[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
رات کے لیے ایک نظم
[/vc_column_text][vc_column_text]
اے رات!
اے دو آبوں جیسی ٹھنڈی رات!!
تُو آسمان کی طرح گمبھیر ہے
تیری گپھاؤں میں چاند اور ستارے ہیں
تیرے جنگل اور بیلے نظموں کی طرح پُراسرار ہیں
تیری اترائیوں میں نیلی گھاس لہلہاتی ہے
اور ابھاروں جیسے درختوں کی گھنی شاخوں پر
گلابی پروں والے پرندے پھڑپھڑاتے ہیں
تیری گھاٹیوں میں خواہشیں قیام کرتی ہیں،
نارنجی مشعلیں جلتی ہیں
تیرے نشیبوں میں سفید پھول کھلتے ہیں
اور تیرے پانیوں میں کنول تیرتے ہیں
تیرے جھینگروں کی آواز
مخمور نومی سماعتوں میں گونجتی ہے
تیری مقدس سرگوشیوں میں
کسی قدیم گیت کی لَے سنائی دیتی ہے
اور تیری گنگناہٹ
جیسے کائنات آخری ہچکی لے رہی ہو
اے رات!
اے ذائقوں اور نیندوں سے بھری ہوئی رات!
میں تیرے انتم کنارے پر
سورج لیے کھڑا ہوں
مجھے اذنِ باریابی دے
مجھ میں طلوع ہو!!
اے دو آبوں جیسی ٹھنڈی رات!!
تُو آسمان کی طرح گمبھیر ہے
تیری گپھاؤں میں چاند اور ستارے ہیں
تیرے جنگل اور بیلے نظموں کی طرح پُراسرار ہیں
تیری اترائیوں میں نیلی گھاس لہلہاتی ہے
اور ابھاروں جیسے درختوں کی گھنی شاخوں پر
گلابی پروں والے پرندے پھڑپھڑاتے ہیں
تیری گھاٹیوں میں خواہشیں قیام کرتی ہیں،
نارنجی مشعلیں جلتی ہیں
تیرے نشیبوں میں سفید پھول کھلتے ہیں
اور تیرے پانیوں میں کنول تیرتے ہیں
تیرے جھینگروں کی آواز
مخمور نومی سماعتوں میں گونجتی ہے
تیری مقدس سرگوشیوں میں
کسی قدیم گیت کی لَے سنائی دیتی ہے
اور تیری گنگناہٹ
جیسے کائنات آخری ہچکی لے رہی ہو
اے رات!
اے ذائقوں اور نیندوں سے بھری ہوئی رات!
میں تیرے انتم کنارے پر
سورج لیے کھڑا ہوں
مجھے اذنِ باریابی دے
مجھ میں طلوع ہو!!
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]