Laaltain

جہاں تاریخ آپ کا استقبال کرتی ہے

9 جولائی، 2015
کہاں ڈھونڈوں ناصر کاظمی، فراز، منیر، مجروح، انشا، ساحر، فیض، جالب، اقبال اور میر کو ،کہ جن کے ہاں الفاظ ہاتھ باندھے حکم کی تعمیل میں کھڑے رہا کرتے تھے
راہ نوردپر ایک الزام ماضی پرستی کا بھی ہے۔ یہ ماضی میں رہنے کا عادی ہے۔ پرانے گانے، پرانے زمانے، پرانے لوگ، پرانی یادیں، پرانی کتابیں، پرانی تصویریں، پرانی تحریریں، پرانی داستانیں، کیا یہ ماضی میں رہنا نہیں؟آج میں جینا نہیں آتا۔لیکن آخر ایسا کیوں ہے ؟ پرانے گیت جیسا رچاو اب کہاں ملتا ہے۔ کہاں ہیں نور جہاں، رفیع ، لتا، مہدی حسن، نیرہ نور، سلیم رضا جیسی آوازیں۔ کہاں سے لاوں او پی نیر، نوشاد، خورشید انور، غلام محمد، اقبال قریشی، مدن موہن، روشن، سہیل رعنا اور عطرے صاحب جیسے موسیقار جن کی ایک ایک دھن لازوال ہے۔ کہاں ڈھونڈوں ناصر کاظمی، فراز، منیر، مجروح، انشا، ساحر، فیض، جالب، اقبال اور میر کو ،کہ جن کے ہاں الفاظ ہاتھ باندھے حکم کی تعمیل میں کھڑے رہا کرتے تھے۔ کیا ایسے لوگ ملتے ہیں اب کہ جن کی محبت اور خلوص ان کے جانے کے بعد بھی کئی سال تک تر و تازہ ہے۔ با برکت لوگ وہی تھے، آج بھی ان کا ہالہ موجود ہے۔ حال میں کیا ہے ؟ اور مستقبل ۔۔۔ اس کا کیا کہوں؟ نظر نے وہیں جانا ہے صاحب جہاں منظر مل جائے۔ حال میں کچھ ملتا ہے تو غنیمت سمجھ لیتا ہے، اور راہ نورد کیا کرے؟
سنا تھا کہ لاہور کے بھاٹی گیٹ کے اندر ایک خاندان آباد ہے کہ جس کی چوکھٹ پر تاریخ بال پھیلائے نظر آتی ہے۔ صحن کی کھڑکیوں سے گئے دنوں کی باتیں شرارتیں کرتی جھانک کر آنے والے کو دیکھتی ہیں، جیسے برسوں سے انتظار میں تھیں کہ کوئی آئے اور ان کو دیکھے۔ سنا تھا کہ اس حویلی کی چار دیواری میں سب سے بڑا ذاتی عجائب گھر ہے ۔ سنا تھا کہ ماضی اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ وہاں جلوہ گر ہے اور مہمان کے آنے پر ایسے خوش ہوتا ہے جیسے کوئی بوڑھا برسوں بعد اپنی اولاد کو دیکھے۔
سید سیف الدین فقیر کے بزرگ رنجیت سنگھ کے دربار میں اہم عہدوں پہ فائز رہے اور مسلمانوں کی مجموعی طور پر حکومت میں نمائندگی کی
یہ خاندان، فقیر خاندان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سید فقیر الدین کے خاندان کی روایت ہے کہ وہ اپنے ریتی رواج سے جڑے رہے ہیں اور یہی روایت ہمارے سامنے ایک ایسے معجزے کی صورت موجود تھی جس نے تاریخ کے کئی بند دریچوں کو کھولا۔ بس ان دریچوں سے کوئی جھانکنے والا چاہیئے۔
بھاٹی گیٹ سے کوئی آدھ کلومیٹر گلیوں میں گھومتے آپ اس گھر کے سامنے آجاتے ہیں جہاں تاریخ اور فنون کا ایک نادر امتزاج آپ کو گھیر لیتا ہے۔ سید سیف الدین فقیر ہمارے میزبان تھے۔ اس بات پر خائف اور افسردہ کہ موجودہ پاکستانی نسل اپنی روایات، فنون، تہذیب اور زبان سے دور ہوچکی ہے۔وہ اس آدھی تیتر آدھی بٹیر نسل کے مستقبل سے بھی پریشان دھائی دیے۔ حاضرین کو دیے لیکچر میں تاریخ اور فن کے ساتھ ساتھ اس بات پر زور تھا کہ اپنے آپ کو پہچانو۔
ہمارے میزبان اپنے خاندان کا شجرہ اُچ شریف کے ولی کامل جناب جہانیاں جہاں گشت سے بتاتے ہیں۔ سید سیف الدین فقیر کے بزرگ رنجیت سنگھ کے دربار میں اہم عہدوں پہ فائز رہے اور مسلمانوں کی مجموعی طور پر حکومت میں نمائندگی کی۔ بہت سے تحائف اور نوادرات اسی دور سے خاندان میں چلے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ مغل اور انگریز دور کے بھی کئی نوادرات موجود ہیں۔ لاہور شہر کے قدیم مسلمان خاندانوں میں سے ایک ان کا خاندان بھی ہے۔
سیڑھیاں چڑھ کر ایک ہال نما کمرہ ہے۔ کمرہ میں داخل ہوں تو سامنے ایک عورت کا مجسمہ آپ کی توجہ حاصل کرتا ہے۔ عورت انگریزی کوٹ پہنے بائیں جانب اوپر دیکھ رہی ہے، جیسے سورج کے ڈھلنے کا منظر اور گھر کو لوٹتے پنچھی دیکھ کر سوچ میں ڈوبی ہو۔ ایسا کیا ہے اس منظر میں، ہر کوئی لوٹتے پرندوں کو دیکھ کر محو حیرت کیوں ہو جاتا ہے ؟ جب سوچوں تو کئی جواب ملتے ہیں، نہ معلوم کون سا درست ہے ؟

picture 2

تصاویر اور منی ایچرز سے مزین دیواریں نظروں کو جکڑ لیتی ہیں۔
ایک تصویر جو پندرہ سال میں مکمل ہوئی، سب کی توجہ کا مرکز تھی۔ ایک نواب صاحب تشریف رکھتے ہیں اور مصور نے ایسی تصویر کشی کی ہے، کہ اصل کا گماں ہوتا ہے۔ اس قدر مفصل تصویر کشی پرمصور کے پاتھ چوم لینے کو دل چاہتا ہے۔ منہ میں پان کی پیک، لباس کی خراش تراش، پاوں میں کھسہ اور جرابیں جیسے ابھی اتاری ہوں اوران کا نقش جیسے اپنی چھاپ پاوں پہ چھوڑ گیا تھا۔

روپ متی جب گاتی تھی تو جنگل کے چرند پرند اس کی مدھر تان سننے آ پہنچتے۔ روایت ہے اکبر تک شہرت پہنچی تو اس نےسوچا کہ ایسی باکمال مغنیہ اس کے دربار میں کیوں نہیں؟
ایک جانب ابراہیم ادھم کی شبیہ موجود ہے۔ تین فرشتے پر پھیلائے انعام و اکرام لیے کھڑے ہیں، ایک مصروف پرواز ہے۔ اور ولی کامل فقیری اختیار کیے ایک درخت کے نیچے موجود ہیں۔ یہ فقیری بھی کیا شے ہے، امیری چھوڑ کر فقیری میں نام پیدا کرنے کا تو علامہ بھی کہہ گئے تھے، کہ درویش کو تاج سر دارا پہناتی ہے۔ تصویر دیکھی، لگا علامہ اقبال کے شعر کو مصوری میں ڈھالا گیا ہے۔ سچ کہا ہے کسی نے ایک تصویر کئی الفاظ سے زیادہ قوت گفتار رکھتی ہے۔
ایک جانب باز بہادر اور روپ متی سواریوں پر مصروف سفر دکھائی دیے۔ روپ متی جب گاتی تھی تو جنگل کے چرند پرند اس کی مدھر تان سننے آ پہنچتے۔ روایت ہے اکبر تک شہرت پہنچی تو اس نےسوچا کہ ایسی باکمال مغنیہ اس کے دربار میں کیوں نہیں؟ نہیں معلوم تھا کہ روپ متی تو اپنے سر اپنی تانیں تو باز بہادر کے نام کر چکی تھی۔ سازشیں ہوئیں اور روپ متی کو پانے کی کوشش جنگ میں تبدیل ہوئی۔ کہتے ہیں اکبر کا دیرینہ سالار آدم خان روپ متی کہ دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔ روپ متی نے زہر کھا کر اس کے ارادے ناکام کر دیے۔ خود مر گئی لیکن محبت امر ہو گئی۔ یہ دکھ بھری داستان نہ جانے اور کتنے موڑ لیے ہو گی مگر میں یہی سوچتا رہا، ہر لوک داستان آخر ناکام کیوں ہوتی ہے؟
‘کس نے کہا محبت ناکام ہوتی ہےـ’ ایک جانب سے آواز آئی۔ مڑ کر دیکھا، ایک عورت کا سفیر مجسمہ، مجھے جواب دے رہا تھا۔ عورت کی کہنی ایک مٹکے پر ٹکی ہوئی تھی، ساری توجہ کلائی پر موجود موتیوں کی مالا پر تھی۔ عورت کی آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ دیوانے سے سرگوشی کی، جیسے کوئی اور سن نہ لے۔ ‘لوگ مار تے صرف محبت کے اسیروں کو ہیں، لیکن محبت کہاں ختم ہوتی ہے۔ یہ تو پانی ہے اپنا راستہ بنا لیتی ہے۔ لاوا ہے یہ، پھوٹ ہی پڑتا ہے۔ لوک داستان اگر ناکام ہوتی تو کوئی ان کو نہ دہرا رہا ہوتا۔ ان کا مقبول ہونا ہی ان کی کامرانی ہے۔’ میں حیران تھا، دیکھنے کا یہ رخ ایک پتھر کی مورت کو ہے اور جیتے جاگتے انسانوں کو نہیں۔
میں پلٹا، ایک اور بت میرے سامنے تھا۔ یہ بھی ایک عورت کا تھا۔ مگر اس کی آنکھیں جیسے کسی کے انتظار میں پتھرا گئی ہوں۔ آنکھوں میں دید کی امید جیسے مایوسی اور حسرت کی صورت بن گئی ہو۔ میں دیر تک آنکھوں کو دیکھتا رہا۔ ایسا انتظار۔ مجھے محسوس ہوا، شاید ایک قطرہ آنکھ سے نکلا اور گالوں پر اپنے نشان چھوڑ گیا۔ ایسا لگا لب تو خاموش رہے مگر اداسی سب کہہ گئی ان نگاہوں سے۔ شاید یہ راز بہت کم لوگوں کو پتہ چلا ہوگا۔ میں کچھ سننا نہیں چاہتا تھا، وہ داستان جو تھوڑی تھوڑی سمجھ آرہی تھی مجھے۔ میں پلٹ گیا۔

picture 3 (Mobile)

بدھا، کرشن، شیو جی اور پاروتی اور دیویوں کے بت میرے سامنے موجود تھے۔ بدھا حسب معمول مراقبہ کے آسن میں موجود، انگلیاں اور انگوٹھے ایک مندرہ بناتے ہوئے۔ انسانوں کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم خدا بنائے گئے۔ یہ قسمت بھی کسی خاص پتھر ہی کی تھی کہ اس کا تراشا گیا اور عبادت کے قابل ٹھہرایا گیا، کہیں وہ قدموں میں آیا ہوتا تو ٹھوکر ہی لگتی اس کو۔
میں نے بدھا کے ایک مجسمے کو اپنے کیمرے کے ویو فائنڈر سے فوکس کیا۔ سوال دل میں آیا کہ پوچھوں سرکار آپ نے تو ساری زندگی امن و آشتی کا پیغام دیا یہ آپ کے پیروکاروں کو کیا ہو گیا؟ مجھے محسوس ہوا بت تڑپ کر رہ گیا میرے طنز پر، کہنے لگا ‘تم جس عظیم ترین شخصیت کے ماننے والے ہو ان کے ماننے والے کیا ان کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں؟’ میں اس حاضر جوابی پر چکرا کر رہ گیا۔

picture 1

بدھا کا بت میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا ‘گھبراو نہیں ہر مذہب امن کا ہی درس دیتا رہا ہے، لیکن اس مذہب کے پیروکار خود ٹھیکیدار بن جاتے ہیں اور اپنی تعلیمات کو بھول جاتے ہیں۔’ میں سوچ میں پڑ گیا۔ واقعی بنی اسرائیل کی یہ تعلیمات تو نہ تھیں جس پر ان کے نام لیوا اور آل ہونے کے دعویدار عمل پیرا ہیں۔ کیا عیسیٰ ؑ کی یہ تعلیمات تھیں کہ صلیبی جنگوں کا نام لے کر ملکوں کو تہہ تیغ کر دیا جائے؟ ہر گز نہیں۔ کیا مذہب کے نام پر قتل اس مذہب کی تعلیمات کو بد نام نہیں کرتا۔ یہ مذہب کے ٹھیکیدار اپنی دکانداری کے لیے مذہب کا نام استعمال کرتے تو ہیں، لیکن مذہب کی روح کتنی گھائل ہوتی ہے، کوئی نہیں سوچتا۔

بدھا کا بت میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا ‘گھبراو نہیں ہر مذہب امن کا ہی درس دیتا رہا ہے، لیکن اس مذہب کے پیروکار خود ٹھیکیدار بن جاتے ہیں اور اپنی تعلیمات کو بھول جاتے ہیں
میں اسی کشمکش میں مبتلا دوسرے حصے میں پہنچا، جہاں نت نئے رنگ اور نقش کے سکے موجود تھے۔ برتن جن میں بادشاہ تناول کیا کرتے تھے، خاص بنے ہوئے کہ ذرا سی زہر کی آمیزش ان کو توڑ کر رکھ دیتی۔ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ پہلے زمانے کے لوگ جاہل تھے۔ خلعت فاخرہ دیکھی، اصل جامہ وار کا بنا ہوا۔ لباس بتا رہا تھا کہ میں تو موجود ہوں لیکن مجھے پہننے والے کہا ں ہیں، نہیں معلوم۔ بس میں ہوں، اس غرور کی یادگار جو میرے زیب تن کرتے بادشاہ کا طرہ امتیاز تھا۔ یقیناً یہ سرگوشی ان خواتین نے بھی سنی ہوگی جو اپنے ڈیزاینر ویئر کا ڈھنڈورا پیٹنے کا کوئی موقع جانے نہیں دے رہی تھیں۔
فقیر خانہ کے ان کمروں میں تاریخ اور فنون کا وہ حسین امتزاج ملتا ہے، جو صاحبان ذوق کی پیاس کو بجھانے کی کوشش میں اور بھڑکا دیتا ہے۔ راو نورد کے نزدیک ایک منی ایچر اور تصویر کو سر سری دیکھنا اس کے شایان شان نہیں، تسلی سے دیکھنا اور پھر اس کے خالق کو داد دینا شاید کسی حد تک خراج تحسین بنتا ہے لیکن حق ادا نہیں ہوتا۔
دنیا سے متاثر ہونے والی نسل کو میرا چیلنج ہے کہ اپنے تخلیق کاروں کی محنت اور فن کو کم از کم جاننے کی کوشش تو کرے۔ ہمارا ماضی اس قدر زوال پذیر نہیں کہ اسے کھوجا ہی نہ جائے البتہ یہ فتویٰ ضرور لگا دیا جاتا ہے کہ ہمارے ماضی اور ہمارے پلے ہے کیا؟ واقعی جب اس طرح کے احساس کمتری اور محرومی کے شکا رلوگ ہمارے ہاں دانشور کہلائیں گے تو ہماری اجتماعی دانش کے پلے واقعی کچھ نہیں رہے گا۔ افسوس ہنس کی چال چلنے میں ہم لوگ اپنی چال بھول گئے اور ایک ابہام کا شکار ہجوم بن گئے ہیں۔ وقت ملے تو اس ابہام اور اس ہجوم سے نکل کرفقیر خانہ جائیے وہاں تاریخ آپ کا استقبال کرے گی اور ہمارے فن کاروں کی نر مندی آپ کو بھی ماضی کا اسیر بنا لے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *