Laaltain

کارٹون کا جمہوریت سے گہرا تعلق ہے: صابر نذر

21 اپریل، 2015
Picture of لالٹین

لالٹین

[blockquote style=”3″]

کارٹون کی طاقت آج کی صحافتی دنیا میں مسلّم ہے لیکن پاکستانی صحافت کا دامن فیکا، صابر نذر، میکسم اور جاوید اقبال کے علاوہ کسی بڑے نام سے خالی ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل صابر نذر کے رائے ساز کارٹون ان کی بے پناہ تخلیقی قوت کا اظہار ہی نہیں، پاکستان کی جمہوری اور ترقی پسند رائے عامہ کے عکاس بھی ہیں۔ان کے کارٹون تفنن طبع کے علاوہ سوچنے پربھی مجبور کرتے ہیں، وہ کبھی انتہا پسندی جیسے دقیق مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں تو کبھی دہائیوں پر محیط سیاسی قضیے کی قلعی کھولتے ہیں۔ لالٹین کے ساتھ خصوصی نشست میں انہوں نے اپنے فن اور کارٹون کی ضرورت پر کھل کر اظہار خیال کیا ۔ ذیل میں صابر نذر سے خصوصی گفتگو کا احوال لالٹین قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

[/blockquote]

 

لالٹین : آپ اپنے تعارف میں اکثر یہ لکھتے ہیں کہ آپ مصور بنناچاہتے تھے لیکن کارٹونسٹ بن گئے ایسا کیسے ہوا؟

 

صابر نذر: میں نے نیشنل کالج آف آرٹس میں آرکیٹکچر میں داخلہ لیا تھا، اور آرکیٹکچر میں بھی میرے استاد میرے کام کی بہت تعریف کرتے تھے۔ تھرڈ ایئر کے بعد مجھے لگا کہ میرا اصل میدان مصوری ہے سو میں نے آرکیٹکچر چھوڑ کر مصوری پڑھنا شروع کر دی۔تب تک میں نے یہی سوچ رکھا تھا کہ میں مصور بنوں گالیکن ہوا یوں کہ میرا ایک ہم کمرہ دوست لیاقت علی جو فرائیڈے ٹائمز میں کارٹونسٹ تھا، اسے دی نیوز اخبار میں کام مل گیا۔ اس نے مجھے کہا کہ میں ایک مہینے کے لیے اس کی جگہ فرائیڈے ٹائمز میں کارٹون بناؤںاور اگر اسے دی نیوز کا کام پسند نہ آیا تو وہ واپس آ جائے گا۔ لیکن وہ واپس نہیں آیا اور نجم سیٹھی نے مجھے کہا کہ آپ کا کام بہت اچھا ہے اور یہ کام فرائیڈے ٹائمز میں یوں ہے جیسے کوئی ہاتھ دستانے میں ٹھیک سے سماتا ہے۔ پھر میرا خیال تھا کہ میرا مصوری کا کام بھی سماجی اور سیاسی موضوعات پرمبنی تھا تو مجھے لگا کہ کارٹون نگاری کے ذریعے میں سیاسی مباحث سے زیادہ متعلق اور باخبر رہوں گایوں میرا کتھارسس بھی ہوتا رہے گا۔ اسی لیے میں خود کو اتفاقی کارٹونسٹ کہتا ہوں۔ میرا کارٹون نگاری کا باقاعدہ کیرئیر 1991ء میں فرائیڈے ٹائمز سے شروع ہوا اس سے قبل میں نے جو بھی کام کیا، وہ سیاسی و ثقافتی کارکن کی حیثیت سے کیا۔
جب تک تبدیلی کی خواہش ایک ثقافتی تحریک کی شکل اختیار نہیں کرے گی، تب تک حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔

 

لالٹین: اپنی کارکنانہ سرگرمیوں کے بارے میں کچھ بتائیے گا؟
صابر نذر:کالج کے دور میں 85 کے غیر جماعتی انتخابات سے پہلے ہم نے ضیا الحق حکومت کے خلاف ایک کامیاب تحریک چلائی۔ہوا کچھ یوں کہ سرکاری سطح پر اسلامی جمیعت طلبہ کے دباو کے تحت نیشنل کالج آف آرٹس کو پنجاب یونیورسٹی کے ماتحت کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو ہمیں منظور نہ تھا۔ بالآخر دو مہینے کی مزاحمت کے بعد حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اس کے علاوہ ہمیں ایم آر ڈی کی تحریک کا بھی حصہ رہا۔اسّی کی دہائی میں ہم نے ثقافتی کارکنوں کاایک گروپ بنایا تھا جس میں مختلف فنون لطیفہ جیسے تھیٹر، مصوری،موسیقی اور ادب سے وابستہ لوگ ہمارے ساتھ تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ جب تک تبدیلی کی خواہش ایک ثقافتی تحریک کی شکل اختیار نہیں کرے گی، تب تک حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔پھر پاکستان میں کوئی ایک واحد زبان نہیں بولی جاتی اور ہمیں تمام صوبوں اور تمام قومیتوں سے بات کرنے کے لیے ایک ایسا مشترک ذریعہ اظہار (Medium)چاہیے تھا جو لسانی حدود سے ماورا ہو۔تصویر اور موسیقی ان حدود میں مقید نہیں اس لیے بھی اس جانب رحجان ہوا۔
سرمد کے سر کاٹنے کا علامتی مطلب تو شعور کو جسم سے علیحدہ کرنا ہے۔ اس کہانی میں اساطیری پہلو یہ ہے کہ سرمد نے اپنا سر دوبارہ اٹھا لیا یعنی اس نے اپنے شعور سے منقطع ہونے سے انکار کیا۔

 

لالٹین: تبدیلی کے عمل میں آرٹ کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟کیا ایسے میں آرٹ محض پروپیگنڈہ کا آلہ بن کر نہیں رہ جائے گا؟

 

صابر نذر: میں آرٹ کو پروپیگنڈا کا آلہ نہیں سمجھتا لیکن ایک ثقافتی تحریک کے بغیر بڑی تبدیلی نہیں آتی۔ انقلاب فرانس کی مثال لیں، انقلاب سے پہلے وہاں مصوری کی ایک بہت شاندار روایت موجود تھی اور بعض شاہکار تو انقلاب فرانس میں نمائندہ حیثیت کی حامل ہیں۔ اسی طرح انقلاب روس کو لیں تو اس کے پیچھے ادب کی ایک پوری تحریک ہے۔ بہت سے کارٹون کئی ملکوں میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بنے۔ مثلا مشہور امریکی کارٹونسٹ تھامس ناسٹ (Thomas Nast) نیویارک کی ایک کرپٹ حکومت کے خاتمے کا باعث بنا۔ ابھی حال ہی میں ساوتھ افریقہ کا کارٹونسٹ شپیرو(Jonathan Shapiro) اپنے صدر کے متنازعہ کارٹون بنانے پر بہت مشہور ہوا ہے۔

 

لالٹین: مصوری میں کس طرح کا کام کیا اور کس طرح کے مضامین میں دلچسپی رہی ہے؟

 

صابر نذر:کالج کے دور میں میں نے جو مضمون منتخب کیا وہ شیخ سرمد کا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی مصوری میں تو بہت سے تاریخی اور اساطیری مضامین پر بہت سے بڑے آرٹسٹوں نے اعلیٰ پائے کا کام کیا ہوا ہے لیکن ہمارے مصوروں کے ہاں ایسے کام کا رواج کم ہے۔سرمد کا مضمون اس وقت ضیا دور کے سیاق و سباق میں بہت موزوں تھا کیوں کہ سرمد مغل بادشاہ اور نگزیب کی مذہبی تنگ نظری کے خلاف بغاوت کی علامت ہے۔ جب میں نے اسے ایک بڑے سے کینوس پر ڈرامائی ماڈلز کے ساتھ پینٹ کرنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ یہ تو صرف ایک تصویر ہے۔ اس میں اصل پیغام تو نظر نہیں آ رہا کہ سرمد کہتا کیا ہے اور اس کے مخالف جو سوچ ہے وہ کیا ہے۔ اس کے بعد میں نے مصوری کا اپنا انداز یکسر بدل دیا اور علامتی مصوری کا ڈھنگ اپنا یا۔ مجھے لگا کہ مہارت اور فن بے معنی ہے جب تک آپ کسی مفہوم کا ابلاغ نہ کریں۔ سرمد کے سر کاٹنے کا علامتی مطلب تو شعور کو جسم سے علیحدہ کرنا ہے۔ اس کہانی میں اساطیری پہلو یہ ہے کہ سرمد نے اپنا سر دوبارہ اٹھا لیا یعنی اس نے اپنے شعور سے منقطع ہونے سے انکار کیا۔ اس پیغام کو محض ایک تصویر میں دکھانا ممکن نہیں۔ اُس وقت جب مغربی آرٹ ہمارے کالج میں مقبول عام تھا، میں نے مقامی علامتوں کی مدد سے اپنی بات کہنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے دو تین نمائشیں کی ہیں جو خاصی کامیاب رہی ہیں۔ میاں اعجاز الحسن نے میرے کام کے بارے میں کہا کہ یہ ایک نئی بصری لغت (visual vocabulary) ہے۔ یہاں کے آرٹسٹوں نے مغربی مضامین کو پینٹ کیا ہے جیسے شاکر علی نے ایک یونانی اسطور لیڈا اینڈ سوان (Leda and the Swan) کو پینٹ کیا ہے لیکن میرا یہ کہنا ہے کہ ہماری علامتیں مقامی اساطیر اوردیومالا سے اخذ ہونی چاہیں۔
صابر نذر کی مصوری کی چند جھلکیاں

 

پورن بھگت

پورن بھگت

 

رانجھا

رانجھا

 

سرمد

سرمد

 

مال روڑ

 

لالٹین: کیا کارٹونسٹ اور مصوّر دو علیحدہ شخصیتوں کا نام ہے؟ آپ کے اندر کا مصور کارٹونسٹ بننے پر کیسے آمادہ اورمطمئن ہوا؟

 

صابر نذر: میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے، ویسے تو کئی پینٹنگز میں بھی کارٹون کی طرح تحیر اور مزاح کا پہلو ہوتا ہے، البتہ دونوں کے ذریعہ اظہاراور طریقہ کار میں فرق ضرور ہے۔چونکہ میری مصوری میں پہلے ہی سیاسی عنصر تھا لہذامیرے لیے کارٹون بنانا اتنا مشکل نہیں تھا۔ البتہ چوں کہ کارٹون نگاری اپنی جگہ ایک مکمل فن ہے اس لیے اس کی تکنیک سیکھنے میں مجھے کافی عرصہ لگا۔ پہلے دو تین مہینے تو سمجھ لیں مجھے دانتوں پسینہ آگیا۔ کارٹون کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے ہے کہ یہ محض شکل و شباہت بگاڑنے کا کام ہے اور بے حد آسان ہے اس کے برعکس میرے تجربے کے مطابق یہ ایک بے حد مشکل فن ہے۔آپ پکاسو کا کام دیکھیں جس کی مہارت اور فن لاریب ہیں،اُس کا آخری کامبھی مصوری کی نسبت کارٹون کے قریب ہے۔ بہت سے عظیم مصوروں جیسا کہ جارج گروس، ایڈورڈ منچ نے بھی اسی طرح کا کام کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کے لیے بہت ہی غیر معمولی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن میں اب بھی مصوری کو ہی اپنی بنیادی شناخت کہوں گا۔ مجھے مصوری کارٹون کے مقابلے میں کہیں زیادہ پسند ہے۔

 

لالٹین: ایک اچھا کارٹون کیسا ہوتا ہے؟
صابر نذر: کارٹون حالات حاضرہ پر آپ کا تبصرہ ہے۔ کارٹون بنانا دراصل تخفیف (reductionism)کا عمل ہے جس میں ایک مضمون اس کی بنیادی اور اہم ترین خاصیت پر مرکوز کرکے مزاحیہ انداز میںپیش کیا جاتا ہے۔ بطور فن کارٹون کے اپنے اصول ہیں اور اس میں جو طنزومزاح کا پہلو ہے وہ میرے خیال میں دو یکسر مختلف چیزوں کو آپس میں جوڑ دینے سے پیدا ہوتا ہے، لطیفےکی ساخت بھی یہی ہے۔مثلا بندوق کی نالی میں بیٹھا ایک طالب کہتا ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں۔ مصوری کے برعکس ایک کامیاب کارٹون یک رخی اور ایک مضمون پر مرکوز ہوتا ہے۔ پینٹنگ میں کی گئی مشق کی وجہ سے میرے کارٹون یک رخی نہیں ہوتے، ان کے معنی عموماً ایک سے زیادہ ہوتے ہیں۔ایک اچھا کارٹون وہی ہوتا ہے جو دیکھنے والے کو بے اختیار ہنسا دے، باقی پیغام ثانوی ہے۔ آر کے لکشمن کے بقول ایک اچھے کارٹونسٹ کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں؛ بے تحاشا مطالعہ، فنی مہارت اور حس ظرافت۔
ایک اچھا کارٹون وہی ہوتا ہے جو دیکھنے والے کو بے اختیار ہنسا دے، باقی پیغام ثانوی ہے۔

 

لالٹین: آپ کارٹون نگاری میں کس سے متاثر ہیں اور ذاتی پسندیدہ کارٹونسٹ کون سے ہیں؟

 

صابر نذر: مجھے مشہور فرانسیسی مزاحیہ خاکوں کی سیریز ایسٹرکس (Asterix)کے خالق کا کام بہت پسند ہے۔ ایک امریکی میگزین Mad کے آرٹسٹوں میں Mort Drucker اور Jack Davis کا کام بہت پسند ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے Steve Bell کا کام بہت اچھا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی کارٹونسٹ آر کے لکشمن، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، مجھے بہت پسند ہے۔ لکشمن اور Asterix کے کارٹون نگاروں کی ڈرائنگ کی تکنیک بنیادی طور پر مشرقی روایت سے مخصوص ہے، ان کی تکنیک یورپی ڈرائنگ کی بجائے ہندوستانی اور چینی ڈرائنگ کے قریب ہے (شاید بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق نہ کریں)۔
کارٹون قصیدہ نہیں ہجو ہے اور ہجو میں سب اچھا نہیں لکھا جاتا ، اس کا مقصدہی تنقید، طنز، مزاح اورطعن ہے اورطنزومزاح مکمل طور پرغیر متنازعہ نہیں ہو سکتا ۔

 

لالٹین: پاکستان میں کارٹون نگاری کی روایت کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

 

صابر نذر: پاکستان میں کارٹون نگاری کی تاریخ بہت قدیم نہیں ہے۔ آپ دیکھیں کہ برصغیر کی تاریخ کا پہلا کارٹونسٹ شنکر ہے جس نے یہ کام 1941میں شروع کیا۔ پاکستان میں غالباً سب سے پہلے پاکستان ٹائمز میں کارٹون چھپناشروع ہوا۔ یہاں انگریزی اخباروں کی حد تک تو کارٹون کی روایت رہی ہے مگر اردو اخباروں میں اس جانب توجہ کم ہے۔ صرف ایک اردو اخبار جنگ میں کارٹون چھپتا ہے مگر اسے بھی بھرتی کی چیز (Filler)کی طرح برتا جاتا ہے۔ انگریزی اخباروں میں کارٹون کی موجودگی برطانوی روایت کا اثر ہے۔ پاکستان میں کارٹون کو جس آدمی نے مقبول کیا ہے وہ فیکا ہے،جس نے ضیا کے مارشل لا کے دور میں سب کی توجہ حاصل کی، میں صرف فیکا کا کارٹون دیکھنے کے لیے اخبار خریدتا تھا۔ تبھی پہلی دفعہ ادارتی صفحے پر کارٹون کی جگہ تسلیم ہوئی۔ اس کے علاوہ ظہور کا کام بھی بہت اچھا ہے۔ کارٹون نگاری کی طرف رحجان کم ہونے کی ایک وجہ معاشرے میں مزاح کی کم زور روایت بھی ہے۔ میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں طنز و مزاح کو وہ قبولیت اور پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ ہمارے ہاں سینکڑوں کالم نگار ہیں مگر ان میں مزاح نگار دو ایک ہی ہیں۔یہاں پر تو یہ بحث ابھی تک ہو رہی ہے کہ تصویر بنانا جائز ہے یا نہیں۔

 

لالٹین: کارٹون اکثر متنازعہ ہوتے ہیں ایسا کیوں ہے؟مثبت قسم کے کارٹون کیوں نہیں بنائے جاتے؟آپ کے کئی ناقدین کا تو یہ کہنا ہے کہ آپ ہمیشہ منفی چیزیں ہی دکھاتے ہیں؟

 

صابر نذر:کارٹون کا کام اچھی، تعمیری اور مثبت باتیں کرنا نہیں ہے البتہ مجموعی طورپر اس کا کردار مثبت ہی ہے۔کارٹون کا متنازعہ ہونا فطری ہے، یہ تونام ہی قضیے (Controversy) کاہے۔ کارٹون قصیدہ نہیں ہجو ہے اورہجو میں سب اچھانہیں لکھا جاتا ، اس کا مقصدہی تنقید، طنز، مزاح اورطعن ہے اورطنزومزاح مکمل طورپرغیرمتنازعہ نہیں ہو سکتا ۔ Victor S. Navaskyکی کارٹون پر ایک مشہور کتاب کا نام ہیThe Art of Controversyہے۔ کارٹون کبھی تمام لوگوں کو پسند نہیں آتا،کچھ لوگ اس سے ناراض ہوں گے تو کچھ اسے پسند کریں گے۔ کارٹون تیکھے اور حساس موضوعات کو ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں پیش کرنے کا نام ہے اسی لیے یہ فسطائی اور جابرانہ ماحول میں پرورش نہیں پا سکتا۔
میرا خیال ہے کہ کارٹون کا جمہوریت سے گہرا تعلق ہے۔ آپ دیکھیں کہ طنز یا satire کی روایت ایتھنز کی جمہوریت سے چلی آتی ہے جس میں طنزیہ کھیل سٹیج ہوتے تھے جن میں حکمران، اشرافیہ اور امراء پر تنقید کی جاتی تھی۔ کارٹون تو وہیں پھلے پھولے گا جہاں تنقید کی آزادی اور جمہوریت ہو گی۔ آپ ہندوستان کی مثال لیجیے وہاں کارٹون اخبار کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ہمارے ہاں تنقید کی آزادی اْس طرح سے نہیں رہی۔

 

لالٹن: آپ جس کامیابی سے شدت پسندوں اور غیر جمہوری قوتوں پر چوٹ کرتے ہیں، اس کا رد عمل تو آتا ہو گا؟ ان حالات میں امید کی کوئی کرن اور نوجوانوں سے توقعات وابستہ کرنے کا کوئی امکان ہے؟

 

صابر نذر:مجھے اپنے کام سے متعلق جس منفی رائے عامہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے میں اسے منفی انداز میں نہیں لیتا۔بہت سے لوگ میرے خلاف ہونے والے پروپیگنڈہ کی وجہ سے میرے کام سے متعارف ہوتے ہیں۔ نوجوان زیادہ جذباتی اور مثالیت پسند ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں جمہوری شعور بڑھے گا۔ میں خود بھی پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں کافی پر امید ہوں۔

2 Responses

  1. Lakin cartoonist ager lifafa ho jesa k sabir nazar, to yeh nihayat bora hota hay. sabir nazar kabi ppp k kilaf cartoon naeen banata, us ko Imran khan k cartoon banana acha lagta hay q k lifafay miltay haan. Shame on him

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

2 Responses

  1. Lakin cartoonist ager lifafa ho jesa k sabir nazar, to yeh nihayat bora hota hay. sabir nazar kabi ppp k kilaf cartoon naeen banata, us ko Imran khan k cartoon banana acha lagta hay q k lifafay miltay haan. Shame on him

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *