہی جنسی لذت کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہی مذہبی تشریحات آخرت میں مردوں کو لامتناہی جنسی لذت کے حصول کے لیے ہزاروں سالوں پر محیط قوت مردمی اور ان گنت حوروں سے مباشرت کی نوید بھی سناتی ہیں، لیکن ان تشریحات میں دیگر جنسی شناختوں اور ترجیحات کے حامل افراد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ تشریحات اور اخلاقیات اس امر کی عکاس ہیں کہ مذہب heterosexual مردوں کے سوا کسی اور صنفی شناخت یا ترجیحات کے حامل افراد حتیٰ کہ heterosexual عورتوں کو بھی جنسی تسکین کا حق دینے کو تیار نہیں۔
روایتی مذہبی اخلاقیات تمام جنسی ترجیحات اور صنفی شناختوں کے حامل افراد کو جنسی تسکین کا حق دینے سے انکاری ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی خامی ہے۔ اسی خامی کے باعث مسلم معاشروں میں جنسی عمل، جنسی تسکین، حتیٰ کہ جنسی تعلیم کا معاملہ بھی شدیدغیر انسانی اور غیر منصفانہ پابندیوں کی زد میں ہے۔ یہ پابندیاں جنسی عمل اور جنسی تسکین جیسی لذتوں کو افراد کے لیے بہت حد تک ناممکن بنا دیتی ہیں۔ مذہبی طبقات کو اب جنسی عمل سے متعلق فرسودہ نقطہ نظر کو ترک کرتے ہوئے تمام افراد کے لیے جنسی تسکین کے حق کو تسلیم کرنا ہو گا اور انہیں ایک آزاد اور خود مختار فرد کے طور پر اپنی جنسی ترجیحات کے مطابق اپنی جنسی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق دینا ہو گا۔ مذہب (یا مذہب کے ماننے والوں کو) یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ جنسی عمل ایک یا زائد (بالغ) افراد کے مابین باہمی رضامندی سے قائم ہونے والا تعلق ہے اور اس حق سے محرومی یقیناً معاشرے میں جنسی گھٹن، جنسی جرائم اور بیمار جنسی رویوں کو جنم دے گی۔