رقص کو اعضاء کی شاعری کہا جاتا ہے، جو ہمیشہ سے جذبات کے اظہار، روحانی تطہیر، نغمگی کی داد اور کیف و تفریح سے لے کر قصہ خوانی تک جیسے کاموں کے لیے ایک نہایت لطیف میڈیم رہا ہے۔ رقص کا آغاز کھیتوں کھلیانوں اور کام کی جگہوں پر لوگوں کے ایک ساتھ مل کر کام کرنے سے ہوا۔ اس کے بعد مختلف لوگوں کے دماغوں اور جسموں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے دنیا کی ہر تہذیب میں اسے ایک باقاعدہ مشق کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔ مختلف مذاہب میں دیوتاوں کو خوش کرنے، روحانی پاکی حاصل کرنے، اور عبادت کے لیے مختلف جسمانی حرکات نے رواج پایا۔
برصغیر میں کلاسیکی رقص کی ابتداء مندروں میں ہوئی، جہاں دیوی دیوتاوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور ان کے قصے بدن اور چہرے کے تاثرات سے بیان کرنے کے لیے موسیقی اور رقص کا میڈیم اپنایا گیا۔ کتھک یہاں کے کلاسیکی رقوص کی آٹھ بڑی اقسام (بھرت ناٹیم، اوڈیسی، مانی پوری، کُچُوپُوڑی، کتھاکلی، موہِنی اٹَم، ستریہ، کتھک) میں سے ایک ہے۔ جس کی ابتداء کم و بیش ۵۰۰ سال قبل مسیح میں اُتر پردیش میں بتائی جاتی ہے۔ ۲۵۰۰ برس قبل مسیح سے تعلق رکھنے والی وادئ سندھ کی تہذیب سے ملنے والے مجسموں میں "رقصاں لڑکیاں” نامی مجسمے میں آج کے کلاسیکی رقص سے بہت سی مشابہتیں نظر آتی ہیں۔ کتھک کا لفظ سنسکرت کے "کتھا” سے نکلا ہے، اور نام سے ظاہر ہے کہ یہ رقص ذیادہ تر دیوتاوں سے منسوب رزمیہ داستانوں کو بیان کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ ہر صدی میں مذہبی پنڈتوں اور اپسراوں نے اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس کے نئے نئے انداز ایجاد کیے اور ان کو ضابطہ تحریر میں لے آئے۔ بھارت کے شہر متھیلیہ کی کامیشور لائبریری میں ایسے تمام قدیم مخطوطات اور کتب محفوظ کی گئی ہیں۔ مغلوں کی حکومت قائم ہوئی تو مسلمان مغل بادشاہوں نے اس رقص کو ناصرف سراہا بلکہ اس کی ترقی کی خاطر خواہ سرپرستی بھی کی۔ کتھک کے فنکار دربار کا لازمی حصہ بن گئے۔ مغل دربار کی زینت بننے کی وجہ سے کتھک میں ایران کے قدیم کلاسیکی ناچوں کی بہت حرکات و سکنات اور معنوی خصوصیات بھی اس کا حصہ بنتی گئیں اور جذبات اور واقعات کے اظہار کے لیے اس رقص کا دامن وسیع تر ہوتا گیا۔ کتھک میں دو بنیادی افعال تتکار (Footwork) اور ہستک (Hand Movement) میں سے ہستک کی اصل ایرانی ہے۔ مسلمان حکمرانوں میں مغل بادشاہوں کے ساتھ ساتھ نوابان اودھ کا بھی کتھک کی سرپرستی میں بہت قابل قدر کردار ہے۔ نواب سید واجد علی شاہ ناصرف اس فن کے بہت بڑے قدردان تھے بلکہ خود بھی اس فن میں کامل تھے اور اس کے طریقہ کار میں کئی ایک بنیادی اضافے بھی کیے۔ کتھک رقص میں استعمال ہونے والی موجودہ زبان اور اصطلاحات کا تمام بنیادی نظام ان کا ایجاد کردہ ہے۔ انہوں نے کتھک میں پیروں کے افعال (تتکار) کو مروجہ زاویے سے ہٹ کر کئی ایک نئے اور مختلف اقسام کے پرکاروں پر تشکیل دی اور نئے انداز وضع کیے۔ وشنو اور شیو کی کتھاوں پر ان کا حیران کن مظاہرہ دیکھ کر پنڈتوں کو یوں لگتا تھا کہ خدا نے ان کے جسم میں حلول کر لیا ہے۔اس وجہ سے ان کے زمانہ کے پنڈتوں نے انہیں "وشنو” کے لقب سے نوازا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو انگریزوں نے آغاز میں اس رقص کو بہت پسند کیا لیکن کتھک رقص کے روحانی اور تاریخی پہلووں میں انگریزوں کی دلچسپی بہت کم تھی، اس لیے کتھک رقص کے پیشہ سے وابستہ لوگوں نے اسے جاذب نظر بنانے کے لیے چند حسیاتی حرکات و سکنات کو اس میں شامل کیا اور نوجوان خاتون رقاصاوں کو اس کے لیے ترجیح دی جانے لگی۔ اس طرح نوآبادیاتی زمانوں میں یہ رقص نسبتا مسخ شدہ اور عریاں شہوانی شکلوں میں انگریز افسروں کو لبھانے کے کام آتا رہا۔ کتھک کے اس اخلاقی زوال کو دیکھتے ہوئے بیسویں صدی میں بنگالی گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون رقاصہ میناکو نے نئے سرے سے گلیمر اور شہوانی حرکات و سکنات سے پاک کر کے اس رقص کے روحانی و قلبی تطہیر کے پہلووں کو اجاگر کیا اور نوآبادیاتی دور کی آلائشوں کو دھو ڈالا۔
پاکستان بننے کے بعد کتھک رقص کے ہندو مذہب کے ساتھ تاریخی تعلق کی وجہ سے اس میں لوگوں کی دلچسپی بہت کم رہ گئی، لیکن پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس وقت کے کتھک رقص کے سب سے کامل استاد مہاراج غلام حسین کتھک ہجرت کے وقت پاکستان میں آ گئے، اور ۱۹۹۹ء میں اپنی وفات تک نئی نسلوں تک اس روایت کو منتقل کرتے رہے۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے ساتھ مشرقی پاکستان کے ماہر فن بنگالی رقاص اس نوزائیدہ ملک منتقل ہو گئے اور ملک میں کتھک کے اچھے فنکاروں کا حلقہ اور سکڑ گیا۔ ۱۹۷۹ء کے مارشل لاء کے بعد ملک میں دیگر بہت سے فنون لطیفہ کی طرح کتھک رقص بھی معتوب ہو گیا۔ اس پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی اور کسی بھی شخص کے پاس سے کتھک میں پہنے جانے والے خاص گھنگرو برآمد ہونے پر سزائیں دی جانے لگیں۔ بہت سے فنکاروں نے ملک چھوڑ دیا۔ مہاراج غلام حسین کتھک کی ہونہار شاگرد اور نامور کتھک رقاصہ ناہید صدیقی برطانیہ منتقل ہو گئیں۔کراچی میں گھنشیام کا "ردھمک آرٹ سنٹر” ناصرف حکومتی عدم سرپرستی کی وجہ سے بند ہو گیا، بلکہ استادگھنشیام کو جان سے مارے جانے کی دھمکیوں کی وجہ سے ملک چھوڑ کر امریکا جانا پڑا۔ ضیاء حکومت میں پاکستان ٹیلی وژن سے بند کیا جانے والا پہلا پروگرام "پائل” تھا جو رقص کے موضوع پر ہوا کرتا تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود سرکاری کارندوں سے چھپ کر اس رقص کے شائقین بند کمروں میں نجی محفلیں منعقد کرتے رہے اور اساتذہ آنے والی نسلوں کو اس کی تربیت دیتے رہے۔ ضیاء الحق کے زمانہ میں فنون لطیفہ کے خاتمہ کے لیے کی جانے والی قانون سازیوں کی وجہ سے آج بھی عوامی محافل میں کلاسیکی رقص کا مظاہرہ کرنے کے لیے سرکاری طور پر اجازت کے لیے نہایت توہین آمیز طور پر طویل قطاروں ، کاغذی کارروائیوں اور سرخ فیتے کے جبر سے گزرنا پڑتا ہے۔
کتھک رقص ایک کلاسیکی فن لطیفہ کے طور پر انحطاط پذیر ادوار سے ضرور گزرتا رہا ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ خوشی اور غمی کے اظہار، قصہ خوانی اورخدا کی حمد و ثنا اور عبادت کے لیے جسمانی حرکات و سکنات اور چہرے کے تاثرات کا استعمال انسانی سرشت میں ہے۔ اس جبلی ذریعہ ابلاغ کو کبھی بھی انسانی شخصیت سے منہا نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا مختلف چہرے بدل بدل کر یا پرانی روایتوں کے احیاء کی شکل میں رقص ہمارے سماج میں یونہی قائم و دائم رہے گا۔ نئی نسل کی کتھک رقص میں غیر معمولی دلچسپی اس امر کی ایک حوصلہ افزا دلیل ہے۔
(تحریر: حماد رشید)
(حماد رشید الحمراء آرٹس کونسل میں کلاسیکی رقص کے زیر تربیت فنکار ہیں)
(Published in The Laaltain – Issue 6)
Leave a Reply