سید احمد (شہید) کی تحریک جہاد عملی طور پر 1826سے شروع ہوئی اور 1831 میں آپ کی ہلاکت پر اختتام پذیر ہوئی۔ تاہم غیر منظم طور پر یہ 1857 کے بعد بھی مسلح جہاد کی صورت میں چلتی رہی۔ اس تحریک نے اور بھی بہت سے تحاریکِ جہاد کو جنم دیا، جو اسی انجام کو پہنچی جو اس تحریک کو پیش آیا، مثلاً بنگا ل میں تیتو میر کی تحریک، تحریک ریشمی رومال اور صادق پور پٹنہ کا مرکزِ جہاد، جہادِ شاملی وغیرہ۔
گزشتہ صدی میں ابو الحسن ندوی، مولانا غلام رسول مہر وغیرہ کی تحقیقات اور تصنیفات نے اس تحریک کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔ خصوصاً ابو الحسن ندوی کی سیرتِ سید احمد شہید پڑھ کر ایک عام قاری کا یہ تاثر ہوتا ہے کہ اگر کوئی دین کی حقیقی خدمت کرنا چاہتا ہے تو یا تو خود کوئی تحریکِ جہاد اٹھا دے اگر اس قابل ہے یا پہلے سے موجود کسی جہادی تنظیم کا حصہ بن کر اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اپنی جان دے کر سرخرو ہو جائے۔ یہ کتب طالبان جیسی تحریکوں کو مسلسل افرادی قوت مہیا کرنے کا مستقل ذریعہ ہیں۔
گزشتہ صدی میں ابو الحسن ندوی، مولانا غلام رسول مہر وغیرہ کی تحقیقات اور تصنیفات نے اس تحریک کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔ خصوصاً ابو الحسن ندوی کی سیرتِ سید احمد شہید پڑھ کر ایک عام قاری کا یہ تاثر ہوتا ہے کہ اگر کوئی دین کی حقیقی خدمت کرنا چاہتا ہے تو یا تو خود کوئی تحریکِ جہاد اٹھا دے اگر اس قابل ہے یا پہلے سے موجود کسی جہادی تنظیم کا حصہ بن کر اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اپنی جان دے کر سرخرو ہو جائے۔ یہ کتب طالبان جیسی تحریکوں کو مسلسل افرادی قوت مہیا کرنے کا مستقل ذریعہ ہیں۔
جمیعت علمائے ہند نے، ہندوستان کے نئے سیاسی منظر نامے کے معروضی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے ، مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے نظریے سے دستبردار ہو کر مشترکہ قومیت اور جمہوریت کے اندر سیکولر ازم کے ذریعے مذہبی آزادی کے خیالات کو اپنا لیا لیکن جمیعت علمائے اسلام ،سید احمدصاحب کے نظریے سے زیادہ قریب رہی
سید صاحب کی تحریک کا نظریاتی اور حکمتِ عملی کا جامع تجزیہ کرنے کی آج بھی ضرورت ہے، کیونک آج بھی یہ تحریک سیاسی دینی تحریکات کے لیے، خصوصًا برّصغیر میں، سب سے بڑے محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔ سید صاحب کی تحریک شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد العزیز کے نظریات سے مولود ہوئی۔ برصغیر کے بعد پوری دنیا میں غلبہءاسلام اس کا مطمعِ نظر تھا ۔ پنجاب میں سکھوں کے ظلم وستم کا استیصال اس کا اولین ہدف تھا ۔ بالاکوٹ میں سید صاحب اور آپ کے قریبی احباب کی ہلاکت کے بعد بھی بہت عرصہ مسلح جدوجہد جاری رہی۔ تاہم،1857 کے بعد یہ تعلیمی جدوجہد میں تبدیل ہوئی اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند، سہارنپور، ندوۃ العلماء ، اہلِ حدیث کے مدارس وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوئی جو اپنے طلباء میں جہاد کی آبیاری کرتے رہے۔
کانگریس کے قیام کے بعد یہ تحریک سیاسی جدوجہد میں تبدیل ہوئی۔ پہلے جمیعت علمائے ہند اور پھر جمیعت علمائے اسلام کی صورت میں اس تحریک کے لواحقین دو الگ راستوں کے راہی بنے۔ جمیعت علمائے ہند نے، ہندوستان کے نئے سیاسی منظر نامے کے معروضی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے ، مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے نظریے سے دستبردار ہو کر مشترکہ قومیت اور جمہوریت کے اندر سیکولر ازم کے ذریعے مذہبی آزادی کے خیالات کو اپنا لیا لیکن جمیعت علمائے اسلام ،سید احمدصاحب کے نظریے سے زیادہ قریب رہی۔ اس نے مسلم لیگ کے الگ وطن کی جدوجہد میں اسلامی سلطنت کا خواب پھر سے استوار ہوتے دیکھا تو اس میں شامل ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد، حکومتوں کے اسلام ‘نافذ’ کرنے سے گریز کی روش کی وجہ سے یہ تحریک آئینی جدجہد میں تبدیل ہو گئی۔ پھر یہ بتدریج جارحانہ ہوتی چلی گئی۔ تحریکِ نفاذِ نظامِ مصطفی سے یہ احتجاج میں تبدیل ہوئی اور تحریک نفاذِ شریعت اور طالبان کی صورت میں پھر سے مسلح ہوگئی۔ یوں دیکھئے تو سید صاحب کی تحریک تاریخ کا چکر کاٹ کر پھر اسی نقطہ پر کھڑی ہوگئی جہاں سے چلی تھی۔
سید صاحب کی تحریک کی بنیاد حکومتِ الہیہ کے قیام، نجی جہاد، امامت اور شاہ عبد العزیز کے دارالحرب کے فتوی پر تھی ۔ سید صاحب کے نزدیک، شاہ ولی اللہ کے تعلیمات کی روشنی میں، قیامِ خلافت یا اسلام کا سیاسی غلبہ واجباتِ دین میں سے ہے۔ ہندوستان میں غیر مسلموں کے بڑھتے اقتدار کے نتیجے میں شاہ عبد العزیز کے فتوی کی رُو سے ہندوستان دارالحرب بن چکا تھا۔ اسلامی سیاسی غلبہ کے لیے جہاد فرض تھا اور چونکہ کوئی مسلم حکمران اس کے لیے تیار نہ تھا تو چند لوگوں نے اس کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے نجی طور پر شروع کرنا ضروری سمجھا۔ اس کے لیے دستیاب امام سید احمد شہید تھے۔
کانگریس کے قیام کے بعد یہ تحریک سیاسی جدوجہد میں تبدیل ہوئی۔ پہلے جمیعت علمائے ہند اور پھر جمیعت علمائے اسلام کی صورت میں اس تحریک کے لواحقین دو الگ راستوں کے راہی بنے۔ جمیعت علمائے ہند نے، ہندوستان کے نئے سیاسی منظر نامے کے معروضی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے ، مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے نظریے سے دستبردار ہو کر مشترکہ قومیت اور جمہوریت کے اندر سیکولر ازم کے ذریعے مذہبی آزادی کے خیالات کو اپنا لیا لیکن جمیعت علمائے اسلام ،سید احمدصاحب کے نظریے سے زیادہ قریب رہی۔ اس نے مسلم لیگ کے الگ وطن کی جدوجہد میں اسلامی سلطنت کا خواب پھر سے استوار ہوتے دیکھا تو اس میں شامل ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد، حکومتوں کے اسلام ‘نافذ’ کرنے سے گریز کی روش کی وجہ سے یہ تحریک آئینی جدجہد میں تبدیل ہو گئی۔ پھر یہ بتدریج جارحانہ ہوتی چلی گئی۔ تحریکِ نفاذِ نظامِ مصطفی سے یہ احتجاج میں تبدیل ہوئی اور تحریک نفاذِ شریعت اور طالبان کی صورت میں پھر سے مسلح ہوگئی۔ یوں دیکھئے تو سید صاحب کی تحریک تاریخ کا چکر کاٹ کر پھر اسی نقطہ پر کھڑی ہوگئی جہاں سے چلی تھی۔
سید صاحب کی تحریک کی بنیاد حکومتِ الہیہ کے قیام، نجی جہاد، امامت اور شاہ عبد العزیز کے دارالحرب کے فتوی پر تھی ۔ سید صاحب کے نزدیک، شاہ ولی اللہ کے تعلیمات کی روشنی میں، قیامِ خلافت یا اسلام کا سیاسی غلبہ واجباتِ دین میں سے ہے۔ ہندوستان میں غیر مسلموں کے بڑھتے اقتدار کے نتیجے میں شاہ عبد العزیز کے فتوی کی رُو سے ہندوستان دارالحرب بن چکا تھا۔ اسلامی سیاسی غلبہ کے لیے جہاد فرض تھا اور چونکہ کوئی مسلم حکمران اس کے لیے تیار نہ تھا تو چند لوگوں نے اس کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے نجی طور پر شروع کرنا ضروری سمجھا۔ اس کے لیے دستیاب امام سید احمد شہید تھے۔
جہاد کی اجازت اور احکامات ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل کیے گئے ہیں اس لیے جہاد و قتال سے متعلق تمام آیات کو ریاستِ مدینہ کے قیام کے بعد کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے
راقم الحروف کے مطابق، سید صاحب کی تحریک کی یہ نظریاتی بنیادیں اسلام کی غلط تعبیرات سے پیدا ہوئیں، یہی تعبیرات ہمارے دور تک چلی آ رہی ہیں اور بےشمار تحاریکِ جہاد کو جنم دے چکی ہیں۔ راقم کے نزدیک، مسلمانوں کے لیے حالتِ اقتدار میں تو شریعت کے اجتماعی احکامات و قانون کا اختیار کرنا واجب ہے، لیکن ان کے نفاذ کےلیے حصولِ ریاست فرض یا واجب نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے صاحبِ مال کے لیے ادائیگیِ زکوۃ فرض ہے لیکن ادائیگیِ زکوۃ کے لیے کسبِ مال فرض یا واجب نہیں ۔ شریعت کے تمام احکامات کا یہی اصول ہے کہ و ہ افراد کے حالات کے تناظر میں لاگو ہوتے ہیں۔ اقتدار سے تہی مسلمانوں کو اقتدار کے حصول کا حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ ا ن پر ان کے حالات میں اسلام کے احکامات پر مقدور بھر عمل کرنا ضروری ہے۔تاہم، اگر وہ اقتدار میں ہوں تو اسلام کے اجتماعی احکامات پر عمل درآمدکا مطالبہ ان کے کیا جائے گا۔
نجی جہاد کا کوئی تصور اسلام میں نہیں، جہاد امامت اور ریاست کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے۔ جہاد کی اجازت اور احکامات ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل کیے گئے ہیں اس لیے جہاد و قتال سے متعلق تمام آیات کو ریاستِ مدینہ کے قیام کے بعد کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ حکومت کی کوتاہی سے اگر حدود کا نفاذ نجی شعبہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تو جہاد کو کیوں کر نجی شعبہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک دارالحرب کے فتوی کا تعلق ہے تو کسی جگہ کا دارالحرب قرار پا جانے کے بعد پہلا تقاضا ہجرت ہوتاہے ، نہ کہ جہاد۔ لیکن ہمیں شاہ عبد العزیز یا سید احمد کی طرف سے ہندوستان کے مسلمانوں یا کم از کم پنجاب کے مسلمانوں، جو راجہ رنجیت سنگھ کے مظالم ک شکار تھے، سے اس کا مطالبہ نظر نہیں آتا۔ لاکھوں مسلمانوں میں سے زیادہ سے زیادہ پندرہ سو مسلمانوں نے سید صاحب کے ساتھ ہجرت کی تھی ،جو کہ انتہائی ناکافی تعداد ہے۔
نجی جہاد کا کوئی تصور اسلام میں نہیں، جہاد امامت اور ریاست کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے۔ جہاد کی اجازت اور احکامات ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل کیے گئے ہیں اس لیے جہاد و قتال سے متعلق تمام آیات کو ریاستِ مدینہ کے قیام کے بعد کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ حکومت کی کوتاہی سے اگر حدود کا نفاذ نجی شعبہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تو جہاد کو کیوں کر نجی شعبہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک دارالحرب کے فتوی کا تعلق ہے تو کسی جگہ کا دارالحرب قرار پا جانے کے بعد پہلا تقاضا ہجرت ہوتاہے ، نہ کہ جہاد۔ لیکن ہمیں شاہ عبد العزیز یا سید احمد کی طرف سے ہندوستان کے مسلمانوں یا کم از کم پنجاب کے مسلمانوں، جو راجہ رنجیت سنگھ کے مظالم ک شکار تھے، سے اس کا مطالبہ نظر نہیں آتا۔ لاکھوں مسلمانوں میں سے زیادہ سے زیادہ پندرہ سو مسلمانوں نے سید صاحب کے ساتھ ہجرت کی تھی ،جو کہ انتہائی ناکافی تعداد ہے۔
اسلامی خلافت کا قیام دین کا کوئی ایسا واجب تقاضا نہیں کہ اس کی خاطر مہمیں چلائی جائیں اور قیمتی جانیں قربان کی جائیں
سید صاحب کے طریقہ کار میں نوٹ کیا گیا کہ آپ نے جہاد پہلے شروع کیا (اکوڑہ کا شب خون)، بیعتِ امامت بعد میں لی (جب دیکھا کہ مقامی مجاہدین جنگ کی بجائے مالِ غنیمت لے کر چلتے بنے اور اس کی شرعی تقسیم پر آمادہ نہ ہوئے)، اس کے بعد ریاست کے حصول کی کوشش کی اور اس کے بعد لوگوں پر شریعت کا نفاذ کرنے کی کوشش کی جو اس کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ ترتیب رسول ﷺ کی سنت کے بالکل برعکس ہے۔ آپؐ کو مدینہ کے لوگوں نے اپنا امام پہلے تسلیم کیا، پھر خود سے ریاست مہیا کردی، آپؐ نے ان کی مرضی سےان پر شریعت نافذ کی ، اور جہاد سب سے آخر میں کیا گیا۔ اس کے علاوہ سید صاحب نے دشمن کے مقابلے میں عددی قوت کےفرق کو نظر انداز کیا۔آپ کے پاس قابلِ بھروسہ جنگجوؤں کی تعداد 1500 سے زیادہ نہ تھی، جو پوری طرح مسلح بھی نہ تھے اور بنیادی ضروریات کی تکمیل سے بھی تہی تھے ۔ جب کہ سکھوں کی صرف سرحدی فوج 8000 سے 10،000 تک تھی۔ جو پوری طرح مسلح اور اپنے وقت کی بہترین فوجی قوت تھی۔
اسلامی خلافت کا قیام دین کا کوئی ایسا واجب تقاضا نہیں کہ اس کی خاطر مہمیں چلائی جائیں اور قیمتی جانیں قربان کی جائیں ۔ مسلمانوں پر صرف یہ فرض ہے کہ وہ جب بھی پرامن طریقہ سے اقتدار میں آئیں، خواہ مطلق حیثیت سے یا مخلوط حکومت میں، تو مسلم معاشرے کے مسلم افراد کے لیے اسلام کے اجتماعی احکامات پر عملدرآمد کے لیے ضروری آسانیاں پیدا کردیں۔ اس سے زیادہ کو کوئی مطالبہ خدا نے ان سے نہیں کیا۔ ریاست کے حصول کا کوئی حکم قرآن میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ جہاں تک تعلق ہے رسولﷺ اور آپؐ کے صحابہ کے غلبے کا تو وہ ایک خدائی قانون کے تحت تھا کہ اللہ نے یہ طےفرما دیا تھا کہ حق کی نشانی کے طور پر انہیں غلبہ لازمًا ملنا تھا۔ مثلاً درج ذیل آیات ملاحظہ کیجئے:
اسلامی خلافت کا قیام دین کا کوئی ایسا واجب تقاضا نہیں کہ اس کی خاطر مہمیں چلائی جائیں اور قیمتی جانیں قربان کی جائیں ۔ مسلمانوں پر صرف یہ فرض ہے کہ وہ جب بھی پرامن طریقہ سے اقتدار میں آئیں، خواہ مطلق حیثیت سے یا مخلوط حکومت میں، تو مسلم معاشرے کے مسلم افراد کے لیے اسلام کے اجتماعی احکامات پر عملدرآمد کے لیے ضروری آسانیاں پیدا کردیں۔ اس سے زیادہ کو کوئی مطالبہ خدا نے ان سے نہیں کیا۔ ریاست کے حصول کا کوئی حکم قرآن میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ جہاں تک تعلق ہے رسولﷺ اور آپؐ کے صحابہ کے غلبے کا تو وہ ایک خدائی قانون کے تحت تھا کہ اللہ نے یہ طےفرما دیا تھا کہ حق کی نشانی کے طور پر انہیں غلبہ لازمًا ملنا تھا۔ مثلاً درج ذیل آیات ملاحظہ کیجئے:
ترجمہ: اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔
خدا کا یہی وعدہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ، بنی اسماعیل ؑ کے ساتھ بھی تھا۔:
خدا کا یہی وعدہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ، بنی اسماعیل ؑ کے ساتھ بھی تھا۔:
ترجمہ: تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح کیے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک میں اقتدار بخشے گا جیسا کہ ان لوگوں کو اقتدار بخشا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نافرمان ہیں۔
ترجمہ: کیا یہ (اہلِ کتاب) لوگوں (بنی اسماعیلؑ) سے اللہ کی اُس عنایت پر حسد کر رہے ہیں جو اُس نے اُن پر کی ہے؟ (یہی بات ہے تو سن لیں کہ) ہم نے تو اولاد ابراہیم (کی اِس شاخ) کو اپنی شریعت اور اپنی حکمت بخش دی اور اُنھیں ایک عظیم بادشاہی عطا فرما دی ہے.
ملاحظہ کیجئے ان آیات کا بیان خدائی وعدے اور خدائی فیصلہ کا اعلان ہے۔ اسے کسی شرعی حکم کے طور پر بیان نہیں کیا گیا کہ مسلمانو ں پر اب حصولِ ریاست اور حکومت فرض یا واجب قرار دے دیا گیا ہو۔رہا یہ سوال کہ پھر اس آیت کا کیا مصداق ہے:
تو اس آیت کا مصداق ‘و لو کرہ المشرکون’ سے خود طے ہو رہا ہے، یعنی یہ غلبہء دین، عرب اور اس کے نواحی علاقوں کے ادیان پر ہونا تھا تاکہ اتمامِ حجت کے بعدخدا اور اس کے رسول کی صداقت کا محسوس نشان مسلمانوں کے غلبے کی صورت میں قائم ہو جائے۔ لیکن کہیں بھی یہ حکم کی شکل میں موجود نہیں کہ ایسا کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔ مسلمانوں پر تو جس حال میں بھی ہوں، اقتدار میں یا اقتدار سے باہر، اللہ کے دین پر عمل کرنا واجب ہے۔ ہر دو حالتوں کے احکامات موجود ہیں۔ تاہم، غلبہء اسلام کاحکم چونکہ سرے سےموجود ہی نہیں، اس لیے مسلمانوں کے غلبے کو دینی حکم سمجھ کرمسلم افراد کا نجی طور پر یا مسلم حکومتوں کا حکومتی سطح پر اس کے لیے جتھے بندی کرنا اور پر امن غیر مسلم افراد اور ممالک پر جنگ مسلط کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ تاہم، ظلم و ستم کے استیصال اور دفاع کے فطری حق کے لیے لڑنا تو بدیہات میں سے ہے اور اسلام اس کی حمایت کرتا ہے لیکن لازمی نہیں کہ یہ لڑائی ہتھیار بند مزاحمت کی ہی صورت میں ہو۔ زمانے کے مروجہ سیاسی نظام کے تحت اپنا دفاع کرنا اور اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش ایک سیاسی معاملہ ہے اور اس کے لیے سیاسی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔
مگر انہی غیر واجب باتوں کو واجب قرار دے کر سید احمد (شہید)نے جو تحریک برپا کی گئی تھی وہ آج بھی طالبان کی صورت میں زندہ ہے۔ یہاں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم پہلے فریق (سید احمد شہید) کو درست قرار دیتے ہیں تو اس دوسرے فریق (طالبان) کو غلط نہیں کہہ سکتے۔اگر دوسرا غلط ہے تو پہلے کی تغلیط کی ہمت بهی لامحالہ کرنی ہوگی۔ ہمیں اس دوغلے پن سے براءت کا اعلان کرنا ہوگا۔ سید صاحب کی اس پراثر تحریک کا درست تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مستقبل کے اولوالعزم مسلمان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بہتر طور پر استعمال کیا جا سکے۔
مگر انہی غیر واجب باتوں کو واجب قرار دے کر سید احمد (شہید)نے جو تحریک برپا کی گئی تھی وہ آج بھی طالبان کی صورت میں زندہ ہے۔ یہاں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم پہلے فریق (سید احمد شہید) کو درست قرار دیتے ہیں تو اس دوسرے فریق (طالبان) کو غلط نہیں کہہ سکتے۔اگر دوسرا غلط ہے تو پہلے کی تغلیط کی ہمت بهی لامحالہ کرنی ہوگی۔ ہمیں اس دوغلے پن سے براءت کا اعلان کرنا ہوگا۔ سید صاحب کی اس پراثر تحریک کا درست تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مستقبل کے اولوالعزم مسلمان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بہتر طور پر استعمال کیا جا سکے۔
It is very important to establish that what was the ideological inspiration for Syed Ahmed and let me tell you his inspiration was not Shah wali Ullah. His mentor brought so called religious liberalism which has turned into the today’s extremism.
محترم ڈاکٹر عرفان صاحب
آپ نے بہت ہی اچھے موضوع پر بات کی ہے اور نہایت اہم نکتہ اٹھایا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ کی بیان کی گئی اکثر باتیں آپ کے اپنے ذہن کی اختراع لگتی ہیں اور آپ ذرا سی تحقیق کر لیتے تو شاید آپ کو اپنے سوالوں کا جواب مل جاتا۔
Aoa Dr Irfan sb, I carefully read your article and it seems that you don’t have enough grip on history. This article is doubtful due to distorting facts and contradictions in your thoughts. You have used Quranic verses up to your wish. Please don’t distort the history and religion.
https://www.facebook.com/notes/riaz-papin/the-story-of-another-ameer-ul-momineen-syed-ahmad-of-bareli/667899963274324
this is a sub-article of my research paper on syed Ahmad shaheed, detailed research paper will be public after it is published.
This is an opinion base article taken from my research paper, which will be public after its publication.