Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

جالب کی برسی یا سیاسی جلسہ

test-ghori

test-ghori

16 مارچ, 2015
تیرہ مارچ کو حبیب جالب کی برسی تھی، ایک ایسے شاعر کی برسی جو صحیح معنوں میں عوامی شاعر تھا جس کے بارے میں سید سبطِ حسن نے لکھا تھا کہ نظیر اکبر آبادی کے بعد کوئی عوامی شاعر تھا تو جالب ہی تھا۔ جالب ہر لحاظ سےعوامی شاعر تھے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کوئی پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ،جالب کا نظریے سے واقف ہو یا نہ ہو اس نے جالب کا کلام ضرور سن رکھا ہو گا؛
جوں ہی عوامی ورکرز پارٹی اور پی پی کے رہنما سٹیج پر آئے تو جالب کے واجبی سے ذکر کے بعد ان کی سیاسی تقاریر اور حریف سیاسی جماعتوں پر شدید طنز نے جالب کی برسی کو ایک سیاسی جلسے میں تبدیل کر دیا
 
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
 
جالب کے نظریات اور ان کی شاعری کی وجہ سے میں بھی ان کا قاری ہوں ۔ گزشتہ برس ایک کامریڈ دوست کے باعث تاخیر کی غلطی دہرانے سے بچنے کے لیے رواں برس ان کی برسی کی تقریبات میں شرکت کو ایک روزقبل ہی تیار ہوگیا ۔ برسی کی تقریب میں عاصمہ جہانگیر اورناہید خان کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی ورکرز پارٹی اور ریلوے ورکرز پارٹی کے کئی رہنما اور کارکنان بھی شامل تھے۔ پروگرام کا آغاز ہوا اور جالب پہ کچھ بات چلی؛ کامریڈ زوار نے جالب کی سیاسی اور شعری بصیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے نظریات اور کاوشوں کا ذکر کیا اور اس دور کے دوسرے سیاسی رہنماوں کے کردار کو عموماً اور بے نظیر اور پی پی پی کے کردار کو خصوصاًسراہا۔ اس کے بعد جالب صاحب کے کچھ دوستوں نے جالب کے ساتھ گزرے شب و روز کی یادوں کو تازہ کیا، طاہرہ جالب نے جالب مرحوم کے انداز میں “ظلمت کو ضیا کیا لکھنا ” ترنم کے ساتھ پیش کی اور خوب داد پائی۔اس کے بعد شجاعت بوبی نے جالب کا ایک گیت اور ایک نظم پیش کی۔ موسیقی کا ایک اور دور چلا جس میں ڈاکڑ تیمور رحمان نے سامعین کو جالب کے کلام سے محظوظ کیا۔
قصہ یہاں تک تو بخیر تھا مگر اس کے بعد جوں ہی عوامی ورکرز پارٹی اور پی پی کے رہنما سٹیج پر آئے تو جالب کے واجبی سے ذکر کے بعد ان کی سیاسی تقاریر اور حریف سیاسی جماعتوں پر شدید طنز نے جالب کی برسی کو ایک سیاسی جلسے میں تبدیل کر دیا، پھر کیا تھا عوامی ورکرز پارٹی ہو یا پی پی پی جس جماعت کا بھی کوئی نمائندہ سٹیج پر آیا اس نے ایک منٹ جالب پر اور دس منٹ اپنی اور اپنی پارٹی کی تعریفوں کے پل باندھنے میں صرف کیا۔ ہر مقرر اور جماعت کی کوشش تھی کہ جالب کا تعلق اپنی جماعت سے ثابت کرے۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ شاید منتظمین نے زیادہ تر شرکاء پیپلز پارٹی سے بلا رکھ تھے یہی وجہ ہے کہ جتنے نعرے جالب کے لگائے گئے اتنے ہی نعرے” زندہ ہے بھٹو” کے بھی لگے۔ اس سے بڑی زیادتی کیا ہو گی کہ خود کو رہبر کہلوانے والے جالب پہ بات کرنے کی بجائے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کاپرچار کرنے اوراپنی ذات کو نمایاں کرنے میں مصروف رہیں ۔
ایک دور بار تو راقم نے سٹیج پہ لگی تصویر دیکھ کر خود کو حوصلہ دیا کہ بھئی یہ سیاسی جلسہ نہیں بلکہ جالب کی برسی ہے۔ جب تقریب ختم ہونے کو تھی تو معروف گلوکار اور انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرز موومنٹ کے “مالک” جواد احمد تشریف لائے۔ ان کی باری آئی تو انھوں نے آتے ہی کہا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ یہاں جالب کی برسی نہیں بلکہ سیاسی جلسہ ہو رہا ہے (مجھے کچھ حوصلہ ہوا کہ چلو اب جواد ضرور جالب پہ بات کریں گے) لیکن جواد نے جالب کا ذکر بھی مناسب نہیں سمجھا اور لگی لپٹی رکھے بغیر پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے خلاف محاذ کھول دیا جس پر پی پی پی کے ورکرز آگ بگولا ہو گئے اور جواد کو تنقید سے باز رکھنے کی کوشش کرنے لگے( مجھے بے حد افسوس ہوا کہ پچھلے دو گھنٹے سےپی پی پی کی تقریریں اور جئے بھٹو کے نعرے سننے والوں پر پہلے کسی کو کیوں رحم نہیں آیا)۔ جواد نے اپنی تقریر جاری رکھی اور آخر میں مائیک چھوڑنے سے پہلے جب انہیں یاد آیا کہ وہ جالب کی برسی پر آئے ہوئے تھے تو جلدی جلدی دوچارجملے جالب کے حق میں بول کرہال سے باہر تشریف لے گئے۔
جالب کی برسی پران کی شاعری پر گفتگو کی بجائے روایتی سیاسی بیان بازی کرنااور اپنی جماعت اور شخصیت کے بالمقابل جالب کے شعری فن کو ثانوی حیثیت دینا یقیناً ان کے ساتھ زیادتی ہے ۔
مجھے اس بات پر ذرہ برابر اعتراض نہیں کہ جالب کے ذکر کے ساتھ سیاسی بحث کی جائے اور نہ ہی میں جالب کی سیاسی جدو جہد سے انکار کرنے کی گستاخی کر سکتا ہوں، ہر شخص کا جالب پہ اتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی دوسرے فنکار پر ۔مجھے اختلاف ہے تو صرف اس بات پہ کہ جالب کی برسی اورجو دن جالب کے لیے مخصوص ہے اس پر بھی لوگوں نے اپنی پارٹی ،ذاتی جدوجہد اور نظریات کا خوب اور بلاوجہ پرچار کیا۔ یوں تو ہال میں عاصمہ جہانگیر اور جالب کے ساتھ لاٹھیاں کھانے والے کئی نامور لوگ بیٹھے تھے اورمیں ان کی جدوجہد کو بھی جالب سے کم نہیں مانتا مگر سوال یہ ہے کہ جالب میں ایسا کیا تھا جس نے اتنے بہت سے انقلابیوں کے ہوتے ہوئے بھی انہیں ایک منفرد مقام عطا کیا ؟ جواب سادہ سا ہے کہ جالب ایک شاعر تھے، یہ ان کا فن ہی تھا جو ان کو اس وقت سے لے کرآج تک ممتاز کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں جالب کی برسی پران کی شاعری پر گفتگو کی بجائے روایتی سیاسی بیان بازی کرنااور اپنی جماعت اور شخصیت کے بالمقابل جالب کے شعری فن کو ثانوی حیثیت دینا یقیناً ان کے ساتھ زیادتی ہے ۔ایسے ملک میں جہاں ادب اور آرٹ سے زیادہ لاشوں اور ملاؤں پر گفتگو ہو وہاں کسی شاعر یا پورے ادب کا مر جانا بھی کسی کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔
مجھےاس سارے معاملے پر شدید دکھ بھی ہے اور سخت پریشانی بھی کہ ایک شاعر کی برسی پر سب اپنی سیاست چمکا کر چلے گئے نہ تو کسی نے جالب پر مضمون پیش کیا نہ ہی کسی نے جالب کے شعری فن پر کوئی بات کی۔ مجھے جالب صاحب کی بیٹی پر شدید پیار آیا کہ کس محنت سے طاہرہ آپا پورا سال ڈرائیونگ سکول چلا کر پیسے بچاتی ہیں کہ ان کے والد کی برسی پر لوگوں کو ان کی خدمات اور فن سے متعارف کرائیں۔ سنتے تھے کہ فلاں شاعر کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی کہ اس کو ادب میں وہ مقام نہیں ملا جو ملنا چاہیے تھا مگر یہاں تو جالب اور ان کے خاندان کے ساتھ ناانصافی کرتے ہوئے ان کی برسی کو ایک سیاسی جلسے میں تبدیل کر دیا گیا۔