Laaltain

محبت کی گمراہ کن تعبیریں

29 اگست، 2016
محبت ایک نہایت ہی گھسا پٹا سا لفظ ہے۔ اس کا استعمال ہماری عام زندگیوں میں راشن پانی کے مسائل سے زیادہ ہوتا ہے، اس لفظ کی بہت سی تشریحات اور تعبیرات بھی ہمارے ذہنی دفتروں میں بالکل الگ پائی جاتی ہیں۔
محبت ایک نہایت ہی گھسا پٹا سا لفظ ہے۔اس کا استعمال ہماری عام زندگیوں میں راشن پانی کے مسائل سے زیادہ ہوتا ہے، اس لفظ کی بہت سی تشریحات اور تعبیرات بھی ہمارے ذہنی دفتروں میں بالکل الگ پائی جاتی ہیں۔سماجی و سیاسی سطح پر اس لفظ کے معنی ہیں، اپنے ملک، اپنی زبان، اپنی طرز زندگی اور دوسری تمام باتوں سے ایسی محبت کرنا جو دوسری تہذیبوں، ملکوں اور زبانوں کے تعلق سے نفرت، بیزاری یا ان کی کم مائیگی کا احساس بھی ساتھ ہی ساتھ پیدا کرے۔اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کو اپنی اس محبت پر فخر نہیں ہے تو آپ سوسائٹی میں ایک ادھورے اور بے وقوف قسم کے شخص ہیں جو عام لوگوں کی رائے میں جس تھالی میں کھاتے ہوں اسی میں چھید کرنے کے بھی مجرم ہوسکتے ہیں۔گویا کسی اور ملک کی خوبصورتی کی تعریف کرنا، وہاں کے لوگوں اور وہاں کے کاروباری طریقوں، وہاں کی زبانوں اور رہن سہن کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنا ایک ایسا ناقابل معافی جرم ہے جو آپ کو اپنے پڑوسیوں تک سے دور کرسکتا ہے۔سماجی قسم کے معاملات میں یہ چوٹ ذرا اور گہری ہوجاتی ہے اور آپ ان رسموں، رواجوں، خداوں اور منصبوں کی عزت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جو اس عظیم لفظ ‘محبت’ کے ثبوت کے طور پر ہماری سوسائٹی میں پیش کیے جاتے ہیں۔

 

یہ ایک بہت ہی عجیب و غریب بات ہے کہ نام تو ہے محبت کا لیکن اجازت ہے صرف اور صرف نفرت کرنے کی۔محبت کی دور تک نہ تو کوئی روشنی نظر آنی چاہیے ۔بعض معاملات میں سیاسی و سماجی قسم کے اصولوں کے تحت کھنچے ہوئے محبت کے دائرے سے ایک قدم باہر رکھتے ہی آپ مشکوک ہوجاتے ہیں۔اب یہ مشکوک ہونا کیا ہے۔یہ شک ہے کہ آپ ان تمام لوگوں کے ذہن میں برسوں کے بعد تیار کی گئی محبت کی ایسی عمارات کے قلعی کھول سکتے ہیں۔تو ثابت ہوا کہ ہمارے سماجوں میں کسی نئے معنی کے ساتھ کی جانے والی محبت کو یا تو برداشت نہیں کیا جاسکتا یا اگر کرنا ہی پڑ جائے تو اسے اچھا نہیں تسلیم کیا جاتا۔یعنی کہ یہ ایک ایسی برائی ہے کہ آپ اسے کرکے ایک عزت دار شخص نہیں رہ سکتے۔ لیکن اس سیاسی و سماجی قسم کی محبت کا ایک اور مسئلہ ہے، یہ صرف انسان کو لڑنا، چیخنا، چلانا اور گالیاں بکنا سکھاتی ہے۔ہاتھ پاوں ہلانے کا کام اس کے بس کا نہیں۔یہ ذمہ داریوں کے نام پر دوسروں کو کوسنے دے سکتی ہے، ان کو طرح طرح کے طعنوں اور تشنوں سے نواز سکتی ہے مگر یہ متواتر اپنے سماجوں کی خامیوں، برائیوں اور کمیوں کو نظر انداز کرنے اور برداشت کرتے رہنے کو ہی عقلمندی سمجھتی ہے، اس کے نزدیک رسموں، رواجوں، ملک اور سماجوں کی طے شدہ کھوکھلی اقدار اور برے اصولوں کو توڑنے کے متعلق بات کرنے کا مطلب ہے، دنیا کے سامنے یہ تسلیم کرنا کہ ہمارے آبا و اجداد، ہمارے سیاسی رہنما، ہمارے قدیم ترین تہذیبی تماشے ، حتیٰ کہ گھر کی بڑی بوڑھیاں بھی بے وقوف تھیں۔

 

اگر آپ کسی بحث یا کسی تنہائی میں ایسے سوالوں کے درمیان گھر گئے ہیں، جہاں آپ کا عقیدہ یا خدا کے مقرب بندوں کی بتائی ہوئی باتیں غلط ثابت ہوں تب وہاں محبت کا یہ تعویذ آپ کے بہت کام آئے گا۔
اسی طرح یہ لفظ محبت مذہبی پیرائے میں بھی بہت عام ہے۔ خدا سے محبت، اس کے پیغمبروں اور بھیجے گئے اوتاروں سے محبت۔لیکن یہ محبت مشروط ہے۔اس کا طوق گلے میں ڈالنے سے پہلے آپ کو دل و جان سے یہ قبول کرنا ہوگا کہ آپ جن خدا کے زمین پر اتارے گئے لوگوں کی باتوں پر ایمان لارہے ہیں، ان کی باتوں کو سنتے ہوئے آپ کو سمجھنے کی بالکل اجازت نہیں ہوگی۔جہاں آپ نے اسے سمجھنا شروع کیا، کھیل خراب ہوجائے گا اور آپ محبت کے اس عظیم ترین منصب سے خود بخود زمین پر پٹخ دیے جائیں گے۔اس میں کسی جواز، کسی سوال یا کسی منطق کی بالکل گنجائش نہیں ہوگی۔ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے، جس کی رو سے آپ ان باتوں کو ماننے پرمجبور ہوں گے جن کو بار بار آپ کا دماغ تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوگا۔
اگر آپ کسی بحث یا کسی تنہائی میں ایسے سوالوں کے درمیان گھر گئے ہیں، جہاں آپ کا عقیدہ یا خدا کے مقرب بندوں کی بتائی ہوئی باتیں غلط ثابت ہوں تب وہاں محبت کا یہ تعویذ آپ کے بہت کام آئے گا۔ اسے چومیے اوراس کے ساتھ ساتھ سوال کے بھاری پتھر کو بھی چوم کر چھوڑ دیجیے۔وجہ یہ ہے کہ آپ محبت کرتے ہیں، خدا سے۔خدا جو آپ کو پسند کرتا ہے، اس لیے اس نے آپ کو ایک ایسی قوم میں پیدا کیا، جسے وہ سب سے زیادہ پسند کرتا تھا۔ آپ کو پہلے ہی جنت کی کنجی تھمادی گئی ہے اور خدا کی محبت کے اس عظیم ترین تحفے کے ملنے کے باوجود اگر آپ ناشکری یا بغاوت کا اعلان کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ آپ کو عتاب بھی جھیلنا پڑے گا، جس کی تفصیل میں جاتے ہی آپ کے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں اور آپ ڈر کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔یعنی اس محبت میں محبت سے زیادہ ڈر کا عنصر حاوی ہے۔یہ محبت ایک اوڑھی ہوئی مصنوعی قسم کی محبت ہے،جس طرح ہاتھوں میں تھالیاں پکڑنے والا گڈا، چابی بھرنے پر خوش ہو کر انہیں تب تک بجاتا رہتا ہے، جب تک اس میں موجود پوری حرکت بالقویٰ اپنا کام مکمل نہ کرلے اسی طرح آپ کو بھی مسکراتے ہوئے اس نظام محبت پر تالی بجاتے رہنا ہے۔ غور وخوض کرنا بھی ہے تو ایک شرط کے ساتھ، کہ آپ خدا کی بتائی ہوئی، اس کے مقرب بندوں کی بتائی ہوئی انہی باتوں کو نتیجے کے طور پر پہلے سے طے کرلیں جو کہ آپ کے سامنے رکھ دی گئی ہیں، یعنی کہ تجربہ گاہ میں جانے سے پہلے آپ کو بتادیا گیا ہے کہ آپ کو صرف صابن بنانے کی اجازت ہے، اگر آپ غلطی سے اپنا دماغ استعمال کرکے صابن کی جگہ خوشبودار سفوف تیار کرلیتے ہیں تو آپ کو تجربہ گاہ میں ایک لعنتی طالب علم کی حیثیت حاصل ہو گی۔

 

تیسری محبت فرض اور ذمہ داری کا نام ہے۔یہ فرض اور ذمہ داری اگر چار لوگوں کا پیٹ بھرنے تک محدود رہے تو بات الگ ہے، لیکن آپ مجبور ہیں کہ جن والدین نے آپ کو اپنی خوشی سے بستروں پر مکمل لطف حاصل کرتے ہوئے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تھا، ان کی اطاعت آپ پر فرض ہے۔اس اطاعت میں بہت سی چیزیں شامل ہیں، جیسے کہ آپ ان کی مرضی سے شادی کریں گے۔ان کی مرضی سے کریئر چنیں گے، ان کے حسب منشا زندگی گزاریں گے، انہی اصولوں پر چلتے ہوئے، جن پر آپ کے خاندان کو ہمیشہ سماج میں فخر و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔اور اگر کہیں دھوکے سے آپ اس شان خاندان میں بٹہ لگانے کے مجرم یا ملزم پائے جاتے ہیں تو ماں باپ، بھائی بہن آپ کا گھر میں جینا دوبھر کردیں گے اور بہت ممکن ہے کہ اگر آپ کا باپ ایک رئیس شخص ہے تو وہ آپ کو اپنی جائیداد سے بے دخل کردے۔آپ اس محبت کا حق ادا کرتے ہوئے، ایک فرمانبردار انسان بنے رہیں تاکہ آپ کے سامنے جائداد کو کھونے، سماج میں عزت کے گم ہونے یا برادری باہر ہونے کا کوئی بھی خدشہ باقی نہ رہے۔اس طرح کی محبت ایک محبت ہی نہیں، بلکہ آپ کا فرض ہے، کیونکہ آپ کی شخصیت محض آپ کی نہیں، آپ کے گھروالوں، ماں باپ بھائی بہن، سماج ، مذہب، طے کردہ تعلیمی نظام اور باقی چھٹ بھیے اصولوں کی چھوٹی چھوٹی پراپرٹی ہے، اس لیے یہاں تابعداری بری بات نہیں، بلکہ ایک خوبی سمجھی جاتی ہے اور اس سانچے میں ڈھل ڈھلا کر ایک دن آپ ایسے انسان بن جاتے ہیں، جو اس پورے سسٹم کو قبول کرتے ہوئے، اسے جوں کا توں اپنی اولاد پر نافذ کردیتے ہیں۔

 

جب دو لوگ آپسی رضامندی سے سیکس کرتے ہیں ، رومانس کرتے ہیں تو اس میں توقعات کا دفتر نہیں کھلتا، جب کہ محبت ہے ہی توقعات کا دوسرا نام۔
محبت کا جو سب سے کھلا ڈھلا روپ ہے، وہ ہے ایک لڑکا اور لڑکی میں ہونے والی محبت۔اب اس محبت کے بھی کچھ ایسے ادھیائے ہیں، جنہیں پڑھے بغیر آپ اس میں ایک کچے کھلاڑی تسلیم کیے جائیں گے۔انسانی خواہش کا یہ سب سے بڑا مرکز ہوتا ہے، لیکن یہیں انسان کا بیڑہ بھی غرق ہوتا ہے۔اس محبت کی بہت سی اقسام ہیں۔میں اپنی ایک دوست کا واقعہ سنا کر بات شروع کرتا ہوں۔ایک شادی شدہ صاحب ہیں، جو کہ اسی دفتر میں کام کرتے ہیں، جس میں ہماری دوست ملازم ہے۔دونوں میں علیک سلیک ہوئی، بات آگے بڑھی اور پھر کافی اچھی دوستی ہوگئی۔لڑکیوں کی دوستی کو عام طور پر ہمارے یہاں ایک ‘فخریہ امتیاز ‘حاصل ہے۔ہم اس شخص کو بہت سمارٹ، سمجھدار اور قابل رشک سمجھتے ہیں، جس کی ایک سے زیادہ لڑکیوں سے بات چیت ہو، دوستیاں ہوں اور وہ دوستیاں عام چلتی پھرتی زندگی میں نظر بھی آئیں۔اسی وجہ سے ہمارے یہاں جب کوئی لڑکی، کسی لڑکے سے دوستی کرنا چاہتی ہے تو لڑکا پہلے سے یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے کہ لڑکی اسے دل و جان سےچاہنے لگی ہے، اس کے بغیر رہ نہیں سکتی اور اسی وجہ سے اس نے دوستی کا ہاتھ آگے بڑھایا ہے۔اسی سبب سے لڑکیوں کا عدم تحفظ اس درجے کو پہنچا ہوا ہے، جہاں وہ کسی بھی لڑکے سے دوستی یا بات کرنے سے پہلے دس بار سوچتی ہیں۔خیر، ان صاحب نے ایک رات میری دوست سے کہا کہ وہ اس سےقربت چاہتےہیں، اس نے پوچھا کہ قربت کس معنی میں؟انہوں نے کہا کہ جسمانی قربت نہیں، بس ایک دوست کے قریب ہونے کا احساس، لڑکی نے انہیں احساس دلایا کہ وہ شادی شدہ ہیں، تو انہوں نے کہا کہ کیا شادی شدہ لوگوں کی زندگی میں کسی د وست کی قربت کی ضرورت نہیں ہوسکتی، بات جس نکتے پر ختم ہوئی وہ یہ تھی کہ لڑکا ، لڑکی کو ایک دفعہ بہت دیر تک گلے لگائے رکھنا چاہتا تھا۔اس کی نظر میں لڑکی کو گلے لگانا کسی بھی قسم کی جسمانی قربت نہیں تھی، رومانس نہیں تھا، بلکہ صرف دوستی کا ایک احساس تھا۔ ایسی بہت سی تعبیریں ہماری عام زندگیوں میں محبت کے حوالے سے دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔ظاہر ہے کہ ہمارے نصاب میں محبت کی وہ تصویریں کبھی دکھائی ہی نہیں جاتیں، جن سے ذہن یہ سمجھیں کہ اصل میں یہ جذبہ ہے کس چیز کا ہے نام۔جسمانی قربت میں کوئی برائی نہیں، لیکن اسے محبت کا نام دینا، ایک مسئلہ ہے، مسئلہ یہ ہے کہ میں خود بھی اس بات کا قائل ہوں کہ جب دو لوگ آپسی رضامندی سے سیکس کرتے ہیں، رومانس کرتے ہیں تو اس میں توقعات کا دفتر نہیں کھلتا، جب کہ محبت ہے ہی توقعات کا دوسرا نام۔یہ اس جذبے سے بالکل الگ چیز ہے، جسے ہم بستری یا جنسی عمل کہا جاتا ہے۔ستر فی صدی سے زیادہ شادیاں ہمارے یہاں جنسی عمل کے کچے پکے راستوں سے ہو کر گزرتی رہتی ہیں، جبکہ ان میں محبت یا تو بالکل کم ہوتی ہے، یا پھر ہوتی ہی نہیں۔دو لوگ ایک دوسرے پر بوجھ بنے اپنی زندگیوں کو صرف اس لیے ڈھوتے رہتے ہیں کیونکہ انہیں سماج، اولاد اور دوسرے بہت سے لوگوں کے سامنے شرمسار ہونے سے بچنا ہوتا ہے۔ان بجھے ہوئے رشتوں میں وہ راتوں کو پنڈلیوں کی رگڑ سے حرارت پیدا کرسکتے ہیں لیکن محبت نہیں۔محبت بالکل برعکس مسئلے کا نام ہے، جس میں انسان کا دماغ پورے طور پر شامل ہوتا ہے۔

 

کیونکہ محبت اقرار کے بجائے انکار سے شروع ہوتی ہے۔ان لدی پھندی زنجیروں کو اتار پھینکنے کی ہمت سے جو دوسروں نے ہم پر کس دی ہیں۔ محبت، اپنے وجود کو تسلیم کرلینے سے شروع ہوتی ہے، جہاں کسی ایک شخص کی اہمیت دوسروں سے بہت زیادہ ہوجاتی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ محبت ایک وقت میں دو لوگوں سے نہیں ہوسکتی، مگر میں اس کی بھی حمایت نہیں کروں گا کہ محبت ایک وقت میں سو لوگوں سے ہوسکتی ہے۔محبت اداسی کو سہہ پانے کا نام ہے، محبت کسی کو اس قدر ذہن و دل پر حاوی کرنے کا نام ہے، کہ اس سے نفرت کا کسی بھی دور میں سوال ہی پیدا نہ ہو۔بلکہ جب آپ اس قسم کی محبت میں ہوتے ہیں تو آپ کو تمام دوسری چیزیں، دوسرے لوگ، دوسری باتیں سب بھلے معلوم ہوتے ہیں، دنیا میں کچھ برا نہیں لگتا، نقصان آپ کا کچھ بگاڑتا نہیں اور فائدہ آپ کا کچھ بناتا نہیں۔میں نے بہت سے لوگوں کو یہ شکایت کرتے دیکھا ہے کہ انہوں نے فلاں سے محبت کرکے غلطی کی، کبھی کوئی لڑکی یہ کہتی ہے کہ اچھا ہوا میں اس کے چنگل سے نکل آئی، کیونکہ وہ تو ایک دل پھینک لڑکا تھا، کبھی کوئی لڑکا ایک چھوٹے سے بریک اپ کے بعد نفسیاتی مرض کے حملوں کا شکار ہوکر لڑکی پر بہتان کسنے لگتا ہے، اس کا کردار ناپنے لگتا ہے۔یہ سب باتیں، محبت میں ممکن نہیں۔ہاں ان سود و زیاں، نفع و ضرر والے جذبوں میں ضرور ممکن ہیں۔ جن کو ہمارے دوست ٹھرک پن کہہ سکتے ہیں۔

 

اگر کوئی سماج کسی بھی لڑکے یا لڑکی کو محبت کرنے پر بدنام کرتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ اس میں خود کہیں نہ کہیں کوئی بڑا کھوٹ ہے۔
ایک آخری بات یہ کہ لوگوں نے اپنے طے کردہ اخلاقی شذرات میں محبت کرنے والوں کو بدنام اور رسوا سمجھ لیا ہے۔بدنامی کا مطلب ہے کوئی ایسا کام کرنا، جس سے آپ کا نام خراب ہوجائے۔محبت ایک اچھی چیز ہے۔ اس سے نام خراب نہیں ہوسکتا۔اگر کوئی سماج کسی بھی لڑکے یا لڑکی کو محبت کرنے پر بدنام کرتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ اس میں خود کہیں نہ کہیں کوئی بڑا کھوٹ ہے۔ورنہ وہ اس قسم کی سنکی باتیں کبھی نہ کرتا۔مجھے یاد ہے، میں چوتھی یا پانچویں جماعت میں رہا ہوں گا، جب ہم نے سنا کہ ہمارے سکول کی ایک ٹیچر کسی لڑکے ساتھ بھاگ گئی تھیں۔سب انہیں برا بھلا کہہ رہے تھے۔ہم تو خیر اس وقت کچھ سمجھتے نہیں تھے، لیکن اب سوچتے ہیں کہ جس معاشرے سے محبت کرنے والوں کو بھاگنا پڑتا ہے، اس معاشرے میں رہنے والے کون لوگ ہوتے ہیں۔دماغ تو آپ کے پاس بھی ہے، سوچ کر دیکھیے۔

Image: Roberlan

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *