تعلیم ایک بنیادی سماجی ادارہ ہے اور طلباء اس کا بنیادی رکن ہونے کے ناطے سماجی اور سیاسی سطح پرنہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔زیرِنظر مضمون میں جدید تاریخ کے سیاق و سباق میں طلباء کے سیاسی کردار پر بحث کی گئی ہے۔
دوسرے کئی سماجی گروہوں کی طرح ، طلبہ کے سیاسی کردار کی جڑیں بھی نشاۃ ثانیہ سے ملتی ہیں۔نشاۃ ثانیہ سولہویں صدی کے بعد یورپ میں سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور علمی میدانوں میںآنے والا انقلاب تھا۔نشاۃ ثانیہ کے بعد صنعتی انقلاب اور انقلابِ فرانس نے قدیم اقتصادی، سیاسی اور سماجی اداروں کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی، جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری آ گئی اور چرچ کو ریاستی امور سے الگ کر دیا گیا۔تبدیلی کی اس ہوا کو عقلیت پسند مصنفین جیسا کہ فرانسس بیکن، رینے ڈیکارٹ، روسو، والٹئیر اور برونو وغیرہ نے مزید جلا بخشی۔جمہوریت، قانون کی بالا دستی اور سائنسی طرز فکر جیسی کئی نعمتوں کے ساتھ یورپ میں شخصی آزادی ، معاشرتی مساوات، انصاف اور انسان دوستی کی نئی اقدار اور تصورات وجود میں آئے۔تعلیمی نظام کو چرچ کے تسلط سے آزادی ملی۔ان سب عوامل نے یونیورسٹیوں کے ماحول میں ڈرامائی تبدیلیاں برپا کیں اور طلباء کو اپنا نقطہ نظر بنانے، اظہارِرائے کرنے اور جمہوری اصولوں پرمبنی تنظیم بنا نے کے لئے مناسب ماحول میسر آیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی منظر پر طلباء کا کردار ابھر کر سامنے آیا۔
دوسرے کئی سماجی گروہوں کی طرح ، طلبہ کے سیاسی کردار کی جڑیں بھی نشاۃ ثانیہ سے ملتی ہیں۔نشاۃ ثانیہ سولہویں صدی کے بعد یورپ میں سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور علمی میدانوں میںآنے والا انقلاب تھا۔نشاۃ ثانیہ کے بعد صنعتی انقلاب اور انقلابِ فرانس نے قدیم اقتصادی، سیاسی اور سماجی اداروں کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی، جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری آ گئی اور چرچ کو ریاستی امور سے الگ کر دیا گیا۔تبدیلی کی اس ہوا کو عقلیت پسند مصنفین جیسا کہ فرانسس بیکن، رینے ڈیکارٹ، روسو، والٹئیر اور برونو وغیرہ نے مزید جلا بخشی۔جمہوریت، قانون کی بالا دستی اور سائنسی طرز فکر جیسی کئی نعمتوں کے ساتھ یورپ میں شخصی آزادی ، معاشرتی مساوات، انصاف اور انسان دوستی کی نئی اقدار اور تصورات وجود میں آئے۔تعلیمی نظام کو چرچ کے تسلط سے آزادی ملی۔ان سب عوامل نے یونیورسٹیوں کے ماحول میں ڈرامائی تبدیلیاں برپا کیں اور طلباء کو اپنا نقطہ نظر بنانے، اظہارِرائے کرنے اور جمہوری اصولوں پرمبنی تنظیم بنا نے کے لئے مناسب ماحول میسر آیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی منظر پر طلباء کا کردار ابھر کر سامنے آیا۔
دوسرے کئی سماجی گروہوں کی طرح ، طلبہ کے سیاسی کردار کی جڑیں بھی نشاۃ ثانیہ سے ملتی ہیں۔نشاۃ ثانیہ سولہویں صدی کے بعد یورپ میں سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور علمی میدانوں میں آنے والا انقلاب تھا۔
سب سے پہلے جن نظریات نے یورپ کے طلباء کو اکٹھا کیا وہ تھے جمہوریت اور قوم پرستی۔یورپی ممالک پر نپولین کا حملہ جرمنی، اٹلی، آسٹریااور روس کے طلباء کی قوم پرستی کی تحریک کی ایک بڑی وجہ بنا۔1815میں جینا یونیورسٹی کے جرمن طلباء نے Urburschenschaftenنامی ایک یونین بنائی۔اس تنظیم نے قوم پرست نظریات کو پھیلانے کے لئے کام کیا۔اس نے اپنی شاخین دوسری تمام جرمن یونیورسٹیوں میں بھی پھیلا دیں۔اس تنظیم کی سرگرمیاں نیم اتحادی جرمن ریاستوں کی حکومت کو بہت خطرناک لگیں اور اسے 1819میں کالعدم قرار دے دیا گیا۔مگر کالعدم قرار دئیے جانے کے باوجود کئی سال تک اس کی سرگرمیاں خفیہ طور پر جاری رہیں۔
1848میں پیرس، ویانااور برلن میں انقلاب کی ایک بڑی لہر اٹھی۔اس انقلابی تحریک میں طلباء صف اول میں شامل تھے۔بعد ازاں اٹلی کے طلباء غیر ملکی دخل اندازیوں کے خلاف متحد ہو گئے اور بطور قوم اٹلی کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔روسی طلباء نے زارحکومت کے خلاف جدو جہد کرنے کے لئے انہیں کی تقلید کی۔
قوم پرست نظریات ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں کے ذریعے ان ممالک کی کالونیوں تک بھی پہنچ گئے۔ایک اور اہم عامل یہ بھی تھا کہ ان کالونیوں کی اشرافیہ کے جو نوجوان مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے تھے، قوم پرستی ،سوشل ازم اور سیکولر ازم کے جدید نظریات سے متعارف ہوئے۔واپس آ کر نہ صرف انہوں نے ان نظریات کو پھیلایا بلکہ اپنی اپنی اقوام کے راہنما بھی ثابت ہوئے۔قومی حالات کو دیکھتے ہوئے کالونیوں میں قوم پرست طلباء تنظیمیں وجود میں آئیں جو جلد ہی قومی آزادی کی تحریکوں میں بدل گئیں۔غیر ملکی تسلط سے نفرت اور سوُراج کی فطری خواہش کالونیوں کی طلباء تنظیموں کے لئے زبردست محرک ثابت ہوئے۔انڈونیشیا کے طلباء اسکی بہترین مثال ہیں۔انہوں قومی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ قوم پرستانہ نظریات کو پھیلانے کا کام بھی کیا۔برصغیر کی تاریخ بھی اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔1905میں برصغیر کے طلباء نے بنگال کی تقسیم پر حکومت برطانیہ کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔1920کی تحریک خلافت میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔برصغیر کی دو اہم تنظیموں میں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن اور آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن شامل ہیں جو کہ بالترتیب1936 اور 1937میں قائم ہوئیں۔ان تنظیموں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔اسکے علاوہ انقلابی طلباء نے بھی ہندوستان کی تحریک آزادی اور سوشلسٹ انقلاب کے لئے بہت کام کیا۔عظیم ہیرو بھگت سنگھ بھی ان میں سے ہی ایک تھا۔
نظریاتی رجحانات سے مبّرا کچھ ایسی تحریکیں بھی تھیں جو کسی خاص نظرئیے کی بجائے خاص حالات و واقعات کے ردعمل میں وجود میں آئیں تھیں۔ان میں یورپی طلباء کی جنگ عظیم اول کے خلاف تحریک، امریکی طلباء کی جنگ عظیم دوئم میں امریکہ کی شمولیت کے خلاف تحریک اور بیسویں صدی کے پہلے نصف میں سیاہ فاموں کے حقوق کے لئے امریکی طلباء کی تحریک وغیرہ شامل ہیں۔
بیسویں صدی کا پہلا نصف حصہ دنیا سے کالونیوں کے خاتمے کا دور تھا اسی لئے اس عرصہ میں طلباء تحریکوں کا بنیادی مقصد ملکی آزادی حاصل کرنا ہی تھا۔جبکہ نصف صدی کے بعد ان کازیادہ تر رجحان سوشل ازم ، مارکس ازم اور عمومی سماجی تبدیلی کی طرف زیادہ ہوتا گیا۔سوشل ازم کے نظریات کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ1991میں سوشلسٹ بلاک کے انہدام تک تقریباَ تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں طلباء کی سیاست پر ان کی اجارہ داری رہی ۔تاہم کئی مستثنات بھی ہیں جیسا کہ انقلابِ ایران میں شامل کچھ طلباء گروپ اورمذہبی و نسلی ایجنڈے پر کام کرنے والی دائیں بازو کی دیگر کچھ تنظیمیں۔یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ان میں سے کچھ تنظیمیں جیسا کہ اسلامی جمعیت طلباء اسلام(IJT) بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مغربی طاقتوں کی حمایت یافتہ بھی رہی ہیں تا کہ سرد جنگ میں انہیں روس کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔اس طرح کے گروہوں کا طلباء سیاست کو بدنام کرنے میں بڑا ہاتھ ہے کیونکہ ان کی بدولت طلباء سیاست مختلف مفادات کا آلہ کار بن کر رہ گئی ہے۔
نظریاتی رجحانات سے مبّرا کچھ ایسی تحریکیں بھی تھیں جو کسی خاص نظرئیے کی بجائے خاص حالات و واقعات کے ردعمل میں وجود میں آئیں تھیں۔ان میں یورپی طلباء کی جنگ عظیم اول کے خلاف تحریک، امریکی طلباء کی جنگ عظیم دوئم میں امریکہ کی شمولیت کے خلاف تحریک اور بیسویں صدی کے پہلے نصف میں سیاہ فاموں کے حقوق کے لئے امریکی طلباء کی تحریک وغیرہ شامل ہیں۔اس قسم کی تحریکوں میں سب سے نمایاں لاطینی امریکہ کے طلباء کی بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ریاستی تعلیمی پالیسی کے خلاف کی جانے والی تحریک ہے۔اس تحریک کے نتیجے میں تعلیمی نظام میں اصلاحات کی گئیں جوآج تک لاطینی امریکہ کے تعلیمی نظام کی بنیاد ہیں۔
ہم واپس بائیں بازو کی نظریاتی تحریک کی طرف آتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے نصف کے بعد60کی دہائی طلباء تنظیموں کی سیاست میں بہت اہم تھی۔اس دہائی کی تمام تحریکوں میں سے مئی 1968کی پیرس کے طلباء تحریک سب سے نمایا ں ہے۔یہ تحریک مزدوروں کی عام ہڑتال کے حق میں شروع ہوئی تھی۔ طلباء کے متحرک ہونے پرحکومت نے طلباء تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا جس کے نتیجے میں الٹا تحریک میں نئی جان آگئی۔اس کے بعد طلباء، اساتذہ اور مزدوروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے جنپر پولیس نے بھر پورتشدد کیا ۔دیگر مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی ان کی حمایت کی کیونکہ وہ ایک بڑی معاشرتی تبدیلی کی علامت بن چکے تھے۔ان واقعات نے حکومت کو ہلا کررکھ دیا جسے بعد ازاں مستعفی ہونا پڑا۔مئی 1968کی تحریک کو کئی تاریخ دان دوسرے انقلابِ فرانس کا نام بھی دیتے ہیں۔مئی1968نے فرانس کی قدامت پرست مذہبیت، حب الوطنی اور بالا دست طبقات کے لیے عزت جیسی اقدار کو روشن خیال مساوات، شخصی آزادی اور انسانی حقوق کی اقدار کے ساتھ بدل دیا جو آج فرانس کی پہچان ہیں۔
آج دنیا بھر کی طلباء سیاست میں جمہوری حقوق اور سماجی تبدیلی کا عنصر بہت نمایاں ہے۔جس کی مثال حالیہ عرب انقلابات میں طلبہ کا بنیادی کردار ہے۔ تیونس، مصر، لیبیا، شام، یمن، بحرین اور دیگر عرب ممالک میں آمریتوں کے خاتمے اور سیاسی و معاشی حقوق کی جدوجہد طلبہ کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔
مئی 1968میں ہی امریکہ ، برطانیہ، میکسیکو،چلی،جرمنی،اٹلی، ارجنٹینا، بیلجیم ،پولینڈ،یوگوسلاویہ اور چیکو سلواکیہ میں بھی طلباء تحریکیں اپنے عروج پر تھیں۔ان تحریکوں کا بنیادی مقصد سماجی اور تعلیمی نظام کی تبدیلی،شہریوں کے حقوق،اسلحہ پر پابندی اور ویت نام جنگ کو بند کروانا تھا۔امریکہ میں طلباء نے سٹوڈنٹس فار اے ڈیموکریٹک سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس نے امریکہ میں شہریوں کے حقوق، آزادی، اسلحہ پر پابندی اور تیسری دنیا کے ممالک میں امریکہ کی سامراجی مداخلت کو ختم کروانے جیسے کاموں کے لئے جدوجہد کی۔یہ تنظیم حال ہی میں2006) (دوبارہ منظر عام پر آئی اور عراق کی جنگ جیسے امور پر کام کیا۔50کی دہائی کے آخرسے 60کی دہائی کی ابتداء تک امریکہ میں ایک دلچسپ تحریک چلائی گئی، جس کا مقصد ’In loco parentis authority ‘ کے نام پر یونیورسٹی انتظامیہ کی بے جا سختیوں کا خاتمہ تھا۔طلباء پابندیوں سے اتنے تنگ آچکے تھے کہ 1964میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور برکلے یونیورسٹی کے طلباء نے مسلسل تین ماہ تک غیر مشروط آ زادیء اظہار کے حق کے لئے احتجاج کیا۔کینیڈا میں طلباء کی نیو لیفٹ نامی ایک تنظیم نے اسلحہ سازی کی روک تھام، جنگوں کی مخالفت اور سماجی تبدیلیوں کے لئے کام کیا۔اسی طرح 1968میں پاکستانی طلباء نے صدر ایوب کے آمرانہ اقتدار کے خلاف ایک کامیاب تحریک چلائی۔اسی وقت ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی ہزاروں طلباء سماجی انقلاب کے لئے مسلح جدوجہدمیں مصروف تھے جسے نکسلائٹ تحریک کا نام دیا گیا۔
ساٹھ کی دہائی کے بعد ترقی یافتہ ممالک میں طلباء سیاست میں کمی آئی لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں صورتحال مختلف رہی ہے۔لاطینی امریکہ میں تب سے لیکر اب تک طلباء جدوجہد میں مصروف ہیں۔ان کی تحریکیں زیادہ تر ان کی ملکی آمرانہ حکومتوں کے خلاف رہی ہیں۔ان کی تحریکیں مغربی سامراجی طاقتوں کے خلاف بھی ہیں کیونکہ وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اس طرح کی حکومتوں کی حمایت کرتیں اور انہیں پروان چڑھاتی رہیں۔
مشرقی یورپ میں 70اور80کی دہائی کی طلباء تحریک بھی قابل ذکر ہے۔اس کا مقصدجابر کمیونسٹ حکومتوں کے خلاف سیاسی قوت حاصل کرنا اور کرپشن کا خاتمہ کرنا تھا۔1985میں پیرو کے طلباء نے سوشلسٹ انقلاب کے لئے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جو تیزی سے پورے براعظم میں پھیل گئی۔اسے ’روشن راستہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔1989میں چین کے طلباء نے تائینانمن سکوائر میں ایک بڑا احتجاج کیا جس کا نتیجہ قتل عام کی صورت میں نکلا۔طلباء کا مطالبہ تھا کہ انہیں تعلیمی آزادی اور روزگار دیا جائے۔90کی دہائی میں جنرل سہارتو کو انڈونیشیا کا اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنے میں بھی طلباء کا بڑا ہاتھ تھا۔
بدقسمتی سے یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت کا رویہ طلباء کی سیاست کے بارے میں ہمیشہ سخت گیر اور سرد رہا ہے۔حکام کو چاہیے کہ جدید جمہوریت کے پس منظر میں طلباء کے کردار کو تسلیم کیا جائے اور انہیں اتنی جگہ دی جائے کہ وہ معاشرے کی بہتری کے لئے پر امن انداز میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
آج دنیا بھر کی طلباء سیاست میں جمہوری حقوق اور سماجی تبدیلی کا عنصر بہت نمایاں ہے۔جس کی مثال حالیہ عرب انقلابات میں طلبہ کا بنیادی کردار ہے۔ تیونس، مصر، لیبیا، شام، یمن، بحرین اور دیگر عرب ممالک میں آمریتوں کے خاتمے اور سیاسی و معاشی حقوق کی جدوجہد طلبہ کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ تیونس، مصراور لیبیامیں تو ان تحریکوں کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے، باقی ممالک میں جدوجہد جاری ہے۔ 2008میں ایرانی طلباء کا آمرانہ ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج بھی اسی سلسے کی کڑی ہے۔’آکوپائی ‘یعنی ’قبضہ کرو‘ کے نام سے2010میں امریکہ سے شروع ہونے والی تحریک بھی دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔ یہ تحریک معاشی ناہمواری، بے روزگاری ، امریکی جنگوں کی مخالفت اور سماجی تحفظ کے مقاصد کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ موجودہ دور میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے تحریک سازی کے لیے مزید آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔
اگر ہم طلباء سیاست پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ طلباء جن مقاصد کے لیے متحرک رہے ہیں ان میں تعلیمی نظام میں فیصلہ سازی، بنیادی آزادیاں جیسا کہ اظہار، اکٹھ اور تحریک کی آزادی، آمرانہ حکومتوں کی مخالفت، معاشرے کے زیر دست طبقات کی حمایت، جنگ کی مخالفت، تعلیمی اداروں کے اندرونی مسائل، سماجی انقلاب اور ماحولیات کے تحفظ وغیرہ شامل ہیں ۔کچھ نہ کچھ فرق کے ساتھ تمام ہی طلباء تحریکیں ان مسائل پر آواز اٹھاتی رہی ہیں۔یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کا تصور ان کی تمام سرگرمیوں کا محور رہا ہے۔لیکن بدقسمتی سے یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت کا رویہ طلباء کی سیاست کے بارے میں ہمیشہ سخت گیر اور سرد رہا ہے۔حکام کو چاہیے کہجدید جمہوریت کے پس منظر میں طلباء کے کردار کو تسلیم کیا جائے اور انہیں اتنی جگہ دی جائے کہ وہ معاشرے کی بہتری کے لئے پر امن انداز میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
(ترجمہ: شیبا چوہدری)