“ہزارہ برادری کو نشانہ بنانےکی کارروائی کو بروقت روکا گیا۔”
جی ہاں اگریہ بروقت کارروائی نہ کی جاتی تو خدا نخواستہ
زنگی لوڑو میں سوزوکی وین پرحملہ ہو سکتا تھا جس میں کئی ہزارہ افراد مارے جا سکتے تھے۔
کئی ہزارہ نوجوان پولیس کیڈٹس کے تربیتی مرکز جاتے ہوئے خون میں نہلایا جا سکتا تھا۔
محرم کے جلوس اور امام بارگاہ میں نماز کے دوران وحشیانہ خودکش حملے ہو سکتے تھے جن میں ہزاروں افراد جان کی بازی ہار سکتے تھے۔
علمدار روڈ پر ان کے رہائشی علاقے اور ہزارہ ٹاؤن میں خریداری مرکز پر ملکی تاریخ کے طاقتور ترین خودکش حملے ہو سکتے تھے جن میں ہونے والی ہولناک تباہی کو دیکھ کر روح تک کانپ جاتی۔
زنگی لوڑو میں سوزوکی وین پرحملہ ہو سکتا تھا جس میں کئی ہزارہ افراد مارے جا سکتے تھے۔
کئی ہزارہ نوجوان پولیس کیڈٹس کے تربیتی مرکز جاتے ہوئے خون میں نہلایا جا سکتا تھا۔
محرم کے جلوس اور امام بارگاہ میں نماز کے دوران وحشیانہ خودکش حملے ہو سکتے تھے جن میں ہزاروں افراد جان کی بازی ہار سکتے تھے۔
علمدار روڈ پر ان کے رہائشی علاقے اور ہزارہ ٹاؤن میں خریداری مرکز پر ملکی تاریخ کے طاقتور ترین خودکش حملے ہو سکتے تھے جن میں ہونے والی ہولناک تباہی کو دیکھ کر روح تک کانپ جاتی۔

ایسے رونگٹے کھڑے کرنے والے مناظر بھی دیکھے جا سکتے تھے کہ ماتم کرتی مائیں بچوں کی لاشوں کے ٹکڑے چھتوں پر تلاش کرتی پھرتیں، بہنیں بھائیوں کے سوختہ کپڑوں کی نشانیوں کو آنکھوں سے لگا کر چیخیں مارتی بے ہوش ہوتیں اور ہچکیاں لیتے باپ کانپتے ہاتھوں، پُرنم آنکھوں کے ساتھ اپنے جگرگوشوں کے کٹے پھٹے جسموں کے خون آلود لوتھڑوں کو پلاسٹک کے تھیلوں میں جمع کرتے۔ لہو منجمد کرنے والی شدید ترین سردی میں یتیم بچے دن رات وحشت، خوف اور بے بسی کی تصویر بن کر اپنے والدین کی لاشوں کے سرہانے ٹھٹھرتے دھرنا دیتے اور زندگی بھر کے لیے بے سہارا ہو جانے کے خیال سے لرزتے رہتے۔ جبکہ وزیر اعلیٰ کو مذاق سوجھتا اور وہ ٹشوپیپر کا ٹرک بھجوانے کی پیشکش کر کے شیخی بگھارتے۔

ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ مستونگ میں زائرین کو یا خریداری کے لیے ہزارگنجی جانے والی بسوں میں سے ہزارہ افراد کو نکال کر شناخت کے بعد قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا جاتا۔ ان کی مسافر بسوں کو خودکش حملے کر کے اڑا دیا جاتا۔ تفتان میں ان کے مسافر خانے کو تباہ کیا جاتا، ان کے مزدور پیشہ سبزی فروشوں کو ہرچند روز بعد باقاعدگی سے نشانہ بنایا جاتا۔ ان پرکھیل کے دوران حملہ ہوتا۔ ان کے جنازوں کو بھی نہ بخشا جاتا۔ عید کے دن بھی ان کے خون سے ہولی کھیلی جاتی۔
ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ مستونگ میں زائرین کو یا خریداری کے لیے ہزارگنجی جانے والی بسوں میں سے ہزارہ افراد کو نکال کر شناخت کے بعد قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا جاتا۔
یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی پر قاتلانہ حملہ ہوتا، اولمپیئن باکسرکو ایوب سٹیڈیم کے گیٹ پرگولیاں ماردی جاتیں، خواتین اور بچوں کو سوزوکی وین میں شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی جانب سفر کرتے ہوتے ہوئے بے رحمی سے قتل کیا جاتا، ایک طرف بائی پاس پر ان کے سبزی فروشوں کی سواریوں کو، تو دوسری طرف شہر کے بازاروں میں ان کے تاجروں کی دکانوں پر متواتر حملے ہوتے جن میں اسّی سال تک کے بوڑھے دکاندار کو بھی نہ بخشا جاتا۔ قتل وغارت گری کے اس بے رحمانہ کھیل میں وکیل، انجینئر، سیاستدان، دانشور، طالبعلم، ملازم و مزدور کے پیشے کے حوالے سے کوئی فرق روا نہ رکھا جاتا۔
ہزارہ افراد کو کئی مرتبہ سینکڑوں کے حساب سے جنازے اٹھانے پڑ سکتے تھے، جن کے لئے شہر میں کفن اور تابوت کم پڑ جاتے جبکہ قبرستانوں میں جگہ نہ بچتی۔ عورتیں بیوہ ہو جاتیں، بچے یتیم ہو جاتے، والدین کے سہارے چھن جاتے، کئی سو افراد معزور ہو کر سسکتے کراہتے رہتے، ہزارہ افراد پہلے سےزیاد تنگ محاصرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے، ان کی اقتصادی کمر ٹوٹ جاتی اور وہ معاشرتی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے۔
یہ بھی ممکن تھا کہ ہزارہ برادری پہلے سے زیادہ غیر محفوظ انداز میں زندگی گزارنے اور روزانہ مارے جانے کے مسلسل خطرے سے دوچار ہو جاتی، ان پرکاروبار اور پڑھنے کے دروازے بند ہوجاتے، پھر نہ چاہتے ہوئے بھی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہزاروں ہزارہ نوجوان اور شہر و صوبے کی ترقی وخوشحالی میں کلیدی کردارادا کرنے والے، اپنے متعلقہ شعبوں میں قابل تعریف مہارت اور ایماندارانہ شہرت کے حامل افراد ملک سے ہجرت پر مجبور ہو جاتے۔ ان ہجرت کرنے والوں میں سے بہت سے منزلوں کو پہنچتے جبکہ درجنوں سمندروں میں ڈوب جاتے، رشتہ داروں کو چشم براہ چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے گرم صحراؤں اور برف سے ڈھکے پہاڑوں کی بے نام و نشان قبروں میں اتر جاتے۔
ہزارہ افراد کو کئی مرتبہ سینکڑوں کے حساب سے جنازے اٹھانے پڑ سکتے تھے، جن کے لئے شہر میں کفن اور تابوت کم پڑ جاتے جبکہ قبرستانوں میں جگہ نہ بچتی۔
شاید یوں بھی ہوتا کہ ہزارہ برادری پر ہر حملے کے بعد دہشت گردوں کی جانب سے دیدہ دلیری کے ساتھ ذرائع ابلاغ پر نہ صرف حملے کی ذمہ داری قبول کی جاتی بلکہ ہر بیان میں مزید حملوں کی کھلی دھمکی بھی دی جاتی اور ہر بار دھمکی کوعملی جامہ بھی پہنایا جاتا۔ ہزارہ افراد کے قتل عام کو جواز بخشنے والے دہشت گردوں کے ترجمان عناصر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک تلے بازاروں میں جلوس نکال کر دندناتے پھرتے، شرانگیزی کرتے، نفرت کے بیج بوتے، شہر کے قلب میں چوراہے پر سرعام کفر کے فتوے صادر کر کے منافرت کی تبلیغ کرتے، فرقہ وارانہ اختلافات کا زہر اگل کر صدیوں سے ساتھ رہنے والوں کو باہم دست وگریبان کر کے شہر اور صوبے کے روایتی امن کو تباہ کرتے۔ ہاکی گراؤنڈ کے جلسۂِ عام میں لاؤڈ سپیکروں پر تقاریر کر کے قتل و غارت گری کی خونی مشق کی تعریف کی جاتی، ایوارڈز تقسیم کر کے بدامنی پھیلانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی اور خون ریزی کے تسلسل کو برقرار رکھ کر لاشوں کی مزید سینچریاں بنانے کی ہدایات دیتے ہوئے ترانے پڑھے جاتے اور اخبارات میں بڑے اہتمام کے ساتھ روز ان قبیح سرگرمیوں کی رنگین تصاویر چھپتیں۔
اس طرح بھی ہو سکتا تھا کہ صرف نفاست و شائستگی، محبت و امن پسندی کے حوالے سے شہرت رکھنے اور بےگناہی کے جرم میں ہزارہ افراد کے قتلِ عام کی گنتی بارہ سو سے تجاوز کر جاتی اور اس کے خاتمے کے آثار بھی نظر نہ آتے۔ اس سب کے باوجود کسی قاتل کو سزا ملتی نہ قتلِ عام کے اصل مگر پس پردہ رہ کر وار کرنے والے کرداروں کی نقاب کشائی ہوتی اور نہ ہی اس بہیمانہ عمل کے مذموم مقاصد و محرکات طشت از بام ہوتے۔
معاشی و معاشرتی ناکہ بندی کا شکار ہزارہ برادری کی روشن خیال، جمہوری سیاسی قیادت کو دیوار سے لگانے کے باعث ہزارہ اندرونی طور پر بھی مذہبی انتہا پسند عناصر کے زیرِ اثر آ کر انتشار کا شکار ہو سکتے تھے
مگر
مگر
بہت اچھا ہوا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا کیونکہ
“ہزارہ برادری کو نشانہ بنانے کی کارروائی کو بروقت روکا گیا۔”
“ہزارہ برادری کو نشانہ بنانے کی کارروائی کو بروقت روکا گیا۔”
Image: Hazara News Pakistan and Photonews.com.pk