Laaltain

دیہاتیوں کا گیت

12 مئی، 2017
دیہاتیوں کا گیت
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہمارے خوابوں کے پیٹ کبھی نہیں بھرتے
چاہے ہم زندگی بھر نیند پھانکتے رہیں
شہروں میں تنہا ہوتے ہوئے بھی خوش رہنا
ہمارا المیہ نہیں جینیاتی مجبوری ہے
ہم ملاقاتوں کے اتنے حریص ہوتے ہیں
کہ ملنے والوں کی آنکھیں بھی
بسکٹوں کی طرح چائے میں ڈبو ڈبو کر ہپ کر جاتے ہیں
درخت اور جھاڑیاں
ہمارے جسموں پر اگی ہوئی
اور فصلی بوٹیاں
دور دور تک ہمارے اندر پھیلی ہوتی ہیں
اور آکاس بیلیں
ہماری روحوں سے لپٹی
ہماری ہریالی پر پلتی رہتی ہیں

ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہم ہر حال میں زندہ رہتے ہیں
اور موت کے ساتھ جھگڑا کرتے ہوئے
خدا کو عینی گواہ بنا لیتے ہیں
اور عمر بھر ضمانتوں پر ہوتے ہیں
اور گھروں کے دروازے اونچے رکھتے ہیں
تا کہ ہوا سیدھی گزر سکے
اور ہسپتالوں میں جانے سے گبھراتے ہیں
اور میتیں سرد خانوں کے بجائے
برآمدوں اور دالانوں میں رکھتے ہیں
اور ہماری عورتیں
محرابوں اور ستونوں کے ساتھ لگ کر آنسو بہاتی ہیں
اور ناشتوں میں انڈوں اور پراٹھوں کے انبار لگا دیتی ہیں
اور مرنے والوں کی یادیں
ابھاروں کی طرح سینوں سے لگا کر رکھتی ہیں

ہم دیہاتی لوگ ہیں
جہاں ہم ہیں
وہاں آسمان کم اور زمین زیادہ ہے
کھیت، پگڈنڈیاں اور راستے ہیں
ٹبے، کھائیاں، پڑیاں اور ٹھیکریاں ہیں
کیکروں، پھلاہیوں اور بیریوں کی چھدری چھاؤں میں
سمٹ کر سوئی ہوئی دوپہریں ہیں
دائمی انتظار میں حنوط کی ہوئی ملگجی شامیں ہیں
اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارتا بچا کھچا وقت ہے
ہم دیہاتی لوگ ہیں
شام و پگاہ کا تصور ہم سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا
رات اگر آنکھوں سے دیکھی جا سکتی
تو ہم سے بینا کون ہے
یہ تو دلوں، دروازوں، دریچوں اور گلیوں سے گزرتی ہے
اور اساروں پساروں میں پھیل جاتی ہے
اور دن اگر طلوع ہوا ہو
تو ہم عینک کے بغیر بھی اسے دیکھ لیتے ہیں

ہم دیہاتی لوگ ہیں
گاؤں کی دھول اور درختوں کی چھال
ہر جگہ ہمارے ساتھ رہتی ہے
مٹی کا قرض یک مشت ادا ہوتا ہے
اسے قسطوں میں نہیں اتارا جا سکتا
یہ وہ کھاتہ ہے
جس میں جانے کتنے قرنوں کے ڈپازٹس ہیں
صدیوں کے واؤچر ہیں
تہذیبوں کے ورثے ہیں
کتبے اور نسب نامے ہیں
زمان و مکاں کا جمع خرچ ہے
تاریخ کے پنے ہیں، مزروعوں کے رجسٹر ہیں
خاندانوں کے خسرے ہیں، کھیوٹ اور کھتونیاں ہیں
مواضع اور پٹوار خانے ہیں
جسموں، روحوں، رشتوں، خوابوں اور یادوں کے بٹوارے ہیں

ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہم جانتے ہیں
دھرتی ہم سے اور کچھ نہیں
ہمارے کالبوت واپس مانگتی ہے!

Image: Jitish Kallat

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *