دیہاتیوں کا گیت
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہمارے خوابوں کے پیٹ کبھی نہیں بھرتے
چاہے ہم زندگی بھر نیند پھانکتے رہیں
شہروں میں تنہا ہوتے ہوئے بھی خوش رہنا
ہمارا المیہ نہیں جینیاتی مجبوری ہے
ہم ملاقاتوں کے اتنے حریص ہوتے ہیں
کہ ملنے والوں کی آنکھیں بھی
بسکٹوں کی طرح چائے میں ڈبو ڈبو کر ہپ کر جاتے ہیں
درخت اور جھاڑیاں
ہمارے جسموں پر اگی ہوئی
اور فصلی بوٹیاں
دور دور تک ہمارے اندر پھیلی ہوتی ہیں
اور آکاس بیلیں
ہماری روحوں سے لپٹی
ہماری ہریالی پر پلتی رہتی ہیں
ہمارے خوابوں کے پیٹ کبھی نہیں بھرتے
چاہے ہم زندگی بھر نیند پھانکتے رہیں
شہروں میں تنہا ہوتے ہوئے بھی خوش رہنا
ہمارا المیہ نہیں جینیاتی مجبوری ہے
ہم ملاقاتوں کے اتنے حریص ہوتے ہیں
کہ ملنے والوں کی آنکھیں بھی
بسکٹوں کی طرح چائے میں ڈبو ڈبو کر ہپ کر جاتے ہیں
درخت اور جھاڑیاں
ہمارے جسموں پر اگی ہوئی
اور فصلی بوٹیاں
دور دور تک ہمارے اندر پھیلی ہوتی ہیں
اور آکاس بیلیں
ہماری روحوں سے لپٹی
ہماری ہریالی پر پلتی رہتی ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہم ہر حال میں زندہ رہتے ہیں
اور موت کے ساتھ جھگڑا کرتے ہوئے
خدا کو عینی گواہ بنا لیتے ہیں
اور عمر بھر ضمانتوں پر ہوتے ہیں
اور گھروں کے دروازے اونچے رکھتے ہیں
تا کہ ہوا سیدھی گزر سکے
اور ہسپتالوں میں جانے سے گبھراتے ہیں
اور میتیں سرد خانوں کے بجائے
برآمدوں اور دالانوں میں رکھتے ہیں
اور ہماری عورتیں
محرابوں اور ستونوں کے ساتھ لگ کر آنسو بہاتی ہیں
اور ناشتوں میں انڈوں اور پراٹھوں کے انبار لگا دیتی ہیں
اور مرنے والوں کی یادیں
ابھاروں کی طرح سینوں سے لگا کر رکھتی ہیں
ہم ہر حال میں زندہ رہتے ہیں
اور موت کے ساتھ جھگڑا کرتے ہوئے
خدا کو عینی گواہ بنا لیتے ہیں
اور عمر بھر ضمانتوں پر ہوتے ہیں
اور گھروں کے دروازے اونچے رکھتے ہیں
تا کہ ہوا سیدھی گزر سکے
اور ہسپتالوں میں جانے سے گبھراتے ہیں
اور میتیں سرد خانوں کے بجائے
برآمدوں اور دالانوں میں رکھتے ہیں
اور ہماری عورتیں
محرابوں اور ستونوں کے ساتھ لگ کر آنسو بہاتی ہیں
اور ناشتوں میں انڈوں اور پراٹھوں کے انبار لگا دیتی ہیں
اور مرنے والوں کی یادیں
ابھاروں کی طرح سینوں سے لگا کر رکھتی ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں
جہاں ہم ہیں
وہاں آسمان کم اور زمین زیادہ ہے
کھیت، پگڈنڈیاں اور راستے ہیں
ٹبے، کھائیاں، پڑیاں اور ٹھیکریاں ہیں
کیکروں، پھلاہیوں اور بیریوں کی چھدری چھاؤں میں
سمٹ کر سوئی ہوئی دوپہریں ہیں
دائمی انتظار میں حنوط کی ہوئی ملگجی شامیں ہیں
اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارتا بچا کھچا وقت ہے
ہم دیہاتی لوگ ہیں
شام و پگاہ کا تصور ہم سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا
رات اگر آنکھوں سے دیکھی جا سکتی
تو ہم سے بینا کون ہے
یہ تو دلوں، دروازوں، دریچوں اور گلیوں سے گزرتی ہے
اور اساروں پساروں میں پھیل جاتی ہے
اور دن اگر طلوع ہوا ہو
تو ہم عینک کے بغیر بھی اسے دیکھ لیتے ہیں
جہاں ہم ہیں
وہاں آسمان کم اور زمین زیادہ ہے
کھیت، پگڈنڈیاں اور راستے ہیں
ٹبے، کھائیاں، پڑیاں اور ٹھیکریاں ہیں
کیکروں، پھلاہیوں اور بیریوں کی چھدری چھاؤں میں
سمٹ کر سوئی ہوئی دوپہریں ہیں
دائمی انتظار میں حنوط کی ہوئی ملگجی شامیں ہیں
اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارتا بچا کھچا وقت ہے
ہم دیہاتی لوگ ہیں
شام و پگاہ کا تصور ہم سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا
رات اگر آنکھوں سے دیکھی جا سکتی
تو ہم سے بینا کون ہے
یہ تو دلوں، دروازوں، دریچوں اور گلیوں سے گزرتی ہے
اور اساروں پساروں میں پھیل جاتی ہے
اور دن اگر طلوع ہوا ہو
تو ہم عینک کے بغیر بھی اسے دیکھ لیتے ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں
گاؤں کی دھول اور درختوں کی چھال
ہر جگہ ہمارے ساتھ رہتی ہے
مٹی کا قرض یک مشت ادا ہوتا ہے
اسے قسطوں میں نہیں اتارا جا سکتا
یہ وہ کھاتہ ہے
جس میں جانے کتنے قرنوں کے ڈپازٹس ہیں
صدیوں کے واؤچر ہیں
تہذیبوں کے ورثے ہیں
کتبے اور نسب نامے ہیں
زمان و مکاں کا جمع خرچ ہے
تاریخ کے پنے ہیں، مزروعوں کے رجسٹر ہیں
خاندانوں کے خسرے ہیں، کھیوٹ اور کھتونیاں ہیں
مواضع اور پٹوار خانے ہیں
جسموں، روحوں، رشتوں، خوابوں اور یادوں کے بٹوارے ہیں
گاؤں کی دھول اور درختوں کی چھال
ہر جگہ ہمارے ساتھ رہتی ہے
مٹی کا قرض یک مشت ادا ہوتا ہے
اسے قسطوں میں نہیں اتارا جا سکتا
یہ وہ کھاتہ ہے
جس میں جانے کتنے قرنوں کے ڈپازٹس ہیں
صدیوں کے واؤچر ہیں
تہذیبوں کے ورثے ہیں
کتبے اور نسب نامے ہیں
زمان و مکاں کا جمع خرچ ہے
تاریخ کے پنے ہیں، مزروعوں کے رجسٹر ہیں
خاندانوں کے خسرے ہیں، کھیوٹ اور کھتونیاں ہیں
مواضع اور پٹوار خانے ہیں
جسموں، روحوں، رشتوں، خوابوں اور یادوں کے بٹوارے ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہم جانتے ہیں
دھرتی ہم سے اور کچھ نہیں
ہمارے کالبوت واپس مانگتی ہے!
ہم جانتے ہیں
دھرتی ہم سے اور کچھ نہیں
ہمارے کالبوت واپس مانگتی ہے!
Image: Jitish Kallat