یہی وجہ ہے کہ فقیر،مولانا اور امیر جماعت اسلامی کے روبرو عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کرنے کے بعد، گستاخی معاف کے استعجابیے کے ساتھ چند ایک سوالات کرنے کی جسارت کرناچاہتا ہے۔ گذارش ہے کہ شہادت کی اسی تعریف کی رو کیا “افغان جنگ” میں مارے جانے والے روسی فوجی بھی شہید کہلائیں گے؟ کیونکہ وہ فوجی بھی تو بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ نے ہی مروائے تھے۔ ہیں جیاور ان جہادیوں بارے کیا خیال ہے جنہوں نے امریکہ کی شہ (مع ڈالر اور دیگر لوازمات) پر روسیوں کے خلاف جہاد کیا؟
کیا کہتے ہیں علمائے جمیعت بارے ان تمام ‘اہل ایمان’ کے جو حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے پہلے مختلف ڈرون حملوں یا پاک فوج کے ساتھ لڑائی میں مارے گئے ؟ کیا وہ بھی شہید کہلائیں گے؟ تو اسی رو سے پھر چالیس ہزار سے زائد عام پاکستانی شہری جو حکیم اللہ محسود شہید جیسے مومنین کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہ پسماندگانِ خاک کیا کہلائیں گے؟
اور یقیناً گذشتہ ایک دہائی میں جو پانچ چھے ہزار پولیس، فوج اور دیگر عسکری اداروں کے اہلکار قربان ہوئے ان کے بارے تو آپ کا نقطہ نظر بہت واضح ہو گا، وہ تو بلا شبہ آپ کی فہم کے مطابق شہدا کی کیٹیگری میں نہیں آتے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟
ویسے قبلہ!! آپ دانستہ یا غیر دانستہ ایک قبیح گناہ کے مرتکب ضرور ہوئے ہیں، پوچھیے کیسے؟
یعنی آپ نے شرعی طور پر ‘جاہل’ عوام پر واضح کر دیا کہ حکیم اللہ ‘شہید’ ہے، اور آپ نے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ ہی ادا نہ کی؟
استغفراللہ! یعنی ستم ظریفی کی انتہا ہو گئ۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ شہداء کشمیر کی تو غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جاتی تھی، لیکن یہ کیا؟
بے چارے ، معصوم حکیم اللہ کی غائبانہ نماز جنازہ ہی ادا نہ کی گئی، کیا ہی اچھا ہوتا اگر مولانا ڈیرہ اسماعیل خان میں، اور امیر جماعت ، کراچی کے ایم اے جناح روڈ یا لاہور کے مال روڈ پر لاکھوں فرزندان توحید کی موجودگی میں سپوتِ ملت، مجاہدِ اسلام، شانِ اسلاف اورحکیم الامت حضرت مولانا حکیم اللہ محسود شہید کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرتے تا کہ پوری دنیا یہ جان لیتی کہ ہمارے شہید کون ہیں اور ان کی کیا شان ہے۔ ہیں جی!اور سن لیجیے گا پلیز! ابھی تک امریکی بمباری سے کسی ‘کتے’ کے سرکاری طور پر مارے جانے کی تصدیق نہیں ہوئی۔۔ اگر آپ کے حالیہ فتوے کے بعد کسی دن کوئی کتا ہلاک ہو گیا تو کیا اس کی تدفین بھی ‘اہتمام’ کے ساتھ کی جائے گی؟
حضرت! مدعا یہ بھی ہے کہ جہاں ایک طرف آپ کے تاریخی فتوے نے بہت سے کنداور تاریک ذہنوں میں روشنی پھونکی ہے وہیں بہت سے اہل ایمان مزید کنفیوز بھی ہو گئے ہیں۔ اب یہ کتے کی ہلاکت اور اس کی تدفین کا معاملہ ہی لے لیجیے۔ از راہ کرم! اس معاملے پر ایک ‘کتا بچہ’ جلد شائع کروائیں تاکہ اہل اسلام کے ہاں پائی جانے والی کنفیوژن کا تدارک کیا جاسکے۔ باقی تاریخ شاہد ہے کہ آپ کی سیاست تو 73 کے آئین کے تناظر میں گزری ہے، اور مختلف شقوں کو ملا کر ہمیشہ نئی شعبدہ بازی دکھانے میں آپ کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں رہا۔ لیکن حیرت ہے کہ آپ نے ایک ایسے شخص کو شہید قرارد ے دیا جو ‘تہتر’ کے آئین کا باغی ہے۔ چلیں اسلامی نقطہ نظر سے ہی واضح فرما دیجیے کہ کیا ‘سٹیٹ ود ان سٹیٹ’ کی اجازت ہے؟ ویسے آپ جناب نے تو آج دن تک کبھی جھوٹے منہ بھی ‘خود کش’ حملوں کو حرام قرار نہیں دیا ، لہذا یہ سب سوال بھی شاید ‘توہین ‘ کے زمرے میں آئیں۔ اور مولانا صاحب! کتے کا امریکیوں کے ہاتھوں مرنے کے بعد کیا مقام ہو گا، چھوڑئیے اس بات کو، آپ برینڈن برائینٹ نامی ڈرون آپریٹر کے بارے تھوڑا سا جان لیجیےگا۔
ویسے تو سوالات ابھی بہت سے باقی ہیں لیکن کیا کروں، رہی سہی اخلاقیات آڑے آر ہی ہے، انشااللہ ذاتی حیثیت میں اگلی نشست میں معروضات پیش کر دوں گا۔فی الحال نہ جانے کیوںرہ رہ کہ پطرس بخاری یاد آرہے ہیں، اور وہ بھی صرف ایک مضمون کے حوالے سے۔اب بھلا ناچیز اس بارے کیا عرٖ ض کرےخود پڑھ لیجیے۔
“اور پھر ہم دیسی لوگوں کے کتے بھی کچھ عجیب بد تمیز واقع ہوئے ہیں۔ اکثر تو ان میں ایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک حد تک قابل تعریف بھی ہے۔ اس کا ذکر ہی جانے دیجئےاس کے علاوہ ایک اور بات ہے یعنی ہمیں بار ہا ڈالیا ں لے کر صاحب لوگوں کے بنگلوں پر جانے کا اتفاق ہوا ، خدا کی قسم ان کے کتوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جو ں ہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے کتے نے بر آمدے میں کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی “بخ” کر دی اور پھر منہ بند کر کے کھڑا ہو گیا۔ ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک ناز ک اور پاکیزہ آواز میں پھر”بخ” کر دی۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی۔ ہمارے کتے ہیں کہ نہ راگ نہ سُر، نہ سر نہ پیر۔ تان پہ تان لگائے جاتے ہیں، بیتالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں، گل بازی لئے جاتے ہیں۔ گھمنڈ اس بات پر ہے کہ تان سین بھی تو اسی ملک میں پیدا ہوا تھا۔ جب تک اس دنیا میں کتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مُصر ہیں سمجھ لیجیےکہ ہم قبر میں پاوں لٹکائے ٹھے ہیں (قارئین کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر ان کا کوئی عزیز و محترم کتا کمرے میں موجود ہو تو یہ
مضمون بلند آواز سے نہ پڑھا جائے مجھے کسی کی دل شکنی مطلوب نہیں۔) حضرت پطرس کے مضمون سے لیے گئے ان ٹکڑوں پر تبصرہ جاری تھا کہ رفیق خاص جواد احمدصدیقی نے قصہ مختصر کر دیا ، کہنے لگے کہ “کتا ایک کیفیت کا نام ہے۔” اسی اثنا میں دیرینہ دوست رحمان اظہر بھی آن ٹپکے اور معاملہ ان کی نئی اختراع کے بعد دم توڑ گیا۔ فرمایا “کتے “کو کتے سے راہ ہوتی ہے۔
کتوں کے ذکر ِخیر کے بعد ایک درفنتنی بھی سنتے جائیے۔ ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ نیٹو سپلائی بند کرنے کا منصوبہ بنیادی طور پر خان صاحب کی ایک سوچی سمجھی ‘سازش ‘ہے جس کا مقصد طالبان کا دیوالیہ نکالنا ہے۔ گو کہ ان کے ذرائع آمدن بے شمار ہیں لیکن نیٹو کنٹینرز ایک اہم ذریعہ معاش تصور کیا جا تاہے اور اگر سپلائی ہی بند ہو گئی تو پھر کیا ہو گا؟ جی ہاں! اس کے دہرے اور دور رس فائدے ہیں۔طالبان کنٹینرز کی تلاش میں ان علاقوں کا رخ کریں گے جہاں سے ان کا گزر ہو گا، جو یقینا کے پی کے علاقے نہیں ہوں گے۔ دوسرا فائدہ یہ کہ خیبر پختونخواہ سے سپلائی بند ہونے کی صورت میں حملے بھی کم ہو جائیں گےجس کے بعد پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے کی دعوے دار ٹھہرے گی، اور یوں اگر جناب عمران خان صاحب کی نیٹو سپلائی بند کرنے کی سازش کامیاب ہو گئی تو پھر طالبان بھی معاشی اور اقتصادی طور پر ایسے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے جیسے ایک عرصے سے امریکہ ہو رہا ہے۔ ہیں جی!