اوشو مجھے پسند بھی ہے، ناپسند بھی ہے۔ پسند ہے اس کی بغاوت، اس کا کھلنڈرا پن، اس کا سنجیدہ طنز، اس کی تیزی وطراری اور نا پسند ہے اس کا چارہ گرہونا، منافق ہونا اور درزی ہونا۔
مصلحین سے مجھے چڑ ہے، یہ چڑ اس لیے نہیں ہے کہ میں کسی ایسے آدمی کو پسند نہیں کرتا جو لوگوں کو سیدھے راستے پر لے جانا چاہتا ہے یا انہیں کچھ ایسی باتیں بتانا چاہتا ہے جن پر عمل کرکے ان کی زندگی بہتر ہوسکے۔ لیکن میں یہ ماننے پر مجبور ہوں کہ زندگی کو برتنے کے لیے بہرحال کسی نظریے کی ضرورت ہے، کوئی ایسا مینی فیسٹو ہر شخص کے ہاتھ میں ہونا لازمی ہے جس میں قانون کی عزت، خدا کا ڈر اور موت کے بعد کی زندگی کا ایک ماورائی اور مابعدالطبیعاتی تصور موجود ہو۔ لیکن ان نظریات کی بڑ سے دو قسم کے لوگ آزاد رہ سکتے ہیں، اول وہ جو عاشق ہیں اور دوسرے وہ جو فنکار ہیں۔کیونکہ یہ دونوں قسم کے لوگ آدھے عمل والے ہیں، آدھے عمل سے میری مراد ہے،کسی بھی نظریے کے نقائص کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اسے گالیاں دینا۔ باقی بچا عمل ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو مصلحین ہیں، جو صرف مرض کی تشخیص نہیں کرتے، اس کا علاج بھی بتاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ فنکارقسم کے لوگ اور عشق زدہ افراد ان میں بھی عیب تلاش کرلیتے ہیں مگر اس بات سے تو عقل کے اندھے بھی اتفاق کریں گے کہ دنیا میں کوئی نظریہ کامل نہیں ہے کیونکہ ایساہوپانا، ممکنات میں سے ہے ہی نہیں۔
کارل مارکس نے کہا تھا،مذہب افیون ہے تو میں سوال کرنا چاہوں گا کہ وہ کون سا نظریہ ہے جو افیون نہیں ہے، اور کون سا ایسا تمدنی نظام ہے جو انسان کی حالت کو یکسر بدلنے میں کامیاب ہوا ہے۔ دراصل جن انسانوں پر یہ نظریات راج کرتے ہیں، وہ عقلی سطح پر پرائمری کلاس کے بچے ہوا کرتے ہیں، جو ان نظریات کی باطنیت، روحانیت اور ارتقائیت سے دانت کانٹے کا بیر رکھتے ہیں۔ انہیں جتنا نظر آتا ہے، وہی ان کے لیے سماج ہے، وہی ان کے لیے مذہب ہے اور وہی ان کے لیے خدا ہے۔ بات میرے اور مصلحین کے درمیان قائم اس چڑ پر ہو رہی تھی، جو مجھ میں پائی جاتی ہے۔ اب میں کہوں گا کہ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ بس مجھے ادیب، مصلح سے زیادہ اچھا لگتا ہے، جو دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جہاں ایک طرف فطرت کے حسن کو بیان کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو دوسری طرف انسانیت کی کجی اور آدمیت کی بے راہ روی کو بھی جوں کا توں قبول کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اس کے برعکس مصلح ہمہ وقت سوچتا رہتا ہے کہ دنیا کو کیسے بدلا جائے، اس کے حساب سے برسوں سے رائج فرسود نظام اور مذہبی توہمات کی شکست کا ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے، ذہنی انقلاب اور اس ذہنی انقلاب کے لیے وہ جو پڑیا لوگوں کے ہاتھوں میں تھماتا ہے، وہ نئے مسائل کو جنم دیتی ہے، وجہ وہی اتنی سی ہے کہ مصلح آدمی کی آدمیت کو نظر انداز کرکے اپنا کام کرتا ہے، اس کے لیے وہ جو تہذیب کا مکھوٹا لگاتا ہے، جو آپ جناب کی گفتگو کرتا ہے، اس سے مجھے ریاکاری اور بناوٹ کی ایسی کھریند آتی ہے کہ کیا بتاوں۔
میں اوشو کو ویسے نہیں دیکھ رہا ہوں جیسے دنیا دیکھتی ہے، یعنی اسے پڑھنے اور سمجھنے اور اس کے اعمال کو جاننے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ جس معاشرے کی تشکیل میں مصروف ہے وہ مذہب کو امیروں کے لیے مخصوص کرتا ہے، جنس کی تربیت کرنے اور اسے پروان چڑھانے کے نسخے سمجھاتا ہے۔
مصلحین میں بھی میں ان صاف گو لوگوں کو پسند کرتا ہوں، جو اپنی شرافت اور شرارت دونوں کا اثر یکساں طور پر اپنی شخصیت میں جذب کرتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ان کا اعتراف کرتے ہیں۔ اسی لیے میں گاندھی کو پسند کرتا ہوں، نیلسن منڈیلا کو پسند کرتا ہوں مگر جب مجھ سے پوچھا جائے گا کہ میں خلیل جبران اور گاندھی میں سے زیادہ کس کو پسند کرتا ہوں تو خلیل جبران کا نام لوں گا۔ وجہ یہ ہے کہ ادیب راست گو ہوتا ہے، وہ اپنے اوپر بھی ہنسنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اس کی اپنی کمیاں، اپنی برائیاں بھی اس کے مشاہدے کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ اب ایسے انسان کا مقابلہ ان لوگوں سے کیسے کیا جاسکتا ہے جو اپنی تو کیا دوسروں کی بھی برائیوں کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ لیکن سماج ایک ڈھکے چھپے طرزعمل کو زیادہ پسند کرتا ہے، اسے تہذیب کی ان گولیوں کی لت لگ گئی ہے، جن کے بغیر اب وہ لڑکھڑاتا اور ہڑبڑاتا ہوا معلوم ہوگا۔ ادیب اس عادت سے چھٹکارا دلانے کی بات کرتا ہے تو پھر ادیب تو گالی کھانے کا حقدار ہوا ہی۔ اور جو دوا کے نام پر یہ زہر دینے کو تیار ہے، وہ مصلح کیوں کر بھگوان کا درجہ حاصل نہ کرے گا۔ ادیب کا یہی قصور، اس کا سب سے بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے، اور سماج کے سب سے بڑے آئنہ دار کوسماج کی سب سے خطرناک چیز سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ چنانچہ منٹو نے کہا تھا کہ
“میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اس لیے کہ یہ میرا کام نہیں، درزیوں کا ہے۔”
لیکن کچھ مصلحین میں ادبیت کے یہ جرثومے پائے جاتے ہیں۔ اور ذرا سوچ کر دیکھیے کہ اگر اچانک ہماری سوسائٹی میں کوئی ایسا شخص پیدا ہو جائے، جس میں ادب، اصلاح اور صنعت کاری جیسے تین عناصر بیک وقت جمع ہوجائیں تو وہ کیسا ہوگا۔ اوشو مجھے پسند بھی ہے، ناپسند بھی ہے۔ پسند ہے اس کی بغاوت، اس کا کھلنڈرا پن، اس کا سنجیدہ طنز، اس کی تیزی وطراری اور نا پسند ہے اس کا چارہ گرہونا، منافق ہونا اور درزی ہونا۔ کسی بھی چیز سے اختلاف کر کے اس سے متابعت و موافقت کی کوئی درمیانی راہ پیدا کرنا میرے نزدیک ایک گھٹیا عمل ہے اور اوشو کے یہاں یہ پایا جاتا ہے۔ اس کی زندگی کے بارے میں جاننے والے جانتے ہیں کہ اوشو نے جس ماحول میں تربیت پائی، اس میں اس کا باغی یا غیر مذہبی ہو جانا کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں تھا۔ خود اس کی نانی نے اس کی تربیت کچھ اس لاڈ پیار سے کی تھی کہ وہ مذہب کو اپنا نانا تصور کرنے لگا۔
اوشو بنیادی طور پر جس تصوف پر ہنستا اور قہقہے لگاتا ہے، دراصل اپنی بنیادوں میں وہ اسی جینیت کا مارا ہوا ہے۔
بچپن سے ہی میرے کانوں میں اوشو کا نام پڑگیا تھا، کیونکہ ہمارے گھر میں ہمارے چچا سلمان رضوی اسے بہت پسند کرتے تھے، اور پڑھتے تھے، انہوں نے تو غالباً پورا اوشو لٹریچر چاٹ ڈالا ہے۔ مگر نہ جانے کیوں میرے لیے ہمیشہ اس کی شخصیت مشکوک رہی، تب بھی جب میں اسے نہیں جانتا تھا۔ کیونکہ اوشو کے نظریات اور اس کا طرز حیات آپس میں کبھی لگا نہیں کھاتے نظر آئے۔ مجھے شروع سے ہی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ تصوف کے اتنے پاٹھ پڑھانے والا اوشو، آشرم والے اوشو سے کتنا مختلف ہے۔ مجھے اوشو کے آشرم جانے کا اتفاق نہیں ہوا، مگر جتنا میں نے اس کے بارے میں سنا ہے، وہ یہ بات بتانے کے لیے کافی ہے کہ اوشو اپنے آشرموں میں کسی بھی طور حرم میں لونڈیوں کے ساتھ رقص کرتے یزید سے کم تعیش پسند شحص نہیں تھا۔ اب مجھ جیسے شخص کو تو کم از کم یہ جنسی آزادی اتنا زیادہ متاثر نہیں کرسکتی، جس کے نزدیک نصیرالدین حیدر جیسے نوابوں کی بھی مثال ہو اور میراجی جیسے دیوانوں کی بھی۔
میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ مجھے آدھا اوشو پسند ہے، جو کہ باریش ہے، جس کی آنکھوں میں ذہانت ہے، بھنووں کی ٹیڑھ میں ایک خاص قسم کی انانیت ہے اور چہرے میں ایک شرارتی متانت اور لوگوں کے درمیان ہوکر بھی ان سے علیحدہ ہونے کا احساس نمایاں ہے۔ مگر وہ آدھا اوشو پسند نہیں ہے جو کہ بلا کا باریک، کاروباری اور فطین ہے، جس کے ایک ہاتھ میں مذہب کو دی جانے والی موٹی موٹی گالیاں ہیں تو دوسرے ہاتھ میں لوگوں کو عطا ہونے والے وہ فریبی لفظ ہیں جن کی اہمیت کسی سراب سے زیادہ نہیں۔ تصوف کی پیوندلگی چادر بچھا کر مخمل کے کپڑوں میں اس پر بیٹھ جانا، دراصل اوشو کی منافقت کو واضح کرتا ہے۔ اوشو لوگوں کی روحانی تربیت کرنے سے زیادہ انہیں بے وقوف بنا کر مزہ لیتا ہے۔ وہ کسی بھی کلیے کو رد کرتے وقت، اس کے عمق کو نظر انداز کردیتا ہے۔ ایسا شخص جلدباز ہوسکتا ہے اور جلدبازی مصلحین کی ایک خاص کمزوری ہے جو کہ اس بلا کے صلاحیت مند شخص میں بھی پائی جاتی ہے۔
اگر اوشو ذرا سا دنیادار بھی نہ ہوتا تو ایک بہت اچھا شاعر ہوتا یا پھر کوئی اور تخلیق کار۔ لیکن اس نے دوسرا راستہ پسند کیا۔
میں اوشو کو ویسے نہیں دیکھ رہا ہوں جیسے دنیا دیکھتی ہے، یعنی اسے پڑھنے اور سمجھنے اور اس کے اعمال کو جاننے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ جس معاشرے کی تشکیل میں مصروف ہے وہ مذہب کو امیروں کے لیے مخصوص کرتا ہے، جنس کی تربیت کرنے اور اسے پروان چڑھانے کے نسخے سمجھاتا ہے۔ لیکن ان دونوں معاملات کے نقائص پر اس کی نظر گہری نہیں ہے یا اگر ہے تو وہ ان کا کچا چٹھا بیان نہیں کرنا چاہتا۔ ایک ذرا لکھنئو کے تعیش پرست تمدن کا وہ تاریخی نظارہ آنکھوں میں سلائیوں کی طرح پھیرئیے جن میں نصیرالدین حیدر جیسے بادشاہ مذہب کی بھونڈی اور بیوقوفانہ رسم پرستی میں مصروف ہیں۔ جہاں عورت کو امام کی منکوحہ سمجھ کر اس کا منہ موتیوں سے تولا جارہا ہے اور اسے زندگی بھر اپنے تقدس کا بوجھ سینے پر باندھ کر گھومنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ان عورتوں کو اچھوتی کہا جارہا ہے۔ ‘اچھوتی’ جو کہ ایک مذہب کی عورت کو دی ہوئی ایک گالی ہے، دراصل اسی امارت کی پیدا کردہ ہے۔ دراصل اوشو سمجھتا ہے کہ صرف غریب آدمی، خدا کے پاس جاکر روٹی، کپڑا اور مکان مانگتا ہے، روتا ہے، بسورتا ہے، ہچکیاں باندھ لیتا ہے۔ مگر سوچ کر دیکھیے کہ مذہب کے نام پر یہ کیسی بکواس اوشو کے یہاں پائی جاتی ہے کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی تو صرف خدا کے دربار میں اپنی ٹانگوں کو دھیان کے نئے نئے تنتر سمجھاتی رہے، مگر غریب، پچھڑا اور دبا کچلا طبقہ جس کا واحد سہارا مذہب ہے، جس کے پاس رونے اور گانے کے لیے خدا کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں، صرف اس بات کے سبب سکھ بھوگنے کا حقدار نہ ہو کہ اس کے پاس بھاری بینک بیلنس نہیں ہے۔
اوشو بنیادی طور پر جس تصوف پر ہنستا اور قہقہے لگاتا ہے، دراصل اپنی بنیادوں میں وہ اسی جینیت کا مارا ہوا ہے۔ دراصل سارا مسئلہ کسی معاملے کو الجھانے کا ہے، دنیا کی گتھی تو بے چاری ویسی ہی اتنی عجیب ہے کہ جتنا سلجھاتے جائیے اور الجھتی چلی جائے گی اور اوشو تو ویسے بھی اس گتھی کو سلجھانا نہیں چاہتا تھا، وہ ایک شاطر اور عیار خیال فروش تھا۔ اس نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی، وہ بدلتی ہوئی قدروں اور الٹتی ہوئی تہذیبوں کا دور تھا۔ بات کہنے کی جرات اور سلیقہ دونوں ہی دنیا کے انقلابی افق پر نمودار ہوتے ہوئے دو ایسے بادل تھے، جن کے سائے سے بچنا ممکن نہیں تھا۔ دراصل ایسے حالات ہمیشہ ایک بڑے جمود کے بعد پیدا ہوتے ہیں اور پھر اوشو کا ابتدائی زمانہ تو بھارت میں سرمایہ دارانہ نظریے کے فروغ کا دور تھا۔ دبے کچلے ملک اپنے وجود کے لیے بڑی تیزی سے نبرد آزما تھے، آزادی کی کروٹ دھیرے دھیرے ایشیا اور افریقہ کی نوآبادیات میں گرم لہروں کے درمیان کروٹیں مارتی محسوس ہورہی تھی۔ کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرے نہ کرے مگر قومی اور عالمی تبدیلیوں کے اثرات ان ذہنوں پر شعوری یا غیر شعوری طور پر ضرور پڑتے ہیں ،جن کو اپنی کینچلیاں اتارتے رہنے کا شوق ہوتا ہے۔ اوشو جس ڈگر پر جارہا تھا، وہ انقلاب کی سطح پر تو بہت زیادہ چمکدار معلوم ہوتی ہے، مگر فلسفہ کھایا پیا نہیں جاسکتا، اس سے پیٹ نہیں بھرا جاسکتا، تو پھر کیا کیا جائے، وہ کون سی ترکیبیں ممکن ہیں جن سے لوگوں کا مال اینٹھا جائے، یہ اس ذہن کے لیے کہاں سے مشکل ہوتا، جس کی ذہانت پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی بے وقوف زندہ ہے، کوئی عقلمند بھوکا نہیں سو سکتا۔
اوشو کو عیسیٰ، گاندھی یا مدر ٹریسا جیسے لوگوں سے کوئی علاقہ نہیں تھا، اس کا اصل مقصد دنیا کی ایک چھوٹی اور بے وقوف آبادی کو اس چھلاوے کی نذر کرنا تھا، جو بس بغیر سوچے سمجھے تالیاں بجانا جانتی ہو۔
اوشو نے صارفیت کے اصولوں سے بڑا فائدہ اٹھا یا ہے، جیسے کہ کسی جدید ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ تخلیقی اپج رکھنے والے اچھے بزنس مین ثابت ہوسکتے ہیں، یا پھر ناقدوں کو بھی تجارت کرنی چاہیے تو اوشو میں تو کہیں نہ کہیں یہ دونوں خامیاں پائی جاتی تھیں۔ اگر اوشو ذرا سا دنیادار بھی نہ ہوتا تو ایک بہت اچھا شاعر ہوتا یا پھر کوئی اور تخلیق کار۔ لیکن اس نے دوسرا راستہ پسند کیا۔ میں نہیں کہتا کہ اوشو کی چٹپٹی باتوں میں لطف نہیں، یا اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، جیسا اس نے کیا، زندگی گزارنے، اسے برتنے اور اس کے ساتھ کھیل کھلواڑ کرنے کا پورا طریقہ ہمارا اپنا ہوتا ہے۔ اور پھر اوشو نے تو اپنی قسم کی ملائیت کا انتخاب اسی وقت کرلیا تھا جب وہ اپنی ڈگریاں پھاڑ رہا تھا۔
دنیا میں مادی ترقی کے دو بڑے وسائل بقول اوشو مذہب اور جنس ہیں۔ اوشو نے دونوں چیزیں بیچیں، اور لوگ تو خیر سدا کے کورعقل ہیں ہی، وہ تو اپنی کندذہنیت سے پریشان کسی نہ کسی کو بھگوان بنانے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ایشیائی مٹی میں خاص طور پر شخصیات کا تقدس اکثر بھگوان یا اوتار بنا کر کیوں کیا جاتا ہے، یہ بھی ایک غورطلب امر ہے۔ اس سے چاہے لوگوں کو اپنی مٹی سے محبت اور پرستاری کی کیسی بھی سوندھی مہک آتی ہوئی کیوں نہ محسوس ہو، مگر یقین جانیے یہ اعتماد کی کمزوری کی بھی علامت ہے۔ ہمارے یہاں آدمی ذرا سا ذہین ہوا اور آدمیت سے ماورا قرار دیاگیا۔ جسے کندھوں پر بٹھایا گیا اسے فرشتہ سمجھا گیا اور جسے سر پر جگہ دی گئی، وہ خدا ہوگیا۔ خود اوشو اپنے انجام سے واقف تھا، اس نے تو غالباً کہیں اپنے بھگتوں پر خود تنقید کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میرے آشرم منادر میں تبدیل ہوجائیں گے، اور ویسا ہی ہوا۔ دراصل یہ ہماری مٹی میں بسی ہوئی اس کاہلی کا شاخسانہ ہے، جس نے ہمارے ذہنوں کو لقوہ مار دیا ہے۔ ہم آدمی کو فوراً سے پیشتر عظیم ثابت کرنے کی دھن میں جٹ جاتے ہیں اور جہاں عظمت کے جرثومے اس میں کچھ زیادہ پائے گئے، وہ بے چارہ اپنی آدمیت سے بھی جاتا ہے۔ اوشو کو عیسیٰ، گاندھی یا مدر ٹریسا جیسے لوگوں سے کوئی علاقہ نہیں تھا، اس کا اصل مقصد دنیا کی ایک چھوٹی اور بے وقوف آبادی کو اس چھلاوے کی نذر کرنا تھا، جو بس بغیر سوچے سمجھے تالیاں بجانا جانتی ہو۔ اس نے مذہب کی تقلید کی اس کمزور رگ کو تو پکڑ لیا تھا کہ لوگ عقیدے کے طوق پہن لیں تو عقلیں مفت بیچ کھاتے ہیں مگر وہ ذرا اور ذہین تھا، اس نے خیال کیا کہ کیوں نہ ایسی جماعت پر ہاتھ ڈالا جائے جس کا گریبان قیمتی ہو۔
زندگی کا ابہام کوئی اوشو نہیں پا سکتا۔ کوئی گوتم بدھ اسے دھیان گیان کی مجلسیں آراستہ کرکے کھول نہیں سکتا۔ زندگی تو اپنے تمام تر انتشار کے ساتھ ہی زندہ ہے۔ شور، ہنگامے، ہیبت اور حیرت سب زندگی کی آوازیں ہیں اور آواز جیون کی سب سے بڑی علامت ہے۔
دراصل دنیا میں سکون کی تلاش، ایک سراب ہے اور کچھ بھی نہیں۔ سکون تلاش کرنے سے بہتر ہے کہ آدمی خودکشی کرلے۔ کسی درخت کی شاخ سے الٹے لٹک کر خدا کی ریاضت کرنا بھی بے وقوفی ہے اور سکون کی تلاش میں کسی برگد کے نیچے بیٹھ کر تپسیا کرنا بھی۔ آدمی حرکت سے پیدا ہوتا ہے اور زندگی کے مادے کی بنیاد میں آہیں ہیں، سانسوں کا شور ہے، تھوڑی تکلیف ہے ،رگڑ ہے، نوچ کھروچ ہے۔ ایسے عمل سے ظہور میں آنے والے مادے کا سکون کی تلاش میں بھٹکنا،کیا کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ کرشن نے گیتا میں یہ عقدہ بہت پہلے حل کر دیا تھا کہ انسان جو کام کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے، بس اسے کرے۔ اب چمار کو جھاڑو دینے میں اور کلرک کو کاغذات سنبھالنے میں اگر لذت حاصل نہیں ہورہی ہے تو اسے کیا کرنا چاہیے، یہ بتانے والا کوئی بھی نسخہ نہیں ہے اور نہ یہ نسخہ کبھی ایجاد ہوگا۔ زندگی حرکی عمل کا نام ہے۔ یہاں سکوت کا ایک ہی نام ہے، موت۔ لیکن لوگ سادہ لوح ہوتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرلیں تو شاید من ہلکا ہوجائے، ویسا کرلیں تو شاید دل کا بوجھ اتر جائے اور ایسے ہی لوگوں کا فائدہ مذہبی مصلحین اٹھاتے ہیں۔
زندگی کا ابہام کوئی اوشو نہیں پا سکتا۔ کوئی گوتم بدھ اسے دھیان گیان کی مجلسیں آراستہ کرکے کھول نہیں سکتا۔ زندگی تو اپنے تمام تر انتشار کے ساتھ ہی زندہ ہے۔ شور، ہنگامے، ہیبت اور حیرت سب زندگی کی آوازیں ہیں اور آواز جیون کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ہم ادیب ہیں، ہم پر لوگ ہنستے ہیں کہ یہ کیا فکر کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔ ادھ کچرے بال لیے، ماتھے پر شکن ڈالے گھوم رہے ہیں، مگر ہم جانتے ہیں کہ ہم زندہ ہیں۔ ہمیں برائی اپنی برائی کے ساتھ تو قبول ہے ہی، مگر اچھائی کو بھی ہم شاید اپنی برائی سمیت قبول کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہ جو ہماری اردو شاعری میں زاہد کا مذاق اڑایا گیا ہے، ملا کو بے وقوف سمجھا گیا ہے، ناصح سے بیزاری ظاہر کی گئی ہے، یہ سب کیا ہے۔ یہ دراصل دنیا کو اپنی اصلی صورت میں قبول کرنے کا حوصلہ ہی تو ہے۔ ہم شراب خانوں میں، کوٹھوں پر، نالیوں میں، پتھروں پر اور پانیوں میں زندگی کی ہر اس صورت سے پیار کرتے ہیں جس کو لوگ دھتکارتے ہیں۔ ہم تخلیق کار ہیں، ناصح نہیں۔ ہمیں دنیا کو بدلنے یا اپنی چھوٹی سی دنیا کو بنانے کا شوق نہیں ہے۔ ہم صرف الارض للہ کہہ کر اللہ کی زمین کو لہولہان کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ ہم وہ ہیں جن کے لفظوں میں زندگی کی گھناؤنی صورتیں کسی دھیان گیان سے کم نہیں کی جاتیں۔ بلکہ ان سے بھی محبت کا رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ انسان کی بنیادی کمزوریوں کو کسی نسخے سے کم یا ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی، اسے فلسفے کے ڈراپ کا پابند نہیں بنایا جاتا۔ ہم بے کھٹکے خدا کی بنائی ہوئی زندگی کے گھر میں داخل ہوسکتے ہیں، چاہے وہ ننگی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کو کپڑے پہنانا درزیوں کا کام ہے، اوشو کا کام ہے۔ ہمارا نہیں۔