لنڈی کوتل میں باڑہ کے علاقے کمر خیل میں سرکاری یقین دہانیوں اور اعلانات کے باوجود چھ میں سے پانچ گرلز سکول تاحال بند ہیں۔ مقامی افراد اور عمائدین کے مطابق گزشتہ برس دسمبر میں اس علاقے میں آئی ڈی پیز کی واپسی کے بعد سے اب تک لڑکیوں کے لیے قائم چھ سکولوں میں سے صرف ایک سکول آدم خان کلے کے علاقے میں کھولا گیا ہے جبکہ تودہ چینا میں قائم سکھی جان کلے، ملک شین اکبر کلے، سید غنی کلے اور الادند میں حاجی نام اکبر کلے میں قائم سکول تاحال بند ہیں۔ مقامی عمائدین نے اساتذہ اور عملے پر تنخواہیں وصول کرنے کے باوجود سکول نہ کھولنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ مقامی عمائدین کے مطابق یہ معاملہ انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کے سامنے اٹھایا جا چکا ہے تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کے باعث ان علاقوں سے آبادی کے انخلاء کے باعث یہ سکول بند کیے گئے تھے۔ انتظامی غفلت، جعلی اساتذہ اور سیکیورٹی خدشتا کے باعث بھی ملک بھر میں بہت سے سکول بند ہیں۔ قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں سکولوں پر شدت پسندوں کے حملوں کے باعث متعدد بار تعلیمی ادارے بند کیے جا چکے ہیں۔ آئی ڈی پیز کی واپسی کے بعد بھی تعلیمی سرگرمیوں کا پوری طرح بحال نہ ہونا فاٹا میں تعلیم کے فروغ کی کوششوں میں ایک بڑی روکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔