حالانکہ میں یہ تحریر لکھتے وقت جانتا ہوں کہ مجھے بھی کبھی نہ کبھی اس پھندے میں پاؤں رکھنا پڑ سکتا ہے اور وہ بھی بخوشی، کسی زور زبردستی سے نہیں۔ میرے کچھ احباب مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ تصنیف! تمہارے سر پر جو جنسی خواہشات اس قدر منڈراتی ہیں تو اگر تم شادی کر لو تب شاید یہ مسئلے حل ہو جائیں۔ لیکن میں نے پلٹ کر ان سے کبھی نہیں کہا کہ تمہارے سر پر جو اتنی معاشی اور سماجی مجبوریاں پھیرے لگاتی ہیں، ان کی وجہ سے تم اپنی بیوی کو طلاق کیوں نہیں دے رہے۔ میرے سوچنے سمجھنے کے زاویے ممکن ہے کہ سماجی اصولوں سے بہت زیادہ مطابقت نہ رکھتے ہوں، مگر اتنا تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ شادی کی بنیادی وجہ انسان کی جنسی خواہش کی تسکین کا ایک مستقل علاج ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اس میں گھر گرہستی کا سکھ، اولاد کی کلکاریوں اور دوسرے بہت سے اہم معاملات جھونک کر اسے زبردستی ایک بہتر اور زندگی کے لیے قابل ذکر عمل قرار دے دیں۔ میرے ایک بہت ذی علم اور پیارے دوست ہیں طارق احمد صدیقی، ان کا میں ویسا ہی قائل ہوں، جیسا اپنے معاصرین میں زیف سید، سید کاشف رضا، مصعب اقبال ، رمشیٰ اشرف ،رامش فاطمہ اور محمد علی وغیرہ کا ہوں۔ طارق کا ماننا ہے کہ انسان اگر شادی نہیں کرے گا تو ایک نراج کی سی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ لوگ آزاد جنسی رشتوں میں گھر کر ہر دوسری عورت پر ٹوٹ پڑیں گے اور مرد و عورت کے درمیان قائم مقدس رشتوں کے باند بھی ٹوٹ سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے شادی کے تعلق سے فیس بک پر ایک مختصر تحریر لکھی تھی تو انہوں نے اس معاملے پر مضبوط دلائل کے ساتھ ایک منطقی بحث کا آغاز کیا تھا۔ افسوس کہ ہم اس بحث کو جاری نہ رکھ سکے، لیکن شاید بات یہاں سے دوبارہ شروع کی جاسکے۔
جہاں تک بات جبریہ جنسی عمل اور زنا وغیرہ کی ہے تو میرا ماننا ہے کہ یہ کام ہماری سوسائٹی میں شادی کے بعد بھی ہوتا ہے اور متواتر ہوتا ہے۔
اول تو میں نہیں سمجھتا کہ آزاد جنسی رشتے کسی قسم کے وحشی جنسی عمل کی دعوت دیتے ہیں یا ان کے لیے انسانوں کو مواقع فراہم کرتے ہیں۔ جہاں تک بات جبریہ جنسی عمل اور زنا وغیرہ کی ہے تو میرا ماننا ہے کہ یہ کام ہماری سوسائٹی میں شادی کے بعد بھی ہوتا ہے اور متواتر ہوتا ہے۔ مجھے قریب ایک پینتالیس سالہ عورت نے بتایا تھا کہ اس نے گزشتہ دس برسوں سے اپنے شوہر سے جنسی تعلق منقطع کر رکھا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا شوہر اسے جنسی ایذائیں دیا کرتا تھا، وہ ایک عزت دار گھرانے کی خاتون ہیں، ان کی اولادیں ہیں اور دور سے دیکھنے پر یہ گھرانہ ایک بہت کامیاب اور خوشحال خاندان نظر آتا ہے۔ آپ اسے استثنائی صورت حال قرار دے کر نظر انداز نہیں کرسکتے یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ سنجیدہ اس حوالے سے کہ ہم نے جن معاملات کو پیش نظر رکھ کر شادی کو انسانی زندگی کا جزو لاینفک بنا دیا ہے، اس نے بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ فرض کیجیے کوئی شخص شادی کرنا چاہتا ہے، مگر اسے اپنی پسند اور مزاج کی لڑکی سوسائٹی میں نہیں مل رہی ہے، ماں باپ اور ملنے جلنے والوں کا تقاضہ، جنسی گھٹن کا حملہ، گھر گرہستی کی خواہش، اپنانسب آگے لے جانے کی تمنا اور بیوی کی خدمات کا سکھ بھوگنے کے لیے وہ شخص کسی ایسی لڑکی سے شادی کر لیتا ہے، جو اس کے لیے بالکل مناسب نہ تھی۔ اول تو وہ اس کا مزاج سمجھنے میں ہی ایک برس لگا دے گی اور ایک برس بعد جب اسے احساس ہوگا کہ اس کے شوہر کی ترجیحات کیا ہیں تو اسے اپنے آپ کی باقی ماندہ زندگی مستقل طور پر اپنے شوہر اور اس کے خاندان کے اصولوں اور خواہشات کے مطابق گزارنے کا حوصلہ خود میں پیدا کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں انسانی کردار کی یہ جبریہ تبدیلی ایک ظلم ہے، ایک ایسا ظلم، جس پر ہم کبھی نہ دھیان دیتے ہیں اور نہ بات کرتے ہیں اور اگر اس کے نتیجے میں ہمیں کوئی عورت چڑچڑی، منہ پھٹ یا زبان دراز بنتی نظر آتی ہے تو ہم اسے طعنہ دیتے ہیں کہ وہ ایک لائق بہو یا بیوی نہیں ہے، اپنے میاں کو انگوٹھے کے نیچے داب کر رکھنا چاہتی ہے اور اسے سماج میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔
یہ مسائل اس قدر عجیب و غریب ہیں کہ ان کی نفسیاتی وجوہات پر غور کیے بغیر ہم ان کی مخالفت کرنے کے اہل نہیں ہو سکتے۔ بظاہر ہمیں لگے گا کہ سب ٹھیک ہے۔ ہر چیز اپنے حساب سے چل رہی ہے۔ شوہر صبح دفتر جاتا ہے، بیوی برتن مانجھتی ہے، ،ناشتہ بناتی، بچے سنبھالتی ہے، بازار جاتی ہے یا دیگر ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ہنستے کھیلتے گزار دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس میں اپنے آپ کو کامیاب ثابت کرنے کے لیے کئی عورتوں نے پوری پوری زندگیاں ایک دھوکے اور سراب کی نذر ہو کر گزار دی ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ وہ ایک مثالی بیوی بنیں گی، ایک ایسی بہو، جس کی لوگ تعریف کریں، ساس جس کی نظریں اتارے اور شوہر جس کی ان فرمانبرداریوں پر لٹو ہو جائے۔ اگر آپ مجھ سے یہ کہیں کہ وہ لاکھوں کروڑوں عورتیں جنہوں نے صرف بچے پیدا کر کے، ان کی پرورش کرنے کے بعد انہیں لائق فائق انسان بنا دیا ہو، اس کام کو کرنے کے علاوہ کچھ اور کرنے کی اہل تھیں ہی نہیں تو یقین جانیے ہمیں انسانی نظام میں عورت کےوجود اور اس کی افادیت پر سوالیہ نشان قائم کرنا پڑے گا۔اگر عورت صرف انہی کاموں کے لیے ہے کہ وہ مرد کو لائق فائق بنا سکے، اس کا ساتھ دے سکے یا اس کے پیچھے کھڑی رہ سکے۔ مجلسوں، کتابوں اور تقریروں میں اس کا ذکر کائنات کی تصویر میں رنگ بھرنے کے تعلق سے ہی کیا جاتا رہے تو یہ ایک سراسر بے ہودہ اور بے وقوفانہ بات ہے۔ جس کے خلاف آواز اٹھانے کا ہر عورت کومکمل حق حاصل ہے۔
اگر عورت صرف انہی کاموں کے لیے ہے کہ وہ مرد کو لائق فائق بنا سکے، اس کا ساتھ دے سکے یا اس کے پیچھے کھڑی رہ سکے۔ مجلسوں، کتابوں اور تقریروں میں اس کا ذکر کائنات کی تصویر میں رنگ بھرنے کے تعلق سے ہی کیا جاتا رہے تو یہ ایک سراسر بے ہودہ اور بے وقوفانہ بات ہے۔
یہ تو ہوئی وہ بنیادی بات جس میں شادی ایک عورت پر جو منفی اثر ڈالتی ہے، اس کے اعتماد اور اس کی نفسیات پر جو چوٹ کرتی ہے۔اس کا بکھان۔ اب میں آگے چلتا ہوں۔ شادی کے فائدے کیا ہیں۔ شادی کا صرف ایک فائدہ ہے اور وہ یہ کہ آپ کی جنسی تسکین کا ایک مستقل سامان آپ کے بغل میں ہر رات موجود رہ سکتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ مرد یا عورت دونوں قسم کے سیکس ورکرز کے لیے خرچ کی جانے والی رقم کا بندوبست ہر شخص نہیں کر سکتا۔ لیکن، یہ صرف ایک فائدہ ہے اور وہ بھی چند سالوں کے لیے۔ میں نے بہت سے شادی شدہ جوڑوں سے یہ بات کی ہے، اور ان میں سے اسی فیصد نے اسے تسلیم کیا ہے کہ شادی کے دو سال بعد سیکس کا چارم یا جنسی خواہش کا ایکسائٹمنٹ بہت حد تک کم ہو جاتا ہے۔ کچھ معاملات میں ممکن ہے دورانیہ کچھ آگے پیچھے ہو جائے۔ لیکن ایسا ہوتا ضرور ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی صرف جنس سے عبارت نہیں ہے۔ انسان کو دنیا میں اور بھی کام ہیں، اور بھی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ جنس کا کوئی مستقل علاج کیوں ڈھونڈا جائے۔ جبکہ وہ مستقل علاج دو برس کے فائدے کے ساتھ ہزاروں قسم کی لعنتیں بھی اپنے ساتھ لاتا ہو۔ شادی کی پہلی پریشانی تو یہ ہے کہ آج بھی ہمارے یہاں بہت سے مرد اپنی خوشی سے بہت سے بچے پیدا کرلیتے ہیں، عورتوں کی اوں آں کو ویسے بھی کون گبرو خاطر میں لاتا ہے۔ ہر سال سردی ایک نیا تحفہ دے جاتی ہے اور انسان یا خاص طور پر عورت اس کے چکرمیں بالکل ادھ مری اور بے جان ہوئی جاتی ہے۔ لیکن اس کی فکر کسی کو نہیں ہے۔ بہت سے مذاہب پیدا ہونے والی اولادوں کو روکنے کے سائنسی طریقوں کو غیر مذہبی اور خدا کے نزدیک ایک ناپسندیدہ عمل سمجھتے ہیں۔ اور یہ صرف اس لیے ہے کہ انسان جس قدر اولاد پیدا کرے گا، اتنا پریشان ہوگا اور جتنا پریشان ہو گا، اسے روحانی، ذہنی اور نفسیاتی سکون کے لیے خدا کے در کی خاک چھاننی پڑے گی، جبکہ اس کا علاج خود انسان کے ہاتھ میں ہے، وہ پیدا ہونے والے بچوں کو کنڈوم کی مدد سے روک سکتا ہے (میں مانتا ہوں کہ کنڈوم کے نہ پھٹنے کی گارنٹی کوئی کمپنی نہیں لیتی، لیکن کنڈوم بہت کم پھٹتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو بہت بڑی بڑی فحش انڈسٹریز اس کے بل پر اپنا کام کاج آگے نہ بڑھا رہی ہوتیں)۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے طریقے ہیں، جن میں سے اب کئی طریقے پڑھے لکھے خاندانوں یا نیوکلیئر فیملیز میں اپنائے جاتے ہیں۔
شادی کی دوسری بڑی لعنت اس کے ساتھ پیدا ہونے والے اخراجات ہیں۔ حالانکہ آپ ایسے لوگوں کو ہر روز اپنی سوسائٹی میں دیکھتے ہوں گے جو دوسروں کو اصراف بے جا پر لعنت و ملامت بھیجتے ہوں۔ خدا کی توکل پسندی اور صبر و شکر کے فائدے گناتے ان کی داڑھیوں کے بال سفید ہوجاتے ہیں۔ لیکن باریش آدمی یا برقعہ پوش عورت ہمیشہ یہی چاہے گی کہ اس کے بیٹے یا بیٹی کی شادی عزت سے ہو۔ اب اس عزت کا معاملہ یہ ہے کہ کم از کم آج کی مہنگائی کے دور میں آپ دعوت نامے چھاپیں گے، ہال لیں گے یا شامیانہ لگوائیں گے،کھانا کھلوائیں گے، گاڑیوں میں رخصتی کروائیں گے اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔پھر اس کے ساتھ اگر آپ لڑکی کے ماں باپ ہیں تو آپ کو اچھے خاصے جہیز کا سامان دینا ہوگا اور لڑکے کے ماں باپ ہیں تو اس کی پڑھائی، لکھائی، رہن سہن تمام کے خرچ کی نمائش کرنی ہوگی۔ شادی اس لحاظ سے ہمارے یہاں ایک انڈسٹری بن گئی ہے۔ اخبارات، ٹی وی، ویب سائٹس، موبائل ایپلیکیشنز، ایجنسیاں اور اسی کا کاروبار کرنے والی عورتیں۔ یہ تمام کے تمام آپ کے گھروں میں تب تک دھرنا دیے بیٹھے رہتے ہیں، جب تک آپ کی کہیں شادی کرکے آپ کو کسی ٹھور ٹھکانے سے نہ لگا دیں۔
شادی کی تیسری لعنت انسان کا اپنی برادریوں، من پسند لوگوں، معاشی فائدہ حاصل کرنے کے مسائل سے جڑ جانا ہے۔
شادی کی تیسری لعنت انسان کا اپنی برادریوں، من پسند لوگوں، معاشی فائدہ حاصل کرنے کے مسائل سے جڑ جانا ہے۔ میں ایسے بہت لوگوں کو جانتا ہوں جو بہت دیکھ کر، سمجھ کر شادی کرتے ہیں کہ کہاں ان کا مستقبل زیادہ بہتر ہوگا، کس کے ساتھ وہ اپنی زندگی کے معاشی مسائل کو حل کرنے میں جلد کامیاب ہوسکیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے شادی نفع و نقصان کا ایک ایسا سودا ہے، جسے وہ چاہ کر بھی نظر انداز نہیں کرسکتے اور اگر آپ اپنے چاروں جانب نظر ڈالیں گے تو بیشتر شادیاں انہی شرائط اور معاملات پر طے پاتے ہوئے دیکھیں گے۔ اب ایسی شادیوں میں محبت کا کوئی عنصر شامل ہو گا یا ہوسکتا ہے، مجھے اس پر بھرپور شک ہے۔
ایک اور مسئلہ جو شادی نے پیدا کیا ہے، وہ ہے طلاق اور حرامی کی اصطلاحات کی ایجاد کا۔ جب آپ شادی کریں گے تو ظاہر ہے کہ سماج نے جس طرح کے اصول طے کر دیے ہیں، انہی کو پیش نظر رکھ کر کریں گے۔ کبھی عزت، کبھی شہرت، کبھی معاش اور کبھی صرف اور صرف جنس کو مد نظر رکھ کر کی جانے والی شادی کتنے دن تک اپنے پاوں پر سیدھی کھڑی رہ سکتی ہے۔ ایک دن جب انسان جاگتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے خود کے ساتھ غلط کیا ہے، اور اس کا نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔ پھر طلاق شدہ مرد یا عورت (مرد کم، عورت زیادہ) کے ساتھ ایک مسئلہ اور پیدا ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ انہیں ایک جانب دوسری دفعہ یہی عمل انجام دینے سے ایک خوف سا محسوس ہوتا ہے علاوہ ازیں سماج میں انہیں ایک امپرفیکٹ اور نقص زدہ انسان کی سی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف شادی کو ایک مستند اور باعزت انسانی رسم کے طور پر قبول کیے جانے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ آزادانہ جنسی عمل کے طور پر پیدا ہوجانے والے بچوں کو ہم ‘حرامی’ اور ‘ناجائز’کے نام سے پکارنے لگتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب دو لوگ اپنی خوشی، محبت اور رضامندی کے ساتھ بغیر شادی کے جنسی عمل کرتے ہیں تو ان کے بچے ناجائز ہوجاتے ہیں اور شادی کے بعد خواہ وہ کتنی ہی بے دلی، ذہنی اذیت اور گھٹن میں یہ عمل انجام دیں ان کے بچے جائز کہلاتے ہیں۔ حالانکہ ہماری اخلاقیات کے طے کردہ یہ اصول سراسر کھوکھلے اور بے وقوفانہ ہیں اور ہمیں اب ان سے پیچھا چھڑانا چاہیے۔
عجیب بات یہ ہے کہ جب دو لوگ اپنی خوشی، محبت اور رضامندی کے ساتھ بغیر شادی کے جنسی عمل کرتے ہیں تو ان کے بچے ناجائز ہوجاتے ہیں اور شادی کے بعد خواہ وہ کتنی ہی بے دلی، ذہنی اذیت اور گھٹن میں یہ عمل انجام دیں ان کے بچے جائز کہلاتے ہیں۔
پھر آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ یہ تو رہے مسائل لیکن کیا میرے پاس کوئی بہتر تجویز موجود ہے جو سوسائٹی کو غیر متوازن ہونے سے بچانے اور انسان کے جنسی عمل کو کامیابی اور عزت کے ساتھ قبول کروانے کا راستہ نکال سکے۔ اول تو ہمیں شادی کے معاملےپر غور کرنا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ شادی کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ لیکن شادی صرف ایسے دو لوگوں کی رضامندی کے ساتھ ہونی چاہیے، جو ایک دوسرے کے ساتھ بغیر کسی دباو، کسی منفعت کی خواہش کے ایک ساتھ ساری زندگی بسر کرنا چاہتے ہوں۔ ایسے رشتوں میں طلاق کا عنصر ممکن ہے کم ہو اور اگر نہ بھی ہو تو طلاق کو کوئی بہتر نام دیا جائے اور نئی سماجی اخلاقیات میں اسے انسانی مرضی اور دو لوگوں کے ایک مشترکہ مثبت فیصلے سے تعبیر کیا جائے۔ جو لوگ آزادانہ جنسی رشتہ قائم کرنا چاہتے ہوں، ان کے درمیان یہ معاہدہ ہو کہ وہ ایک دوسرے کی سماجی، معاشی ذمہ داریاں نہیں اٹھائیں گے اور اگر ایسا کریں گے تو صرف خوشی سے، یہ کوئی مستقل ذریعہ نہیں ہوگا۔ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے تو اس میں مرد اور عورت جس کی بھی خواہش بچہ پیدا کرنے کی ہو، اسی پر بچے کی ذمہ داری بھی عائد کی جائے تاکہ وہ خود کو کسی لائق بنا کر بچہ پیدا کرے۔ سماج میں بچوں کے پیدا کرنے سے روکنے والے غیر نقصان دہ راستوں کو فروغ دیا جائے اور انہیں بالغ ہوتے ہی بچوں کے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
عورت کو اس طرح خود کفیل ہونے کے زیادہ مواقع حاصل ہوں گے۔ اتنی ساری شادیوں کی ایجنسیاں کھول کر بیٹھنے والوں کو اس کاروبار کی جانب راغب کرایا جاسکتا ہے کہ وہ ان بچوں کی پرورش کریں، جن کی ذمہ داری اٹھانے والے کسی فرد کی موت ہو گئی ہو اور وہ ابھی اپنی ذمہ داری اٹھانے کے اہل نہ ہوں، یہ سارے کام حکومت کی نگرانی میں ہوں اور ان کی تفصیلات ایک ایسے ادارے کی نگرانی میں کسی ویب سائٹ پر پیش کی جائیں، جن کے ذمہ داران ایسے لوگ ہوں جو ان معاملات کی گہری سمجھ رکھتے ہوں اور سماج میں ایک صاف شبیہ رکھتے ہوں، ظاہر ہے کہ یہ ایک جز وقتی ذمہ داری ہے اس لیے ان ممبران میں صحافی، ادیب، سائنسداں، انجینیر، سیاست داں جیسے تمام لوگوں کو نامزد کیا جاسکتا ہے۔
شادی کے بغیر ملنے والی سیکس کی اجازت آتے ہی سوسائٹی میں جنسی عمل کے تعلق سے موجود ایک جبر کا احساس ختم ہوگا، لوگ اس پر زیادہ کھل کر بات کرسکیں گے۔
شادی کے بغیر ملنے والی سیکس کی اجازت آتے ہی سوسائٹی میں جنسی عمل کے تعلق سے موجود ایک جبر کا احساس ختم ہوگا، لوگ اس پر زیادہ کھل کر بات کرسکیں گے۔ جب کوئی سوسائٹی یہ تسلیم کرتی ہوگی کہ عورت کو بھی آزادنہ جنسی عمل کی اجازت ہے تو کسی بھی عورت کو اپنے ریپ کی رپورٹ کروانے میں بھی شرم اور جھجھک محسوس نہ ہوا کرے گی اور لوگوں کے نزدیک ریپ کی جانے والی عورت ایک گھن لگےہوئے گیہوں کے دانے کی سی حیثیت نہ اختیار کر سکے گی۔ میں جانتا ہوں کہ اس معاملے پر میری یہ تحریر ایک ایسا آغاز ہے، جس پر مزید باتیں ہونی چاہییں۔ اور دوسرے بہت سے نقائص کے ساتھ میری تحریر اور تجاویز پر مکمل تنقید ہونی چاہیے۔ تاکہ ہم ایک مثبت اور غور وفکر کرنے والی سوسائٹی کی دہلیز میں قدم رکھنے کے اہل ہوسکیں۔

