انسانی رویے، مختلف سماجی، نفسیاتی ،جینیاتی اور عقلی عوامل کا نتیجہ اور رد عمل ہوتے ہیں۔ انسانی رویوں کے باقاعدہ مطالعے کی روایت ہمارے ہاں بوجوہ پنپ نہیں سکی، حالانکہ اس کے بغیر کسی بھی انسانی رویے کی درست تشخیص ہو سکتی ہے اور نہ اس کا علاج ممکن ہے۔ ہمارے ہاں محض علامات دیکھ کر فیصلہ صادر کرنے کا چلن ہے۔ کسی رویے کے پیچھے کیا محرکات ہیں یہ جاننے کی زحمت کم ہی کی جاتی ہے۔
مسلمان افراد دوسرے مسلمان اورغیر مسلم افراد کے خلاف توہینِ رسالت کے جھوٹے مقدمات قائم کرکے اپنے ذاتی مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں۔
توہینِ مذہب یا توہینِ رسالت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ توہینِ رسالت کے ہزاروں مقدمات پاکستانی عدالتوں میں قائم ہیں، اگر یہ سارے مقدمات درست ہیں (جو کہ درحقیقت نہیں ہیں) تو کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ آخر ایسا ہوکیوں رہا ہے؟ رسول اللہﷺ کی ذاتِ مبارکہ سے آخر ایسی کیا پرخاش ہو گئی ہے لوگوں کو کہ اپنی جان پرکھیل کر بھی آپ جیسی کریم ہستی کی توہین کا ارتکاب کر رہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف سزائے موت اور دوسری طرف عوام کےغیظ و غضب کے نتیجے میں ہونے والی دردناک اموات کے باوجود نبی کریم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کے خلاف توہین کا سلسہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا؟ اور یہ سب ایک اسلامی ملک میں ہو رہا ہے جہاں عوام، ادارے، تھانے اور عدالتیں سب مسلمانوں کے ہاتھ میں ہیں۔ آج ہم ان سوالوں کے جوبات تلاش کریں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں توہینِ رسالت کے درج کیے جانے والے مقدمات میں ایک محتاط اندزے کے مطابق 80 سے 90 فیصد مقدمات جعلی ہوتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق توہین رسالت کی دفعہ 295‑C کے تحت 1986 سے لے کے 2004 تک پاکستان میں رجسٹرڈ کیسوں کی تعداد 5000 سے زائد ہے۔ 5000 افراد جن کے خلاف توہین رسالت کے کیسز رجسٹر ہوئے، ان میں سے صرف 964 افراد کے کیس عدالتوں میں پہنچے، 4036 کیسز ابتدائی اسٹیج پر ہی جعلی ثابت ہونے پر خارج کر دئیے گئے، سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے، کہ 86% فیصد کیسز صرف پنجاب میں رجسٹر ہوئے، یعنی 5000 میں سے 4300 کیسز! مزید یہ کہ جن 964 افراد کے کیس عدالتوں میں گئے، ان میں سے بھی 92% فیصد کیسز کا تعلق پنجاب سے تھا۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ توہینِ رسالت کے جھوٹے مقدمات کے پیچھے بعض ایسی سماجی عوامل اور سماجی رویے کار فرما ہیں جو شاید پنجاب سے مخصوص ہیں۔ پنجاب میں ان واقعات کی کثرت کی وجہ زمین پر قبضے، ذاتی دشمنی اور رنجشیں ہیں۔ مسلمان افراد دوسرے مسلمان اورغیر مسلم افراد کے خلاف توہینِ رسالت کے جھوٹے مقدمات قائم کرکے اپنے ذاتی مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں۔ اپنے مخالف پر توہینِ رسالت کا الزام سب سے آسان اور تیر بہدف ثابت ہوتا ہے۔ عوامی حمایت ایک لحظہ میں حاصل ہوجاتی ہے۔ ایک بار الزام لگ جائے تو پھر ملزم لاکھ یقین دلاتا رہے کہ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا مگرعوام کا غیظ وغضب اس کا تیا پانچہ کرنے پر تل جاتا ہے، پولیس اور عدالت پر ہر طرح سے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ کہ سزا پھانسی سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے بھی معافی کی گنجائش ہی نہیں قانون میں۔ مزید یہ کہ ملزم اگر عدالت سے بری ہو بھی جائے، تب بھی عوام اسے یا تو مار ڈالتی ہے اوراگرمارا نہ بھی جائے تومعاشرے میں اس کی سماجی حیثیت کی بحالی ممکن نہیں رہتی، حالانکہ بری کرنے والی عدالت بھی مسلمان جج کی ہوتی ہے۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ توہینِ رسالت کے جھوٹے مقدمات کے پیچھے بعض ایسی سماجی عوامل اور سماجی رویے کار فرما ہیں جو شاید پنجاب سے مخصوص ہیں۔ پنجاب میں ان واقعات کی کثرت کی وجہ زمین پر قبضے، ذاتی دشمنی اور رنجشیں ہیں۔ مسلمان افراد دوسرے مسلمان اورغیر مسلم افراد کے خلاف توہینِ رسالت کے جھوٹے مقدمات قائم کرکے اپنے ذاتی مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں۔ اپنے مخالف پر توہینِ رسالت کا الزام سب سے آسان اور تیر بہدف ثابت ہوتا ہے۔ عوامی حمایت ایک لحظہ میں حاصل ہوجاتی ہے۔ ایک بار الزام لگ جائے تو پھر ملزم لاکھ یقین دلاتا رہے کہ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا مگرعوام کا غیظ وغضب اس کا تیا پانچہ کرنے پر تل جاتا ہے، پولیس اور عدالت پر ہر طرح سے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ کہ سزا پھانسی سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے بھی معافی کی گنجائش ہی نہیں قانون میں۔ مزید یہ کہ ملزم اگر عدالت سے بری ہو بھی جائے، تب بھی عوام اسے یا تو مار ڈالتی ہے اوراگرمارا نہ بھی جائے تومعاشرے میں اس کی سماجی حیثیت کی بحالی ممکن نہیں رہتی، حالانکہ بری کرنے والی عدالت بھی مسلمان جج کی ہوتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ توہینِ رسالت کا اصل جرم توہین کے جھوٹے مقدمات بنانے والوں پر ثابت ہوتا ہے، جو توہین کے الفاظ خود اپنی طرف سے بناتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ توہینِ رسالت کا اصل جرم توہین کے جھوٹے مقدمات بنانے والوں پر ثابت ہوتا ہے، جو توہین کے الفاظ خود اپنی طرف سے بناتے ہیں۔ یقیناً یہ بڑی قبیح جسارت ہے۔ مگ رہمارا قانون جھوٹا مقدمہ کرنے والے کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کرتا۔ اگر قانون یہ بنا دیا جائے کہ توہینِ رسالت کا جھوٹا مقدمہ کرنے والے کو توہینِ رسالت کے قانون میں دھر لیا جائے گا تو جھوٹے مقدمات میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔
توہین رسالت کا صدور کسی صحیح الدماغ آدمی سے ممکن نہیں۔ پاکستان میں توہینِ رسالت کے موجودہ سخت قانون، جس میں توبہ کی گنجائش بھی نہیں اور اس سے بڑ ھ کراس معاملے میں عوام کی دیوانگی کی حدوں کو چھوتی ہوئی جذباتیت، جو محض الزام پر ہی نہایت خوفناک نتائج پیدا کردیتی ہے، ان سب کی موجودگی میں کوئی شخص بالفرض توہین ِ مذھب یا توہینِ رسالت کرنے کا ارادہ رکھتا بھی ہو توباہوش و حواس تو ایسا کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ دین یا رسول اللہ ﷺ پر سنجیدہ علمی تنقید چاہے، ہماری طبع پر کتنی ہی گراں گزرے، گستاخی کے زمرے میں نہیں آتی۔ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ کاموں پر سب سے پہلی تنقید کرنے والے خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ ان کی تنقیدی آراء کو گستاخی تو کجا ان کی تائید میں وحی نازل ہوتی رہی۔ سر ولیم میور نے اپنی کتاب ‘لائف آف محمد’ میں رسول اللہ ﷺ پر تنقید کی لیکن کسی نے ولیم میور کو گستاخ رسول قرار نہیں دیا۔ سرسید نے اس کا جواب ‘خطباتِ احمدیہ’ کی صورت میں لکھا، لیکن کوئی فتویٰ ولیم میور پر نہیں لگایا۔ افسوس کا مقام ہے کہ علمی حلقوں میں بھی اب وہ وسعتِ نظری نہیں رہی کہ تنقید اور گستاخی کا فرق سمجھ سکیں۔ الا ماشاءاللہ۔ ماضی قریب تک یہ علمی بلوغت نظر آتی ہے، جہاں تنقید کے جواب میں تنقید لکھی جاتی تھی، ڈنڈے جوتے اٹھا کر سڑک پر آکر گلے نہیں پھاڑے جاتے تھے۔
توہینِ رسالت جہاں درحقیقت ہوتی بھی ہے تو اس کی وجہ وہ رد عمل، جبر، امتیازی سلوک اور نفرت ہے جو مسلم اکثریت غیر مسلم اقلیت کے ساتھ اسلام کے نام پر روا رکھے ہوئے ہے۔
بہرحال، معاشرے اور قانون کی طرف سے اگر اتنے خوفناک نتائج کے باوجود کوئی توہینِ رسالت کا مرتکب ہوتا ہے، جیسا کہ چند مقدمات میں ایسا ثابت ہوتا ہے، تو سزا کے نفاذ کے علاوہ اس رویے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا آخر ہوا کیوں؟ رسول اللہ ﷺ کی ذات والا صفات کو ہدفِ گستاخی بنانے کی وجہ اور ضرورت کیوں پیش آ گئی اور وہ بھی اپنی جان پر کھیل کر؟
ہم سمجھتے ہیں کہ توہینِ رسالت جہاں درحقیقت ہوتی بھی ہے تو اس کی وجہ وہ رد عمل، جبر، امتیازی سلوک اور نفرت ہے جو اس معاشرے کی مسلم اکثریت اپنے جاہلانہ رویوں کی بنا پر غیر مسلم اقلیت کے ساتھ اسلام کے نام پر روا رکھے ہوئے ہے۔ انہیں اچھوت اور ناپاک سمجھا جاتا ہے، عوام کے ایک طبقے میں ان کے ساتھ ہاتھ ملانا بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے، ان کے ساتھ کھانا پینا تو دور کی بات ان کے کھانے پینے کے برتن الگ رکھے جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں معاشرتی دباؤ ڈال کر اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور انکار پر حقارت آمیز طرزِ عمل اختیار کیا جا تا ہے۔ جو زیادتیاں غیرمسلموں کے غریب ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ ہوتی ہیں، جو ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے، وہ بھی مذھبی زیادتی کے زمرے میں شمار ہو جاتی ہیں۔ میں نے بطورِ استاد جس تعلیمی ادارے میں بھی پڑھایا وہاں مجھ سے میرے طلبہ نے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا غیر مسلم کو سلام کرنا جائز ہے، ان کے ساتھ کھاناکھایا جا سکتا ہے۔ یہ شہری تعلیمی اداروں کا حال ہے۔ اندازہ کیجیے کہ دیہی علاقوں کا کیا حال ہوگا، جو وقتاً فوقتاً مختلف واقعات کی صورت میں ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔ تعلیم ملازمت اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں غیر مسلموں سے امتیازی سلوک عام ہے۔ ان کی بستیاں اور قبرستان تک الگ بسائے جاتے ہیں۔ خاکروب اورنچلی سطح کے کام ان کے ساتھ مخصوص کردیے گئے ہیں۔ ان کے مخصوص نام رکھ کر حقارت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
یہ تمام جہالت اسلام کے نام پر کی جاتی ہے۔ اور پھر اس کو نبی کریمﷺ کے عشق کا تقاضا بھی سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ اب ذرا سوچیے کہ رسول اللہ ﷺ کے نام پر اس نفرت اور حقارت آمیز رویے کے بعد ایک غیر مسلم کے ذہن میں اسلام اور نبی کریم ﷺ کا کیا تاثر بنتا ہے؟ ایک مثال لیجیے۔ ایک مغرور بدتمیز آدمی اپنے غرور اور بدتمیزی کو بڑے فخر سے اپنے والد اور خاندانی روایات کی طرف منسوب کرے تو اس کے خاندان اور والد کے بارے میں ہمارا کیا تاثر بنے گا؟ چاہے اس کا والد نیک نفس شخص ہی کیوں نہ ہو، لیکن ہمارے سامنے جو تاثر آئے گا ہم تو اس کے مطابق ہی سوچیں گے کہ یہ تمیز سکھائی ہے اس کو اسکے والد نے! اسی طرح جب ایک غیر مسلم، اسلام اور رسول اللہ ﷺ نام پر مسلمانوں کی طرف سے مسلسل امتیازی سلوک، حقارت آمیز رویے اور ظلم وستم سے تنگ آ کر دین کے اس منفی مظہر پر کوئی ردعمل ظاہر کر دیتا ہے تو توہینِ رسالت کا مرتکب قرار پاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہماری ان حرکتوں اور رویوں کے بعد غیر مسلم کے ذہن میں نبی پاک ﷺ کا جو منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اس تاثر کے پیدا کرنے والے مسلمان کیا توہینِ رسالت کے مرتکب قرارنہیں پاتے؟
سوال یہ ہے کہ ہماری ان حرکتوں اور رویوں کے بعد غیر مسلم کے ذہن میں نبی پاک ﷺ کا جو منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اس تاثر کے پیدا کرنے والے مسلمان کیا توہینِ رسالت کے مرتکب قرار نہیں پاتے؟ ان کی کیا سزا ہونی چاہیے؟
اس کے بعد پھرذرا سوچیے، بھلا ایسا کون سا غیر مسلم ہو گا جس کو نبی کریم ﷺ کے نام لیواؤں سے وہ عزت واحترام اور حقوق مل رہے ہوں جو نبی کریم ﷺ خود غیرمسلموں کو دیا کرتے تھے اوروہ پھر بھی آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے؟ اگر اس کے باوجود کرے تو یقیناً سزا کا مستحق بنتا ہے۔
اس کے بعد پھرذرا سوچیے، بھلا ایسا کون سا غیر مسلم ہو گا جس کو نبی کریم ﷺ کے نام لیواؤں سے وہ عزت واحترام اور حقوق مل رہے ہوں جو نبی کریم ﷺ خود غیرمسلموں کو دیا کرتے تھے اوروہ پھر بھی آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے؟ اگر اس کے باوجود کرے تو یقیناً سزا کا مستحق بنتا ہے۔
ہمارے مولویوں نے جتنی محنت نبی کریم کی محبت کی دیوانگی لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنے میں لگائی ہے، اتنی ہی محنت اگروہ لوگوں میں اخلاقِ نبوی کی تربیت اور ترویج کے لیے بھی کرتے تو ایسی صورتِ حال پیدا ہی نہ ہوتی، جس سے آج پاکستانی معاشرہ دوچار ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے نام لیوا سود کا ایک روپیہ چھوڑنے کو تیار نہیں، لیکن ان کے نام پر کسی کو بھی قتل کرنے کو تیار ہیں۔ دودھ اور دوائیوں میں ملاوٹ کرنے والے میلاد کی محفلیں سجانے میں پیش پیش ہوتے ہیں، بھائی بہنوں کی جائیداد دبا لینے والے نعت شریف کی محفلیں لگاتے ہیں، نعتیں سن کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں اورآبدیدہ ہونے کے بعد بھی زمین کا قبضہ نہیں چھوڑتے۔ نعرہ رسالت کے آگے پیچھے (نعوذ باللہ) بلا تکلف گالیاں نکالتے ہیں۔ سوچیئے کہ ایک غیرمسلم ان مظاہر کے بعد اسلام اور رسول اللہ ﷺ کا کیا تاثر لے گا۔ کس کے پاس اتنا وقت اور سمجھ ہے کہ خود قرآن یا سیرتِ رسول پڑھ کر پڑھ کر معلوم کرے کہ ان غافل مسلمانوں کے نبی ﷺکتنے عظیم تھے۔
رسول اللہ نے فرمایا ہے: “خبر دار! جس نے کسی معاہد (ذمی) پر ظلم کیا یا اُس کے حق میں کمی کی یا اُسے کوئی ایسا کام دیا جو اُس کی طاقت سے باہر ہو یا اُس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اُس سے لے لی تو قیامت کے دن میں اُس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔” (ابو داؤد)
اب جو لوگ غیرمسلموں پر رسولِ پاک ﷺ کے نا م اور ان کی شفاعت کے بھروسے پر پر بلا جواز زیادتیاں کر رہے ہیں، بلا تحقیق قتل کر رہے، قیامت کے دن دیکھیں گے کہ خود رسول اللہ ﷺ خدا کی عدالت میں ان ظالم مسلمان کے خلاف ان مظلوم غیرمسلموں کا مقدمہ لڑیں گے۔ اور جس کے خلاف خود اللہ کا رسول کھڑا ہو جائے اس بدبخت کی تباہی میں کیا شبہ رہ جاتا ہے۔
عالمی سطح پر توہینِ رسالت کی وجہ اسلام کا وہ سیاسی تصور ہے جو پوری دنیا پر طاقت کے بل بوتے پر مسلم حکمرانی کو ہر مسلمان کا مقصد اور اسلام کو بنیادی پیغام گردانتا ہے۔
عالمی سطح پر توہینِ رسالت کی وجہ اسلام کا وہ سیاسی تصور ہے جو پوری دنیا پر طاقت کے بل بوتے پر مسلم حکمرانی کو ہر مسلمان کا مقصد اور اسلام کو بنیادی پیغام گردانتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب عالمی سطح پر آزادی کو بنیادی انسانی حق تسلیم کر لیا گیا ہے تو پھر کسی قوم کا یہ مقصدِ حیات کہ اس نے پوری دنیا کو محکوم بنانا ہے دوسروں کے لیے کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ نظریہ اگر مولانا مودودی کے نام سے پھیلایا جائے تو لوگ ان کو برا بھلا کہیں گےاور رسول اللہ ﷺ کے نام سے فروغ دیں تو لوگ انجانے میں ان کی توہین کریں گے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس نظریہ کے حاملین کے عملی مظاہر اگر داعش کی صورت میں سامنے آئیں تو تحقیق کرنے پہلے ہی عوام سخت رد عمل میں آکر اس دین اور اس کے لانے والے کو برا کہنے لگتے ہیں، جو ایسی تعلیمات یا ایسی تربیت کرتا ہے۔
اسلام کے بارے میں غیروں اور اپنوں کا منفی پراپیگنڈا بھی اس کا سبب ہے۔ مثلاً،اسلام کے عورتوں کے بارے میں احکامات کو عجیب رنگ میں پیش کیا جاتا ہے جو بادی النظر میں بہت دقیانوسی لگتا ہے، اس دقیانیوسیت پر مہر تصدیق اس وقت ثبت ہوجاتی ہے جب کچھ مسلم ممالک میں اس پر پوری دقیانوسیت کے ساتھ عمل بھی نظر آتا ہے، جہاں عورت کو کسی جانور سے زیادہ حیثیت نہیں دی جاتی۔ اس سب کا ردعمل اسلام اور پیغمبرِِ اسلام کے خلاف نکلتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ ردعمل نبی کریم کی حقیقی ذات کے خلاف نہیں بلکہ اس تصور کے خلاف ہے جو ان کے سامنے اسلام کی غلط ترجمانی سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسروں کو الزام دینے اور اس الزام پر ان کو سزا دینے سے پہلے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک لینا چاہیے کہ کہیں ہم ہی اپنے عظیم نبی ﷺ کی توہین کے ذمہ دار ہم خود تو نہیں؟
امتی باعثِ رسوائیِ پیمبر ہیں
اگر دیکھا جائے تو یہ ردعمل نبی کریم کی حقیقی ذات کے خلاف نہیں بلکہ اس تصور کے خلاف ہے جو ان کے سامنے اسلام کی غلط ترجمانی سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسروں کو الزام دینے اور اس الزام پر ان کو سزا دینے سے پہلے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک لینا چاہیے کہ کہیں ہم ہی اپنے عظیم نبی ﷺ کی توہین کے ذمہ دار ہم خود تو نہیں؟
امتی باعثِ رسوائیِ پیمبر ہیں
Image: Dawn.com


11 Responses
السلام علیکم ڈاکٹر صاحب, آپ نے عمدہ تحریر لکھی, یقیناً ہم مسلمانوں کے اپنے رویے ہی غیر مسلموں کو اس حد تک لے جاتے ہیں, ہمیں اپنے لوگوں کو غیر مسلموں کے حوالے سے ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں, اس سلسلے میں بچوں کی بچپن سے ہی ایسی تربیت بھی کرنی چاہیے کہ وہ غیر مسلموں کو اچھوت نہ سمجھیں ‚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنقید کے حوالے سے آپ کی بات دل کو نہیں لگتی کیونکہ قرآن کے دلائل یہ ثابت کرتے ہیں کہ رسول پر تنقید نہیں ہو سکتی,
وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ
النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسھم
وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوہ
وما کان لمؤمن ولا مؤمنۃ اذا قضیٰ اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم
من یطع الرسول فقد اطاع اللہ
فلا وربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو
اللہ والیوم الآخر وذکر اللہ کثیرا
اور اس کے علاوہ بیسیوں آیات و احادیث یہ ثابت کرتی ہیں کہ نبی کا حکم ماننا ضروری ہے یعنی بلا تنقید ہی ماننا ضروری ہے حتیٰ کے سچے مومن ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دل میں بھی یہ بات نہیں رکھنی کہ کسی معاملہ میں نبی کا فیصلہ ہماری رائے کے خلاف ہو گیا ہے, باقی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ انہوں نے تنقید کی تھی,تو مہربانی فرما کر ذرا موافقات عمر کو دیکھ لیجیے کہ انہوں نے کسی ایک واقعے میں بھی تنقید نہیں کی تھی بلکہ چند واقعات میں تو خود نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے مشورہ مانگنے پر مشورہ دیا تھا اور ایک آدھ واقعے میں ایک قریبی دوست کی حیثیت سے مشورہ دیا تھا اور چند واقعات میں جو بات ان کے دل میں تھی اسی کے مطابق اللہ نے آیات نازل فرمائیں, جس میں تنقید کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا, یہ بڑی ناانصافی ہوگی کہ ان مشوروں کو تنقید قرار دیا جائے خصوصا جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ادب کا یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنی آواز اس قدر پست کر دی تھی کہ لوگوں کو انہیں کہنا پڑتا تھا کہ اپنی بات دوبارہ دوہرا دیں ہمیں سنائی نہیں دیا. یہاں لنک شیئر نہیں ہو رہا ورنہ آپ کو موافقاتِ عمر کا لنک شیئر کرتا تاکہ آپ بھی وہ تمام واقعات پڑھ لیتے. باقی ولیم میور نے تو غیر مسلم ہونے کی وجہ سے تنقید کرنی ہی ہے اور سرسید کا اس تنقید پر خاموش رہنا اس بات کا جواز فراہم نہیں کر سکتا کہ وہ تنقید درست اور جائز تھی اور نہ اس بات کا جواز فراہم کر سکتا ہے کہ نبی پر تنقید کی جاسکتی ہے, اگر آج چودہ سو سال بعد کوئی نبی پر تنقید کرے گا تو وہ دین کا علم کہاں سے لے گا, ایسی تنقید کی کسی مسلمان سے تو توقع نہیں کی جاسکتی .ہ
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=62984
سر موافقاتِ عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اس لنک پر تفصیلات موجود ہیں, ذرا انصاف سے ان تمام موافقات پر نظر ڈالیے کہ یہ تنقید نہیں بلکہ مشورے تھے. امید ہے آپ اس حوالے سے جواب ضرور دیں گے, جزاک اللہ خیرا
متوازن تحریر۔
فرق انداز میں سوچنے پر آپ کا شکریہ!
thanks
شکریہ جناب
میں نے تنقید کا مفہوم تنقیص کے معنی میں نہیں لیا بلکہ لفظ کے لغوی اور اصظلاحی معنی مین لیا ہے جس میں کسی بات کے حسن قبح کو دیکھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے حضرت عمر کی رائے کو تنقید کہنا غلط نہیں، جو ظاہر ہے ادب کے کی گئی تھی۔
اس کے علاوہ آپ دیکھیے عبداللہ بن ابی کے معاملے میں تو حضرت عمر دامن رسول پکڑ پکڑ کر روک رہے تھے، ۔ صلح حدیبیہ پر آپ کی رائے جو آپ نے اتنی شد و مد سے پیش کی اس کو تنقید کے علاوہ اور کیا کہا جائے، جس پر آپ کو بعد میں افسوس رہا تاہم اسے بھی گستاخی نہیں گردانا گیا۔ شکریہ
الفاظ کا چناؤ معانی کو کہیں سے کہیں لے جاتا ہے, آپ کی تحریر ایک ہر ایک کی دسترس میں ہے, اسے تو یہ معلوم نہیں کہ آپ نے تنقید کا لفظ کس معنی میں استعمال کیا ہے؟ ایک عام آدمی کو تو آپ کی تحریر سے یہی پیغام جائے گا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنقید کر سکتا ہے, اس کے تنقید کرنے کے بعد اس کا ایمان کہاں باقی رہ جائے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ چونکہ ایک قریبی ساتھی تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت اور ان کے فائدے کے لیے انہیں جیسے بہتر لگا انہوں نے روکا, اگر یہ کوئی بے ادبی یا گستاخی ہوتی تو اللہ کی طرف سے تنبیہ نازل ہوتی, یا رسول اللہ صلی اللہ علیی وسلم خود تنبیہ کر دیتے, جب ایسا کچھ نہیں ہوا تو ہم کون ہوتے ہیں کہ چودہ سو سال بعد آکر ان کے افعال پر یہ حکم صادر کریں کہ وہ تنقید / تنقیص یا گستاخی ہے.
شاید یہاں ایک بات کی مزید وضاحت کرنا مناسب ہوگا۔ کہ یہ تنقید رسول اللہ کی غیر نبوی، غیر وحی آرا پر کی گئی تھیں۔ اسی لیے حدیبیہ والی تنقید پر عمر کو افسوس ہوا تھا کیونکہ رسول اللہ نے وہ فیصلہ وحی کے تحت فرمایا تھا ۔ دینی آرا پر تنقید مسلمان نہیں کر سکتا۔
البتہ لبرل لوگ اگر دینی آرا پر بھی سنجیدہ تنقید کریں تو گستاخی بہرحال نہیں۔
آپ کی وضاحت کے بعد اب بات کھل کر سامنے آگئی ہے, میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے وضاحت فرمائی, لیکن میں ذرا ادب و آداب کا زیادہ خیال رکھنے والا ہوں اس لیے صحابہ کرام کے کسی بھی مشورے کو تنقید کہنے سے دل گھبراتا ہے, میں تحقیق کا قائل ضرور ہوں لیکن اس زمرے میں گستاخی سے اللہ مجھے آپ کو اور باقی سب مسلمانوں کو بچائے, ویسے مسلمان لبرلز کو بھی دین کو تھوڑا بہت پڑھ لینا چاہیے, تاکہ لبرلزم اور اسلام دونوں پہلو ان کے سامنے رہیں, اسلام اور شرعی حکمتوں کو جانے بغیر محض تن آسانی اور نفسانی خواہشات پورا کرنے کے لیےمذہب سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اسلام پر بے سرو پا اعتراضات کرنا بھی نا انصافی ہے اور بعض اوقات تو ایسے اعتراضات گستاخی کے زمرے میں بھی چلے جاتے ہیں. اللہ ہمیں سمجھ دے اور کج روی سے بچائے. آمین
شکریہ۔ آمین