کراچی کے ایم اے جناح روڈ پرریڈیو پاکستان کراچی کی قدیم عمارت واقع ہے جسے اب تاریخی ورثہ قرا دے دیاگیا ہے، یہ وہ عمارت ہے جہاں سے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی تقریر نشر ہوئی۔ اس کے علاوہ وطن عزیز پاکستان اور پوری دنیا میں مقیم بہت سی نامور شخصیات نے اپنی فنی زندگی کا آغاز اسی عمارت سے شروع کیا تھا جن میں ملکہ ترنم نورجہاں ، شہنشاہ غزل مہدی حسن ، ریشماں ، شکیل احمد، انور بہزاد اور قوی خان کے نام سر فہرست ہیں۔
ریڈیوپاکستان کراچی کی قدیم عمارت کے اندر آج بھی ان تمام فنکاروں کی تصاویر موجود ہیں جنہوں نے اس کے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر ملک کے دور دراز علاقوں تک اپنی آواز کا جادو جگایا
اس عمارت کی اہمیت کا اندازہ احمد رشدی کے اس مشہور گانے سے لگایا جاسکتا ہے جو ایک صدی تک لوگوں کے دلوں پر راج کرتا رہا جس کے بول کچھ یوں تھے؛ بندر روڈ سے کیماڑی چلی رے گھوڑا گاڑی بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر ۔۔۔ یہ آیا ریڈیو پاکستان گویا خبروں کی ہے دکان شکیل احمد بھی انور بھی ۔۔۔۔ وطن عزیز کے نامی گرامی گلوکار، فلمی دنیا پر راج کرنے والے ستارے اور دنیائے کھیل میں براہ راست تبصرے کرنے والی شخصیات یہاں تک کہ مشہور مصور صادقین بھی ریڈیو پاکستان کراچی میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام کیا کرتے تھے ۔
کافی عرصہ پہلے ہمارے ریڈیو لسنرز کلب نے ریڈیو چین کی اردو سروس کے تعاون سے اس عمارت میں ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا تھا جس میں چین ریڈیو کے وفد نے شرکت کی تھی۔ اس پروگروم میں مدعو مہمانان گرامی میں محمد قوی خان ، منی بیگم، ہما میر ، طلعت حسین ، فاضی واجد، شکیل احمد اور دیگر فنکاروں نے دوران گفتگو فخریہ انداز میں بتایا کہ یہی وہ عمارت ہے جہاں سے انھوں نے اپنے فنی زندگی کا آغاز کیا ۔گویا فن کے حوالے سے یہ عمارت ہماری پہلی درس گاہ ہے ۔
میں اکثر پروگراموں کے انعقاد کی وجہ سے ریڈیو پاکستان کراچی کےاسٹیشن ڈائریکٹر جناب محمد نقی صاحب سے ملنے اس عمارت میں جایا کرتا تھا اس وقت اس عمارت کے در و دیوار ایک شاندار منظر پیش کرتے تھے ۔ کافی عرصےبعد گزشتہ دنوں ماضی کی یادیں ایک بار پھر مجھے اس عمارت میں کھینچ لائیں۔ جونہی میں اس عمارت کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا تو یقین جانیں اس عمارت کی بے بسی اور حکومت کی بے حسی دیکھ کر آنکھیں نم ہوگئیں ۔ اس شاندار اورتاریخی اہمیت کی حامل عمارت کا آج کوئی پرسان حال نہیں جسے خود حکومت نے تاریخی ورثہ قرار دے کر لاوارث چھوڑ دیا ہے ۔گذشتہ دنوں کراچی سے تعلق رکھنے والی شاعرہ اور تاریخی ورثے کی شائق محترمہ فائقہ حفیظ نے اس ادارے کا دورہ کیاتو انہوں نے اس عمارت کی کئی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں جس سے اس عمارت کی خستہ حالی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
کافی عرصہ پہلے ہمارے ریڈیو لسنرز کلب نے ریڈیو چین کی اردو سروس کے تعاون سے اس عمارت میں ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا تھا جس میں چین ریڈیو کے وفد نے شرکت کی تھی۔ اس پروگروم میں مدعو مہمانان گرامی میں محمد قوی خان ، منی بیگم، ہما میر ، طلعت حسین ، فاضی واجد، شکیل احمد اور دیگر فنکاروں نے دوران گفتگو فخریہ انداز میں بتایا کہ یہی وہ عمارت ہے جہاں سے انھوں نے اپنے فنی زندگی کا آغاز کیا ۔گویا فن کے حوالے سے یہ عمارت ہماری پہلی درس گاہ ہے ۔
میں اکثر پروگراموں کے انعقاد کی وجہ سے ریڈیو پاکستان کراچی کےاسٹیشن ڈائریکٹر جناب محمد نقی صاحب سے ملنے اس عمارت میں جایا کرتا تھا اس وقت اس عمارت کے در و دیوار ایک شاندار منظر پیش کرتے تھے ۔ کافی عرصےبعد گزشتہ دنوں ماضی کی یادیں ایک بار پھر مجھے اس عمارت میں کھینچ لائیں۔ جونہی میں اس عمارت کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا تو یقین جانیں اس عمارت کی بے بسی اور حکومت کی بے حسی دیکھ کر آنکھیں نم ہوگئیں ۔ اس شاندار اورتاریخی اہمیت کی حامل عمارت کا آج کوئی پرسان حال نہیں جسے خود حکومت نے تاریخی ورثہ قرار دے کر لاوارث چھوڑ دیا ہے ۔گذشتہ دنوں کراچی سے تعلق رکھنے والی شاعرہ اور تاریخی ورثے کی شائق محترمہ فائقہ حفیظ نے اس ادارے کا دورہ کیاتو انہوں نے اس عمارت کی کئی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں جس سے اس عمارت کی خستہ حالی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
اس عمارت کا زوال بدقسمتی سے اس وقت شروع ہوا جب شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگنے کا ایک واقع پیش آیا، جس کے نتیجے میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کا کافی حصہ خاکستر ہوگیا
ریڈیوپاکستان کراچی کی قدیم عمارت کے اندر آج بھی ان تمام فنکاروں کی تصاویر موجود ہیں جنہوں نے اس کے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر ملک کے دور دراز علاقوں تک اپنی آواز کا جادو جگایا۔اسی عمارت کے ایک اسٹوڈیو سے محمدنقی ایک ایسا پروگرام نشر کرتے تھے جس کے نشر ہونے کے بعد عمارت میں لوگوں کا ہجوم لگ جاتا تھا اس پروگرام کا نام تھا یہ بچہ کس کا ہے یہ پروگرام ان بچوں کے انٹرویو پر مبنی ہوتا تھا جو اپنے گھروں سے بھاگ جاتے تھے اور اس پر ہجوم شہر میں گم ہوجاتے تھے جب وہ کسی فلاحی ادارے کو ملتے تھے تو وہ اسے اسی عمارت میں لے آتے تھے جہاں محمد نقی آواز کی لہروں پر ان بچوں کی آواز ان کے پیاروں تک پہنچاتے تھے اور اس کار خیر سے ہزاروں بچوں کو اپنے گھروں تک پہنچایا گیا ۔
زمانہ جنگ میں بھی اس عمارت کا ایک اہم کردار رہا دوران جنگ ملکہ ترنم نورجہاں اسی عمارت کے اسٹوڈیو سے افواج پاکستان کے اندر جوش اور ولولہ پیدا کرنے اور ان جانثاروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ملی نغمے گایا کرتی تھیں۔ ان ملی نغموں کی تیاری پہلے سے نہیں ہوتی تھی لیکن یہ اتنے اثر انگیز اور معیاری تھے کہ اکثر بھارتی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ پاکستان اس جنگ کی تیاری بہت پہلے کرچکا تھا۔ ان بھارتیوں کا خیال تھا کہ اتنے بہترین نغمات فی الفور ترتیب کے دے کر نورجہاں نہیں گا سکتی تھیں لیکن یہ تمام باتیں ان دنوں کی ہیں جب فقط ریڈیو ہی خبروں اور تفریح کاواحد زریعہ تھا ۔ اس عمارت کا زوال بدقسمتی سے اس وقت شروع ہوا جب شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگنے کا ایک واقع پیش آیا، جس کے نتیجے میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کا کافی حصہ خاکستر ہوگیا۔ تب سے یہ عمارت اسی حالت میں اپنی بے بسی پر اشکبار نظر آتی ہے ، اس قومی ورثے کو آتش زدگی کے بعد سے اب تک دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا۔
زمانہ جنگ میں بھی اس عمارت کا ایک اہم کردار رہا دوران جنگ ملکہ ترنم نورجہاں اسی عمارت کے اسٹوڈیو سے افواج پاکستان کے اندر جوش اور ولولہ پیدا کرنے اور ان جانثاروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ملی نغمے گایا کرتی تھیں۔ ان ملی نغموں کی تیاری پہلے سے نہیں ہوتی تھی لیکن یہ اتنے اثر انگیز اور معیاری تھے کہ اکثر بھارتی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ پاکستان اس جنگ کی تیاری بہت پہلے کرچکا تھا۔ ان بھارتیوں کا خیال تھا کہ اتنے بہترین نغمات فی الفور ترتیب کے دے کر نورجہاں نہیں گا سکتی تھیں لیکن یہ تمام باتیں ان دنوں کی ہیں جب فقط ریڈیو ہی خبروں اور تفریح کاواحد زریعہ تھا ۔ اس عمارت کا زوال بدقسمتی سے اس وقت شروع ہوا جب شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگنے کا ایک واقع پیش آیا، جس کے نتیجے میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کا کافی حصہ خاکستر ہوگیا۔ تب سے یہ عمارت اسی حالت میں اپنی بے بسی پر اشکبار نظر آتی ہے ، اس قومی ورثے کو آتش زدگی کے بعد سے اب تک دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا۔
یہاں میں تمام فنکاروں ، ادیبوں، شعراء، دانشوروں اور طلبہ سے بھی درخواست کروں گا کہ اس عمارت کے لیے جوکچھ کرسکتے ہیں کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے اور یہ قومی ورثہ کسی شاپنگ مال یا رہائشی پلازہ میں تبدیل ہوجائے
ریڈیو پاکستان کراچی کی نشریات کچھ عرصہ قبل سوک سنٹر کے قریب قائم ریڈیو پاکستان کی نئی عمارت میں منتقل کردی گئیں جہاں سے ریڈیو پاکستان کی ایف ایم 101 کی نشریات بھی نشر کی جاتی ہیں۔ اس میں قطی کوئی دوسری رائے نہیں کہ نئی عمارت ریڈیو کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین ہے اور بلند و بالا ہونے کی وجہ سے ٹرانسمیشن میں کئی سہولیات بھی میسر ہوں گی لیکن اس بات سے بھی اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ پرانی عمارت کو ایک تاریخی مقام حاصل ہے اس کی تعمیر و مرمت بھی بہت اہم ہے۔
میں دنیا کے بہت سے ریڈیوچینل 1986 سے سنتا چلا آرہا ہوں اس دوران میں نے کئی مشہور و معروف شخصیات کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ پہلے ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ تھے۔ میری ریڈیو کے حوالے سے کسی بھی نشریاتی ادارے سےآج بھی بات ہوتی ہے تو ریڈیو پاکستان کراچی کا ذکر ضرور آتا ہے جس کے ذکر پر مجھے ایک عرصے تک فخر رہا اب اس کے تذکرے پر شرمندگی اور مایوسی ہوتی ہے کہ میں انہیں کیا بتاؤں کہ اب اس عمارت کا کیا حال ہے ۔
ریڈیو پاکستان کراچی کسی فرد یا عمارت کا نام نہیں یہ ایک درسگاہ ہے اور جو قومیں اپنی ثقافت کی حفاظت نہیں کرسکتیں ان قوموں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔ میری حکومت پاکستان سے نہایت درد مندانہ اپیل ہے کہ اس قومی ورثہ پر توجہ دی جائے تاکہ اسے اپنی اصلی شکل میں واپس لایا جاسکے اور ایک مرتبہ پھر یہاں وہ تمام سرگرمیاں بحال ہوسکیں جو کبھی اس عمارت کی رونق تھیں۔ یہاں میں تمام فنکاروں ، ادیبوں، شعراء، دانشوروں اور طلبہ سے بھی درخواست کروں گا کہ اس عمارت کے لیے جوکچھ کرسکتے ہیں کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے اور یہ قومی ورثہ کسی شاپنگ مال یا رہائشی پلازہ میں تبدیل ہوجائے اور ماضی کی سنہری یادیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائیں ۔
میں دنیا کے بہت سے ریڈیوچینل 1986 سے سنتا چلا آرہا ہوں اس دوران میں نے کئی مشہور و معروف شخصیات کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ پہلے ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ تھے۔ میری ریڈیو کے حوالے سے کسی بھی نشریاتی ادارے سےآج بھی بات ہوتی ہے تو ریڈیو پاکستان کراچی کا ذکر ضرور آتا ہے جس کے ذکر پر مجھے ایک عرصے تک فخر رہا اب اس کے تذکرے پر شرمندگی اور مایوسی ہوتی ہے کہ میں انہیں کیا بتاؤں کہ اب اس عمارت کا کیا حال ہے ۔
ریڈیو پاکستان کراچی کسی فرد یا عمارت کا نام نہیں یہ ایک درسگاہ ہے اور جو قومیں اپنی ثقافت کی حفاظت نہیں کرسکتیں ان قوموں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔ میری حکومت پاکستان سے نہایت درد مندانہ اپیل ہے کہ اس قومی ورثہ پر توجہ دی جائے تاکہ اسے اپنی اصلی شکل میں واپس لایا جاسکے اور ایک مرتبہ پھر یہاں وہ تمام سرگرمیاں بحال ہوسکیں جو کبھی اس عمارت کی رونق تھیں۔ یہاں میں تمام فنکاروں ، ادیبوں، شعراء، دانشوروں اور طلبہ سے بھی درخواست کروں گا کہ اس عمارت کے لیے جوکچھ کرسکتے ہیں کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے اور یہ قومی ورثہ کسی شاپنگ مال یا رہائشی پلازہ میں تبدیل ہوجائے اور ماضی کی سنہری یادیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائیں ۔
بہت عمدہ بلاگ بہت حساس معاملے پر ۔