Laaltain

کرایہ دارانہ زندگی

23 جولائی، 2016
میں جس زندگی کو فخر سے کبھی کبھی گردن اکڑائے اور کمر تانے ہوئے گالی بکتا ہوں، کمبخت نے مجھے بڑے گھر جھنکوائے ہیں۔
میں جس زندگی کو فخر سے کبھی کبھی گردن اکڑائے اور کمر تانے ہوئے گالی بکتا ہوں، کمبخت نے مجھے بڑے گھر جھنکوائے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میں اس کے دانتوں میں پھنسی ہوئی ایک معصوم، دھڑکتی ہوئی ، منچی آنکھوں والی مخلوق ہوں، جس کے مقدر میں ستر دہلیزوں کا بھٹکنا لکھا ہو۔یہ سوچ کر مجھے بھی اب کبھی کبھار ہنسی آجاتی ہے کہ میں کیسے کیسے گھروں میں رہا ہوں، کتنی عجیب عجیب باتیں میرے ساتھ ہوئی ہیں اور میں نے بھی زندگی کی بساط پر پانسیں پھینکنے میں کئی بار کتنی مہارت سے کام لیا ہے۔کچھ گوٹیں الٹی بھی پڑی ہیں، کچھ گیندیں ترچھی بھی ڈلی ہیں مگر جیسے تیسے میں نے یہ سیاہ اور بدبودار زندگی ، جس پر نعمت اور فرحت کے کٹے پھٹے لیبل لگے ہیں ، ہنستے روتے گزار دی ہے۔

 

جب کبھی اس کرایہ دارانہ زندگی سے اکتاتا ہوں اور دل عاجز ہوجاتا ہے تو سوچتا ہوں کہ ہم میں اور مکان مالکوں میں کیسا فرق ہے۔تاریخ سے مدد لیتا ہوں تو وہ ایک چھوٹی سی جماہی لے کر ہمایوں اور اکبر کی مثال پیش کردیتی ہے۔ہمایوں جسے اپنا تخت و تاج، کاخ و کلاہ، زربفت و سرخاب و اطلس سب چھوڑ کر جنگل کی نکیلی گھانس پر پاؤں پسارنے پڑے تھے، کیونکہ اس نے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی تھی، اس بھگوڑ پن نے تاریخ کو سکھایا کہ جان پر آبنے تو بھاگ کھڑے ہو، جب بادشاہ بھاگا تو عوام کیوں نہ بھاگے۔مکان مالک، اکبر کی طرح ہوتے ہیں، ایک سخت مال کھسوٹنے والی ، خراج لینے والی بیرم خانی سوچ کے دامن میں پرورش پانے سے انہیں کم عمری میں ہی ہم جیسوں سے بھتہ وصولنے کا ہنر آجاتا ہے۔بس فرق ہے تو اتنا کہ اکبر نے لوگوں پر جزیہ معاف کیا تھا لیکن یہ کرایہ معاف کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔تاریخ نے ایک اور بات سکھائی تھی، بھاگو لیکن پلٹو۔۔۔زندگی جب شیر شاہ سوری کی طرح سرپٹ دوڑتی ہوئی تمہارے پیچھے بھاگے تو کہیں چھپ جاؤ، فوج جمع کرو، سرمایہ جمع کرو اور پلٹ کروار کردو، شب خون مارو، امداد لو مگر کچھ نہ کچھ کرکے اس ایرانی آفت کا قلع قمع کرو تاکہ دوسری چھوٹی بڑی آفتیں بھی اس سے عبرت پکڑیں۔لیکن ہمایوں اور ہم میں فرق اتنا ہی ہے جتنا کہ عام جنتا اور وجے مالیہ جیسے لوگوں میں ہوا کرتا ہے، وہاں بینکیں حاضری لگا رہی ہیں، بھوکوں، سیلز مینوں، چھوٹے موٹے سرمایہ داروں، تاجروں حتیٰ کہ گھریلو عورتوں کے خرچ کو بھی لے کر ایک ایسے شخص کے آگے کورنش بجا لا رہی ہیں، جو راتوں رات بینکوں کی قسمت بدلنے والا ہے، مگر راتوں رات تو دوسرے کام بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔ہم جنتا، اور وہ بھی ایسی کہ نہ کوئی پالن ہار، نہ کوئی بڑاویاپار اور اوپر سے اچھا خاصہ پریوار۔

 

میں اپنا گھر کیوں بناوں۔ یہ سوال بہت اہم ہے اور اپنے گھر کے وجود پر ایک طویل اور گہری فلسفیانہ بحث سے میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ آدمی کا اپنا گھر وہ قبر بھی نہیں ہوتی جس میں اسے کچھ لوگ سہارا دے کر لٹاتے ہیں،
بہرحال کرایہ دارانہ زندگی ایک آفت ہے۔میں جس محلے میں رہتا ہوں ، وہاں ننگی بلڈنگوں کی قطاریں کھڑی ہیں، چھوٹی چھوٹی پائریوں کو بالکنی کا نام دے کر ان کی تھوتھنیاں ہلکی سی لٹکادی گئی ہیں۔ حبس ہو، تو ان لٹکتے ہوئے ہونٹوں پر ہوا کی چھوڑی ہوئی نمی چاٹنے پہنچ جاؤ،برسات ہو تو ان کے نیچے ایک بڑا سا بےکار کپڑوں کا گٹھر ٹھونس دو اور سردی ہو تو اس تربتر ہونٹ کی جوانی سے آہوئے رم خوردہ کی طرح جان بچا کر بھاگو۔شیت لہریں چلتی ہوں یا لو ہلا بول رہی ہو، ان مکانوں کے دامن جھولتے رہتے ہیں۔ ہر گلی میں عبادت گاہیں، عبادت گاہوں کے سامنے مزید عبادت گاہیں اور ان سے اٹھتا ہوا ایک ایسا شور، جس کی تکرار سے جان بچا کر شیطان اور خدا دونوں بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔برسات میں آم کھانا دشوار، ہری مکھیوں کا شور، سیڑھیاں چڑھتے ہوئے، کوڑے دان میں سے گوشت تلاش کرنے والے تنو مندکتوں کا اندیشہ، بات بات پر بگڑ جانے والی خرانٹ بلیوں کا ہنگامہ، گھمس کے دوران بھی سڑکوں پر امڈی چلی آنے والی بھیڑ، سائیکل رکشوں، بیٹری والے رکشوں اور پیدل چلنے والے آدمیوں کے درمیان بھکاریوں کی مخصوص جگہیں، کریانے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں، چوبیس گھنٹے کھلے رہنے والے میڈیکل سٹور، کال سینٹر کی طرف جانے والی خوش پوش لڑکیاں، عطر میں سنی ہوئی ان کی گردنیں اور چھاتیوں پر رکھی ہوئی دو الٹی رکابیاں، چوک پر بیٹھے ہوئے پولیس والے، تاکتے جھانکتے لچے، آوازے کستے ہوئے نوجوان، لنگیاں سنبھالتے ہوئے بنگالی اور امنگوں اور ٹکنالوجی سے بھرے پھرے نوجوانوں کے تھان۔ یہ سب اب میری زندگی کا حصہ ہیں، اسی طرح جس طرح کرایہ دارانہ زندگی میری ذات کا جزو لاینفک بن گئی ہے۔ میں اپنے مکان میں نہیں رہنا چاہتا، یہ خواہش دھیرے دھیرے میرے دل میں گھر بناتی گئی ہے۔ میں اپنا گھر کیوں بناوں۔ یہ سوال بہت اہم ہے اور اپنے گھر کے وجود پر ایک طویل اور گہری فلسفیانہ بحث سے میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ آدمی کا اپنا گھر وہ قبر بھی نہیں ہوتی جس میں اسے کچھ لوگ سہارا دے کر لٹاتے ہیں، جو اس کے گھروالوں نے قبرستان کی کمیٹی سے کچھ مخصوص رقم دے کر خریدی ہوتی ہے، یہ مکان بھی کرایے کا ہے، اس میں جائیے، کیڑوں مکوڑوں کو دیے گئے معینہ مدت کے کانٹریکٹ کے مطابق اپنی کھال اور گوشت کا بندوبست کرائیے اور پھر ایک استخوانی صورت کی شکل میں اس مکان سے کہیں اور منتقل کر دیے جائیں۔

 

اچھی بات یہ تھی کہ میری کنڈلی پر کوئی سانپ نہ بیٹھا تھا بلکہ ہاتھی جھول رہے تھے، مگر ان لمبے دانتوں والے تگڑے جانوروں کا کوئی نشان دور دورتک اس ساحلی علاقے میں کہیں نہ تھا۔
میری کرایہ دارانہ زندگی کم سے کم پچھلے سولہ سترہ سالوں پر محیط ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے میں نے گھر نہیں تبدیل کیے، میرے تبدیل کیے جانے والے گھروں کی فہرست کافی طویل ہے۔جہاں میں پیدا ہواوہ گھر ہاتھی محلہ میں تھا۔ گج راج کے نام پر واقع اس محلہ سے میری کچھ عجیب و غریب یادیں وابستہ ہیں، میں ایک ایسے محلے میں پیدا ہوا تھا، جس کا نام دولت کے ایک دوت (سفیر) کے نام پر رکھا گیا تھا۔اچھی بات یہ تھی کہ میری کنڈلی پر کوئی سانپ نہ بیٹھا تھا بلکہ ہاتھی جھول رہے تھے، مگر ان لمبے دانتوں والے تگڑے جانوروں کا کوئی نشان دور دورتک اس ساحلی علاقے میں کہیں نہ تھا۔ ویسے سمندر اور ہاتھی، دونوں اپنی ذات میں بڑے وشال ہوا کرتے ہیں۔ وہاں سے ہم سلمیٰ منزل منتقل ہوئے، میں نے ہوش بھی سلمیٰ منزل میں ہی سنبھالا۔سلمیٰ منزل اور رحمت اللہ اپارٹمنٹ نام کی دو بلڈنگیں ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑی رہتی تھیں، ان کی چھت سے نمک کے کھیتوں میں کام کرنے والے ساحلی کسان، اس کے آگے ایک بڑے سے میدان میں کھیلتے ہوئے بچے دکھائی دیتے تھے۔یہ دونوں بلڈنگیں چال نما تھیں بلکہ ایک قسم کی چال ہی تھیں، جن کے ایک فلور پر قریب پانچ چھ گھر ہوا کرتے تھے۔ ہوش سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ہم سی بریز کمپلیکس میں شفٹ ہو گئے۔ یہ بلڈنگ ایک کرسچین بلڈر لیوپس نے بنوائی تھی، اس کا نام سی بریز(سمندری ہوا ) اسی لیے رکھا گیا تھا کیونکہ یہ سمندر کنارے آباد تھی۔ حالات کچھ ایسے ہوئے کہ چھ سال کا عرصہ سی بریز کے ایک تھری روم کچن کے فلیٹ میں گزار کر ہمیں پھر سلمیٰ منزل میں آنا پڑا۔ اور وہاں سے کرایے کی زندگی کا وہ طویل دور شروع ہوا، جس کے بھوت نے آج تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔

 

سی بریز اپنے آپ میں ایک بہت اچھا موضوع ہے، اس پر کبھی میں نے تفصیل سے لکھا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کیسے ایک اچھے کمپلیکس کے خواب کو یوپی کے مختلف گھرانوں نے مل کر طبیلے جیسی شکل دے دی اور رفتہ رفتہ اس بلڈنگ کا ماحول وسئی کے ایک قریبی جھونپڑ پٹی کے علاقے جیسا ہوگیا، جس کا طول وعرض کم از تین ہزار گز پر پھیلا ہوا تھا۔زندگی کے قرب کو دیکھنے اور محسوس کرنے میں اس جھونپڑ پٹی کا بڑا کردار رہا ہے۔ وہاں میرے کچھ دوست رہا کرتے تھے، اسی جگہ پر ایک جھونپڑی میں پردہ ڈلا رہتا تھا جہاں صبح سے شام تک سٹے بازی ،کیرم اور دوسری قسم کی قماربازیوں کا بازار گرم رہا کرتا۔پاس ہی میں ایک کنواں تھا، اس کنویں کی منڈیر بڑی چوڑی تھیں،اکثر کام والیاں گھروں سے کپڑے لے جاکر وہیں دھویا کرتی تھیں، خود ہمارے گھر کے کپڑے بھی وہیں دھلا کرتے تھے، جو کہ سنگیتا اور منجو نام کی دو مختلف کام والیوں کی خدمات کا نتیجہ تھے۔ کنویں پر ایک طرف عورتیں ڈول ڈال کر پانی نکال رہی ہیں،دوسری طرف لڑکے چھوٹی چھوٹی چڈیاں چڑھائے، گہرے کنویں کے شفاف پانی میں چھلانگیں ماررہے ہیں، ہم انہیں اپنے گھر کی گریل سے لٹکے لٹکے دیکھا کرتے تھے، اسی طرح کا ایک کنواں میرے بچپن میں موسیٰ جی گلی نام کے محلے میں بھی تھا، جس کی کوئی منڈیر نہیں تھی، میں اکثر خواب میں دیکھتا کہ میں اس کنویں کے پاس سے گزر رہا ہوں اور منڈیر نہ ہونے کی وجہ سے اس میں گر پڑا ہوں، کنویں کا ہرا اور پیلا چمکتا ہوا شفاف پانی، اس میں تیرتے ہوئے چھوٹے بڑے کچھوے اور ان کی پھیلی ہوئی ٹانگیں بڑی اچھی معلوم ہوتی تھیں۔

 

کنویں پر ایک طرف عورتیں ڈول ڈال کر پانی نکال رہی ہیں،دوسری طرف لڑکے چھوٹی چھوٹی چڈیاں چڑھائے، گہرے کنویں کے شفاف پانی میں چھلانگیں ماررہے ہیں، ہم انہیں اپنے گھر کی گریل سے لٹکے لٹکے دیکھا کرتے تھے،
اس سے پہلے کہ میں وسئی کی ان بھول بھلیوں میں کھو جاوں، وہاں سے باہر نکل آتا ہوں۔ وسئی میں جب ہم نے پہلا گھر کرایہ پر لیا تو اس وقت ہمیں ماہانہ سات سو روپے دینے ہوتے تھے، یہ ایک بہت چھوٹا سا کمرہ تھا، شاید دس پندرہ گز کا۔ یہ میں آج سے قریب سولہ سال پہلے کی بات بتا رہا ہوں، میری عمر اس وقت یہی کوئی چودہ برس رہی ہوگی، ہلکی ہلکی مسیں پھوٹ رہی تھیں، اس ایک کمرے میں ہمارا پورا خاندان مشکل سے پورا آتا تھا، ابا، امی، چار بھائی اور ایک بہن۔گھر میں چھوٹا سا باتھ روم تو تھا مگر رفع حاجت کے لیے ایک سرکاری ٹوائلٹ میں جانا پڑتا تھا، جہاں صبح صبح لوگ ہاتھوں میں لوٹا یا بالٹی لیے ایک ٹوٹے پھوٹے سیاہ لکڑی کے دروازے کے کھلنے بند ہونے کی فکر میں رہا کرتے تھے، مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب سی بریز کمپلیکس والے اپنے تھرڈ فلور کے فلیٹ سے میں سامنے موجود ایک ایسے ٹوائلٹ کو دیکھا کرتا تھا، جہاں صبح صبح ایک ساتھ کئی لوگ جایا کرتے تھے، تو بنیان اور لنگیوں میں بیڑی پیتے، پیٹ پر ہاتھ رکھے اور اپنی بالٹیوں کو پکڑے افراد مجھے واقعی بہت عجیب معلوم ہوتے تھے، میرے گھر میں تو اس وقت دو ٹوائلٹ موجود تھے، انگریزی بھی اور دیسی بھی۔ایسے میں کون کمبخت یہ تصور کرسکتا تھا کہ روز صبح اپنے پوٹے کی صفائی کے لیے بھی کچھ لوگوں کو اتنی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پیٹ اس انتظار پر بار بار یہ احساس دلاتا ہے کہ تم دنیا کے اس قدر ذلیل شخص ہو کہ تمہاری صبح ہی تذلیل کے ساتھ ، بدن کی گالیاں کھاتی ہوئی بیدار ہوئی ہے۔واقعی اس دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد یقینی طور پر زیادہ ہے، جن کے لیے دو وقت کا کھانا کھالینا ایسا ناقابل معافی جرم ہے، جس کی پاداش میں اگلے دن آنکھیں مسلتے ہوئے بدبودار ہنٹروں سے اپنی کمر سجانی پڑتی ہے اور ایک چھوٹے سے سیاہ قیٹ کمرے میں اکڑوں بیٹھ کر اچھا خاصہ وقفہ عجیب و غریب ابخرات کے ساتھ گزارنا پڑتا ہے۔

 

میں اپنے تبدیل کیے ہوئے گھروں کی روداد سنانے بیٹھ گیا تو اس مضمون کی عمر بہت لمبی ہوجائے گی اور میں اسے سہاگن بہو کی طرح لمبی عمر کی دعا نہیں دینا چاہتا، میں نے غریبی اور اس کے کرب کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے اور اس میں بہت زیادہ ہاتھ اس کرایہ دارانہ زندگی کا رہا ہے۔اس زندگی نے مجھے سکھایا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی شے، کوئی بھی چیز کسی کی ملکیت نہیں ہے۔ بقول مرزا شوق لکھنوی

 

کل جو رکھتے تھے اپنے فرق پہ تاج
آج ہیں فاتحہ کو وہ محتاج

 

انسان کا ویسے بھی کون سا گھر مستقل ہے، وہ معاش کی فکر میں ابتدائے آفرینش سے آوارہ گردی پر مجبور ہے، جہاں دو وقت کی روٹی اور عزت کی زندگی کا احساس ہوا، وہ ڈیرا ڈالنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اس ک ےباوجود وسئی سے نائے گاؤں، نائے گاؤں سے ممبرا، ممبرا سے دہلی اور دہلی میں شاہین باغ، ذاکر نگر، بٹلہ ہاؤس جیسے علاقوں میں رہنے کا مجھے تجربہ رہ چکا ہے۔ میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ کچھ عرصہ یوسف سرائے جیسے اچھے علاقے میں بھی رہ چکا ہوں، میں نے اپنی محبوباوں کے ساتھ لکشمی نگر اور نوئیڈا میں بھی وقت گزارا ہے۔ لوگ گھر کب بدلتے ہیں اور کیوں بدلتے ہیں۔ اس کا کوئی جواب نہیں، انسان کا ویسے بھی کون سا گھر مستقل ہے، وہ معاش کی فکر میں ابتدائے آفرینش سے آوارہ گردی پر مجبور ہے، جہاں دو وقت کی روٹی اور عزت کی زندگی کا احساس ہوا، وہ ڈیرا ڈالنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ میرے سب سے پہلے کرایےوالے گھر کی ایک بات مجھے بہت یاد آتی ہے، اس کے مالک مکان کا نام کیا تھا مجھے نہیں پتہ، مگر ان کے گھر والے انہیں صرف ‘انسان’ کے نام سے پکارتے تھے۔ہم اس وقت تو اس بات پر خوب ہنستے تھے، مگر کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میرا پہلا مکان مالک ‘انسان’ نامی آدمی تھا۔ بقول غالب، آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔لمبا قد، گورا رنگ، پٹھانی سوٹ اور گول چھیدوں والی ٹوپی، اس کے علاوہ گول اور سفید داڑھی مونچھوں والے اس شخص نے ہمیں کرایہ داری کا پہلا سبق سکھایا تھا، وہاں سے جب ہم کملا بائی نواس نامی بلڈنگ میں منتقل ہوئے تو کرایہ ایک ہزار ہوگیا، لیکن وہ گھر معقول تھا، وسئی میں اب بھی ایسے کئی مضبوط اور اچھے گھر ہیں، جن کا کرایہ دو تین ہزار سے زیادہ نہیں ہو گا، جبکہ ممبئی میں تو ڈپوزٹ کی رقم ہی اتنی ہوتی ہے کہ انسان تھوڑا سا حوصلہ اور کرے تو اپنا دس پندرہ گز کاگھونسلہ نما آشیانہ خود مضافات میں کہیں بناسکتا ہے۔

 

اس کے برعکس دہلی کےبہت سے متوسط رہائشی علاقوں میں بلڈنگیں اوبڑ کھابڑ ہوا کرتی ہیں، بھربھراتے گھر، جو برساتوں میں سیلن زدہ ، گرمیوں میں لو زدہ اورسردیوں میں نہایت پتلے دبلے معلوم ہوتے ہیں۔ ابھی جس گھر میں ، میں رہ رہا ہوں،اس سےپہلے والے گھر کو تو ہم نے چھوڑا ہی اس کی خستہ تر حالت سے مجبور ہو کر۔ ایک دیوار کی حالت تو اتنی ابتر تھی کہ اس پر جگہ جگہ اخبار چپکانے پڑگئے ، یہ اندیشہ ہی نہیں یقین تھا کہ اگر مزید چھ مہینے اس گھر میں گزار لیے جائیں تو دیوار کا پیرہن بھی پیکر تصویر کی طرح کاغذی ہی رہ جائے گا۔
اس وقت جب میں یہ مضمون کہیں درمیان سے ہی ختم کررہا ہوں تو میرا کمرے میں آر ڈی برمن کی تخلیق کردہ ہلکی موسیقی کی لہریں گونج رہی ہیں اور آنند بخشی کے یہ بول لہرا لہر ا کر میرا دھیان اپنی طرف کھینچ رہے ہیں، سو میں بھی یہ پردہ کھینچنے پر مجبور ہوچلا ہوں، آپ بھی ان الفاظ کے ساتھ اپنی کرایہ دارانہ زندگی کے لطف اٹھائیے اور اگر آپ خوش قسمتی سے مکان مالک ہیں تو کرایہ داروں کے ساتھ محبت کا برتاو روا رکھیے، ان کی مجبوریاں سمجھیے اور یاد رکھیے

 

صبح آتی ہے،شام جاتی ہے،یونہی
وقت چلتا ہی رہتا ہے رکتا نہیں
ایک پل میں یہ آگے نکل جاتا ہے
آدمی ٹھیک سے دیکھ پاتا نہیں
اور پردے پہ منظر بدل جاتا ہے
اک بار چلے جاتے ہیں جو دن رات صبح و شام
وہ پھر نہیں آتے
زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام
وہ پھر نہیں آتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *