استعفے دینے سے دو دن پہلے تک ایم کیو ایم کا اندازِ سیاست دفاعی تھا، لیکن پھر اچانک ایم کیو ایم کے استعفوں کی خبر نے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچادی۔ منگل اور بدھ کی درمیانی شب ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی پاکستان اور لندن کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں کراچی میں رینجرز آپریشن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ الطاف حسین نے بھی رابطہ کمیٹیوں کے فیصلے کی توثیق کی۔ قومی اسمبلی کے چوبیس ارکان نے ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور اپنے استعفے ان کے حوالے کیےجبکہ اکیاون ارکان سندھ اسمبلی نے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کی قیادت میں اپنے استعفے اسپیکر آغا سراج درانی کے پاس جمع کرائے، سینیٹ کے آٹھ ارکان نےبھی اپنے استعفے سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرادیئے۔
فاروق ستار نے مزید کہا کہ الطاف حسین کی گفتگو کو قابل اعتراض یا قابل گرفت قرار دیا جارہا ہے جب کہ بہت سے سیاسی رہنماوں نے الطاف حسین سے بھی زیادہ سخت تقاریر کی ہیں۔آصف زرداری، خواجہ آصف، محمود خان اچکزئی اور منور حسن نے فوج کے خلاف تقاریر کیں۔ منور حسن نے مرنے والےفوجیوں کو شہید ماننے سے انکار کیا ہے ۔ خواجہ آصف نے فوج کے خلاف شرمناک تقاریر کیں اور آصف زرداری نے بھی انتہائی سخت الفاط استعمال کیے۔ آصف زرداری نے پنڈورا باکس کھولنے اور اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دی اور اپنے الفاظ بھی واپس نہیں لیے۔ محمود اچکزئی کے خلاف 50غداری کے مقدمے بنائے گئے۔ پاکستان رینجرز کا رویہ مکمل جانبدارانہ ہے ۔ فاروق ستار نے الزام لگایا کہ کراچی میں پی ٹی آئی کے لوگوں کیلئے راستہ بنایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے دوران پولنگ اسٹیشنوں کی تصاویر ان کے پاس موجود ہیں، جوڈیشل کمیشن بنایا جائے تو سارے ثبوت پیش کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف میڈیا ٹرائل کیا جارہاہے، جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کون میڈیا کوفراہم کررہا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر رینجرز مسلم لیگ (ن)یا پیپلز پارٹی کے کارکنان کو گرفتار کرتی تو پھر بھی ریاست کا یہی رویہ ہوتا۔ رہا ہونے والا کوئی ایک کارکن بھی ایسا نہیں جس پر تشدد نہ کیا گیا ہو۔ ہمارے ساتھ تیسرے درجے کے پاکستانی شہری جیسا سلوک کیا جارہاہے۔ ہم نے انصاف کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کہیں بھی ہماری شنوائی نہیں ہوئی۔
حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان رابطے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سے ایم کیو ایم کے پارلیمانی رہنما فاروق ستار نے ملاقات کی ہے جس میں فاروق ستار نے حالیہ صورتحال میں ایم کیو ایم کے تحفظات سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم کو ہدف بنانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپریشن کے لیے مانیٹرنگ کمیٹی کیوں نہیں بنائی جاتی؟ اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے، ایم کیو ایم پریشان نہ ہو، متحدہ کا پارلیمانی کردار خود اس کے بہترین مفاد میں ہے، ایوان میں آئیں۔اس پر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ استعفوں کی واپسی کا فیصلہ الطاف حسین کریں گے۔ ایم کیو ایم نے استعفوں کی واپسی کے لیے حکومت کو اپنی شرائط سے آگاہ بھی کر دیا۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے حکومت سے پانچ مطالبات کیےجو درج ذیل ہیں:۔
(1) الطاف حسین کا خطاب ٹی وی پر نشر کرنے پر پابندی ختم کی جائے،
(2) کراچی آپریشن کی نگرانی کے لیے فوری طور پر مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جائے،
(3) رینجرز آپریشن کو غیر جانبدار بنایا جائے،
(4) حراست میں لیے گئے افراد کو فوری طور پر عدالتوں میں پیش کیا جائے، اور
(5) لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
کیا امید کی جاسکتی ہے کہ ایم کیو ایم جلدہی واپس اسمبلیوں میں جائے گی، ایسا مشکل ہے۔ ایم کیو ایم نے تو اپنے گلے شکوے کرلیے، ایم کیوایم کی زیادہ تر شکایات کراچی میں ہونے والے آپریشن کے خلاف ہیں، لیکن اگر آپ کراچی میں رہنے والے ایک عام آدمی سے پوچھیں تو وہ یہ ہی کہے گا کہ کراچی میں بہتری آئی ہے، اس حوالے سے ایم کیو ایم کا موقف کافی کمزور ہے۔ اب ایم کیو ایم کے مطالبات منظورکرنا نواز شریف حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا کیونکہ اس میں ایک فریق فوج بھی ہے جس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔
جمعرات 30 اپریل سے یکم اگست تک الطاف حسین نے فوج کے خلاف تین ایسی براہ راست تقریریں کیں جن میں الطاف حسین نےسرخ لکیر عبور کرتے ہوئے حکومت، آئی ایس آئی، فوج اور بیوروکریٹس کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان تقریروں میں انہوں نے بھارت، نیٹو اور اقوام متحدہ کو مدد کےلیے پکارا، جس کے جواب میں پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے پاکستانی فوج اور اُس کی قیادت کے خلاف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقریروں کو بیہودہ اور ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا۔ ایسی صورت حال میں دونوں جانب سے لچک کا مظاہرہ کیے بغیر کراچی کے حالات ٹھیک ہونا بہت مشکل ہے۔ 12 اگست سے الطاف حسین ہر ٹی وی ٹاک شو میں یہ وعدہ کررہے ہیں کہ وہ آیندہ اس قسم کی تقاریر نہیں کریں گے۔ اگر جنرل راحیل شریف اس معاملے کو دیکھ لیں تو بہتر ہوگا، تاکہ یہ تاثر ختم ہو کہ کراچی آپریشن یک طرفہ ہورہا ہے۔اچھا ہوگا الطاف حسین پر آخری بار اعتبار کرلیا جائے۔ آپریشن جاری رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کے پانچ مطالبات میں سے جو بھی ممکن ہوں اُنہیں تسلیم کرلیا جائے ۔ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کو چاہیئے کہ احتیاط سے کام لیں اور غلطیاں نہ دُہرائیں۔اگر وہ ایسا کریں گے سندھ کے شہری سکون کا سانس لے سکیں گے ۔