Laaltain

جنگ، جہاد اور پاکستان؛ ایک مختصر جائزہ-پہلا حصہ

11 مارچ، 2016
Picture of ارشد محمود

ارشد محمود

[blockquote style=”3″]

بابر ایاز کی کتاب What’s wrong with Pakistan میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اب تک 6 جنگوں میں ملوث رہا ہے لیکن پاکستان ہر جنگ کو مذہبی جنگ (جہاد) کہہ کر ہی لڑا۔ عوام کو ایک مخصوص نقطہ نظر تک محدود رکھنے اور ایک خاص نظریے کی طرف مشغول رکھنے کے لیے ہر سطح پر جھوٹ بولنا اور حقائق کو مسخ کرنا پاکستانی ریاست کی روایت رہی ہے۔ اس سے نقصان یہ ہوا، کہ ایک جانب تو آپ اپنی نسلوں کو غلط معلومات فراہم کرتے ہیں، عوامی رائے عامہ متعصب رہتی ہے تو دوسری جانب ریاست کے وہ کرتا دھرتا جنہوں نے ایسے فیصلے کئے ہوتے ہیں جن سے ریاست اور قوم کو شدید نقصان پہنچا ہو وہ عوام کی نظروں میں پاک صاف، محب وطن اور باعزت رہتے ہیں۔ تاریخ میں قوموں کے ساتھ غلط فیصلے بھی ہوتے ہیں اور مہم جو عسکری اور سیاسی رہنما بھی پیدا ہو جاتے ہیں لیکن وہی قومیں ترقی کی طرف بڑھتی ہیں جو سچائیوں کا سامنا کرتی ہیں اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتی ہیں۔ نئی نسل کے لئے ضروری ہے کہ ان کے سامنے حقائق لائے جاتے رہیں جن کے دماغوں کو ‘مطالعہ پاکستان’ کی ایمانی افیون سے سلا دیا جاتا ہے۔ چنانچہ میں ان بابر ایاز کی کتاب میں مذکور 6 جہادوں کا مختصر خلاصہ پیش کر رہا ہوں۔ آپ دیکھیں گے، کہ ہمارے عسکری کمانڈروں اور سیاسی قائدین نے پاکستان اور عوامی مستقبل کے ساتھ کتنے خطرناک کھلواڑ کیے۔ جن کے بوئے ہوئے کانٹوں کے رستے زخم 20 کروڑ عوام برداشت کر رہے ہیں۔ لیکن مجال ہے جو ہمارے کسی فوجی یا سیاسی رہنما نے اپنی غلطی تسلیم کی ہو، اس پر ذرا بھی پچھتاوا محسوس کیا ہو۔ ہاں ان کی دولت، ثروت اورمراعات میں بے پناہ اضافہ ہوتا رہا ہے۔

[/blockquote]

اس تحریر کا دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
پہلا جہاد 1948، کشمیر کی آزادی:

 

آگ اور خون کے دریا پار کر کے پاکستان کو بنے ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہماری بانی قیادت پاکستان کو امن اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کے منصوبے بناتی، ریاست اور سماج کے ٹوٹے پھوٹے اداروں کو مستحکم کرتی، لیکن اس کی بجائے اسے آزادی کشمیر کی بیماری لگ گئی۔ تقسیم کے طے شدہ معاہدے کے مطابق کشمیر کے راجہ نے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنا تھا۔ راجہ کے فیصلے میں کچھ تاخیر ہوگئی تو پاکستانی قیادت خوف (Panic) میں مبتلا ہوگئی کہ کہیں راجہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ نہ کردے۔ ابھی کشمیر میں ہندوستان کی فوج موجود نہ تھی۔ چنانچہ پاکستانی ریاست نے طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر میں قبائلیوں کے نجی لشکربھیج کرحملہ کروا دیا تاکہ راجہ کے فیصلہ کرنے سے پہلے کشمیر کے جتنے بھی علاقے پر قبضہ ہوسکے، کر لیا جائے۔

 

ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہماری بانی قیادت پاکستان کو امن اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کے منصوبے بناتی، ریاست اور سماج کے ٹوٹے پھوٹے اداروں کو مستحکم کرتی، لیکن اس کی بجائے اسے آزادی کشمیر کی بیماری لگ گئی۔
پاکستان کا یہ پہلا غیر مہذب رویہ اور قدم تھا جس سے ہندوستان کو اخلاقی برتری مل گئی۔ یہ وہ رویہ ہے، جو گلی محلے میں غنڈے اختیار کرتے ہیں۔ راجہ نے فوری طور پر انڈیا سے الحاق کا فیصلہ کرتے ہوئے بھارتی فوج سے مدد مانگ لی۔ اگرچہ اس سے ہمیں ‘آزاد کشمیر’ کا حصہ تو مل گیا لیکن کشمیر ہمیشہ کے لئے تقسیم ہوگیا اور ہندوستان پاکستان کے درمیان ایک مستقل جنگی تنازع شروع ہو گیا۔ ہماری قیادت نے جارحیت میں پہل کی۔ اور اپنے اس برے فیصلے کے غیر متوقع نتائج repercussions پربالکل غور نہ کیا۔ (آپ دیکھیں گے، پاکستانی قیادت کا یہ غیرذمہ دارانہ مزاج اور رویہ مستقل مرض ہے، ہمارے رہنمااپنے کسی قدم کے نتائج پر غور نہ کرنے یا اسے بہت آسان لینے کی روش ترک کرنے کو تیار نہیں)۔

 

30 دسمبر 1948 میں جنگ بندی ہوئی۔ اس وقت مسئلہ کشمیر کوسمجھنے کے لئے ریاست جونا گڑھ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ریاست کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، اور راجہ ہندو تھا۔ جونا گڑھ میں اکثریت ہندو تھی، اور راجہ مسلمان تھا۔ ہماری قیادت جوناگڑھ کے مسلمان راجہ کو بھی مائل کر رہی تھی، کہ پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کرے اور ادھر کشمیر کے ہندو راجہ کو بھی۔ جب پاکستان نے بے صبری دکھاتے ہوئے کشمیر پر حملہ کروا دیا توپھرہندوستان نے نہ صرف کشمیر میں اپنی فوجیں بھیج دیں بلکہ جونا گڑھ پربھی وہاں کے مسلمان راجہ کو معزول کر کے قبضہ کر لیا۔ ہندوستان کا کہنا تھا، کہ اگرمسلم اکثریتی ریاست جس کا راجہ ہندو ہے پر پاکستان حق جتا رہا ہے تو پھر جونا گڑھ جو ہندو اکثریتی ریاست ہے، وہ پاکستان کو کیسے مل سکتی ہے۔ اور اگر پاکستان کشمیر کے راجہ کا فیصلہ تسلیم نہیں کرتا، تو پھر جوناگڑھ کے راجہ کا فیصلہ کیسے مانا جاسکتا ہے۔ گویا ہماری حماقت کی وجہ سے ہم جونا گڑھ بھی کھو بیٹھے اور کشمیر بھی۔ دنیا میں اپنا سفارتی اعتبار بھی گنوا بیٹھے کیونکہ مذاکرات کی میز پر ان کا فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا۔

 

دوسرا جہاد 1965 آپریشن جبرالٹر

 

مسئلہ کشمیر کو ‘زندہ’ رکھنے کے لئے دوسری بڑی مہم جوئی 1965 میں جنرل ایوب اور اس کے ساتھی جرنیلوں نے شروع کی۔
مسئلہ کشمیر کو ‘زندہ’ رکھنے کے لئے دوسری بڑی مہم جوئی 1965 میں جنرل ایوب اور اس کے ساتھی جرنیلوں نے شروع کی۔ اگست 1964 میں سیز فائر لائن (لائن آف کنٹرول) پر مسلح ‘مجاہدین’ کے پیچھے فوج کو بھیج کر پوشیدہ جنگ شروع کروا دی۔ ہماری عسکری قیادت کا احمقانہ مفروضہ یہ تھا کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں یہ کہہ کردھول جھونکیں گے کہ یہ کشمیری مجاہدین لڑ رہے ہیں اور یوں ہم اس غیر اعلانیہ جنگ سے کشمیر کو آزاد کروا لیں گے!! اس موقع پر ہندوستانی وزیراعظم نے اعلان کیا، کہ اگر پاکستان جنگ چاہتا ہے تو پھر ہندوستان اپنی پسند کا محاذ کھولے گا لیکن ہمارے جرنیلوں کی عقل پرپردہ پڑا رہا اور ہندوستان نے 6 ستمبر 1965 کو سیالکوٹ اور لاہور پر حملہ کر دیا۔ دو ہفتوں کے اندر اندر ہماری عسکری قوت کا پیمانہ خالی ہوگیا اور ہماری قیادت بین الاقوامی مداخلت کی طرف دیکھنے لگی۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہر پاکستانی نسل کو رٹا لگوایا جا رہا ہے، ‘بزدل ہندوستان نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کر دیا”۔ عسکری مورخین تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نے وہ جنگ نہیں جیتی تھی۔ اتنا ہوا، کہ ہمارے فوجی جوان وطن کے بچاو میں بہادری سے لڑے لیکن پاکستانی نسلوں کو بتانا کہ ‘ہندوپاکستانی فوج سے لڑ نہیں سکتا’ صریح جھوٹ ہے۔ہندوستان سے بھول ہوئی کہ اس نے مشرقی پاکستان کا محاذ نہ کھولا صرف ڈھاکہ اور چٹاگانگ پر ایک دو بار بمباری کی۔ 1951 میں پاکستان میں ہندوستان کے خلاف ‘جہاد’ شروع کرنے کا پروپیگنڈا شروع ہو گیا تو نہرو نے لیاقت علی خان کو تنیبہ کرتے ہوئے خط لکھا کہ جنگی جنونیت سے باز رہا جائے ورنہ ہندوستان اپنی مرضی کے محاذ پر لڑنے پر مجبور ہو گا۔

 

پاکستانی جرنیل ہمیشہ یہ خیالی پلاو پکاتے رہے کہ بھارت کے ساتھ جنگ صرف کشمیر تک محدود رہے گی۔ ان کے جنگ کے بارے تمام مفروضے اور منصوبے الٹے پڑے۔ 65 کی جنگ کا سرغنہ بھٹو کو کہا جاتا ہے۔ اس نے بطور وزیرخارجہ جنرل ایوب کو یقین دلایا کہ بھارت کے ساتھ جنگ کشمیر تک محدود رہے گی اور چین ہماری مدد کرے گا لیکن جرنیلوں کی ‘سادہ لوحی’ کی داد دیجئے، جو بھٹو کے ‘چکمے’ میں آ گئے۔ بھٹو سینٹو تنظیم کوپاکستانی فوج کی مدد کرنے کے لئے قائل کرتا رہا جب کہ ایک سال قبل رن آف کچھ کے معرکے میں امریکہ پاکستان کو اس کا دیا اسلحہ ہندوستان کے خلاف استعمال کرنے پر وارننگ دے چکا تھا۔ بھٹو ہندوستان کے بارے میں جارحیت پسند رویہ رکھتا تھا اوراس نے 65 کی جنگ کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال بھی کیا۔

 

پنجابیوں کو آج تک یہی یقین دلایا جاتا ہے، کہ ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا تھا اور ہم نے جنگ جیتی تھی جب کہ وہ 17 روزہ جنگ کوئی فریق نہ جیتا نہ ہارا۔
روسی وزیر خارجہ کی ثالثی میں تاشقند میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوا۔ جسے بھٹو نے تسلیم کرنے سے انکارکردیا، اور جنرل ایوب کے خلاف (بلاوجہ) معاہدہ تاشقند پر پراپیگنڈا کرنا شروع کر دیا۔ خاص طور پر پنجاب میں ہندوستان دشمنی کے جذبات بھڑکا کرسیاسی فائدہ لیتا رہا۔ پنجابیوں کو آج تک یہی یقین دلایا جاتا ہے، کہ ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا تھا اور ہم نے جنگ جیتی تھی جب کہ وہ 17 روزہ جنگ کوئی فریق نہ جیتا نہ ہارا۔ لیکن ہندو نفرت، اسلامی جوش و جذبہ اور تنگ نظر پاکستانی قوم پرستی کو جنگ کے دوران اور اس کے بعد خوب ابھارا گیا۔

 

تیسرا جہاد 1971 بنگالیوں کی تسخیر:

 

مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام نے خودمختاری لینا چاہی، تو ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا۔ اسلام پسندوں بشمول ہماری ریاست کا موقف یہ تھا کہ ‘مسلمان ایک قوم ہیں’ لیکن اسلام پسند (جماعت اسلامی) بنگا لی مسلمانوں کو محض اس بناء پر آدھا مسلمان اور آدھا ہندو کہتے تھے کیوں کہ ان کی عورتیں ساڑھی پہنتی ہیں اور ماتھے پر بندیا لگاتی ہیں۔ بنگالی ہندووں کی بطور پاکستانی وفاداری پر شک کیا جاتا تھا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اسلام پسندوں کے لئے یہ ہضم کرنا مشکل تھا کہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی طرح ہندووں کی ‘صفائی’ کیوں نہیں ہوئی۔ پاکستان کے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے پہلے جمہوری انتخابات میں مجیب الرحمان کی جماعت 6 نکات پر مشرقی پاکستان کی 100 فی صد نشستیں جیت گئی، مگر اس کامیابی کو عسکری اسٹیبلشمنٹ اور بھٹو نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مجیب الرحمان کی پارٹی پرپابندی لگا کر انتخابات کالعدم قرار دے دیے گئے۔ اور جعلی ضمنی انتخابات میں مشرقی پاکستان کی تمام نشستیں بھٹو کی پی پی پی اور جماعت اسلامی نے “جیت” لیں۔ مشرقی پاکستان کے معاملے میں بھٹو جنرلوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کے رد عمل پر بنگالی عوام نے کھلی بغاوت کا اعلان کردیا۔ سفاک فوجی آپریشن کی وجہ سے دسیوں لاکھ بنگالی ہجرت کر کے ہندوستان داخل ہو گئے۔ اس بار ہندوستان نے بھی بنگالیوں کی آزادی کی تحریک کا فائدہ اٹھایا۔ اندرا گاندھی نے عالمی پریس کو کہا، کہ کیا ہم بنگالی عوام کا قتل عام ہوتے دیکھتے رہیں۔

 

بنگال کی آزادی سے دو قومی نظریے کا خاتمہ ہوا اور یہ بات ثابت ہوئی کہ زبان اور نسلی امتیاز مذہب سے طاقت ور ہوتا ہے صرف اسلام کے نام پر جنگیں نہیں جیتی جاسکتیں۔
مشرقی پاکستان کے عوام کی مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے کھلی بغاوت تھی اور اب وہ کسی قیمت پرپاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے۔ ادھر ہماری فوج اپنے ‘غدار ‘ شہریوں کے قتل عام اور ان کی عورتوں کی عزتیں لوٹ کرملک بچانے کی سعی کرتی رہی۔ بنگالیوں کا کہنا ہےکہ 250000 لوگ قتل کئے گئے، جب کہ جنرل ٹکا کا کہنا تھا کہ 35000 بنگالی مارے گئے تھے۔ بنگالی مزاحمت اور ہندوستانی مداخلت کے نتیجے میں 94000 پاکستانی فوج نے ہندوستان کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ اسلامی قوم پرست اس ذلت آمیز شکست کا الزام ہندوستان کی مداخلت اور شرابی اور زانی جنرل یحیٰ پر ڈالتے ہیں لیکن کوئی تسلیم نہیں کرتا کہ ہماری پالیسیاں غلط تھی۔ اور مشرقی پاکستان کے بنگالی شہری اسلام کے نام پر ‘ایک قوم’ بن کر اپنا استحصال کرانے کو مزید تیار نہ تھے۔

 

بنگال کی آزادی سے دو قومی نظریے کا خاتمہ ہوا اور یہ بات ثابت ہوئی کہ زبان اور نسلی امتیاز مذہب سے طاقت ور ہوتا ہے صرف اسلام کے نام پر جنگیں نہیں جیتی جاسکتیں۔ لیکن ہمارے جرنیلوں نے ابھی تک اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ ہماری فوج نے بنگال میں جماعت اسلامی اور دیگر بنیاد پرستوں کو بنگالیوں کے خلاف پرائیویٹ آرمی کے طور پر استعمال کیا جن کے رہنماوں پر اب جنگی جرائم کے مقدمے کھول کر پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ اس جنگ سے سیاست دانوں نے سیکھا، کہ وفاقی اکائیوں کے مساویانہ برتاو کے بغیر ملک قائم نہیں رکھا جاسکتا اور مذہب سے زبان اور نسلی رشتہ زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔ لیکن ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے مشرقی پاکستان کی علحیدگی سے بھی کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ان کے نزدیک اب بھی اسلام ہی متحد رکھنے والی قوت ہے۔

 

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *