اس وقت میرے پاس بہت سی کتابیں نہیں ہیں کہ میں اپنے موقف کے لیے موٹے موٹے دلائل پیش کرسکوں لیکن یہ ضرور ہے کہ جو اب تک میں نے پڑھا ہے اور اردو زبان و ادب کی تاریخ سے جتنی میری شناسائی ہے وہ مجھے اکثر اوقات یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ جس زبان کی چاشنی و شیرینی کا قصیدہ پڑھتے پڑھتے ہمارے دوستوں کا دم نہیں پھولتا، جس کی تاریخ کو آٹھ سو اور نو سو سالہ عرصے پر محیط کرنے کی خواہش ہمارے محققین کو ہے، اس کی تاریخ واقعی ہمیں کون سا سچ دکھاتی ہے۔وہ کون سی بات ہے جسے سمجھنا ضروری ہے تاکہ نفاق دور ہو اور اتفاق کی بنیادیں مضبوط ہوسکیں۔
بات کو انگریزوں کے دور سے شروع کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ انگریز کا ذہن نہایت منطقی تھا،اس کے دماغ میں کوئی بھی بات جو بے سر پیر ہوتی تھی، سما نہیں سکتی تھی۔اس لیے وہ ان بکھری اور منتشر غیر منطقی باتوں کو بھی ایک سانچے میں ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا خواہش مند تھا۔انگریز کی یہی پالیسی اسے ہمارے مقابلے میں زیادہ منضبط اور منصوبہ ساز یا مستقبل شناس ٹھہراتی ہے۔اردو زبان کی تشکیل کا مرحلہ دراصل انگریز کی اسی سیاسی و ثقافتی تبدیلی کی ایک بڑی کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جس کی وجہ سے اردو کو ایک مخصوص مذہب کے ساتھ وابستہ ہونا پڑا اور اس زبان کو مسلمانوں نے اتنا عزیز سمجھا کہ تقسیم ہند کے بعد بننے والے ملک پاکستان کی یہ قومی زبان کہلائی۔
بات کو انگریزوں کے دور سے شروع کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ انگریز کا ذہن نہایت منطقی تھا،اس کے دماغ میں کوئی بھی بات جو بے سر پیر ہوتی تھی، سما نہیں سکتی تھی۔اس لیے وہ ان بکھری اور منتشر غیر منطقی باتوں کو بھی ایک سانچے میں ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا خواہش مند تھا۔انگریز کی یہی پالیسی اسے ہمارے مقابلے میں زیادہ منضبط اور منصوبہ ساز یا مستقبل شناس ٹھہراتی ہے۔اردو زبان کی تشکیل کا مرحلہ دراصل انگریز کی اسی سیاسی و ثقافتی تبدیلی کی ایک بڑی کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جس کی وجہ سے اردو کو ایک مخصوص مذہب کے ساتھ وابستہ ہونا پڑا اور اس زبان کو مسلمانوں نے اتنا عزیز سمجھا کہ تقسیم ہند کے بعد بننے والے ملک پاکستان کی یہ قومی زبان کہلائی۔
دراصل قومی کا یہی تصور ہمارا نہیں ، انگریز کا ہے۔ہم قوم کے لحاظ سے ہمیشہ کسی ایک سانچے میں فٹ نہ ہوسکنے والے لوگ ہیں، الگ الگ ریاستوں میں بٹی ہوئی ہماری تہذیبیں، ہمارے رواج، ہمارے سماج ہمیں بتاتے ہیں کہ کسی ایک قوم کی زبان کو اگر تمام لوگوں کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جائے تو یقینی طور پر ہم بہت سی دوسری قوموں کے ساتھ ناانصافی کریں گے۔اس کی ایک بڑی مثال ہندوستان میں ‘ہندی’ کی ہے۔ہندی اس ملک میں بہت سے لوگ نہیں بولتے، بہت سے لوگ اس کے بنیادی اصولوں سے واقف نہیں لیکن پھر بھی وہ ان کی قومی زبان ہے۔یہ ایک قسم کا فریب ہے، جسے شناخت کے طور پر ہم سبھی پر عائد کیا جاتا ہے ، لیکن ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس سچ یا حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے کس قدر تیار ہیں۔
بہرحال بات ہورہی تھی انگریزوں کی۔انگریز کے دور حکومت میں وہ زبان جسے آج ہم بڑے فخر کے ساتھ ‘اردو’ کہتے ہیں اور جس کی تاریخی لکیروں کو بہت دور تک کھینچتے ہوئے لے جاتے ہیں، عرصہ دراز سے بھارت میں ہندی کے نام سے جانی جاتی تھی۔اس کے بلاشبہ دوسرے نام بھی تھے، جیسے کہ ہندوی اور ریختہ۔لیکن ہندوی اور ہندی کو بطور خاص زبان کے طور پر شہرت حاصل تھی، جبکہ ریختہ زیادہ تر غزل یا ایسی نظمیہ شاعری کے لیے مستعمل لفظ تھا، جس میں ہندی/ہندوی یا فارسی زبان کے ٹکڑوں کو آپس میں ملا دیا گیا ہو۔
ریختہ کے تعلق سے لوگ میر کے عہد تک ضرور کنفیوز رہے ہونگے کیونکہ اسی وجہ سے میر صاحب نے اپنے تذکرے’نکات الشعرا’ میں اس کی چار مثالیں دے کر سمجھایا ہے کہ یہ لفظ شاعری کے کیسی ہیتوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں ان سے ایک غلطی بھی ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ریختہ ایسی نظم کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے، جس میں ایک مصرع فارسی کا ہو اور دوسرا ہندی کا۔جبکہ مثال کے طور پر انہوں نے امیر خسرو کے نام سے مشہور اس غزل کو پیش کیا جس کا پہلا مصرع ہے’زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں’۔ اس مصرع میں ظاہر ہے کہ آدھی زبان فارسی اور آدھی ہندی ہے نہ کہ یہ دو الگ الگ مصرعے ہیں۔
بہرحال خود میر اور ان کے معاصرین کے یہاں لفظ ‘ہندی’ بہت صاف طور پر اس زبان کے لیے استعمال ہوتا رہا جسے دور حاضر میں اردو کہا جاتا ہے۔مثالیں بہت سی ہیں، مگر اس وقت ایک شعر یاد آرہا ہے(جیسا کہ میں نے عرض کیا اس وقت میرے پاس مثالیں ڈھونڈنے کے لیے کتابیں نہیں ہیں۔)
کیا جانوں لوگ کہتے ہیں کس کو سرور قلب
آیا نہیں یہ لفظ تو ہندی زباں کے بیچ
آیا نہیں یہ لفظ تو ہندی زباں کے بیچ
غالب کے خطوں میں بھی ہم لفظ ‘ہندی’ کو زبان کے معنوں میں پڑھتے آئے ہیں۔ انہوں نے بہت صاف لفظوں میں کئی جگہ اپنے دوستوں کو بتایا ہے کہ وہ مشاعرے میں ہندی غزلیں پڑھ کر آئے ۔ان کے مکاتیب کی مشہور کتاب کا نام بھی ‘عود ہندی’ ہی ہے۔جس میں زبان کی حیثیت سے موجود لفظ ہندی اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ یہ لفظ اس زمانے میں اردو کے لیے کس قدر عام تھا۔اسی طرح مرزا علی لطف نے ‘گلشن ابراہیم’ نامی تذکرے کو آسان زبان میں منتقل کرتے وقت خود کو آسان ہندی لکھنے پر کھسیانے انداز میں لعن طعن کیا اور جتادیا کہ وہ ایسا اپنی مرضی سے نہیں کررہے بلکہ انگریزوں کے حکم سے کررہے ہیں۔شیر علی افسوس نامی ایک شخص نے میر حسن کی مشہور مثنوی ‘سحرالبیان’ یا ‘قصہ بے نظیر و بدر منیر’ کے دیباچے میں اسی لفظ کا استعمال کیا ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی کتاب ‘اردو کا ابتدائی زمانہ’ میں میر امن دہلوی کو اس بات کے لیے قصور وار ٹھہرایا ہے کہ انہوں نے باغ و بہار کے دیباچے میں یہ جملہ لکھتے وقت کہ ‘یہ قصہ اردو کے لڑکے بالوں کی زبان میں لکھا جارہا ہے’یہ کیوں نہیں بتایا کہ اس زبان کا ایک معروف نام ہندی بھی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیسر گلکرسٹ ، جو کہ فورٹ ولیم کالج میں ہندوستانی زبانوں کی تدریس سے وابستہ تھے، اس بات پر متعجب تھے کہ ہندی مسلمانوں کی زبان کیسے ہوسکتی ہے، جبکہ اس سے تو ہندو لفظ کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے ایک نئی زبان کے رواج کی کوشش کی گئی مگر اس زبان کا نام ‘اردو ‘ نہ تھا بلکہ ہندوستانی تھا۔ ہندوستانی لفظ کو رائج کرنے کی انگریزوں کی کوشش کا سب سے بڑا اثر الہ آباد میں قائم کی جانے والی ہندوستانی اکیڈمی تھی، جو کہ یوں تو بعد میں قائم کی گئی ، مگر اس کے آثار ان پرانی لغات میں مل جاتے ہیں جہاں انگریزوں نے اردو ، انگریزی لغات کے لیے ہندوستانی-انگریزی لغات کی ترکیب استعمال کی ہے۔ڈنکن فاربس، ہابسن جابسن، جان شیکسپئر اور دوسرے ماہرین اردو انگریزوں کی لغات میں یہ لفظ بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں تک سوال میر امن کا ہے، انہوں نے یہ لفظ ضرور لفظ دہلی کے لیے لکھا ہوگا کیونکہ میر امن نے لفظ ‘اردو کے لڑکے بالوں ‘کہا ہے نہ کہ اردو زبان بولنے والے لڑکے بالوں۔ اردو کا لفظ نئی دہلی کے وجود میں آنے سے پہلے موجود نئے شہر(موجودہ پرانی دلی) کے لیے استعمال ہوتا تھا، جسے اردوئے معلیٰ بھی کہا جاتا تھا۔
فاروقی صاحب نے اپنی کتاب میں ایسی کچھ غلطیاں بھی کی ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔وہ اپنے موقف پر اتنے ڈٹے ہوئے ہیں کہ اختلاف کرنے والے کی رائے نہیں سننا چاہتے۔مثال کے طور پر ان کا یہ کہنا کہ ابتدائی زمانے میں ‘غزل’ کا لفظ فارسی غزل کے لیے اور ریختہ کا لفظ’اردو غزل’ کے لیے معروف تھا اور اس کی مثال میں انہوں نے قائم کا یہ مشہور شعر نقل کیا ہے
قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
اک بات لچر سی بہ زبان دکنی تھی
اک بات لچر سی بہ زبان دکنی تھی
فاروقی صاحب نے لکھا کہ ہم اتنے عرصے سے یہ شعر سنتے چلے آرہے ہیں لیکن کبھی یہ خیال کیوں نہ کیا کہ آخر ریختہ کو غزل طور بنانے کا کیا مطلب ہے۔میں نے اپنے ایک خط میں ان سے یہ سوال پوچھا تھا کہ اگر آپ کی اس بات کو بالکل صحیح تسلیم کرلیا جائے تو ان اشعار کو کہاں رکھا جائے گا جن میں اسی دور کے شعرا نے اردو غزل کے لیے بھی غزل کا لفظ استعمال کیا ہے۔جیسے کہ سودا کا یہ شعر
وہ جو کہتے ہیں کہ سودا کا قصیدہ ہی ہے خوب
ان کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جاؤں گا
ان کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جاؤں گا
پھر قائم خود بھی ایک جگہ فارسی غزل کو خود فارسی کہہ چکے ہیں ، بجائے غزل کہنے کے
قائم جو کہیں ہیں فارسی یار
اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر
اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر
یہ اشعار میں نے اپنے حافظے سے لکھے ہیں، سو ممکن ہے کہ ان کے متن میں کچھ تبدیلی ہوگئی ہو، لیکن مذکورہ الفاظ کا ان میں ہونا یقینی ہے۔
بہرحال، انگریزوں کے دیے گئے لفظ ہندوستانی کو رواج نہ مل سکا، جب کہ اردو کا لفظ زیادہ مستعمل ہوا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس لفظ کو مسلمانوں کی ناسٹلجیائی نفسیات نے پروا ن چڑھایا ہے۔لفظ اردو مغل حکومت اور اس کے قائم کیے گئے دیوانوں کی بھولی بسری یادوں کا آخری گواہ ہے۔اس سے دربار، لشکر، فصیل اور ان پرانے بازاروں کا تصور جاگتا ہے، جن کو مسلمان بھولنا نہیں چاہتے تھے۔یہ فکر اس قدر گہری تھی کہ اردو کے لفظ نے ہندوستانی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ترقی کی اور رفتہ رفتہ اپنے پرانے نام ‘ہندی ‘ یا ‘ہندوی’ کی یادیں اور نقوش ذہن تک سے مٹادیے گئے۔اسلامی لٹریچر کا اس زبان میں دھڑادھڑ ترجمہ ہوا۔پاکستان بنا تو ایک اسلامی ریاست کی قومی زبان بناکر اس زبان کی مذہبی حیثیت کو اور مستحکم کردیا گیا۔
بہرحال، انگریزوں کے دیے گئے لفظ ہندوستانی کو رواج نہ مل سکا، جب کہ اردو کا لفظ زیادہ مستعمل ہوا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس لفظ کو مسلمانوں کی ناسٹلجیائی نفسیات نے پروا ن چڑھایا ہے۔لفظ اردو مغل حکومت اور اس کے قائم کیے گئے دیوانوں کی بھولی بسری یادوں کا آخری گواہ ہے۔اس سے دربار، لشکر، فصیل اور ان پرانے بازاروں کا تصور جاگتا ہے، جن کو مسلمان بھولنا نہیں چاہتے تھے۔یہ فکر اس قدر گہری تھی کہ اردو کے لفظ نے ہندوستانی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ترقی کی اور رفتہ رفتہ اپنے پرانے نام ‘ہندی ‘ یا ‘ہندوی’ کی یادیں اور نقوش ذہن تک سے مٹادیے گئے۔اسلامی لٹریچر کا اس زبان میں دھڑادھڑ ترجمہ ہوا۔پاکستان بنا تو ایک اسلامی ریاست کی قومی زبان بناکر اس زبان کی مذہبی حیثیت کو اور مستحکم کردیا گیا۔
ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ اردو اخباروں میں(جو ہندوستان سے شائع ہوتے ہیں)مسلمانوں کے مسائل کی نمائندگی کرنے سے فرصت نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ رمضان، عید، جمعہ اور دیگر مذہبی ایام کے لیے ضمیمے اور صفحات مختص کیے جاتے ہیں۔جبکہ اس کی بہ نسبت دوسری قوموں کے تہواروں پر اس قدر زور نہیں دیا جاتا۔مشاعروں میں جو غیر مسلم افراد حصہ لیتے ہیں، وہ اردو کو غیر شعوری طور پر اسلام کی نمائندگی کرنے والی زبان تسلیم کرچکے ہوتے ہیں، اس لیے ان کی گفتگو میں بھی السلام علیکم، ماشا اللہ، انشا اللہ اور بسم اللہ جیسے کلمات زیادہ شامل ہوتے جاتے ہیں، بعضے تو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے نعتیں اور حمدیں بھی لکھتے ہیں، مناقب کے پھول بھی چڑھاتے ہیں۔
اکثر اوقات پروگراموں میں ، سوشل میڈیا پر اس بات کی تشہیر کی جاتی ہے کہ اپنے بچوں کو اردو پڑھائیے، بصورت دیگر وہ اسلامی روایات اور دینی تعلیمات سے دور ہوتے جائیں گے۔مسلمان محلوں میں ایسے سینٹر جو کہ مذہبی تبلیغ کے فرائض انجام دیتے ہیں، اپنے پوسٹر خاص طور پر اردو میں شائع کرتے ہیں اور ان کی زبان جو کہ تقریر کے موقعوں پر استعمال ہوتی ہے، اردو ہی ہوا کرتی ہے۔تو سوال یہ ہے کہ ان تمام تر تکلفات کے باوجود اردو کا سیکولر رویہ ، جو کچھ ٹوٹے پھوٹے، خستہ حال اردو داں تخلیق کاروں کی وجہ سے قائم ہے، وہ کیا لوگوں تک یہ پیغام پہنچانے کے لیے کافی ہے کہ اردو کا کسی خاص مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کی بنیادی شناخت کوئی عربی یا فارسی آمیززبان کے طور پر نہیں ہے بلکہ وہی ہندی ہے، جسے ہم سنسکرت آمیز ہونے کی وجہ سے ٹھیک انگریزوں کی طرح ہندوئوں کی زبان سمجھتے ہیں۔
اردو کے تعلق سے جس قدر بھی نظریات موجود ہیں، چاہے وہ نصیرالدین ہاشمی کا نظریہ ہو کہ اردو ، دکن کی پیداوار ہے یا پھر محمود شیرانی کا کہ اردو پنجاب کے بطن سے پیدا ہوئی ہے یا پھر برج بھاشا، کھڑی بولی یا مختلف بولیوں یا اپ بھرنشوں یاپھر بھاشائوں/بھاکائوں سے نکلنے والی ایک میٹھی زبان کے مختلف نظریات۔ بھارت میں اب سے سو، سوا سو سال پہلے تک اس زبان کو ہندی کے طور پر مقبولیت حاصل رہی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فارسی ، عربی یا چند ترکی ولاطینی الفاظ کے شامل ہونے سے ہندی کا دامن وسیع ہوتا اور یہ زبان آج پورے کرہ ہند میں ایک ہی نام سے مشہور ہوتی، مگر انگریزوں کے زبان سے وابستہ کردہ ایک چھوٹے سے نظریے نے اس زبان کو ایک ایسا نام بخش دیا، جس کی کوئی تک ہی نظر نہیں آتی۔سوچنے کی بات ہے کہ ایک ایسی زبان، جس کی قواعد سراسر ہندی زبان سے مستعار لی گئی ہے، جس میں سینکڑوں سنسکرت، فارسی،عربی، انگریزی اور دوسری چھوٹی بڑی زبانوں کے الفاظ دھڑلے سے شامل ہوتے آئے ہیں اور جو اترپردیش سے لے کر پنجاب تک، دکن سے لے کر کشمیر تک اپنے مختلف اسالیب و چہرے رکھتی ہے۔اسے ایک ایسی جگہ سے منسوب کردیا گیا ہے جس کے بارے میں غالب انیسویں صدی کے وسط میں میر مہدی مجروح کو لکھ رہا تھا کہ شہر اجڑ چکا ہے ، بھائیں بھائیں کررہا ہے اور اب اس میں کوئی بھی اہل شہر باقی نہیں۔
اس تباہی سے مزید طور پر بچنے کے لیے بہتر تھا کہ ہم اردو لفظ کے پیچھے نہ پڑکر ‘ہندی’ کی بازیافت کرتے تاکہ انگریزوں کے جانے کے بعد ان کے چھیڑے گئے سازوں سے پیدا ہونےوالی دو قومی نظریے کی دھن اپنا کام نہ کردکھاتی۔لوگ مختلف زبانوں اور بولیوں کے باوجود خود کو ایک رشتے میں پروسکتے اور زبان کی نہ کوئی مذہبی شناخت ہوتی اور نہ ہی ایک مخصوص فرقے کے ساتھ اسے جوڑ کر دیکھا جاسکتا۔
اس مضمون کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ لفظ اردو کا استعمال ترک کردیا جائے یا اسے چھوڑ دیا جائے۔یہ لفظ اب ایک زبان کے طور پر تاریخی حقیقت بن کر ہمارے سامنے موجود ہے، مگر ضروری ہے کہ ہم اس کی تاریخ اور اس کی بنیادوں پر روشنی ڈالتے جائیں ورنہ نئے جہالت آمیز نظریے وقت کے ساتھ ساتھ اردو کی مذہبی شناخت کو مضبوط کرنے پر کمر بستہ رہیں گے اور ہندی اردو بولنے والوں کے درمیان موجود خلیج کو پاٹنے میں آئندہ نسلوں کو اور بھی دشواری ہوگی۔
One Response
Maulana Azad’s speech in the Constituent Assembly of India made many of these points as he wanted the link language (not national language) to be called Hindustani which would include both the “manak” Hindi and Urdu registers.