رفاقت حیات کے ناول ‘میر واہ کی راتیں‘ کی دیگر اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
ٹھری میرواہ واپس پہنچنے کے بعد وہ کچھ روز تک دکان پر نہیں گیا۔ نجانے کیوں ایک جگہ بیٹھ کر کام کرنے کے خیال سے ہی اسے وحشت ہونے لگی تھی۔ مگر اس کے لیے سارا دن گھر پہ رہنا بھی ممکن نہیں رہا تھا۔ چاچی خیرالنسا کے لیے اس کی آنکھوں سے حیا ختم ہو گئی تھی۔ وہ جب چولھے پر جھکتی تو وہ ڈھٹائی سے اس کے جسم کی طرف دیکھنے لگتا اور ٹکٹکی لگائے دیکھتا ہی رہتا۔
ایک شام وہ صحن میں پیڑھی پر بیٹھی وضو کرتے ہوئے اپنی ایڑیوں کا میل اْتار رہی تھی۔ بے دھیانی میں اس نے اپنی شلوار گھٹنوں تک کھینچ لی تھی۔ نذیر کو انہیں تاکنے کا موقع مل گیا۔ اس کی پنڈلیاں اسے بہت گداز محسوس ہوئیں۔ چاچی نے معاً اس کی طرف دیکھا تو اس کی بے حیا نظروں سے وہ جھینپ کے رہ گئی اور فوراً اْٹھ کر جانماز پر نماز کی نیت باندھ کر کھڑی ہو گئی۔
وہ انتظار میں رہنے لگا تھا کہ وہ اسے چارپائی پر سوئی ہوئی نظر آ جائے۔ ایسے میں اس کی قمیض ذرا سی کھسک جاتی تھی اور اس کا لو دیتا بدن جھانکنے لگتا تھا۔
اگر کبھی اسے غسل خانے میں چاچی کے لٹکے ہوئے ریشمی کپڑے مل جاتے، وہ ان کی ملائمت محسوس کرنے کی خاطر انہیں اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھوتا اور اپنے ہونٹوں سے لگا کر چومتا۔
اس کے لیے چاچی سے گفتگو کرنا مزید مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس سے باتیں کرتے ہوئے اچانک اس کی نظریں اس کے بدن پر بھٹکنے لگ جاتی تھیں۔ وہ اس کے گداز بھرے بازو کو دیکھنے لگتا تو خودبخود اس کی زبان میں لکنت پیدا ہو جاتی۔ اسے موقع محل کے مطابق مناسب لفظ نہ سوجھتا اور وہ جملوں کو توڑ کر بچوں کی طرح بولنا شروع کر دیتا۔
ایک بار وہ دیر تک پورے انہماک اور سنجیدگی کے ساتھ اس سے دست درازی کرنے کے متعلق سوچتا رہا مگر ایسا کرنے کی وہ اپنے اندر ہمت محسوس نہیں کر سکا۔ اسے لگتا تھا کہ چاچی جان بوجھ کر اس کی آنکھوں کے لیے منظر بناتی تھی لیکن اس کی بے لگام آنکھوں کو برداشت بھی نہیں کر پاتی تھی۔ اس کا لگاتار دیکھنا بھی اسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ جلد ہی بیزار ہو جاتی اور اس کے چہرے پر تنفر اور بیزاری کے آثار پیدا ہو جاتے اور وہ فوراً اپنا جسم ڈھانپنا شروع کر دیتی۔ کئی مرتبہ اس نے اس کی بے معنی سی بڑبڑاہٹ بھی سنی تھی۔ اس عورت کے سامنے دل کھولنا آسان نہیں تھا۔ وہ سوچتا، دوری کے اس سراب کے درمیان قرب کا دھوکا شاید ختم ہو جائے۔ وہ دونوں جہاں پر تھے، کیا پتا آنے والے دنوں میں اس سے اور زیادہ پیچھے چلے جائیں۔
چاچی خیرالنسا کے وجود سے اٹا یہ مکان اکثر اسے کاٹنے لگتا۔ اس لیے وہ صبح سویرے گھر سے نکل جاتا اور شام کو واپس لوٹتا۔ وہ شمیم سے دوبارہ ملنا چاہتا تھا۔ ملاقات کا ڈول ڈالنے کی اس نے پوری کوشش کی مگر اس کے کسی بھی پیغام کا مثبت جواب نہیں آیا۔ جب اس نے پکوڑافروش سے اس کی وجہ جاننی چاہی تواس نے بتایا کہ وہ عورت ذات ہے، تھوڑابہت نخرہ تو کرے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس رات کے پچھلے پہر درازہ شریف کے قبرستان کا ماحول بہت خوفناک تھا۔ شاید اس پر کوئی اثر ہو گیا ہو اور کسی آسیب یا سائے کی وجہ سے وہ اس سے ملنے سے گریز کرنے لگی ہو۔
نذیر نے نورل کی اس بات کو من گھڑت سمجھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس رات کے بعداب شمیم اس سے اپنا تعلق ختم کرنا چاہتی ہے۔ وہ حیران تھا کہ اس سے ملنے کی خاطر دو مرتبہ خطرہ مول لینے کے بعد وہ اب کیونکر محتاط ہو گئی تھی۔ دوسرے رقیب کا خدشہ بھی خارج از امکان نہیں تھا یا پھر ہو سکتا ہے کہ اس کے ٹیلی فون آپریٹر شوہر کے کان میں ان کے پیار کی بھنک پڑ گئی تھی۔
اسے نورل پر بھی شک ہونے لگا تھا کہ اس نے اس کے شوہر سے مل کر سازباز نہ کر لی ہو یا نذیر سے دوستی کی آڑ میں اس کے لیے بھڑوت گیری کرنے سے وہ بیزار نہ ہو گیا ہو۔ مگر شاید اس کا خیال غلط تھا کیونکہ پکوڑافروش ویسے کا ویسا ہی تھا۔ وہ اب اس سے روپے بھی نہیں لیتا تھا۔
ایک مرتبہ اسے یہ اذیت ناک خیال آیا کہ شمیم سے ملاقاتوں میں دونوں مرتبہ وہ اپنی بھرپور مردانیت کا مظاہرہ نہیں کر سکا تھا۔ اسی لیے وہ اس سے روٹھ گئی اور اس کے حصے میں چند بوسوں کے علاوہ کچھ نہیں آ سکا۔ وہ چند بوسے اسے بہت ناکافی محسوس ہو رہے تھے۔ وہ اس کے وصل کی پوری لذت سے بہرہ یاب ہونا چاہتا تھا۔
شمیم کے ہجر کے ان روزوشب میں وہ خود کو زیادہ اکیلا محسوس کرنے لگا تھا۔ حیدری مذاق کے طور پر اسے جو طعنے دیتا اور جو پھبتیاں کستا، وہ اس کی تکلیف کو مزید بڑھا دیتیں۔ وہ سمجھنے لگتا کہ اپنی کم ہمتی اور ناتجربہ کاری کے سبب اس نے خود کو ایک شادی شدہ عورت کی نظروں میں بے وقعت ظاہر کر دیا تھا، اسی لیے اب وہ اس سے ملنے سے گریز کر رہی تھی۔
کچھ نئی عادتیں اور نئے مشغلے بھی اس کی اذیت کو کم نہیں کر سکے۔ اگرچہ قصبے کی ساری گلیاں اور سارے مکان اس کے دیکھے بھالے تھے، اس کے باوجود وہ بہت سا وقت آوارہ گردی میں گزارنے لگا۔ اس دوران راستے میں اسے کوئی لڑکی یا برقع پوش عورت نظر آتی تو وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کر دیتا۔ وہ خاتون یا لڑکی جس مکان میں داخل ہوتی وہ اس کے دروازے پر ٹکٹکی لگائے اس گلی میں جا کھڑا ہو جاتا اور خوامخواہ اس مکان کی دیواروں کے رخنوں اور دروازے کی درزوں سے جھانکنے لگتا۔ کبھی کبھار کوئی آدمی اس کی اس حرکت کا برا منا کر اسے للکارتا تو وہ فوراً وہاں سے بھاگ کھڑا ہوتا۔
قصبے کی دکانوں پر ویڈیو گیم اور کیرم بورڈ، ڈبّو اور بلیئرڈ کھیل کھیل کر اس کی طبیعت اب ان سے بھی سیر ہو گئی تھی۔
وہ شمیم کے نرم و لذیذ لمس اور بوسوں کو فراموش کرنا چاہتا تھا۔ جب تک اس نے اس کے شوہر کو نہ دیکھا تھا، تب تک وہ اپنی تصوراتی دنیا میں خود کو اس کے پرشباب اور پرلطف جسم کا اکلوتا مالک سمجھتا تھا، مگر اب ٹیلی فون آپریٹرایک ایسی حقیقت بن کر سامنے آ چکا تھا اس کے لیے جسے جھٹلانا ناممکن تھا۔
وہ یہ سوچ کر کڑھتا رہتا اور دل ہی دل میں تاؤ کھاتا رہتا کہ وہ ٹیڑھا بینگا شخص اس جسم کا یکہ و تنہا مختار تھا۔ وہ اس کے نکاح میں داخل تھی۔ اس کے روزوشب اس شخص کی خاطرمدارات میں بسر ہو رہے تھے۔ وہ جب چاہتا، اس سے خلوت میں وصل کی لذت سے ہمکنار ہو سکتا تھا۔ نذیر کے لیے سب سے کربناک بات یہی تھی۔ یہ ہر وقت اس کے ذہن پر مسلط رہتی تھی اور اس کے لیے اس سے نجات پانا ممکن نہیں تھا۔ جب بھی ان خیالات کی اذیت ناکی حد سے بڑھنے لگتی تو وہ دانت کچکچانے لگتا، بے بسی سے اپنی مٹھیاں بھینچتا اور ہیجانی انداز میں زیرِلب بڑبڑاتا۔ “وہ گہرے سرور سے بھری ہوئی ایک صراحیِ مے ہے جو پوری کی پوری اس کڈھب آدمی کی دسترس میں ہے۔”
اس پر یہ مجنونانہ کیفیت عارضی طاری ہوتی۔ جب وہ اس کیفیت سے باہر آتا تو سکون کے لمحوں میں اپنے آپ کو سمجھانے لگتا۔ اس کی زندگی میں وہ پہلی عورت تھی جس نے اس کے غیرسنجیدہ رومان کا جواب پورے خلوص اور سنجیدگی سے دیا تھا۔ وہ اس رات صرف اس کی خاطر اپنے گھر، اپنے شوہر، اپنے گرم بستر اور لحاف کو چھوڑ کر اس سے ملنے آئی تھی۔ وہ اس کی دست درازی اور اس کی بوسہ بازی کو برداشت کرتی رہی تھی۔ وہ ہرگز کوئی فاحشہ نہیں تھی اور نہ ہی قیمتی چیزوں پر مرنے والی تھی۔ شاید اسے محبت کی ضرورت تھی، اور وہ اس کی یہ ضرورت پوری کرنے کو تیار تھا۔ اس نے اپنی بے لگام جسمانی خواہشوں کو ملعون و مطعون قرار دیا۔
کیا وہ پردہ نشین شمیم کے لیے اپنے دل میں محبت محسوس کرنے لگا تھا؟ اس کے لیے اپنے بدن میں اٹھتے طوفانوں اور ہیجانوں کو محبت قرار دینا بہت مشکل تھا۔ یہ کوئی اور ہی چیز تھی، محبت سے بھی زیادہ گہری، پراسرار اور عمیق چیز۔
بہت سوچ بچار کے بعد بالآخراس نے فیصلہ کیا کہ شمیم کو ایک آخری تحفہ بھجوائے۔ ہو سکتا ہے، تحفہ پا کراس کے دل میں امڈ کر ہیجان برپا کرنے کے بعد یخ بستہ ہونے والے اس کے پرجوش جذبات کی پرانی رو ایک مرتبہ پھر عود کر آئے۔ یہی خیال ذہن میں لا کر وہ رحیم سنار کے پاس گیا جو قصبے کا پرانا اور مشہور زرگر تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید زیور کے تحفے کی بدولت اس سے دوبارہ ملنے کی سبیل نکل آئے۔
زیورات کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ وہ زرگر گلی میں واقع میلے کچیلے شوکیسوں والی ایک دکان میں داخل ہوا تو اپنے کام میں مصروف بوڑھے سنار نے اپنا سر اٹھا کر ٹوہ لینے والی نظروں سے اسے دیکھنے کے بعد، مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ اس نے اپنے ایک ہاتھ میں پکڑا جلتا ہوا دِیا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑا زیور ایک طرف رکھ دیا اور اپنے نوجوان گاہک کی طرف متوجہ ہوا۔
نذیر میلی کچیلی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا، “میں نے آپ کے کام کی بہت دھوم سنی ہے۔ مجھے آپ سے ایک چھوٹا سا زیور بنوانا ہے۔ “
اپنی تعریف سن کر بوڑھا زرگر ہنسا، پھر اپنی موٹے شیشوں والی عینک کو اپنی میلی قمیض سے صاف کرتے ہوئے بولا، “عزت اور ذلت دینا میرے رب سائیں کا کام ہے، میرا کام صرف محنت کرنا ہے۔”
نذیر نے اس سے ہار بنانے کی فرمائش کرتے ہوئے کہا کہ ہار بے شک چاندی کا بنا ہوا ہو مگر پہلی نظر میں دیکھنے پر وہ سونے کا معلوم ہونا چاہیے۔ اس کی چمک اتنی جلدی ماند نہ پڑے اور اس کی قیمت بھی بہت زیادہ نہ ہو۔
نذیر کی باتیں سن کر رحیم سنار کو اس کے دل تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
“یہ کام تو میرے بائیں ہاتھ کا ہے۔ مگر میں اس کے پیسے ایڈوانس لوں گا۔”
نذیر نے مطلوبہ رقم زرگر کے حوالے کی تو وہ کہنے لگا کہ پرسوں آ کر وہ اپنا ہار لے جائے۔ نذیر دکان سے مطمئن ہو کر باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نذیر کی دکان سے لگاتار غیرحاضری پر چاچا غفور یہی سمجھتا رہا کہ اب تک اس کے بھتیجے کی صحت بہتر نہیں ہے۔ وہ ہر روز نذیر کو گھر میں سوتا ہوا چھوڑ کر اکیلا ہی دکان پر جاتا رہا۔ جب دکان سے اس کی غیرحاضری طول پکڑنے لگی تو چاچے کے دل میں شبہات سر اٹھانے لگے۔ اس نے ان شبہات کو کچل کر دل سے نکالنے کی بہت کوشش کی، مگر ان کی خودسری بڑھنے لگی۔ اس نے یعقوب کاریگر کو اپنے اندیشوں میں شریک نہیں کیا۔ سْبکی کے خوف سے پہلی بار اس نے کاریگر سے کوئی بات چھپائی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید وہ اس کا مذاق اڑاتا اور اس کے لیے زندگی بھر کے لیے کوئی پھبتی ایجاد کر لیتا۔ اسی خوف کے سبب اس نے اسے شاملِ راز نہیں کیا۔
جب اس کے دل میں پہلے شک نے رینگتے ہوئے جگہ بنائی تو وہ بہت جزبز ہوا تھا اور اس نے اسے پوری شدت سے رد کرنے کی کوشش کی تھی، مگر وہ کانٹے کی طرح اس کے دل میں پیوست ہو گیا تھا۔ اس نے خود کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ اس کا بھتیجا ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ وہ اسے اچھی طرح جانتا تھا۔
روزانہ گھر سے نکلتے وقت وہ برآمدے میں کھاٹ پر بے سدھ سوئے نذیر کو گھور کر دیکھتا۔ اس وقت اسے محسوس ہوتا کہ وہ رضائی کے نیچے آنکھیں کھول کر لیٹا ہو گا اور اس کے گھر سے جانے کا انتظار کر رہا ہو گا۔ بوڑھا درزی ایسے خیالات کو جھٹکنے کے لیے باربار اپنا سر ہلانے لگتا، اور گھر کی دہلیز سے نکلتے وقت اس کا دل ڈوبنے لگ جاتا۔ گلی میں چلتے ہوئے باربار اس کے قدم ٹھٹک کر رک جاتے۔ وہ مڑ کر لمحہ بھر کے لیے سوچتا مگر گھر لوٹنے سے ہر بار گریز کرتا۔
دکان پر تمام دن وہ اسی ادھیڑبن میں مبتلا رہتا۔ شام کو جب واپس لوٹتا تو گھر کے کونوں کھدروں میں جھانکتا پھرتا، جیسے کوئی ثبوت تلاش کرنا چاہتا ہو۔ وہ باتوں کے دوران اپنی بیوی کو کرید کر بھتیجے کے رویے اور اس کی عادتوں کے متعلق پوچھتا رہتا۔
چاچی خیرالنسا کے گمان میں نہیں تھا کہ اس کے ذہن میں کیسے خیالات رینگ رہے تھے۔ اس کی ذہنی حالت سے بے بہرہ، وہ عام سے انداز میں اسے دن بھر کی مصروفیات کا احوال سنا دیتی۔ اس کی باتیں سنتے ہوئے چاچا اس کے چہرے کو گہری نظروں سے گھورتا رہتا۔ پھر مایوس ہو کر،کوئی خاص بات معلوم نہ کر سکنے کے دکھ میں مبتلا ہو کر وہ ٹھنڈے سانس بھرنے لگتا اور اپنے ایک ہاتھ کی مٹھی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتا رہتا۔
نذیر چاچے غفور کے بدلتے تیوروں اور رویوں پر حیران تھا۔ اب وہ نذیر سے کم ہی بات کرتا تھا اور اکثراوقات ٹوہ لینے والی نظروں سے اسے گھورتا رہتا تھا۔ نذیر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔
ایک روز دوپہر کو اچانک کام روک کر وہ یعقوب کاریگر سے بہانہ بنا کر دکان سے نکلا۔ وہ پْرامید جوش میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنی گلی میں داخل ہوا۔ مگر جوں جوں گھر کے قریب پہنچنے لگا، اس کے اوسان خطا ہونے لگے۔ کچھ اور آگے جا کر اس کا سر چکرایا اور پاؤں ڈگمگائے مگر اس نے خود کو سنبھال لیا۔ وہ گھر کے دروازے تک پہنچا اور کچھ دیر تک کان لگائے وہاں کھڑا رہا مگر اسے اندر سے کوئی آواز نہیں سنائی دی۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ یہاں سے اندر داخل ہوا تو وہ لوگ اس کے قدموں کی چاپ سن لیں گے۔ وہ برسوں سے مقفل دروازے پر گیا جس کا راستہ دوسری گلی سے تھا جو ایک بند گلی تھی۔ وہ وہاں کھڑا بند گلی کو دیکھتا رہا۔ اس کے گھر کی پرانی دیوار زیادہ اونچی نہیں تھی۔ پہلی بار دروازے پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ پیٹھ کے بل گلی کے کنارے پر بنی ہوئی نالی میں گرتے گرتے بچا۔ دوسری مرتبہ اس نے دروازے پر مضبوطی سے پیر جمایا اور کنڈی کے لوہے کو زور سے پکڑ کر گھر کے پچھلے حصے میں کود گیا۔ غسل خانے کی طرف سے کپڑے دھونے کی دھپ دھپ سن کر اسے سخت مایوسی ہوئی۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ اس جانب سے گھر میں داخل ہوا تو وہ اسے دیکھ کر پریشان ہو جائے گی۔ وہ چپکے سے دبے پاؤں واپس چلا گیا، مگر شک کا کانٹا کسی طور اس کے دل سے نہیں نکل سکا۔
شام کو دکان سے واپس آنے کے بعد اس نے دبے لفظوں میں نذیر سے دکان پر نہ آنے کی شکایت کی تو ندامت محسوس کرتے ہوئے اس نے اگلے دن دکان پر جانے کا وعدہ کر لیا۔
نذیراگلی صبح دکان جانے کے لیے تیار ہو کر گھر سے نکلا، مگر اس کے قدم اسے بہکا کر میرواہ کے کنارے واقع چائے خانے پر لے گئے جہاں اس کی مڈبھیڑ نورل سے ہو گئی۔ اس کے ہمراہ چرس پینے کے بعد دکان جانے کا خیال اس کے ذہن سے نکل گیا۔ اس نے چاچے غفو رکے حکم کی نافرمانی کی اور مزید کچھ روز تک جان بوجھ کر دکان نہیں گیا۔ چاچے نے اپنے بھتیجے کی ہٹ دھرمی دیکھتے ہوئے اسے دوبارہ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔
چاچا غفور نہیں چاہتا تھا کہ اس حوالے سے کوئی بھی بات نکل کر مشہور ہو جائے۔ وہ خاندان بھر میں اپنی بدنامی سے خوفزدہ تھا۔ اس لیے اس نے اپنے بھتیجے پر دھونس نہیں جمائی، اسے ڈانٹا ڈپٹا نہیں۔
اس نے میرپور ماتھیلو میں رہنے والے اپنے بڑے بھائی سے ایک مرتبہ نذیر کو اس کے پاس بھیجنے کے لیے کہا تھا۔ اس لیے وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس نے گالم گلوچ کر کے اسے نکال دیا تو اس کی بہت جگ ہنسائی ہو گی اور پوری برادری میں اس کی ناک ہمیشہ کے لیے کٹ جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کی آوارہ گردی کے دوران ایک گلی میں نذیرکی مڈبھیڑ نورل سے ہو گئی۔ اس نے اسے ایک ایک حیران کن مگر خوشی سے لبریز خبر سنائی۔ کچھ دیر پہلے ہی نذیر نے زرگر کی دکان پر جا کر اس سے ہار وصول کیا تھا۔ ہار کے بارے میں پکوڑافروش کو بتانے سے پہلے ہی اس نے اسے دل خوش کن خبر سنا دی۔
نذیر وہ بات سن کر اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کے تو سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت اتنی جرات مند اور دلاور بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں اپنے عاشق کو ملاقات کے لیے دعوت دے دے۔ خوشی میں اس نے بے اختیار ہو کر نورل کے کھردرے گالوں کو چوم لیا اور اس کی بے ترتیب مونچھوں کو تھپتھپانے لگا۔ اس کے بعد شام بھر وہ پکوڑافروش کو ساتھ لیے مختلف چائے خانوں میں گھومتا پھرا۔ اس نے نورل کو خوش کرنے کے لیے پچاس روپے کا نوٹ زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیا۔ اس نے ہار والی بات جان بوجھ کر اس سے پوشیدہ رکھی مبادا اس کے دل میں حرص پیدا ہو جائے اور وہ اپنی بیوی کے ذریعے مسرتوں بھری آئندہ ملاقات میں کھنڈت ڈال دے۔ رات نو بجے کے آس پاس اس نے اسے میرواہ کے پل پر خدا حافظ کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح عجیب واقعہ رونما ہوا۔ نذیر گہرے خوابوں میں گم مزے کی نیند سو رہا تھا۔ غفور چاچا غصے میں بپھرا ہوا برآمدے میں آیا اور اس نے بلند آواز میں مخاطب کرتے ہوئے اسے شانوں سے جھنجھوڑ کر جگایا۔ اس نے ہڑبڑاتے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔ اس نے آج پہلی بار چادر میں لپٹے ہوئے اپنے چاچا کو غیظ وغضب کے عالم میں دیکھا۔ اس کے چہرے پر شدید تناؤتھا۔ اس کی مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں اور غصے کی شدت سے اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔
نذیر چارپائی پر اٹھ کر بیٹھا تو بوڑھے درزی نے اسے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ وہ اسے گریبان سے پکڑ کر اس کے چہرے اور سینے پر زوردار مکے رسید کرنے لگا۔
ایسی بے موقع پٹائی کے بارے میں نذیر نے سوچا بھی نہیں تھا۔ دو چار لمحوں تک وہ اپنے جسم پر چاچے کے زوردار گھونسوں کی ضربیں برداشت کرتا رہا۔ اس نے آس پاس نگاہ دوڑائی مگرچاچی خیرالنسا اسے کہیں نظر نہیں آئی۔ اس نے اپنے ہاتھ اور منھ سے جواب دینے کے بجاے خود کو بچانا ہی مناسب سمجھا۔
وہ چاچے کی کرخت اور فحش گالیوں کا جواب اپنے مسکین سوالوں سے دیتا رہا۔ کچھ دیر بعد وہ لاچار اٹھا اور وہ بوڑھے درزی کو دھکا دیتا ہوا صحن کی طرف بھاگ نکلا۔ اس کے دھکے سے چاچا غفور فرش پر گر گیا اور ہانپتا ہوا اْٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔
چاچی خیرالنسا غسل خانے سے باہر آئی تو اس نے پہلے نذیر کی طرف اور پھر اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر تک وہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ ان دونوں کے درمیان کیا چل رہا ہے۔ چاچا ایک مرتبہ پھر نذیر پر حملہ کرنے کے لیے اس کی طرف لپکا تو اسے چاچی نے روک لیا اور اسے سمجھاتی ہوئی زبردستی کمرے میں لے گئی مگر اس کے منھ سے لگاتار گالیاں سنائی دیتی رہیں۔
نذیر نے چاچے کی غصے بھری بڑبڑاہٹ سے اندازہ لگا لیا تھا کہ بوڑھے زرگر نے کل شام اس کے پاس جا کر اسے ہار کے متعلق بتا دیا تھا جو اس نے اسے بنا کر دیا تھا۔ اس نے زیرِلب اس رذیل سنار کو جی بھر کر گالیاں دیں۔
غسل خانے میں ہاتھ منھ دھونے کے بعد وہ چائے پینے کے لیے باورچی خانے میں جا کر بیٹھ گیا تاکہ چاچا کی غضب ناک آنکھوں سے دور رہ سکے۔ پتیلی میں موجود چائے کو چھان کر اس نے پیالی میں ڈالا اور بلند آہنگ سڑپے لے کر چائے پیتے ہوئے باربار دروازے کی طرف دیکھتا رہا۔
اس کے ذہن میں خیالات کی رو چل رہی تھی۔ آج رات اسے شمیم سے ملنے جانا تھا اور صبح سویرے ایسی بدمزگی کا رونما ہونا اسے اچھا شگون نہیں لگ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ غفور چاچا کے دل میں اس کے لیے جو نفرت بھر گئی ہے کسی طرح سے وہ ختم ہو جائے۔
وہ باربار سوچ کر خود کو تیار کر رہا تھا کہ کچھ بھی ہو وہ جوگیوں کے گوٹھ ضرور جائے گا۔ اس نے کئی مرتبہ شلوار کی جیب میں رکھے ہار کو ٹٹول کر اس کی موجودگی کو محسوس کیا۔
باورچی خانے کی طرف آتے ہوئے قدموں کی آہٹ سن کر وہ چونکا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو چاچی خیرالنسا کو آتے دیکھ کر اسے اطمینان ہوگیا۔
چولھے کے قریب بیٹھتے ہوئے اس نے نذیر کو گہری نظر سے دیکھا۔ اس کی جھکی ہوئی نگاہ اور جھکا ہوا سر دیکھ کر چاچی کے چہرے پر تمسخرآلود تاثر نمایاں ہونے لگا۔ اس سے کوئی بات کیے بغیر اس کے منہ سے ہونہہ کی آواز نکلی۔ نذیر نے یہ آواز سنتے ہی اس کا مطلب سمجھ لیا۔ وہ صبح ہونے والی اپنی پٹائی کی وجہ سے اس کے سامنے عجیب سی خجالت محسوس کر رہا تھا۔ اس نے خالی پیالے کو ایک بار پھر چائے سے بھر لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی موضوع پر اس سے بات چیت شروع ہو مگر وہ پہل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہا تھا۔ وہ سر جھکائے صرف اس کے سانسوں کی آواز سنتا رہا۔
خاموشی میں اس کے سانسوں کی آواز نے اسے چاچی خیرالنسا کے اس وقت کے محسوسات کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا۔ بے دھیانی میں چسکی لیتے ہوئے چائے کا گھونٹ اچانک اس کی سانس کی نالی میں چلا گیا۔ وہ اتنے زور سے کھانسا اور چھینکا کہ اس کے حلق اور ناک سے نکلتے چائے کے ذرّے چاچی کے کپڑوں پر جا گرے۔ اس کا ہاتھ کانپا اور چائے کا پیالہ بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر چاچی بے ساختہ ہنسنے لگی۔ اس نے زمین پر پڑے ہوئے اوندھے پیالے کو سیدھا کر دیا، کیونکہ اوندھی پڑی ہوئی چیزیں اس کے خیال میں بدشگونی کی علامت ہوتی تھیں۔
ایسے حساس ترین موقعے پر اس کا ہنسنا نذیر کو ناگوار محسوس ہوا۔ اس نے نزدیک ہی رکھے ہوئے گھڑے سے پانی نکال کر منھ اور ناک صاف کیا۔
چاچی کچھ دیر تک اسے کریدنے والی نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ پھرکسی تمہید کے بغیر اس سے پوچھنے لگی، “تم نے وہ ہار آخرکس کے لیے بنوایا تھا؟”
“کون سا ہار؟” وہ خود کو سنبھالتے ہوئے صاف مکر گیا۔
“وہی جو تم نے رحیم سنار سے بنوایا تھا؟”
“کیا یہ بات سنار نے خود چاچے کو بتائی ہے؟” نذیر اس قضیے کے ماخذ تک پہنچنا چاہتا تھا۔
“ہاں! اسی نے تیرے چاچے کو بتایا ہے۔ “ وہ اس کی طرف دیکھتی اس کی دلی کیفیت آنکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
“میں نے وہ ہار۔۔۔” وہ کہتے کہتے رک گیا۔ اچانک اسے ایک اور خیال سجھائی دیا اور اس نے بغیر سوچے بے دھڑک کہہ دیا، “میں نے وہ ہار۔۔۔۔۔۔ تیرے لیے بنوایا تھا۔ میں وہ تجھے دینا چاہتا تھا۔ مگر کل رات وہ میری جیب سے کہیں گر گیا۔” اپنی جراتِ اظہار پر وہ خود حیران تھا۔
“میرے لیے؟” اس کی بات سن کر اس کی حیرانی کی کوئی حد نہ رہی۔ “مگر میرے لیے کیوں؟”
“ اس لیے کہ کچھ دن پہلے جب میں بیمار ہوا تھا تو تْو نے میری بہت خدمت کی تھی،” وہ معصومیت سے بولا۔
چاچی اسے گھورتی رہی، پھر جھرجھری لیتے ہوئے بولی، “اپنے چاچا کو مت بتانا، ورنہ وہ ہم دونوں کو جان سے مار دے گا۔” اس نے سہمی نظر سے دروازے کی طرف دیکھا۔
“میں نے سوچ لیا ہے کہ اسے کیا بتانا ہے۔”
بے یقینی سے اس کی طرف دیکھنے کے بعد وہ ناشتے کی تیاری میں مصروف ہو گئی جبکہ وہ وہیں چپ چاپ بیٹھا رہا۔ جب ناشتہ تیار ہو چکا تو وہ اسے اپنے ساتھ غفور کے کمرے میں لے گئی۔
چاچے کے تیور اب تک ویسے ہی تھے۔ اس کے ماتھے پر شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ انہیں کمرے میں آتے دیکھ کر اس نے اپنا منھ دوسری طرف پھیر لیا۔
“رحیم سنار کی بات سچی ہے یا نہیں؟” اس نے تحکم آمیز لہجے میں اس سے سوال کیا۔
“اس کی بات میں سچائی ہے، مگر میں نے وہ ہار حیدری کے کہنے پر بنوایا تھا۔”
“حیدری کے کہنے پر؟ وہ کیوں؟”
“اس کا کسی لڑکی کے ساتھ کوئی چکر ہے،” نذیر نے بتایا۔
اس کا جواب سن کر چاچے کے لبوں پر خودبخود مسکراہٹ پھیل گئی۔ “اچھا، اس کا چکر ہے! کہیں تمہارا بھی کوئی چکر تو نہیں ہے؟”
اس نے سنجیدگی سے جواب دیا، “نہیں چاچا۔”
وہ ہنستے ہوئے اپنی بیوی کو دیکھنے لگا جو اپنا سر جھکائے پائینتی بیٹھی ہوئی تھی۔
چاچے کا مزاج بدلتا دیکھ کر نذیر کے علاوہ چاچی نے بھی اطمینان کا سانس لیا۔
چاچے کا مزاج بدلتا دیکھ کر نذیر کے علاوہ چاچی نے بھی اطمینان کا سانس لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ کرتے ہوئے نذیر کو اپنی کوتاہی کا احساس ہو گیا۔ اسے دکان کی طرف سے تغافل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میرپور ماتھیلو سے شہربدر ہوتے ہوئے اس کے والد نے اسے نصیحت کی تھی کہ ٹھری میرواہ جا کر درزی کے کام میں دل لگانا۔ آدمی کے پاس کوئی ہنر ہو تو اس کی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے چاچا کے پاس کام کرنے آیا تھا۔ پچھلے کئی دنوں سے دکان سے اپنی غیرحاضری کے حوالے سے وہ اس کی تشفی نہیں کر سکا تھا۔ اس کے چھوٹے موٹے بہانے زیادہ عرصے تک کارآمد نہیں ہو سکتے تھے۔ اسی لیے سنار کی بات سن کر وہ غصے سے لال بھبھوکا ہو کر اس پر برس پڑا تھا۔ چاچا کے غصے میں بھرے ہوئے سرخ چہرے میں نذیر کو اپنے والد کی جھلک دکھائی دی تھی۔
چاچا غفور سے تعلقات میں کشیدگی ختم کرنے کے لیے اس نے دکان پر وقت گزارنے کا فیصلہ کیا تاکہ اگر آج رات کسی نے اس کا خالی بستر دیکھ لیا تو وہ اس پر مچنے والے ممکنہ فساد کو دبانے میں کامیاب ہو سکے گا۔ نجانے کیوں اس کے دل کو دھڑکا لگا ہوا تھا کہ آج کی شب اس کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے والا ہے۔
چاچی خیرالنسا ناشتے کے برتن اٹھانے کے لیے جھکی تو وہ خود کو اس کے سینے کی لکیر دیکھنے سے باز نہیں رکھ سکا۔ “کیا یہ اس نے مجھ پر ایک اور مہربانی کی ہے؟” وہ یہ سوچتا ہوا دکان جانے کے لیے اٹھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دکان پر پہنچا تو وہاں چاچا کو نہ پا کر سخت حیران ہوا۔ اس کے سوال پوچھنے پر یعقوب کاریگر نے اسے بتایا کہ وہ کسی کام سے رانی پور گیا ہوا ہے۔ اس نے اپنی تشویش ظاہر کی کہ اس کا دوست پچھلے کچھ دنوں سے کسی ادھیڑبن میں مبتلا ہے۔ اب اس کی ہنسی پہلے کی طرح بے ساختہ نہیں رہی تھی اور باتیں کرتے کرتے وہ اچانک کہیں کھو سا جاتا تھا۔ بہت پوچھنے اور کریدنے کے باوجود اس نے اپنی الجھن کے بارے میں اسے نہیں بتایا۔ بتاتے بتاتے اس نے اپنی سلائی مشین روک دی اور کرسی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے اس نے بیڑی سلگائی اور بات کا سلسلہ وہیں سے دوبارہ شروع کیا۔ “میں یہ سمجھا کہ وہ کام کی وجہ سے پریشان ہے مگر وہ گھبرانے والا آدمی بھی نہیں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے وہ دکان سے تمہاری غیرحاضری پر کڑھتا ہو، لیکن یہ بات مجھ سے چھپانے والی تو نہیں۔ کچھ اور ہی معاملہ لگتا ہے۔” اس نے چٹکی بجا کر اپنی بیڑی کی راکھ فرش پر جھٹکی۔
نذیر اب تک محویت سے اس کی باتیں سنتا رہا تھا۔ وہ اس کیفیت سے نکل کر، اس کے قریب جا کر رازداری سے کہنے لگا، “چاچا غفور پہلے ایسا نہیں تھا۔ آج تو اس نے رحیم سنار والی بات پر صبح صبح میری دھنائی کر دی۔”
یہ سن کر کاریگر داڑھی کھجا کر زور سے ہنسنے لگا۔ “مجھے کل ہی لگ رہا تھا کہ وہ گھر جا کر تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ میں نے کل اسے بہت سمجھایا تھا کہ جوانی میں ہر آدمی دل لگی کرتا ہے۔ بلکہ اس نے خود کیا کچھ نہیں کیا، اور ابھی تک کرتا پھر رہا ہے۔”
“یعقوب، مذاق مت کرو۔ چاچا ایسا آدمی نہیں،” وہ ہچکچاتے ہوئے بولا۔
“ارے تمہیں کیا معلوم! وہ تو شادی بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے کہ اسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے لڑکپن میں ہی لیڈیز کپڑوں کا کام سیکھ لیا تھا اور اس زمانے میں تو عورتیں بھی گھروں سے کم ہی نکلتی تھیں۔ غفور کا باتیں کرنے کا انداز اتنا میٹھا ہوتا تھا کہ جو عورت اس کے ساتھ ایک یا دو مرتبہ بات کر لیتی، وہ اسی وقت اس کے شیشے میں اتر جاتی۔ جب کبھی وہ کسی کے کپڑے پہنچانے اس کے گھر جاتا تو دروازے پر ہی دو تین جملوں میں اس نازنین کا دل جیت لیتا۔ اس کی بے شمار راتیں گلیوں میں بھاگتے، دیواریں پھلانگتے اور معشوقاؤں کے گھروں کی چھتیں ٹاپتے گزرتی تھی۔ کبھی اس کی کسی محبوبہ کا بھائی تو کبھی کسی کا شوہر یا باپ نیند سے اٹھ جاتا۔ ہر بار وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلا۔ صرف ایک مرتبہ وہ بہت برْے طریقے سے پھنس گیا تھا اور اسے پورا ہفتہ حوالات میں گزارنا پڑا تھا۔ ہوا یہ کہ میروں کے محلے میں ایک درزی تھا سائیں بخش۔ تین سال پہلے وہ مر گیا۔ غفور اس کی دکان پر کام کرتا تھا۔ دکان کی چابیاں ہمیشہ اسی کے پاس ہوتی تھیں۔ دکان والی گلی میں ایک بیوہ رہتی تھی۔ وہ غفور پر جان دیتی تھی۔ ایک شام اس نے بیوہ کو دکان پر بلوا لیا اور دکان کا شٹر گرا کر اس سے ملنے لگا۔ کسی نے بیوہ کو اندر گھستے ہوئے دیکھ لیا تھا، جس کی وجہ سے باہر شور مچ گیا۔ شٹر اٹھا تو لوگوں نے بیوہ کو تو جانے دیا مگر تمہارے چاچے کو تھانے میں بند کروا دیا۔ “ یعقوب کاریگر یہ باتیں سنانے کے بعد ہنسی میں لوٹنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اسے محسوس ہوا کہ اس نے اس کے بھتیجے کو کچھ زیادہ ہی بتا دیا۔ یہ سوچ کراس نے فوراً سنجیدگی اختیار کر لی۔
نذیر اس کی باتیں سن کر بہت محظوظ ہوا۔
نذیر اس کی باتیں سن کر بہت محظوظ ہوا۔
“وہ میرا استاد ہے، مگر اب اسے خداجانے کیا ہوا ہے، وہ مرجھاتا جا رہا ہے، “ وہ افسردہ ہو کر بولا۔
کاریگر کے خاموش ہوتے ہی نذیر اپنی نشست پر جا بیٹھا اور پھر سے سلائی کے کام میں مصروف ہو گیا۔ اس کے بعد سارا دن انھوں نے کوئی خاص بات نہیں کی۔
(جاری ہے)
(جاری ہے)