مولانا نورانی سیاسی معاملات میں اگر کسی کی مخالفت کرتے بھی تھے تو کبھی بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی، جو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، حسان الہند جیسے القابات سے بھی جانے جاتے ہیں 1272ھ بمطابق 1856ء میں پیدا ہوئے۔امام احمد رضا خان شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالم دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ امام احمد رضا خان کی وجہ شہرت آپ کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اورتیس جلدوں پر مشتمل فتاویٰ رضویہ سے موسوم آپ کے ہزارہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ ہے۔ انہوں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہزار کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ بعض جگہ ان کتابوں کی تعداد چودہ سو بتائی گئی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اہلسنت کی ایک بڑی تعداد آپ ہی کی نسبت سے بریلوی کہلاتی ہے اور پاکستان میں ان کی ہی اکثریت ہے۔
شاہ احمد نورانی جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے سربراہ تھے، انہیں قائد اہلسنت بھی کہا جاتا تھا۔ مولانا شاہ احمد نورانی پاکستان کے اسلامی، دینی اور سیاسی میدان میں ایک قد آور شخصیت تھے۔ ان سے سیاسی اختلاف کرنے کے باوجود ہم ان کو ایک بااخلاق انسان پائیں گے۔ مولانا نورانی سیاسی معاملات میں اگر کسی کی مخالفت کرتے بھی تھے تو کبھی بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ 1990ء میں محمد سلیم قادری نے پاکستان سنی تحریک کی بنیاد رکھی لیکن انہیں مئی 2001ء میں شہید کردیا گیا۔ آج کل ثروت اعجاز قادری پاکستان سنی تحریک کے سربراہ ہیں۔ پاکستان سنی تحریک کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ ہمیشہ دہشت گردی کے مخالف رہے ہیں۔ سربراہ پاکستان سنی تحریک ثروت اعجاز قادری کا کہنا ہے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور دہشت گردی کے خلاف آخری سانس تک جہدمسلسل جاری رکھیں گے، دہشت گردوں کی حمایت اور پناہ دینے والوں کی کسی صورت حمایت نہیں کرسکتے۔
اس دھرنے میں جس قسم کی شرمناک حرکتیں اور گالم گلوچ کی گئی وہ باعث حیرت ہے اور ناقابل برداشت بھی۔ پاکستان سنی تحریک کے رہنما جو عالم دین بھی ہیں ان کی حرکتوں سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے
پاکستان سنی تحریک و دیگر مذہبی جماعتوں نے لبیک یارسول ﷺ کانفرنس کے بعد اتوار 27 مارچ کی دوپہر ممتاز قادری کے چہلم کے اختتام پر اپنے مطالبات کے حق میں پارلیمنٹ ہاوس کی طرف مارچ شروع کیا۔ پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی، اس دوران جھڑپوں میں متعدد مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔آخر میں مظاہرین نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دے دیا، یہ دھرنا چار روز کے بعد مظاہرین اور حکومت کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس دھرنے میں جس قسم کی شرمناک حرکتیں اور گالم گلوچ کی گئی وہ باعث حیرت ہے اور ناقابل برداشت بھی۔ پاکستان سنی تحریک کے رہنما جو عالم دین بھی ہیں ان کی حرکتوں سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے لیکن شاید سنی تحریک کے رہنماوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہے، افسوس ہوا جب کراچی میں مفتی منیب الرحمان صاحب نے فرمایا کہ مذہبی پُرجوش کارکنوں کے جذبات کا خیال رکھا جائےاور ڈی چوک پر دھرنا دینے والوں اور مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال ہرگز نہ کیا جائے۔ شاہ احمد نورانی کے صابزادے اور جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے سربراہ شاہ اویس نورانی نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں گالیاں دینے والوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ نوجوان ہیں، غصے میں تھے اس لیے جذبات میں آکر یہ حرکتیں کربیٹھے۔گویا دونوں اصحاب علم کے نزدیک ملک کے وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صابزادی مریم نواز، ممتاز مذہبی اسکالرطاہرالقادری اور ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما عمران خان کو مغلظات بکنا اور گالیاں دینا کوئی غلط بات نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 14 جنوری 2013ء کو طاہر القادری کا پہلا چار روزہ دھرنا، دوسری بار نواز شریف حکومت میں 14اگست 2014ء کو طاہر القادری کا دوسرا دھرنا اور تحریکِ انصاف کی جانب سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے طویل 126 روزہ دھرنا کوئی پرانی بات نہیں۔ طاہر القادری نے اپنے پہلے دھرنے میں بہت پرجوش انداز میں تقاریر کیں، مسائل بیان کیے، پیپلز پارٹی کی حکومت کو برا بھلا بھی کہا۔ خالی ہاتھ واپس گئے لیکن ایک مرتبہ بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ دوسرے دھرنے میں طاہر القادری کے ساتھ عمران خان بھی شامل تھے، طاہر القادری کا بلڈ پریشر بڑھا تو کفن لے آئے جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یا تو میں پہنوں گا یا نواز شریف کی حکومت، دھرنا چھوڑ کر جانے تک ان کی زبان سے کوئی بے ہودہ لفظ نہیں سنائی دیا۔عمران خان کے دھرنے میں عمران خان نے سب سے زیادہ “اوئے” کا لفظ استعمال کیا مثلاً “اوئے نواز شریف”، جس پر انہیں ایک بدتمیز سیاستدان کہا جانے لگا ایک دو مواقع پر انہوں نے بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ ان کے دھرنے میں زیادہ اکثریت نوجوانوں کی تھی جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھے۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں اس دھرنے کے تعلق سے لاہور میں واپڈا ہاؤس کے سامنے ایک مولوی دوسرے چند لوگوں کے ساتھ لوہے کا ایک پائپ اٹھا کر وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ بدسلوکی کا ارادہ ظاہر کر رہا ہے۔
اپنی سیاسی مخالفت میں مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کے دھرنے کے بارے میں کہا تھا کہ عمران خان کے لوگ دن میں دھرنا دیتے ہیں اور رات کو مجرا کرتے ہیں ، مولانا کے اس بیان کو خود ان کے ہمدردوں نے پسند نہیں کیا تھا اور پورے ملک میں اس کی مذمت کی گئی۔ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کو بھی اپنی زبان پر قابو نہیں اس لیے انہوں نے دھرنے کے شرکا اور تحریک انصاف کی ترجمان شیری مزاری کے بارے میں بے ہودہ کلمات کہے جس پر تحریک انصاف نے بھرپور احتجاج کیا، بعد میں الطاف حسین نے ایک ٹی وی چینل پر اپنے بیان پر معذرت کی اور شیری مزاری سے بھی ذاتی طور پر معذرت کی۔مفتی منیب الرحمان فرما رہے تھے کہ اس سے پہلے بھی دھرنے ہوئے ہیں، مفتی صاحب کی بات بالکل درست کہ دھرنے ہوئے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ پاکستان سنی تحریک کے دھرنے برپا ہونے والے طوفان بدتمیزی کی ایک بھی مثال نہیں ملتی جس میں موجود مذہبی شخصیات حکومت اور حریف مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کو ایسی گالیاں دے رہی تھیں جنہیں شاید کوئی بھی مہذب انسان سننا پسند نہیں کرتا ہے۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں اس دھرنے کے تعلق سے لاہور میں واپڈا ہاؤس کے سامنے ایک مولوی دوسرے چند لوگوں کے ساتھ لوہے کا ایک پائپ اٹھا کر وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ بدسلوکی کا ارادہ ظاہر کر رہا ہے۔ ڈی چوک کے دھرنے میں نواز شریف کے علاوہ ان کی صابزادی مریم نواز کو بھی نہایت غلیظ زبان میں برا بھلا کہا گیا۔ دھرنے کے شرکا باپ بیٹی کے متعلق گھٹیا فقرے بازی کرتے رہے۔ ڈی چوک کی سڑکوں کو بھی اپنی بے ہودہ نعرے بازی کے لیے استعمال کیا، وہاں موجود کنٹینر گندی گالیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے بیان پر کہ “ہمارے دھرنے کا اس دھرنے سے موزانہ نہ کریں” مولانا خادم حسین نے عمران خان کو ننگی گالیاں دیں۔ طاہر القادری کو بھی مولانا خادم حسین نے دل کھول کر گالیاں دیں۔ مسلکی اختلاف کے باوجود جو عوام بریلوی مکتبہ فکر کے پرامن ہونے کی مثالیں دیتے تھے، اب اس کا کہنا ہے کہ سنی تحریک کے دھرنے کا حلوہ کڑوا تھا۔ کوئی کیسے مان لے کہ یہ عاشق رسول ﷺ ہیں؟ لوگ مذہب کتابوں سے نہیں، افراد اور معاشروں سے سیکھتے ہیں۔ اگر خود یہ رہنما ایسی شرمناک گالیاں دیتے ہیں، تو ان کے زیر تعلیم رہنے والوں کی اخلاقی تربیت اور حالت کیسی ہو گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بریلوی مکتب فکر کے قیادت کن جید علماء سے کن بیمار ذہن بدمعاشوں کو منتقل ہو گئی ہے۔