Laaltain

حسن چوزہ گر

23 جولائی، 2016

[blockquote style=”3″]

ن۔م راشد کی مشہور نظم حسن کوزہ گر کی یہ پیروڈی نظم دو نوجوان شعراء اختر منیر اور محمد آصف کی تخلیق ہے۔ اختر منیر ایگریکلچر یونیورسٹی سے فاریسٹری اینڈ وائلڈ لائف میں ایم فل کر رہے ہیں، یونیورسٹی کی ادبی تنظیم کا صدر بھی رہ چکے ہیں۔ آصف بی ایس ایگریکلچرل ایکسٹینشن کے طالب علم ہیں، ادبی تنظیم کے جنرل سیکرٹری ہیں، مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری کرتے ہیں۔ یہ دونوںنوجوان بزم طارق عزیز میں بیت بازی کے مقابلے بھی جیت چکے ہیں

[/blockquote]
[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

حسن چوزہ گر

[/vc_column_text][vc_column_text]

پری زاد نیچے گٹر پر تیرے در کے آگے
یہ میں پیٹتا سر حسن چوزہ گر ہوں
تجھے صبح بازار میں بوڑھے غدار ساجد کی دکان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ خوفناکی تھی، میں جس کی شدت سے نو ماہ مستانہ پھرتا رہا ہوں
پری زاد! نو ماہ مستانہ پھرتا رہا ہوں
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے کبھی اپنے رنجور چوزوں کی جانب پلٹ کر نہ دیکھا
وہ چوزے
مری مرغیوں کے وہ بچے
پروں، ٹانگوں، چونچوں کی مخلوقِ چوں چاں
وہ کیڑے مکوڑوں کا کھا جانے والے
مری اِک صدا پر ہی دوڑ آنے والے
وہ سرگوشیوں میں یہ کہتے
” حسن چوزہ گر اب کہاں ہے؟؟
وہ نو ماہ پہلے یہیں تھا مگر اب نجانے کہاں مر گیا ہے!”
پری زاد! نو ماہ کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی گندے انڈے کے اوپر سے ٹائر جو گزرے
وہ ڈربے میں بیٹیں
کبھی جن کی بدبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں سنگ بستہ پڑی تھیں
وہ مرغی و مرغا و انڈا مری نیچ مایہ طبعیت کے اظہارِ فن کے اشارے شکستہ پڑے تھے
میں خود! میں حسن چوزہ گر!
بے خطر سر گٹر پر رکھے غم زدہ چرسیوں کی طرح منہ میں سگریٹ لیے
یوں پڑا تھا کہ جیسے مرے سارے چوزوں کو بلی ہڑپ کر گئی ہو
پری زاد! نو ماہ پہلے ہی میں نے حسن چوزہ گر نے
تمہیں چار چوزے دیے تھے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ یہ چار چوزے بڑے ہو کے مرغی بنیں گے
اور انڈے بھی دیں گے
یہ انڈے
یہ قدرت کے فنڈے
بڑھائیں گے اک دن تری شان و شوکت
کہ ان چار چوزوں سے پیوست تھا میرا دل اور مری جاں
مگر تم نے چاروں کو پھیری چھری اور کھائے۔۔۔ کھلائے۔۔
پری زاد! اس دور میں روز۔۔ ہر روز وہ سوختہ بخت
وہ بوڑھی مرغی مجھے دیکھتی بے خطر سر گٹر پر رکھے بے حیا چرسیوں کی طرح
تو وہ ٹھونگوں سے مجھ کو اٹھاتی
“حسن چوزہ گر ہوش میں آ۔۔
حسن اپنے ویران ڈربوں کی جانب نظر کر۔۔
حسن! چرس و پاوڈر کے مارے۔۔
او بھنگی کہیں کے!
یہ نشے امیروں کے فیشن۔
یہ چوزوں کے تندور کیوں کر بھریں گے؟
حسن اپنے ویران ڈربے کی جانب نظر کر۔”
مگر میں حسن چوزہ گر
شہرِ بدنام کے ان خرابوں کا مجذوب تھا
جن میں کوئی صدا، کوئی جنبش، کسی مرغِ پراں کا سایہ نہیں تھا
تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے پری زاد!
لیکن تو چوزوں کے پیسے جو دے دے
تو بن جاوں میں پھر وہی چوزہ گر
جس کے چوزے تھے ہر کاخ و کو او رہر شہر و قریہ کے “پی۔سی” کے ٹیبل کی زینت
کہ جن سے تھے سارے امیروں غریبوں کے پیٹو درخشاں۔

[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *