Laaltain

فقہ اور آمریت

22 اگست، 2016

youth-yell

مسلم معاشروں میں فقہ اور فقہا کے اثرات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ اس وقت کی ریاست کا قانونی چہرہ تھے، اسی فقہ کو قبول عام حاصل ہوا جسے حاکمِ وقت نے قبولیت بخشی۔ بلکہ یہ کلیہ تو مذہب میں بھی عام ہے۔ عیسائیت کی مثال سب کے سامنے ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت بادشاہ کا مذہب ہی عموماً قوم کا مذہب ہوتا تھا۔ فقہا کی عظیم خدمات ناقابل فراموش ہیں اور اصول فقہ کے نام سے بنائی جانے والی علم کی شاخ بجا طور پر مسلمانوں کے لیے قابل فخر اور دنیا کے لیے قابل تقلید ہے مگر اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کمزور پہلو دراصل فقہ نہیں بلکہ حاملین فقہ کی کمزوریوں کا مظہر ہیں۔

 

مسلم معاشروں میں علم کے زوال کے بعد جب فقہ محض متقدمین کے فیصلوں کے دفاع اور کتابوں کے شروح کا نام رہ گئی تو لازمی نتیجے کے طور پر مسلم معاشرہ بھی جمود کا شکار ہوا
تدوین قانون کی عدم موجودگی میں قاضی عدالتی و قانونی معاملات میں مطلق العنان ہوتے تھے اور بادشاہ قاضی کو مقرر کرنے میں بالکل آزاد تھا۔ قاضی کا اجتہاد اور رائے قوت نافذہ رکھتے تھے لہٰذا جتنی وسعت ان کےفیصلے میں ہوتی تھی وہ اس وقت کے معاشرے کا عکس تھی۔ جہاں تک فقہا اور آمریت کے باہمی تعلق کا نظریہ ہے تو یہ یاد رہے کہ آمریت آزادی فکر اور عمل کی مخالفت کا نام ہے۔ مسلم معاشروں میں علم کے زوال کے بعد جب فقہ محض متقدمین کے فیصلوں کے دفاع اور کتابوں کے شروح کا نام رہ گئی تو لازمی نتیجے کے طور پر مسلم معاشرہ بھی جمود کا شکار ہوا اور ریاست کا قانونی و انتظامی چہرہ ہونے کے بدولت بادشاہ وقت جو دراصل اس وقت ریاست کی واحد علامت ہوتا تھا کے مزاج پر بھی لازماً اس کا اثرہوا- یاد رہے ہمیشہ سیاسیت و ریاست علم کے تابع رہی ہے، جب جب علم کا زوال و جمود اندھی تقلید کی شکل میں وارد ہوا تب تب معاشرے میں شدت پسندی بڑھی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نہیں کہ فقہ نے مسلم حکمرانوں کی آمریت کو منطقی بنیادیں فراہم کیں کیوں کہ اس وقت بادشاہت کی صورت میں جو سیاسی نظام تھا اس میں حکمران کے آمرانہ یا جمہوری طرزعمل کا تعق بادشاہ کے مزاج سے تھا اس کے طریقہ انتخاب سے نہیں۔

 

سیاسی آمریت علمی آمریت کا براہ راست نتیجہ ہوتی ہے۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے اور ایسا صرف مسلم معاشروں کے ساتھ خاص نہیں دیگر مذہبی حکومتوں میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب اس طرف توجہ دلائی جائے تو لوگ ابتدائی صدیوں میں تشکیل فقہ کے آزادانہ بحث کے مراحل کو دلیل کے طور پر اس کے خلاف پیش کرتے ہیں مگر یہ دلیل دینے والے تشکیلِ فقہ کے بعد کی صدیوں میں اصولوں کی پیروی کے نام پر بدترین علمی آمریت کے چلن کو بھول جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت پاکستان میں آمریت کی تاریخ ہے جس کو ہمیشہ کندھا وقت کے علما و فقہا نے پیش کیا جو بدقسمتی سے اب سیاسی جماعتیں بھی رکھتے تھے۔ ایوب کے دور میں علما کی سب سے بڑی جماعت جمیعت علمائے اسلام کے مفتی محمود اور مشرف دور میں فضل الرحمان اسی گٹھ جوڑ کی علامت ہیں اور ضیاء الحق کے زمانے میں تو حکومت اور طبقہ علماء کے مابین یہ فرق تقریباً ختم ہو گیا۔ یہ تعلق اس لیے بھی موجود رہا ہے کیوں کہ دونوں فریق آزادی اظہار کے مخالف رہے ہیں؛ ایک دینی امور میں دوسرا سیاسی امور میں۔ اقبال نے اسی بات کو اپنے لافانی اسلوب میں امر کر دیا:
اے کشتہ سلطانی و ملائی و پیری

 

یہ بات درست ہے کہ حنفی مکتبہ فکر زیادہ مربوط اور اجتہادی شان والا تھا مگر اس کا مطلب یہ نہیں باقی مکاتب فکر کمزور بنیادوں پر استوار تھے۔
لہذا دونوں طرف کی انتہاوں سے بچتے ہوئے اس امر کی ضرورت ہے کہ اصولوں کی اہمیت کے باوجود سوچ کی آزادی کی حوصلہ افزائی کی جائے اور فقہ کی اصل روح جو تدبر کا بیاں ہے کی نشاۃ ثانیہ کی کوشش کی جائے۔ فقہ حالات پر شریعت کے انطباق کا نام ہے اور یہ وسعت فکر کے بغیر ممکن نہیں۔ جیسے فقہ کے ابتدائی دور میں ہوا ویسے ہی اب کرنا پرے گا۔

 

اسلامی فقہ نے کسی حکمران کی اعانت کے بغیر قبولیت کے مراحل طے کئے۔ ایسا نہیں کہ فقہ کی تشکیل حکومت کے مرہون منت رہی، ہاں البتہ کسی بھی فقہ کا عروج سیاسی سرپرستی کا مرہون منت رہا۔ تشکیلِ فقہ کے ابتدائی دور میں بہت سے دوسرے عظیم فقیہہ بھی تھے جن کے اپنے مکاتب فکر تھے۔ تاہم وہ مقبول نہ ہو سکے۔ یہاں یہ جاننا اہم ہے کہ ان فقہاء کا کیا ہوا؟ کہاں گئی ان کی فقہ؟ محض اس لیے معدوم ہو گئے کیوں کہ عوام میں فقہ حنفی مشہور ہو گئی تھی یا پھر حکومتی سرپرستی کا معاملہ تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں وجوہ تھیں۔ سیاست، حکومت اور قانون کا تعلق اتنا سادہ نہیں ہوتا جتناعموماً خیال کیا جاتا ہے، ہمیشہ سے حکومت اور عدلیہ کا ایک دوسرے کے استحکام میں گہرا کردار رہا ہے۔

 

یہ بات درست ہے کہ حنفی مکتبہ فکر زیادہ مربوط اور اجتہادی شان والا تھا مگر اس کا مطلب یہ نہیں باقی مکاتب فکر کمزور بنیادوں پر استوار تھے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ حنفی مکتبہ فکر حکومت کی ایسی مجبوری بن چکا تھا جس کے بعد اور کسی کی گنجائش نہیں نکل سکتی تھی۔ ایک وجہ جو ان کے حق میں جاتی ہے وہ ان کا قاضی القضاۃ کے منصب کو قبول کرنا تھا۔ قدرتی طور پر اس کے بعد ان کی فقہ کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اس میں عباسی اور عثمانی خلفا کے کردار کو نظرانداز کرنا معاشرے اور قانون کے باہمی تعلق اور تاریخ کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ابو یوسف کے اس منصب پر فائز ہونے کے بعد ہر وہ قاضی جو حنفی مکتبہ سے متعلق نہیں تھا فارغ کر دیا گیا۔ اس کے بعد عثمانی سلطنت کے عروج کے دور میں بھی حنفی مکتبہ فکر کے قضاء غالب تھے اور ایسے علاقوں میں بھی بھیجے جاتے تھے جہاں دوسرے مسلک کے لوگ ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں حنفی مکتب فکر ایک غالب انتظامی مکتبہ فکر کی صورت ابھر کر آیا اور اکثریت کا مذہب ٹھرا جب کہ مالکی، جعفریہ، شافعی اور حنبلی مکاتب فکر اپنے محدود علاوں سے باہر نہ نکل سکے۔ حنفی مکتبہ فکر کے ماننے والوں کی اکثریت آج عباسی اور عثمانی خلافت کے علاقوں میں موجود ہے۔

 

ال دہلوی کہتے ہیں
” وہی مکتبہ فکر زیادہ مشہور ہوئے جن کے پاس قضا اور افتاء کی طاقت تھی۔ باقی معدوم ہوتے چلے گئے۔ “
اسی بات کو مشہور فقیہ ابن حزم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے

 

” ترویج اور پھیلاو میں دو مکاتب فکر کو ریاست اور حکومت کی مدد حاصل رہی: حنفی جب کہ ابو یوسف قاضی القضاۃ بنا اور اس نے صرف اپنے مذہب کے لوگوں کو عدالتی امور کے لیے منصف مقرر کیا۔ اور مالکی مکتبہ فکر کو۔ ” (وفیات الاعیان)

 

ال دہلوی کہتے ہیں
” وہی مکتبہ فکر زیادہ مشہور ہوئے جن کے پاس قضا اور افتاء کی طاقت تھی۔ باقی معدوم ہوتے چلے گئے۔ “

 

ریاست اور سیاست ہمیشہ علم کے تابع رہتی ہے مگر اس سے یہ کہاں اخذ ہوتا ہے کہ حکومت کا علم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بادشاہ وقت کے احساسات کو زبان عدالت ہی دیتی ہے۔

 

سقوط بغداد کے بعد مسلمانوں میں معدومیت اور فکری انتشار کے اسی نفسیاتی خوف کی بدولت اصولوں کی پیروی کے نام پر اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف مطلق العنانی کی نفی کی جاتی ہے اور دوسری طرف خود اس کی مثال بیان کی جاتی ہے مثلا اکبر کے دور میں قاضی کا بادشاہ کی ناخوشی کے باوجود اپنے فیصلے پر اصرار۔ قاضی بالعموم بادشاہ وقت کے مقرر کردہ ہوتے تھے اور ان پر اس کا اثر نہ ہونا ناممکنات میں سے ہے۔

 

اوپر خود ابویوسف کی مطلق العنانی کی ایک جھلک پیش کر چکا ہوں۔ تدوین قانون کی عدم موجودگی میں قاضی کی مطلق العنانی پر قدغن محض ایک روایتی تصور بن کر رہ جاتا ہے جس کی نافرمانی پر اس کی کوئی گرفت کرنا ممکن نہیں۔ مغرب نے سماجی علوم کو جس طرح مدون کیا ہے اس کے بعد ایسی کسی روایت کو جاری رکھنا اتنا آسان نہیں رہا۔

 

اصولوں کی پیروی پر یہی بنیادی نقطہ اختلاف ہے کہ تقلید و جمود کو اصولوں کی پیروی کا نام دیا جاتا ہے جو ایک حد تک قانونی مجبوری بھی ہے۔ اصولوں کی پیروی اور جمود میں بہت باریک فرق ہوتا ہے جس کو اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ اسی ناسمجھی کی بدولت ایک خاص وقت کے بعد اصولوں کی پیروی کے نام پر جمود اور اندھی تقلید نے جنم لیا اور اس بات کو خود اقبال نے اپنے خظبات میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ سقوط بغداد کے بعد مسلمانوں میں معدومیت اور فکری انتشار کے اسی نفسیاتی خوف کی بدولت اصولوں کی پیروی کے نام پر اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد عملاً تو تبدیلی کا عمل جاری رہا کیوں کہ بدلتے حالات میں اسے بند کرنا ممکن نہ تھا مگر نظریاتی طور پر اس کی ترویج ناپسندیدہ قرار پائی۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں کو مغربی علمی برتری کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے پاس دفاع کے لیے وہ اذہان ہی نہ تھے جو فکری بلندی اور وسعت کے اس مقام پر فائز ہوں۔ فقہ اپنے وجود میں ہی وسعت اور اجتہاد کی محتاج ہے اور جب سے اس کو ان ناگزیر عناصر سے محروم کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی گئی ہے نقصان مسلمانوں کا ہی ہوا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *