Laaltain

جبری گمشدگان اور پاکستان

1 ستمبر، 2016
30اگست دنیا بھر میں ’جبری گمشدگان کا عالمی دن‘کے طور پر منایا جاتا ہے ۔2011سے اس دن کو اقوام متحدہ کے رکن ممالک مناتے ہیں تا کہ جبری گمشدگی کے واقعات کو کم کرنےاور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے موثراقدامات کیے جا سکیں ۔

 

بین الاقوامی قوانین کی رو سے پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ جبری گمشدگی کی وارادات کو کم کرنے کے لیے مناسب اقداامات کرے ۔لیکن پاکستان ایسا نہیں کر رہاہے
اعداد و شماربتاتے ہیں کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور غیر قانونی گرفتاریوں کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ بی بی سی اردو پر شائع ہونے والے نصر اللہ بلوچ کے ایک بیان کے مطابق پاکستان کے صوبے بلوچستان میں 20,000 سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔ ان کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی دو تنظیمیں ہیں،ایک Voice for Bloch missing persons اور دوسری بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن ۔دونوں تنظیموں کا الزام ہے کہ جبری گمشدگیوں میں حکومتی ادارے ملوث ہیں۔ دوسری طرف حکومتِ پاکستان جبری گمشدگیوں کے خلاف قانون اور پالیسی بنانے میں بھی تساہلی سے کام لیتی رہی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی رو سے پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ جبری گمشدگی کی وارادات کو کم کرنے کے لیے مناسب اقداامات کرے۔ لیکن پاکستان ایسا نہیں کر رہا ہے جس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے مقررہ اصول و ضوابط سے انحراف کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کے اعلامیہ کی رو سے بھی یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔کیوں کہ منظم طور پر کی جانے والی جبری گمشدگی انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی 2013 میں جبری گمشدگی کو پاکستانی آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان سب کے باوجود جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے میں حکومتی مشینری اور سیاسی قائدین کا رویہ نا قابل اعتبار نظر آتا ہے۔

 

پاکستان ہی میں تیار شدہ ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی اصول و ضوابط کی پاسداری میں بہت پیچھے ہے۔2011 میں پاکستانی پارلیمنٹ نے جبری گمشدگان کی بازیابی کے لیےایک کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن کو مو صول ہونے والی جبری گمشدگی کی شکایات میں ہر مہینے اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔مثلاً اس سال جنوری سے جولائی تک کمیشن کو ہر مہینے اوسطاً 72 شکایات موصول ہوئی ہیں ۔جن میں جنوری میں 56 ،ٍٍفروری میں 66،مارچ میں 44،اپریل میں 99،مئی میں 91، جون میں 60، اور جولائی میں 94، شکایات موصول ہوئی ہیں۔مجموعی طور پر اس سال اب تک 510 شکایات موصول ہو چکی ہیں۔ کمیشن کا قیام مارچ 2011 میں ہوا اور 31جولائی 2016 تک کمیشن کو3552 شکایات موصول ہو چکی ہیں۔ کمیشن کی کارروائی سے لاپتہ افراد کی بازیابی کی امید بھی نہیں نظر آتی ۔کمیشن کے ایک آفیسر نے ایک فریادی سے پوچھا کہ آپ نے استخارہ کرایا؟ فریادی نے کہا کہ ہاں استخارہ کرایا۔ وہ زندہ ہیں۔پھر آفیسر جواب دیتے ہیں دعا کریں۔ میں بھی دعا ہی کر سلتا ہوں۔ جس کمیشن کا اعلیٰ عہدے دار تک مایوسی کااظہار کرے، تسلی دے اور دعا کی تلقین کرے اس کمیشن سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ایسے کمیشن سے لاپتہ افراد کی بازیابی کی امید رکھنا لاحاصل ہے ۔سینکڑوں بیویاں اپنے شوہروں کی گمشدگی کی وجہ سے معلق ہیں۔ نہ تو وہ طلاق یافتہ ہیں نہ ہی مکمل طور سے ایک بیوی ہیں۔ان کے بچوں کی پرورش اور کفالت کا مسئلہ الگ درپیش ہے ۔برسوں سے کتنی مائیں اپنے بیٹوں کی آس لگائے بیٹھی ہیں۔ ان سب کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی در پیش ہے کہ ایسے خانوادے کو سماج میں بھی ذلت و رسوائی کا بھی سامنا ہے۔ ایک تو ان کا عزیز یا سرپرست لاپتہ ہو گیا دوسرے سماجی طعنے بھی انہیں برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ متعد د لاپتہ افراد کے لواحقین کہتے ہیں کہ جب کسی کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ملک میں عدالتیں موجود ہیں تو پھر سماج کے کسی شخص کو کیوں کر یہ حق حاصل ہو کہ وہ گمشدہ شخص کے بارے میں بدگمانی سے کام لے بلکہ بغیر کسی تحقیق کے ان کو دہشت گرد قرار دے۔

 

متعد د لاپتہ افراد کے لواحقین کہتے ہیں کہ جب کسی کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ملک میں عدالتیں موجود ہیں تو پھر سماج کے کسی شخص کو کیوں کر یہ حق حاصل ہو کہ وہ گمشدہ شخص کے بارے میں بدگمانی سے کام لے بلکہ بغیر کسی تحقیق کے ان کو دہشت گرد قرار دے۔
درجنوں لاپتہ افرادکے اہل خانہ اور رشتے دار برسوں سے کمیشن کے چکرّ کاٹ رہے ہیں۔ لیکن تا حال انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ عدالتین، کمیشن اور منتخب نمائندے۔۔۔ کوئی بھی لاپتہ افراد کو بازیاب نہیں کرا سکا۔ جبری گمشدگی کی ایک خبر پچھلے دنوں کافی سرخیوں میں رہی ۔ایک پاکستانی خاتون صحافی زینت شہزادی اور ایک ہندوستانی نوجوان حامد انصاری بہت دنوں سے گم تھے ۔حامد انصاری ایک انجینیر تھا جو سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے ذریعے بنے ایک دوست سے ملنے کے لیے غیر قانونی طور پر پاکستان کی سرحد میں داخل ہو گیا۔ 2012 میں ہی اسے گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن متعلقہ افسران ایک عرصے سے انجنیئر انصاری کے سلسلے میں لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ معاملہ جب پشاور ہائی کورٹ میں پہنچا تو انکشاف ہوا کہ اسے ملٹری نے حراست میں لے رکھا تھا اور اب اسے ملٹری کورٹ کے ذریعے ہی سزا سنائی گئی ہے۔ اور زینت شہزادی جو ایک غریب گھرانے کی پر جوش خاتون تھی۔ 2013 ہی سے انصاری کے کیس کو کمیشن اور دیگرمتعدد پلیٹ فارم پر اٹھاتی رہی تھی۔ لیکن 2015 میں زینت شہزادی بھی لا پتہ ہو گئی۔ اس کا کیس بھی کمیشن کے پاس زیر التو اہے۔ لاہور میں زینت کے سلسلے میں سال بھر، متعدد سماعتیں ہوئی ہیں لیکن ہر بار قانون کے رکھوالے یہی بہانہ دہراتے ہیں کہ زینت کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ہے۔

 

ایسی کئی کہانیاں پاکستان کے مختلف علاقوں سے سننے کو مل رہی ہیں اگر پاکستان واقعی مہذب ممالک کی فہرست میں شامل ہو نا چاہتا ہے تو اسے بین الاقوامی قوانین کے تحت جبری گمشدگان کے لیے موثر لائحہ عمل تیار کرے۔ ساتھ ہی لا پتہ افراد کی بازیابی اور ان کے متعلقین کو درپیش نقصانات کی تلافی و تدارک کا بھی نظم کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *