یہ سورج جو روز مشرق سے نکلتا ہے اور اپنی حرارت اور روشنی لوگوں پر نچھاور کرتا ہے اگر یہ ہمارے حکمرانوں کے زیر نگیں ہوتا تو اس کی روشنی غریب پاکستانی عوام کے لیے ایک خواب ہوجاتی
شکر ہے اور صد ہزار شکر ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی قدرت پر حکومت نہیں ہے۔ یہ سورج جو روز مشرق سے نکلتا ہے اور اپنی حرارت اور روشنی لوگوں پر نچھاور کرتا ہے اگر یہ ہمارے حکمرانوں کے زیر نگیں ہوتا تو اس کی روشنی غریب پاکستانی عوام کےلیے ایک خواب ہوجاتی۔ ہمارے حکمران جب اور جس وقت چاہتے ا س کی روشنی اور حرارت لوگوں کو فراہم کرتے اور جب ان کا دل کرتا اس کی لوڈشیڈنگ شروع کردیتے۔ لوگ اپنے معصو م اور ٹھٹھرتے ہوئے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر نکل کر ان کی منتیں کرتے کچھ دیر کو گرمی عطا کردیں، کچھ لمحوں کےلیے اندھیروں سے ہماری جان چھڑا دیں۔۔۔ پر ہزار شکر کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ سور ج اپنے معمول کےمطابق آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ ویسے حکومت میں موجود وزراء اس گرم گولے کو دیکھ کر حسرت بھری آہ ضرور بھرتے ہوں گے اور سوچتے ہوں گے کہ اگر یہ سورج ہمارے قبضے میں ہوتا تو ہم غریب عوام کی جیبوں سے مزید اربوں روپے اسی مد میں نکال لیتے ۔ ایسے میں ان
وزراء کےلیے بس ایک ہی مشورہ ہے کہ
جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا
جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا
جو معاوضہ ادا کردیتا اسے ایک خاص ہا ل میں لے جاکر فلم کی طرح موسم اور بادل کے رنگ دکھا دیئے جاتے اور پھر وقت ختم ہونے پر ان لوگوں کو آلودہ ماحول میں دوبارہ دھکیل دیا جاتا
اگر یہ ہواان لوگوں کی دسترس میں ہوتی تو سوچیے کہ لوگوں پر کیا عذاب ٹوٹ پڑتا۔ جگہ جگہ لوگ تڑپتے، سسکتے اور بلکتے ہوئے ملتے۔ جن کے پاس پیسے نہ ہوتے وہ کسی گلی ، سڑک یا پھر چوراہے پر اپنا گلا پکڑے تڑپ رہے ہوتے جبکہ دیگر لوگ آس پاس سے گزرتے ہوئے ان پر ترحم کی نگاہ ڈالتے۔ موٹی گردنوں والے حکومتی اراکین ٹی وی سکرینوں پر آکر دھمکیاں دیتے کہ اگر لوگوں نے بروقت پیسے نہ دیے تویہ اسی طرح مرتے رہیں گے۔ حکومت ہڈ حرامی برداشت نہیں کرسکتی ۔ ان کے اس طرح بغیر کسی معاوضے کے آکسیجن استعمال کرنے سے حکومتی خزانے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
اگر یہ بادل اور بارش ان کے ہاتھ میں ہوتی تو پھر تب تک کوئی سہانا موسم نہ دیکھ پاتا جب تک حکومتی اداروں کو بھاری بھرکم معاوضہ نہ اادا کردیتا۔جو معاوضہ ادا کردیتا اسے ایک خاص ہا ل میں لے جاکر فلم کی طرح موسم اور بادل کے رنگ دکھا دیئے جاتے اور پھر وقت ختم ہونے پر ان لوگوں کو آلودہ ماحول میں دوبارہ دھکیل دیا جاتا ۔ مقام شکرہے کہ ان بادلوں پر ان کی حکومت نہیں ، یہ ستارے ان کی دسترس میں نہیں ، بارش ان سے پوچھے بغیر برستی ہے۔ شکرہے کہ یہ لوگ قدرت پر حکمران نہیں ہیں۔ فیض نے ان جیسے حکمرانوں کےبارے میں اپنی شہر ہ آفاق نظم زندان کی شام میں کیا خوب فرمایا ہے۔
اگر یہ بادل اور بارش ان کے ہاتھ میں ہوتی تو پھر تب تک کوئی سہانا موسم نہ دیکھ پاتا جب تک حکومتی اداروں کو بھاری بھرکم معاوضہ نہ اادا کردیتا۔جو معاوضہ ادا کردیتا اسے ایک خاص ہا ل میں لے جاکر فلم کی طرح موسم اور بادل کے رنگ دکھا دیئے جاتے اور پھر وقت ختم ہونے پر ان لوگوں کو آلودہ ماحول میں دوبارہ دھکیل دیا جاتا ۔ مقام شکرہے کہ ان بادلوں پر ان کی حکومت نہیں ، یہ ستارے ان کی دسترس میں نہیں ، بارش ان سے پوچھے بغیر برستی ہے۔ شکرہے کہ یہ لوگ قدرت پر حکمران نہیں ہیں۔ فیض نے ان جیسے حکمرانوں کےبارے میں اپنی شہر ہ آفاق نظم زندان کی شام میں کیا خوب فرمایا ہے۔
دل میں پیہم خیال آتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہوسکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگرتو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم مانیں
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہوسکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگرتو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم مانیں

One Response
Great article!